معاند احمدیت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نواسے مکرم شیخ سعید احمد صاحب کا انٹرویو

جماعت احمدیہ بیلجیم کے ماہنامہ ’’السلام‘‘ مارچ 2003ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے نواسے مکرم شیخ سعید احمد صاحب کا ایک انٹرویو پیش کیا گیا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے الہام

اِنّی مُھِینٌ مَن اَرَادَ اِھانَتَکَ

کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

محترم شیخ صاحب نے 1974ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی- یہ انٹرویو 1990ء میں لندن میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس کا ایک حصہ درج ذیل ہے جس میں مولوی محمد حسین صاحب کی اولاد کے بارہ میں چند حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے-
نوٹ: محترم شیخ سعید احمد صاحب کی وفات 2016ء میں لندن میں ہوئی اور بروک ووڈ احمدیہ قبرستان کے قطعہ موصیان میں مدفون ہیں- وفات سے چند روز قبل ان کی درخواست پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ملاقات کا وقت عنایت فرمایا- نیچے دی گئی تصویر اسی موقع پر لی گئی تھی- آپ خاکسار محمود احمد ملک (ایڈیٹر ویب سائٹ خادم مسرور) کے سسر تھے-

محمود احمد ملک

مکرم شیخ سعیداحمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب نے چار شادیاں کی تھیں جن سے چھ لڑکے اور پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں سے ایک امۃالرؤف تھیں جو میری والدہ تھیں۔ بیٹوں میں دو بڑے عبدالنور اور عبدالشکور تھے جو گھر سے بھاگ کر ممبئی چلے گئے اور وہاں جاکر عیسائی ہوگئے۔ عبدالشکور کے بارہ میں علم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں گئے البتہ عبدالنور نے ایک عیسائی عورت سے شادی کرلی جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جو انڈین آرمی کا ریٹائرڈ پائلٹ ہے۔
مولوی صاحب کا تیسرا بیٹا اطہر حسین تھا جو چرس، گانجا اور افیون کا شکار ہوگیا اور مزاروں قبروں وغیرہ پر رہنے لگا۔ اُس کے بارہ میں بھی کچھ علم نہیں کہ کہاں گیا اور کیسے مرا۔
ایک لڑکا ابوالاسحاق تھا جو پاگل ہوگیا تھا اور اُس نے ساری زندگی لاہور کے پاگل خانہ میں گزاردی۔ ہجرت کے بعد میری والدہ نے جب بٹالہ کی جائیداد کے کلیم فارم پُر کئے تو کسٹوڈین نے کہا کہ مولوی صاحب کی نرینہ اولاد میں سے کسی کو لے آئیں تو جائیداد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اس پر اُنہیں ابوالاسحاق کا خیال آیا جن سے بیس پچیس سال سے کوئی ملنے بھی نہیں گیا تھا۔ جب میں اپنی والدہ اور بڑے بھائی کے ساتھ پاگل خانہ پہنچا تو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ وہ خطرناک کیس ہے، اُسے نہ لے جائیں۔ میری والدہ نے اصرار کیا تو اُس نے ابوالاسحاق کو بلایا۔ وہ بڑے نحیف تھے اور والدہ کے بقول بالکل مولوی محمد حسین بٹالوی کی صورت تھے۔ انہوں نے آتے ہی بڑے بھائی کا نام لیا کہ وہ آئے اور مجھے لے جائے۔ انہیں بتایا گیا کہ بھائی بیمار ہیں اور نہیں آسکتے تو کہنے لگے کہ کل آکر مجھے لے جانا۔ اگلے روز ہم گئے تو انہوں نے ایک پوٹلی پکڑی ہوئی تھی اور رام پوری ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے پھر والدہ کو روکا لیکن والدہ کے اصرار پر اُنہیں لے جانے کی اجازت دیدی۔ اُسی وقت ابوالاسحاق نے اِدھر اُدھر ٹکریں مارنی شروع کردیں اور کہنے لگے کہ مَیں خدا، مَیں خدا، مَیں خدا۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ نے دوسرے ملازموں کی مدد سے اسے پکڑلیا اور کہا کہ اب اسے نہیں جانے دوں گا۔ چنانچہ ہم چلے آئے۔
