بات سنتے نہ بات کرتے ہو – نظم

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ مئی 2012ء میں محترم چودھری محمد علی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔

چودھری محمد علی صاحب

اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

بات سنتے نہ بات کرتے ہو
کس قدر احتیاط کرتے ہو
سچ کہو! انتظار کس کا ہے
صبح کرتے نہ رات کرتے ہو
عقل کے بھی ہو زر خرید غلام
عشق بھی ساتھ ساتھ کرتے ہو
ہاتھ جاناں کے ہاتھ میں دے کر
کیوں غمِ پُلِ صراط کرتے ہو
پہلے اس کا جواز ڈھونڈتے ہو
پھر کوئی واردات کرتے ہو
جب بھی کرتے ہو قتل مضطرؔ کا
سرِ نہرِ فرات کرتے ہو

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں