جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے وصیت کے آسمانی نظام میں شامل ہوں۔
میری خواہش ہے کہ ایک سال میں کم از کم 15ہزار نئی وصایا ہوجائیں اور 2008ء میں جو خلافت کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سو سال ہوجائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں، ہر جماعت میں جوکمانے والے افراد ہیں، جو چندہ دہند ہیں ان میں سے کم ازکم پچاس فیصد تواس عظیم الشان نظام میں شامل ہوچکے ہوں۔
اختتامی خطاب حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ یکم اگست2004ء جلسہ سالانہ (ٹلفورڈ برطانیہ) یوکے

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الٰہی جماعتوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ ہر وقت اس کوشش میں ہوتی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا جائے اور کس طرح اس کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی جماعت میں شامل ہونے والے، اس کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر وقت ان باتوں کی تلاش میں رہے جو اللہ تعالیٰ کو عزیز ہیں تاکہ اس کا قرب اور پیار حاصل کیا جا سکے۔ ہمیں اس زمانے کے امام نے جس کو قرآن کریم کا صحیح فہم عطا ہوا اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو صحیح طور پر سمجھا اس طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کیا ہیں اور ان پر کس طرح عمل کیا جائے کہ انجام بخیر ہو۔ اور بڑے درد سے اپنی جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد صرف اس دنیا کی لہو و لعب سے دل لگانا ہے اور اس دنیا کی مادی چیزوں کا حصول ہے کہ یہی تمہارا مقصد ہو۔ نہیں،بلکہ یہ چیزیں تو تمہیں آزمانے کے لئے پیدا کی گئی ہیں تا کہ پتہ چلے کہ مومن اور غیر مومن میں فرق کیا ہے۔ مومن ان چیزوں کو اگر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو صرف اس حد تک جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ وہ یہ چیزیں اگر حاصل کرتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس معاشرے میں ہر ایک کو مختلف صلاحیتیں دی ہیں اس کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور باقی مخلوق کی نسبت اس کی ضروریات بھی مختلف رکھی ہیں تو ان صلاحیتوں کی وجہ سے ہر ایک کا اپنا اپنا ایک شعبہ ہے، ایک کام ہے۔ کوئی امیر ہے کوئی غریب ہے۔ تم جو یہ چیزیں حاصل کرتے ہو تو یہ خیال رکھو کہ جن کو ان چیزوں کی فراوانی ہو، جو امیر ہیں وہ اپنے دوسرے بھائیوں کا بھی خیال رکھیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہوں تو فرمایا کہ مومن کو ہمیشہ دو باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دوسرے اس کی مخلوق سے ہمدردی۔ اگر یہ دو باتیں پیدا ہوگئیں تو سمجھو کہ تم نے اپنے مقصد حیات کو پا لیا اور اس لحاظ سے تم اپنے اچھے انجام کی طرف قدم اُٹھانے والوں میں شمار کئے جاؤ گے۔ اور ایسے لوگوں کو پھر خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرتا بلکہ اپنے مقربین میں جگہ دیتا ہے اور مرنے کے بعد دائمی جنتوں کا وارث ٹھہراتا ہے۔
ہمیں عبادت اور مخلوق کی ہمدردی کے بارہ میں تو پتہ چل گیا بہت سارے حقوق ہیں۔ مختلف اوقات میں ہم سنتے رہے ہیں کہ ان کو ادا کرو تا کہ معاشرے سے شیطان کے جو ورغلانے کے طریقے ہیں، حملے ہیں ان سے بچا جا سکے، ان کو ختم کیا جا سکے۔ کیونکہ شیطان نے تو برائیوں کو اس قدر خوبصورت کر کے دکھایا ہے کہ آج کل کے معاشرے میں نیکیوں پر چلنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ مشکلات سے بچتے ہوئے نیکیوں کو اختیار کرنے کے کئی طریقے ہیں جن پر چل کر ان نیکیوں کو اختیار کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ جہاں شیطان مختلف رستوں سے بہکاتا ہے وہاں اللہ کے پیارے بھی راہنمائی کرنے والے بھی ہمیں رستے بتاتے رہتے ہیں تا کہ انسان انجام بخیر کی طرف سفر کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث ٹھہرے اور ایسی صورت پیدا ہو جائے ایسا وقت آ جائے کہ اللہ تعالیٰ کہے

فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:31-29)۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں وہ طریقے بتائے ہیں جن کو میں مختصراً بیان کروں گا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی اور اکثر میں نے وہی اقتباس لئے ہیں جو 1904ء کے جلسہ سالانہ کی آخری تقریر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائے۔
آپ فرماتے ہیں :۔ ’’میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کرچکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی اور عظیم الشان کام درپیش ہے اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے۔ خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے ہوشی میں گزر جاتا ہے۔ یہ بیہوشی کا زمانہ وہ ہے جب کہ وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے تو ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بیہوشی تو نہیں ہوتی جو بچپن میں تھی لیکن جوانی کی ایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بیہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہو جاتا ہے کہ نفس امّارہ غالب آ جاتا ہے۔
‘’اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے کہ علم کے بعد پھر لاعلمی آ جاتی ہے اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے۔ یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے‘‘۔ یعنی بڑھاپے کا زمانہ ہے۔ ’’بہت سے لوگ اس زمانہ میں حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور قویٰ بیکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ساٹھ یا ستر سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آ جاتا ہے۔ غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بیہوش ہوتا ہے اور ضعف و تکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے۔ انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں۔ پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لئے کس قدر مشکل مرحلہ ہے‘‘۔
اس میں آپ نے انسان کے تین زمانوں کا ذکر فرمایا ہے، عمر کے تین دوروں کا ذکر فرمایا ہے۔ انسانی عمر کا پہلا دور وہ ہوتا ہے جب انسان پیدائش کے بعد سے بچپنے کی عمر میں رہتا ہے جس میں کسی بات کا اس طرح گہرائی میں جا کر علم نہیں ہوتا کیونکہ ابھی تک اچھے بُرے کی تمیز کرنے اور نیکی بدی میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہوا ہوتا۔ پھر اس کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے۔ اس میں قدم رکھتے ہی نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں اور جو مرضی چاہیں کریں یہاں یورپ میں بھی خاص طور پر ٹین ایجر(Teen Ager) جنہیں کہتے ہیں وہ اس عمر کو پہنچتے ہی اپنے آپ کو ہر چیز سے بالا مخلوق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی انہیں بیہودگیوں کی وجہ سے آج کل اخباروں میں بھی آ رہا ہے، ان کے متعلق قانون بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یعنی پہلے تو اس معاشرے نے خودہی ان کو چھٹی دی، معاشرے نے ان کو آپے سے باہر کر دیا اور نفس امارہ کو کھلی چھٹی مل گئی یعنی وہ حِس ہی ختم ہو گئی جن سے بنیادی اخلاق کا علم ہو جس کی وجہ سے بُرائی اور اخلاق سوز حرکتیں غالب آنے لگ گئیں۔ جب یہ حِس ختم ہو جائے تو پھر پتہ نہیں لگتا کہ اخلاق کیا ہیں، بدی کیا ہے، بُرائی کیا ہے۔ اور جب یہ عادتیں پکی ہو جائیں تو پھر جتنا مرضی زور لگا لیں کم از کم ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے، کسی نہ کسی رنگ میں یہ بُرائیاں موجود رہتی ہیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو۔ کیونکہ ہمارے بچے بھی یہیں اسی معاشرے میں رہ رہے ہیں اور بعض دفعہمعاشرے کی ان برائیوں کے سیلاب میں وہ بھی بہہ جاتے ہیں۔ چاہے چند ایک ہی ہوں،لیکن چند ایک بھی کیوں ہوں ؟ اور صرف ابتدائی نوجوانی کی عمر کے لڑکے نہیں بلکہ بعض دفعہ اچھے بھلے شادی شدہ بھی جن کے بچے بھی ہوتے ہیں ان بُرائیوں میں پڑ جاتے ہیں اور بجائے بچوں کے حقوق ادا کرنے کے اپنی رقمیں شراب اور جوئے اور دوسری بُرائیوں اور نشوں وغیرہ میں ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا کہ ان لوگوں نے بھی اپنی زندگی کا مقصد ضائع کر دیا۔ پھر تیسری قسم کے لوگ ہیں جو بڑھاپے میں داخل ہوگئے اور بعض کو خیال آ بھی گیا چلو اب اس عمر میں آ رہے ہیں، نیکیاں کر لیں۔ تو فرمایا کہ اعصاب اتنے کمزور ہو چکے ہوتے ہیں کہ اب وہ اس قابل بھی نہیں رہتے کہ نیکیوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کر سکیں جن کی جوانی میں توفیق مل سکتی ہے۔ تو اس طرح زندگی یونہی بے مقصد گزر گئی آخر کو وفات کا وقت آ گیا۔ تو فرمایا کہ بچہ تو پھر بڑوں کی نقل کر لیتا ہے،بعض دفعہ نقل میں دیکھا دیکھی نماز وغیرہ پڑھ لیتا ہے لیکن جب انسان بوڑھا ہو جائے تو اس سے بھی رہ جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ بچپن اور بڑھاپے کے زمانے، عمر کے یہ حصے جو ہیں ایسے ہیں جن میں انسان کی پیدائش کے اعلیٰ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے اس لئے صرف جوانی کا زمانہ رہ جاتا ہے۔ اگر اس وقت کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کر سکتا ہے اور بندوں کے حقوق کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر سکتا ہے۔ پس اگر تم نے اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنی ہے، اللہ تعالیٰ کے بندوں میں شمار ہونا ہے، اپنی نسلوں کے نیکیوں پر قائم رہنے کی ضمانت حاصل کرنی ہے تو جوانی کی عمر سے لے کر بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے اپنے خدا کے دیئے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔
پھرآپ فرماتے ہیں کہ:’’ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشوونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں۔ لیکن یہی زمانہ ہے جب کہ نفس امّارہ ساتھ ہوتا ہے‘‘۔ یعنی بُرائی کی طرف لے جانے والا تمہارا نفس ساتھ ہوتا ہے’’۔ اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے‘‘۔ انسان کا نفس بُرائیوں کی ترغیب دیتا ہے۔ ‘’اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے۔ یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کیلئے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں۔ لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بنا دے گا‘‘۔ بدنصیب بنا دے گا۔ ان پر عمل نہ کر کیبدبخت آدمی ہو جائے گا۔ ‘’ہاں اگر عمدگی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانے کو بسر کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امیدہے کہ خاتمہ بالخیر ہوجاوے۔ کیونکہ ابتدائی زمانہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا۔ جیسا کہ اس نے خود فرمایا

لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ:287)

اور آخری زمانہ میں گو بڑھاپے کی وجہ سے سستی اور کاہلی ہوگی لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں۔ جوانی میں اگر نیکیوں کی طرف مستعد اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا، اس کے احکام کی تعمیل کرنے والا اور نواہی سے بچنے والا ہے تو بڑھاپے میں گو ان کے اعمال کی بجاآوری میں کسی قدر سستی بھی ہو جاوے لیکن اللہ تعالیٰ اسے معذور سمجھ کر ویساہی اجر دیتاہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 199 جدید ایڈیشن)
آپ کی اس بات سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کیلئے بھی اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے بھی وہی عمر کارآمد ہے، وہی عمر فائدہ مند ہے جس میں اعصاب مضبوط ہوں۔ قویٰ میں طاقت ہو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کر سکیں اور اس کے بندوں کی خدمت کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانیاں دینے کے قابل بھی ہوں اور اس کے اعلیٰ معیار بھی قائم کر سکیں اور عموماً یہ زمانہ نوجوانی کا زمانہ ہے جو پندرہ سال کی عمر سے لے کر پینتالیس پچاس سال تک اور زیادہ سے زیادہ ساٹھ سال تک کا زمانہ ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی اپنی اعصابی مضبوطی کے لحاظ سے اپنی اپنی استعدادیں ہوتی ہیں اور اس میں پھر یہ ہے کہ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان عمروں میں پچاس سے ساٹھ سال کے درمیان عموماً طاقت تو وہ نہیں رہتی،اتنی محنت نہیں ہو سکتی جتنی ایک نوجوان کر سکتا ہے،لیکن بہرحال تجربات سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اس لئے حکومتیں بھی دیکھ لیں اب عموماً ساٹھ سال کی عمر تک کام لینے کے قانون بناتی ہیں اور اس کے بعد ریٹائر کر دیتی ہیں۔ تو اس زمانے کو، جوانی کے زمانے کو کس طرح کارآمد بنایا جائے جس سے خاتمہ بالخیر ہو اس کے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے طریقے بتادیئے۔
فرمایا:’’اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امارّہ نے اس کو ردّی کیا ہوا ہے۔ لیکن اگر کوئی کارآمد ایّام ہیں تو یہی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے

وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّؤٓء إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ (یوسف:54)۔

یعنی میں اپنے نفس کو بَری نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ نفس امّارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے۔ اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا ربّ رحم کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نِری کوشش ہی شرط نہیں بلکہ دعاؤں کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ نرا زُھد ظاہری ہی (جو انسان ا پنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے) کارآمد نہیں ہوتا جب تک خداتعالیٰ کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو۔ اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زُہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اِسی طرح ملتا ہے۔ ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جامے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجود سفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ200 جدید ایڈیشن) کہ سفید لباس بھی ہو لیکن وہ پلید بھی ہو سکتاہے۔
پھر فرمایاکہ:’’تا ہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حصول کے لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ اسی زمانہ شباب وجوانی میں انسان کوشش کرے جب کہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک اُمنگ اور جوش ہوتا ہے۔ اس زمانے میں کوشش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دی ہے‘‘۔
پھر نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے حضرت اقدس نے فرمایا کہ تین طریقے ہیں جن پر چل کر انسان یہ نیکیاں کر سکتا ہے اور وہ تین طریقے کونسے سے ہیں۔ فرمایا کہ پہلا طریقہ جو ہے وہ تدبیر ہے۔ فرمایا کہ:’’اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ مَیں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں) اوّل ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہوگا۔ جو شخص دیدہ دانستہ بد راہ اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقینا ہلاک ہوگا۔ ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل رحم ٹھہر سکتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے (جس کو اللہ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہاں تک ممکن ہے بدصحبتوں اور بدعادتوں سے پرہیز کریں اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں۔ اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہاں تک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہئے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہئے۔ یاد رکھو تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے، اس کو حقیر مت سمجھو۔ … جو لوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ ان سے الگ ہو جاتا ہے‘‘۔
فرمایا کہ:’’میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امّارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امّارہ خدا تعالیٰ کے نزدیک لوامّہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابل قدر تبدیلی پا لیتا ہے کہ یا تو وہ امّارہ تھا جو لعنت کے قابل تھا اور یاتدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل لعنت نفسِ امّارہ،نفسِ لوّامہ ہو جاتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے‘‘۔ یعنی پہلے تو بدیوں کی طرف اُبھار رہا تھا پھر دل میں ملامت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ ’’یہ کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے۔ پس حقیقی تقویٰ اور طہارت حاصل کرنے کے واسطے اوّل یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہو تدبیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشش کرو۔ بدعادتوں اور بدصحبتوں کو ترک کر دو۔ ان مقامات کو چھوڑ دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہو سکیں۔ جس قدر دنیا میں تدابیر کی راہ کھلی ہے اس قدر کوشش کرو اور اس سے نہ تھکو،نہ ہٹو‘‘۔
بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بعض دکھاوے کی چیزیں ہیں یادکھاوے کی نمازیں پڑھ رہا ہے تو ایسے لوگوں کو کہنے دیں۔ اگر دکھاوے کی بھی ہیں اور نیت اصلاح کی ہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہی نمازیں وہ خشیّت میں ڈوبی ہوئی نمازیں بن جائیں گی۔ یہ شیطان کا فعل ہے جو دل میں ہر وقت وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور تم اس لئے آ رہے ہو یا ایک دفعہ کسی نے چھیڑ دیا تو رُک گئے۔ عموماً نوجوانوں میں یہ عادت ہوتی ہے۔
دوسرا ذریعہ اصلاح کا،ان حقوق کی ادائیگی کا، دعا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:’’دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے وہ دعا ہے۔ اس لئے جس قدر ہو سکے دعا کرو۔ یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب اور مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے

اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:61)

تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا۔ دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہئے۔ دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نہیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ فخر اور ناز صرف اسلام ہی کو ہے۔ دوسرے مذاہب اس سے بکلی بے بہرہ ہیں’‘۔
پھر فرمایا:’’دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھتا ہے لیکن جو شخص اپنے آپ کو بَری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا‘‘۔
تو آپ فرما رہے ہیں کہ دیکھو مسلمانوں کو چونکہ علم ہے کہ ایک مسلمان نے جو بھی جزا سزا لینی ہے وہ اپنے اعمال کی وجہ سے ہی لینی ہے اس لئے وہ عمل بھی کرتا ہے اور ساتھ دعا سے اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور جس کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی جزا سزا اعمال کی وجہ سے ہے وہ دعا کی طرف کیا خاک راغب ہوگا۔
پھریہ بھی فرما دیا کہ دعا کرنی کس طرح ہے؟’’مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانۂ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ حالت میسر آ جاوے تو یقینا سمجھو کہ باب اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے۔ یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے‘‘۔
یعنی ایسی حالت میں قبولیت کے دروازے کھلیں گے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی جھکنے والا اور عاجزی اختیار کرنے والا، گڑگڑانے والا بن جائے۔ اس لئے فرمایا کہ اپنے اوپر ایسی حالت طاری کرو کہ بالکل ہی خدا میں فنا ہو جاؤ۔ جب اس طرح خدا تعالیٰ کے حضور ڈوب کر دعا کرو گے تو دل میں صرف اللہ ہی اللہ رہ جائے گا اور دنیا کی ہوس اور خواہش ویسے ہی ختم ہو جائے گی اور ہر قدم صرف نیکیوں کی طرف اُٹھنے والا قدم ہی ہوگا۔
فرمایا لیکن یاد رکھو کہ:۔ ‘’مگربڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت اور حالت سے محض ناواقف ہیں اور اسی وجہ سے اس زمانے میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہوگئے ہیں کیونکہ وہ ان تاثیرات کو نہیں پاتے۔ اور منکرہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے پھر دعا کی کیا حاجت ہے۔ مگرمیں خوب جانتا ہوں کہ یہ تو نرا بہانہ ہے۔ انہیں چونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لئے اس طرح کہہ دیتے ہیں۔ ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں ؟ خطرناک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی طرف دوڑے جاتے ہیں۔ بلکہ میں سچ کہتا ہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے’‘یعنی کوشش کرنے والے ’’یہی (لوگ) ہوتے ہیں’‘۔
دنیا وی معاملات میں جب کچھ ہونا ہے وہ ہونا ہی ہے تو پھر بیماریوں کے علاج کی کوشش نہ کریں۔ اس لئے آپ فرما رہے ہیں کہ بعض دفعہ دعا کے منکر بھی کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اس طرح ہونا ہے اس لئے دعا کی ضرورت نہیں۔ تو آپ نے فرمایا پھر بیماریوں میں علاج ہی نہ کرو اس قسم کی باتیں کرنا کم علمی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ فرمایا یہ تو ٹھیک ہے خداتعالیٰ کی تقدیر نے کام کرنا ہے لیکن یہ کس کو پتہ ہے کہ کس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا ہے۔ جب پتہ ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ نے جو تدبیروں کیلئے کہا ہوا ہے اس تدبیر کو بھی پوری طرح اختیار کرنا چاہئے اور فرمایا کہ ان میں سے ایک سب سے زبردست تدبیر یہی دعا ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ اس کو کرنے کا جو حق ہے وہ ادا کرو۔ دعا کرنے کا حق کیا ہے اور دعا کے آداب کیا ہیں جن کے مطابق دعا کرنی چاہئے۔
اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں :۔ ’’میں یقینا جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دعا اثر کرتی ہے دور رہ جاتے ہیں اور وہ تھک کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور خود ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ تو ان کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے۔ جب تک کافی وزن نہ ہو خواہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا۔ کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹ بھر لے یا تولہ بھر غذا کھا لے تو کیا ہو سکتا ہے کہ وہ سیر ہو جاوے ؟ کبھی نہیں۔ اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بجھ سکتی ہے۔ بلکہ سیر ہونے کیلئے چاہئے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے تب جا کر اس کی تسلی ہو سکتی ہے’‘۔
فرمایا کہ:’’اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے اور جلد ی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہئے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔ جو لوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے۔ میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں۔ جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو اللہ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اُسے آسان کر دیتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔ بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے۔ دنیا کی تنگیاں، مشکلا ت اس سے دور ہوتی ہیں۔ دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے۔ گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے۔ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ایمان ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خدا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دعا سکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ (الفاتحہ:4-2)

اس میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات کو جو اُم الصّفات ہیں بیان فرمایا ہے۔

رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہا ہے۔ عالَم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو۔ ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کررہا ہے۔ وہی ہے جو ہر ایک چیز کے حسب حال اس کی پرورش کرتا ہے۔ جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں روح کی سیری اور تسلی کے لئے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں۔ پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا، پانی وغیرہ جس قدر اشیاء ہیں انسان کے لئے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں۔
اور پھر وہ اللہ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداش عمل دیتا ہے‘‘۔ یعنی عمل کا اجر دیتا ہے۔
‘’پھر{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ} ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے۔ اس قدر صفات اللہ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے تو خواہ مخواہ روح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دعا کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد {اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } کی ہدایت فرمائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ اس لئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو۔
غرض اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے۔ اس میں جس قدر توکل اور یقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا اُسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔ تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہو سکتا۔ نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں :’’خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہئے‘‘۔
فرمایا کہ:’’پھر دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن (البقرۃ:187)

یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔ یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اورکبھی کشف اور الہام کے واسطے سے۔ اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔
غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں :’’پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا‘‘۔
پھر فرمایاتیسرا ذریعہ ان نیکیوں کو حاصل کرنے کا ’’صحبت صادقین ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کونوا مع الصادقین یعنی صادقوں کے ساتھ رہو۔ صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ ان کا نورِ صدق و استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور ان کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے‘‘۔
اس بارہ میں مَیں ایک تفصیلی خطبہ بھی دے چکا ہوں اور یہ مجلس بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے جلسے بھی انہی کی ایک قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صادق بنائے اور صدق پھیلانے کی توفیق بھی دے۔
پھرفرمایا:’’یہ تین ذریعے ہیں جو ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور اسے طاقت دیتے ہیں اور جب تک ان ذرائع سے انسان فائدہ نہیں اُٹھاتا اس وقت تک اندیشہ رہتا ہے کہ شیطان اس پر حملہ کرکے اس کی متاع ایمان کو چھین نہ لے جاوے اسی لئے بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم کو رکھا جاوے اور ہر طرح سے شیطانی حملوں سے احتیاط کی جاوے۔ جو شخص ان تینوں ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہیں کرتا ہے‘‘۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اتفاقی حملے سے نقصان اُٹھاوے’‘۔
تو آپ نے فرمایا کہ یہ تین ذریعے یعنی نمبر1 کوشش کر کے برائیوں سے بچنا۔ آج کل کے ماحول میں بھی ہزارہا قسم کی برائیاں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ ہر گلی اور ہر سڑک پر، سکولوں میں، کالجوں میں، کام کی جگہوں پر غرض کہ کوئی جگہ بھی تو ایسی نہیں رہی جہاں یہ کہا جا سکے کہ ایسی جگہ ہے جہاں ہم برائیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ میں برائی نہیں ہوتی یا کم از کم جان بوجھ کر برائی میں پڑنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوتا لیکن ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں کہ برائی میں گھسیٹا جاتا ہے۔ مثلاً مرد عورت کا(جن کا کوئی محرم رشتہ نہ ہو) بے تکلفانہ اُٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا بھی بعض دفعہ مسائل کھڑے کر دیتا ہے۔ یہاں ان ملکوں میں ماحول ایسا ہے کہ لڑکیاں بعض دفعہ الزام لگا دیتی ہیں کہ فلاں شخص میں بُرائی ہے اور اس نے مجھ سے یہ زیادتی کی ہے یا مرد عورتوں اور لڑکیوں کے متعلق غلط قسم کی باتیں کر جاتے ہیں۔ تو اس لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ مرد عورت کا اس طرح ملنا ٹھیک ہی نہیں ہے۔ ایک حجاب ہونا چاہئے جو تمہیں بُرائیوں سے بھی محفوظ رکھے گا اور بُرائیوں کے الزام سے بھی محفوظ رکھے گا۔
پھر دوسری بات جو برائیوں سے بچانے والی اور نیکیوں کی توفیق کے ساتھ اچھے انجام کی طرف لے جانے والی ہے وہ دعا ہے۔ اور انسان کی طبیعت دعا کی طرف اس وقت مائل ہوتی ہے جب دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کا تقویٰ بھرا ہو۔ کوئی بھی بُرائی دیکھے تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس کے حضور جھکتے ہوئے دعا سے اس کی مدد مانگتے ہوئے اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ اور جیسا کہ فرمایا دعا اس طرح ہو جس طرح روح پگھل کر اللہ تعالیٰ کے حضور بہہ گئی ہے۔ اور دعا کرنے کا بہترین ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نماز ہی کو قرار دیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا صلوٰۃ ہی دعا ہے اور نماز عبادت کا مغز ہے۔ صرف زبانی دعائیں نہیں بلکہ دعائیں بھی اس طرح ہوں جس طرح خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور وہ یہی ہے کہ پنجوقت اس کے آگے حاضر ہوا جائے اور نمازیں ادا کی جائیں۔ اور اپنے آپ کو پاک صاف رکھنے کے لئے اس سے مدد مانگتے رہیں۔
اور تیسری بات جو نیکیوں کی طرف لے جاتی ہے وہ صحبت صادقین ہے۔ اس کے طریقے آج کل، جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، درس، اجلاسات، اجتماعات کوئی بھی ایسی مجلسیں جہاں بزرگ نیکی کی باتیں کر رہے ہوں، جلسے وغیرہ قرآن پڑھنا، سمجھنا، حدیث پڑھنا سمجھنا، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنا۔ ان کو بھی سمجھنے کیلئے بعض دفعہ بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایسی مجلسوں میں جانا جہاں سے یہ سمجھ آ جائیں تو یہ چیزیں اختیار کرنی چاہئیں۔ پھر ان کے اختیار کرنے سے تم برائیوں سے بچ سکو گے اور صرف بُرائیوں سے بچنا ہی مقصود نہیں ہونا چاہئے بلکہ نیکیوں کو اختیار کرنا اصل مقصد ہے۔ اور صرف بڑی بڑی نیکیوں کو اختیار کرنا یا صرف بڑی بڑی برائیوں کو چھوڑنا ایک مومن کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ انسان اور وہ انسان جس کوایمان لانے کا دعویٰ ہے اس کو مومن ہونے کا دعویٰ ہے ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ باریک سے باریک، چھوٹی سے چھوٹی بُرائی کو بھی چھوڑے اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی اختیار کرے اور تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارے ورنہ تو کوئی فائدہ نہیں۔
آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مشہور بدیاں ہیں مثلاً چوری، زنا، غیبت، بددیانتی، بدنظری وغیرہ سے بچنا ہی نیکی نہیں ہے اور صرف اس پر ہی نازاں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں اور وہ یہ بُرائیاں نہیں کرتے۔ قرآن کریم جس کو ہم آخری شرعی کتاب کے طور پر مانتے ہیں وہ تو ہمیں اخلاق فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:۔ ’’مگروہ جماعت(جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمال صالحہ کیے کہ خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہوگئے) صرف ترکِ بدی ہی سے نہ بنی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہیچ سمجھا۔ خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا تب جا کر وہ ان مدارج اور مراتب میں پہنچے کہ آواز آگئی

رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ (البینۃ:9)۔’‘
’’پس تمہیں چاہئے کہ تم ایک ہی بات اپنے لئے کافی نہ سمجھ لو۔ ہاں اوّل بدیوں سے پرہیز کرو اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو۔ اور پھر خدا تعالیٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو۔ جب تک انسان ان دونوں صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا۔ مومن کامل ہی کی تعریف میں تو

اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

فرمایا گیا ہے۔ اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ چوری چکاری راہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سے کچھ بڑھ کر مراد ہے۔ نہیں،

اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الہیہ کہلاتے ہیں’‘یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق حاصل ہو جائے کہ جہاں اللہ تعالیٰ انسان سے بولے بھی اور اس کی سنے بھی۔
فرمایا کہ:’’اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال ہے تو

اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

کی دعا کی تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت، صدق وفا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے۔ پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شئے ہے۔ جب تک انسان اسے حاصل نہیں کرتا اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا۔ اور مُنْعَمْ عَلَیْہِ کے زمرہ میں نہیں آتا۔ اس سے آگے فرمایا

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَ (الفاتحۃ:7)

اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دو شربتوں کے پینے سے ہوتی ہے۔ ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے۔ کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لئے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو۔ جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے اسی لئے اسے کافور کہتے ہیں اسی طرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کے زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ موادِ ردّیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں ان کو اُٹھنے نہیں دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے۔ دوسرا شربت زنجبیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لئے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے۔ پس

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ:7-6)

تو اصل مقصد اور غرض ہے۔ یہ گویا زنجبیلی شربت ہے اور

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَ (الفاتحۃ:7)

کافوری شربت ہے‘‘۔
فرمایا کہ ان چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔ اکثر یہ برائیاں چھپ کر حملہ کرتی ہیں اور جب ان کے قابو میں انسان ایک دفعہ آ جائے تو پھر چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے گو

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

کی دعا ہو رہی ہوتی ہے لیکن عملاً ان چھپی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
فرمایا کہ:’’انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اوّل تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑنا اسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے‘‘۔
فرمایا کہ: ’’یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرا ذرا سی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی۔ اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے اوراپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے۔ اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے۔ علماء علم کے رنگ میں اسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینیکر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح عیب چینی کر کے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں جن کا دور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ:’’ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے۔’‘ یعنی انتہائی کوشش اور دعا سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ان بدیوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ ‘’اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کرلے تزکیۂ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیۂ نفس کے بعد خداتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پا لی ہے‘‘۔ کئی بزرگوں کو دیکھا ہے بظاہر نیکی کی تعلیم اور تلقین کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب قضاء میں یا کہیں اور معاملہ ہو رہا ہو، کسی سے ناراضگی ہو تو بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کو سن کر کہ ایسی بدزبانی کر رہے ہوتے ہیں، ایسی زبان کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں کہ آدمی پریشان ہو جاتا ہے۔
فرمایا کہ:’’بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پا لی ہے۔ لیکن جب بھی موقع آ پڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے اور پھر وہ گند اُن سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیۂ نفس جو کامل کرتا ہے میسر نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی تین پہلو ہیں۔ اوّل مجاہدہ اور تدبیر۔ دوم دعا۔ سوم صحبتِ صادقین‘‘۔ تو اللہ کا فضل حاصل کرنے کیلئے اس کے آگے جھکو، دعا کرو۔ اس سے اس کا عرفان مانگو۔ جب اس کی پہچان ہو جائے گی تو اس کے فضل سے نفس کا تزکیہ بھی ہو جائے گا۔
اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔ ’’درحقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بداخلاقی، کبر، ریا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور یہ مواد ردّیہ جل نہیں سکتے جب تک معرفت کی آگ ان کو نہ جلائے‘‘۔ یعنی یہ جو ردّی چیزیں ہیں،یہ گند جو انسان کے ذہن میں ہیں،سوچوں میں ہے، اس وقت تک نہیں جل سکتیں۔ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتیں جب تک اللہ کا خوف نہ ہو، اس کی خشیت دل میں نہ ہو اور جب یہ ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی بھی بے انتہا بارش کرے گا اور اپنے فضل سے ان کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔
فرمایا کہ:’’جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا۔ وہ اس نور اور روشنی کو جو انوار معرفت سے اسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اسے خدا تعالیٰ ہی کا فضل اور رحم یقین کرتا ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں کہ:’’پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے۔ نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی۔ جب خداتعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے۔ آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے، نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کر دے‘‘۔
پاک ہونے کا ایک طریقہ اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے نظامِ وصیت بھی فرمایاہے۔ آگے چل کر اس کا ذکر کروں گا۔
پھر فرمایا :’’پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشیء محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اُس نُورِ معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشی ء سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خداتعالیٰ سے اُتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے‘‘۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس قدر تڑپ تھی اپنی جماعت کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے اور عاجزی دکھاتے ہوئے ہر فرد جماعت کی گردن خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانے اور اس کا عرفان حاصل کروانے اور اس کی مخلوق سے حقیقی ہمدردی پیدا کرنے کی کہ آپ ہمیشہ جماعت کی اس نہج پر تربیت فرماتے رہے۔ اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :
’’مَیں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے۔ عام طور پر تکبر دنیا میں پھیلا ہوا ہے علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں۔ فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے۔ ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے اس لئے ان کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کی ہیں …… جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں۔ پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے۔ نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھلا دیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آ جاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو اور اس کو اُس نے اِس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے۔ پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے’‘۔
اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ:’’شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ ایک حق اللہ دوسرے حق العباد۔ حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔ اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے۔ گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں’‘۔ (تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام برموقع جلسہ سالانہ 29 ؍ دسمبر1904ء بحوالہ ملفوظات جلد چہارم صفحہ 197تا 214 جدید ایڈیشن)
آپ فرماتے ہیں :’’دیکھو دنیا چند روزہ ہے اور آگے پیچھے سب مرنے والے ہیں قبریں منہ کھولے ہوئے آوازیں مار رہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نوبت پرجا داخل ہوتا ہے۔ عمر ایسی بے اعتبار اور زندگی ایسی ناپائیدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی؟ اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اُٹھانے تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔ پھر جب یہ حال ہے کہ موت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکّی بات ہے کہ وہ یقینی ہے، ٹلنے والی نہیں تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لئے تیار رہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے

فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ (البقرۃ :133)

ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے بات نہیں بنتی۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دینی بھائی ہوگئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ ہے یا بیٹا مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اسی کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ۔ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔ اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 68۔ جدید ایڈیشن)
پس جیسا کہ فرمایا جماعت کا فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف توجہ کرو وہ حقیقی اصلاح کیا ہے؟ حقیقی اصلاح وہ ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں طریق بتایا ہے اور اس میں ایک تو اللہ تعالیٰ کا حق ہے جیسا کہ پہلے ہی بتایا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ خالص ہو کر اس کی عبادت کی جائے اس کے احکامات پر عمل کیا جائے اس کی توحید کو قائم کیا جائے یہ نہیں ہے کہ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدْ کہہ کر دنیا کو تو کوئی پیغام دے رہے ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے اور ہم بڑے زور سے پکار پکار کر دنیا کو کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر تم اپنی اور نسلوں کی بقا چاہتے ہو تو اس ایک خدا کی طرف لوٹو اس کی عبادت کرو جو تمہارا بھی رب ہے لیکن ہمارے اپنے دلوں میں کئی بُت قائم ہوئے ہوئے ہوں، ہمارے عمل اس کے اُلٹ ہوں، پانچ وقت نمازوں میں ہم سستی دکھا رہے ہوں، اس کی صفات پر ہمیں مکمل یقین نہ ہو۔ ایک طرف تو ہم یہ کہہ رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے اور دوسری طرف ہمارے سے ایسی حرکات سرزد ہو رہی ہوں جیسے خدا تعالیٰ کو ان کا علم ہی نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی صفات پر یقین پیدا ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ کی محبت اور حقیقی اطاعت تو خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ پھر یاد رکھیں حقوق العباد بھی بہت اہم ہے۔ تمہارے دل میں اپنے بھائیوں کے متعلق کسی بھی قسم کا تکبر کا خیال پیدا نہیں ہونا چاہئے بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ تمہارا سینہ دشمن کے لئے بھی صاف ہونا چاہئے۔ کبھی ان کے حقوق غصب کرنے اور ان سے خیانت کرنے کے بارہ میں بھی تمہارے دل میں خیال پیدا نہ ہو اور کبھی تم اپنے بھائیوں پر ادنیٰ سا ظلم کرنے والے بھی نہ ٹھہرو۔
گذشتہ ایک سال میں مَیں نے بساط کے مطابق ان بنیادی اخلاق کے بارہ میں اتنی کھل کر تفصیلاً توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اور جس نے بھی ان خطبات کو سنا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ اور اس کے رسول اور حقوق العباد کے کیا طریق ہیں۔ قرآن و حدیث سے بہت کھل کر طریق بتائے گئے ہیں۔ اب میں پھر کہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے درد دل کو محسوس کریں۔ اپنے آپ میں محبت کی فضا پیدا کریں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ کریں تا کہ آسمان میں پاکبازوں میں شمار ہوں اور خاتمہ بالخیر کیلئے کوشش کرنے والوں میں شمار ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں کرنے کی توفیق دے اور اُن لوگوں میں شمار ہونے کی توفیق دے جو منعم علیہ گروہ ہیں ورنہ ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہوگا جو منہ سے تو