مولوی محمد حسین صاحب کے ایک بیٹے کا نام شیخ عبدالسلام تھا۔ یہ ملٹری اکاؤنٹس میں ملازم تھے۔ ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور وہ بیساکھی کے سہارے چلا کرتے تھے۔ پھران کی آنکھوں میں موتیا اُتر آیا تو مَیں ان کی انگلی پکڑ کر گاؤں 23چک جڑانوالہ لے جایا کرتا تھا جہاں مولوی محمد حسین صاحب کو برطانوی حکومت نے دس مربع زمین دی تھی اور اُن کے کہنے پر میری والدہ اپنے خاندان کے ساتھ اس زمین پر منتقل ہوگئی تھیں۔ گاؤں سے جو پیسے ملتے وہ شیخ عبدالسلام لے آتے۔ مولوی محمد حسین صاحب نے وفات سے پہلے وصیت میں وہ زمین اپنی بیٹیوں اور بعض دوسروں میں تقسیم کردی اور دس ایکڑ انجمن حمایت اسلام کے یتیم خانہ کو دےدی۔ عبدالسلام صاحب مجھے ہمراہ لے جاتے اور انجمن والوں سے کہتے کہ مجھےبھی میرا حصہ دو۔ وہ کہتے کہ یہ زمین تو یتیموں کی ہے۔ عبدالسلام صاحب کہتے کہ مجھ سے بڑا یتیم کون ہے۔ تو اُن کو بھی کچھ نہ کچھ وہاں سے مل جاتا۔ عبدالسلام صاحب کے ایک بیٹے محمد اسلم صاحب اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے لیکن وہ سگریٹ نوشی اور شراب نوشی حد سے زیادہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے اُن کی وفات ہوئی۔
مولوی محمد حسین صاحب کے چھٹے لڑکے احمد حسین تھے۔ ایک عید پر مَیں نے اُنہیں کہا کہ آئیں عید کی نماز پڑھنے چلیں۔ وہ کہنے لگے کہ میرا نمازوں سے دل چل گیا ہے، نہ مَیں خدا کو مانتا ہوں نہ نمازوں کو۔ اُن کے 3 لڑکے تھے: موعود، سعود اور سعید۔ سعید سب سے بڑا تھا جسے کراچی میں میرے بڑے بھائی نے اُس وقت گرفتار کیا جب وہ فوج میں بریگیڈیئر تھے۔ انہیں اطلاع ملی کہ ایک شخص سعید ٹنڈا ہے جو شراب اور کوکین کا کاروبار کرتا ہے۔ انہوں نے چھاپہ مارا تو سعید گرفتار ہوا جو ہر قسم کی خبائث میں ملوث پایا گیا۔ دوسرا لڑکا سعود انگلینڈ آیا اور پھر اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ تیسرا موعود تھا جس کے خلاف چوریوں کے 45 کیسز تھے۔
مولوی صاحب کی لڑکیوں میں سے بھی کوئی ایسی نہیں جس کی تعریف کی جائے۔ سارا خاندان دین سے دُور ہوگیا۔ بے شمار مصائب، طلاقوں اور موتوں کی صورت میں، نازل ہوئے جو مَیں ابھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ اس وقت مولوی صاحب کے دو پڑپوتے لاہور میں رہتے ہیں۔ ایک فاروق ہے جو ہیروئین پیتا ہے اور اس کو چھ ماہ قید کی سزا بھی ہوئی ہے۔ دوسرا اویس ہے جو ہیجڑا ہے۔
مکرم شیخ سعید احمد صاحب نے اپنی قبول احمدیت کے حوالے سے بیان کیا کہ میرے والد 1944ء میں فوت ہوگئے تھے۔ 1967ء میں ایک دوست سے بات چیت کرنے کے بعد مجھے احمدیت کی سچائی کا علم ہوگیا تھا لیکن مجھ میں احمدیت قبول کرنے کا اعلان کرنے کی جرأت نہیں تھی۔ بیوی بچے بھی تھے، سارا خاندان خلاف ہوجاتا۔
1968ء میں اللہ تعالیٰ نے میرے دعا کرنے پر مجھے احمدیت کی سچائی کا معجزہ بھی دکھادیا۔ لیکن مَیں پھر بھی یہی دعا کرتا رہا کہ اے اللہ! مجھے واضح طور پر بتا۔ ایک روز خواب میں دیکھا کہ مسجد نبوی میں آنحضورﷺ کے ہمراہ خلفاء راشدین، حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ بیٹھے ہیں۔ لیکن پھر بھی احمدیت قبول کرنے کی جرأت نہیں ہوئی تاہم جب 1974ء میں احمدیوں کے خلاف فساد ہوا اور احمدیوں کے گھروں اور دوکانوں کو جلایا گیا تو میرے دل نے کہا کہ یہ تو سچوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، جھوٹوں کے ساتھ نہیں۔ چنانچہ اُسی روز مَیں احمدیہ مسجدفضل لائلپور کی طرف گیا۔ مسجد کا دروازہ بند تھا۔ لیکن مَیں نے وہاں باہر ہی کھڑے ہوکر اقرار کیا کہ اب مَیں بیعت کرلوں گا اور اگلے ہی روز مَیں نے بیعت کرلی۔
1975ء میں میری والدہ کی وفات ہوئی تو دوستوں اور عزیزوں کی خواہش کے باوجود مَیں نےان کا جنازہ نہیں پڑھا۔ سارا وقت جنازے اور قبر کے پاس کھڑا رہا۔ جب تدفین کے بعد ہم واپس آئے تو گھر پہنچتے ہی سب نے مجھ سے کہا کہ اب تمہارا ہمارے ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا، اب تم گھر میں نہیں آسکتے۔اپنے ہی گھر کا دروازہ بند ہوگیا تو پھر مَیں وہاں سے چلا گیا۔
میری والدہ نے ایک بار مجھ سے بیان کیا تھا کہ اباجان (مولوی محمد حسین صاحب) کہتے تھے کہ مرزا صاحب کو نبی ہم نے نہیں ماننا، اگر (نعوذباللہ) مرزا یہ کہے کہ مَیں مجدد ہوں تو مَیں مان لیتا ہوں۔
مولوی صاحب کی بٹالہ میں جو مسجد ہوا کرتی تھی آجکل اُس کے ایک حصے میں ایک چھوٹا سا شراب خانہ بنا ہوا ہے اور دوسرے حصے میں وہ لوگ سائیکلیں رکھتے ہیں جو قریبی دیہات سے شہر بٹالہ میں خریدوفروخت کے لئے آتے ہیں۔
مولوی محمدحسین صاحب کی قبر کے آثار نہیں ملتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں