آئن سٹائن کی کہانی

ماہنامہ ’’خالد‘‘ جون 2005ء میں مکرمہ ریحانہ صدیقہ بھٹی صاحبہ کے قلم سے عظیم سائنس دان آئن سٹائن کی کہانی شائع ہوئی ہے۔

Albert-Einstein

البرٹ آئن سٹائن 14؍مارچ 1879ء کو جرمنی کے صوبہ Wuttembug کے شہر Ulm میں پیدا ہوا۔ چند ہفتوں بعد اس کا خاندان میونخ منتقل ہوگیا۔ اس کے والد بجلی کے آلات کا کاروبار کرتے تھے اور یہودی النسل تھے لیکن مذہب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ 1886ء میں آئن سٹائن نے اپنا سکول شروع کیا۔ اسے ریاضی اور فزکس میں شروع ہی سے دلچسپی تھی۔ اس نے کیلکولس (calculus) بہت چھوٹی عمر میں بغیر استاد کے پڑھا۔ اگرچہ اس کا شمار اچھے طلبا میں ہوتا تھا لیکن اس کے تعلیمی ریکارڈ میں بظاہر کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ ایک مرتبہ یونانی کے ایک استاد نے اسے کہا ’’تم کبھی بھی کچھ نہ بن پاؤ گے‘‘۔
1894ء میں اس کا خاندان اٹلی منتقل ہوگیا۔ لیکن آئن سٹائن کو تعلیمی وجوہات کی بنا پر میونخ ہی میں رہنا پڑا۔ 1896ء میں اس نے سوئس فیڈرل پولی ٹیکنیک سکول میں داخلہ لیا اور یہاں فزکس اور ریاضی کے استاد کے طور پر ٹریننگ لی۔ یہ چار سال کا کورس تھا اور کلاسوں میں حاضری پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لہٰذا وہ زیادہ تر وقت لیبارٹری میں گزارتا۔ 1900ء میں اس نے اپنا ڈپلومہ مکمل کر لیا لیکن وہ کسی ملازمت کے حصول میں ناکام رہا۔ آخر 1902ء میں اسے اپنے دوست گراس مین کے والد کی وساطت سے ایک ٹیکنیکل اسسٹنٹ کی ملازمت مل گئی۔ آئن سٹائن کا یہ دوست جلد ہی فوت ہوگیا لیکن آئن سٹائن اُس کے احسان کو کبھی نہ بھولا اور 1905ء میں Ph.D. کے اپنے مقالہ کا انتساب بھی اُسی کے نام لکھا۔ اس مقالہ کا عنوان On A New Determination Of Molecular Dimenesions تھا۔
آئن سٹائن نے ایجادات کے دفتر میں ملازمت 1909ء تک کی۔ 1905ء میں جرمنی کے مشہور سائنسی جریدے ’’انالن ڈرفزک‘‘ میں اس کے تین مقالے بھی شائع ہوئے۔ 1908ء میں اس نے ایک مقالہ برن یونیورسٹی کو بھجوایاجس پر اسے وہاں لیکچرشپ مل گئی۔ 1909ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر زیورخ یونیورسٹی میں چلا گیا۔ یہیں سے اس کی شہرت کا آغاز ہوا اور جلد ہی وہ ایک بڑے مفکر سائنسدان کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ پھر اسے پراگ یونیورسٹی اور سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر شپ مل گئی۔ 1914ء میں وہ قیصر ولیم Gesellschaft (برلن) میں پروفیسر کے طور پر بلالیا گیا اور ساتھ ہی Prussian Academy Of Sciences میں ریسرچ پوزیشن اور یونیورسٹی آف برلن میں چیئرمین شپ بھی مل گئی۔
1919ء میں جب برطانیہ میں سورج گرہن لگا تو آئن سٹائن کی نظر یہ ثقل کے بارہ میں پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور اس کی شہرت کو چار چاند لگاگئی۔ 1922ء میں اسے (1921ء کا) نوبل انعام ملا جو اس کے 1905ء کے فوٹو الیکٹرک سے متعلق کام پر دیا گیا۔
آئن سٹائن فاشزم کا مخالف تھا۔ جب 1933ء میں جرمنی میں نازی حکومت برسراقتدار آئی تو اس نے آتے ہی آئن سٹائن کے گھر کی تلاشی لی۔ چنانچہ آئن سٹائن جو دسمبر 1932ء میں امریکہ کے دورہ کے لئے گیا تھا واپس جرمنی نہ آیا اور پھر وفات تک وہیں مقیم رہا۔ اس کی وفات 18؍اپریل 1955ء کو شام 4 بجے نیوجرسی امریکہ میں ہوئی۔ اپنی وفات سے ایک ہفتہ پہلے جو آخری خط اس نے لکھا وہ برٹرینڈرسل کے نام تھا۔ جس میں اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ تمام ممالک کو ایٹمی ہتھیار ترک کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے چاہئیں۔
آئن سٹائن کا شمار جدید طبیعات کے بانی سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اس نے فزکس میں نئے تصورات کی بنیار رکھی۔اس کے مشہور تحقیقی کاموں میں خصوصی نظریۂ اضافیت (1905ء)، عمومی نظریہ ٔ اضافیت (1912ء)، براؤنی حرکت کے نظریہ پر تحقیق (1926ء) اور طبیعات کا ارتقاء (1938ء) شامل ہیں۔ جبکہ اس نے غیر سائنسی موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ جن میں 1930ء میں About Zionism ، جنگ کیوں؟ 1933ء میں، میرا فلسفہ 1934ء میں اور Out of my later years 1905ء میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے جب پانچ ماہ کی مختصر مدت میں اپنا Ph.D. کا کام مکمل کر کے عالمگیر شہرت حاصل کی تو اُن کا یہ مقالہ ڈائسن کے پاس ماہرانہ جانچ پرکھ کے لئے پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ آف سٹیڈیز امریکہ بھجوایا گیا۔ آئن سٹائن ان دنوں امریکہ میں سکونت پذیر تھا۔ اس وقت اس کی عمر 72سال تھی۔ ڈاکٹر صاحب اس ملاقات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: ’’… وہ تھوڑی دیر کے لئے انسٹی ٹیوٹ میں آتے تھے۔ ہم ان کے مکان کے باہر کھڑے ہوجاتے۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آتے تو ہم انہیں انسٹی ٹیوٹ تک لے جاتے۔ اور کچھ دیر بعد انھیں ان کے گھر واپس لے جاتے۔ ایک مرتبہ جب ہم ان کے مکان کے باہر کھڑے ہوئے تھے تو انھوں نے میری طرف دیکھ کر مجھ سے پوچھا تھا ’تم کیا کرتے ہو؟ ‘ اس پر میں نے کہا کہ ’میں نارملائزیشن پر کام کر رہا ہوں‘۔ انھوں نے کہا ‘I am not interested’ پھر انھوں نے مجھ سے دریافت کیا ’ کیا تمہیں کششِ ثقل اور برقی مقناطیسی قوتوں کے اتحاد میں دلچسپی ہے؟‘ مجھے چونکہ اس وقت کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے میں خاموش کھڑا رہا۔ پھر انھوں نے اپنی تھیوری کے بارے میں آدھے گھنٹے تک لیکچر دیا۔ جسے ہم خاموش کھڑے سنتے رہے۔ … بعض اوقات مائیں اپنے بچوں کو وہاں لے کر آتی تھیں اور وہ ان بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تھے۔
روپے پیسے سے آئن سٹائن کو کوئی خاص رغبت نہ تھی۔ اس نے کبھی راحت و آرام کو مقصد نہیں بنایا۔ اسے مال ودولت اکٹھا کرنے سے جوانی سے ہی نفرت تھی۔ وہ بحیثیت مجموعی منکسر المزاج انسان تھا لیکن شاید عزت، شہرت نے وقت کے ساتھ اس پر اپنے اثرات چھوڑے تھے اور ایک وقت میں اس میں کچھ تبدیلیاں آگئی تھیں۔
وہ اپنے آپ کو کسی ملک کا باشندہ نہیں سمجھتا تھا۔ اور نہ اس نے کبھی گہرے انسانی رشتوں کو زیادہ اہمیت دی۔ زیادہ عرصہ اکیلے ہی رہا۔ اس کی پہلی شادی 1903ء میں ہوئی۔ اور1919ء میں اس کی طلاق ہوئی۔ اس شادی سے اس کے دوبیٹے تھے جن میں سے ایک بچپن میں ہی ذہنی طور پر معذور ہوگیا تھا۔ جبکہ دوسرا بیٹا انجینئر تھا۔ دوسری شادی 1919ء میں ہوئی۔
ایک بہت اہم لمحہ جو آئن سٹائن کی زندگی میں آیا وہ اسرائیل کی طرف سے صدارت کے عہدے کی پیشکش تھی۔ 1952ء میں اسرائیل کے پہلے صدر کی وفات ہوئی، وہاں کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ دوسرے صدر کے لئے آئن سٹائن کو پیشکش کی جائے جو اُس نے مسترد کر دی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “آئن سٹائن کی کہانی

  1. آئین سٹائین کے متعلق مضمون میں میونخ کے آگے ملک کا نام سوٹزرلینڈ لکھا ہے جو درست نہیں۔ یہ جرمنی کے صوبہ بائیرن کا دارالحکومت ہے

    1. آپ کی بات درست ہے۔ جزاکم اللہ۔
      آئن سٹائن کی زندگی کا ایک حصہ زیورچ میں بھی گزرا ہے غالبا مضمون نگار کو اسی وجہ سے سہو ہوا ہے یا پھر سہو کتابت ہے- واللہ اعلم- بہرحال درستی کردی ہے-

اپنا تبصرہ بھیجیں