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

کہہ رہے ہوتے ہیں مگر دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ نہ ہم ان میں شمار ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں ان میں شمار ہونے کی ضرورت ہے یا خواہش ہے۔ انسان کو موت کو بھی ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ موت کا خیال رہے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بھی خیال رہے گا۔ اس لئے روزانہ اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اُسی وقت قائم ہوں گے، اُسی وقت قابل قبول ہوں گے جب بندوں کے حقوق بھی ساتھ ادا ہو رہے ہوں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہر شخص کو ہرروزاپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پرواہ کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے۔ اُس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روزخدا تعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا اور تو نے مجھے پانی نہ دیا۔ مَیں بیمار تھا، تم نے میری عیادت نہ کی۔ جن لوگوں سے یہ سوال ہوگا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ تو کب بھوکا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا۔ توکب پیاسا تھا جو پانی نہ دیا۔ اور تو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی۔ پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اُس کی کوئی ہمدردی نہ کی۔ اُس کی ہمدردی میری ہمدردی تھی۔ ایسا ہی ایک اور جماعت کو کہے گا کہ شاباش! تم نے میری ہمدردی کی۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ۔ وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا! ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی۔ دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ ـ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اُس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اُس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں۔ حالانکہ اُس کو تو کوئی تکلیف اُس نے نہیں دی۔ مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حُسن سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اُس کی مخلوق سے سرد مہری برتے کیونکہ اُس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔
غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔ جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اُس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 215،216 جدیدایڈیشن)
آپ فرماتے ہیں کہ:’’مَیں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی۔ ان بارش کے دنوں میں مَیں نے دیکھا کہ ایک اسّی برس کا بوڑھا گبر ہے‘‘ بزرگ آدمی جو کہ آگ پرست تھا ‘’جو کوٹھے پرچڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا ہے۔ مَیں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اُس سے کہا کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہوگا؟ تو اُس گبرنے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہوگا۔ پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو مَیں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گبر طواف کر رہا ہے۔ اُس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو اُن دانوں کامجھے ثواب مل گیا یا نہیں ؟۔ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کا موجب ہوگئے۔
حدیث میں بھی ذکر آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایام جاہلیت میں مَیں نے بہت خرچ کیا تھا کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہوگا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جوا ب دیاکہ یہ اسی صدقہ و خیر ات کا ثمرہ تو ہے کہ تُو مسلمان ہو گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبرگیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 216۔ جدید ایڈیشن)
اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور اُسے ہی ہم اعلیٰ اخلاق کا انسان کہہ سکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی کا جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا ہو اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس ہمدردی کے دائرے کو بہت وسیع کر دیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ کوئی ہو۔ جو تم سے بُرائی کرتا ہے اگر اُس کو بھی کبھی تمہاری ہمدردی اور مدد کی ضرورت ہے تو اُس سے بھی ہمدردی کرو۔ بلکہ اُس کا تمہارے ساتھ بُرائی کرنا تمہاری ہمدردی کا تقاضا کرتا ہے۔ اُس سے اُس کی یہ بُرائی دیکھ کر تمہارے دل میں تڑپ پیدا ہو، اُس کے لئے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو۔ اور اُس ہمدردی کے جذبہ کے تحت تم اُس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرو کہ اے اللہ تعالیٰ مجھے پتہ نہیں کس وجہ سے اُس کو میرے خلاف غصہ اور بغض اور کینہ ہے جس کی آگ میں یہ بیچارہ جل رہا ہے۔ اس کو اس کی اس تکلیف سے بچا لے اور تسکین قلب عطا فرما۔ اس کو عقل دے اور سمجھ دے اور اس کی نسلوں کو بھی ان برائیوں سے اور ان برائیوں کے اثرات سے محفوظ رکھ۔ جب تم اس طرح دوسرے کے لئے دعا کروگے اُس کی تکلیف کا احساس کر رہے ہوگے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تب ہی کہا جا سکتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کر رہے ہو جس پر ایک مومن کو چلنا چاہئے یعنی

اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآء ذِی الْقُرْبٰی (النحل:۹۱)

پہلی بات تو یہ ہے کہ تم ہمیشہ عدل و انصاف کو ملحوظ رکھو کیونکہ یہ نیکی ہے۔ اور جو کوئی تم سے نیکی کرے تم بھی اُس کے ساتھ نیکی کرو۔ اور پھر یہ یاد رکھو کہ مومن کا قدم ایک جگہ کھڑا نہیں ہوتا بلکہ آگے بڑھتا ہے اور جتنا جتنا تم نیکیوں میں ترقی کرتے جاؤ گے اُتنا اُتنا ایمان میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے۔
آپ فرماتے ہیں کہ:’’پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اُس سے بھی بڑھ کر اُس سے سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلا دے۔ مگر اِن سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔ جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے‘‘۔
فرمایا:’’پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اُسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے کیونکہ جب کوئی شے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت وہ کامل ہوتی ہے۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے‘‘۔
تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ سنو اور یاد رکھو کہ میرے آنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت قائم کروں جو صرف دنیا پر ہی نہ ٹوٹی پڑتی ہو بلکہ اُس کو آخرت کی بھی فکر ہو۔ اُس کو یہ بھی فکر ہو کہ ہم نے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اور ہمارے اعمال ایسے ہوں کہ جو خاتمہ بالخیر کی طرف لے جانے والے ہوں۔ اور جب ہم اللہ کے حضور حاضر ہوں تو خالی ہاتھ نہ ہوں۔ فرمایا کہ اعمال کو سجانے کے لئے دو باتوں کا خیال رکھو اگر ان کے مطابق تم نے عمل کر لئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بندوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ اور وہ باتیں کیا ہیں ؟ حقوق اللہ یعنی اللہ کی عبادت کرنا،اُس کی وحدانیت کا اعلان کرنا،اُس کا خوف اور خشیت اپنے پر طاری رکھنا اور اُس کی رضا کے حصول کی کوشش کرنا۔ دوسری یہ کہ اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا اور معاشرے سے فساد کو ختم کرنا۔ اُس کا بھی آخری نتیجہ یہی نکلے گا کہ تم حقوق اللہ ادا کرنے والے ہوگے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوگے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد اداکرنے کے بارے میں تم سنتے بھی ہو جانتے بھی ہو مگر پھر بھی تم کو عمل کرنے کی اس طرح توفیق نہیں ملتی جس طرح کہ ان کو بجا لانے کا حق ہے تو فرمایا کہ اس کے تین طریق ہیں۔ ایک تو یاد رکھو کہ ہر کام کو کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لئے بھی محنت کرنی پڑتی ہے۔ دنیاوی امتحانوں کے لئے بھی ایک لمبا عرصہ تیاری کرتے ہو تو پھر کہیں جا کر کامیاب ہوتے ہو۔ اگر پھر کسی خاص شعبہ میں جانے کے لئے مطلوبہ نمبر یا گریڈ نہ ملیں تو پھر کوشش ہوتی ہے تا کہ گریڈ امپروو(improve) ہو جائے۔ تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے بھی تمہیں کوشش کرنی ہوگی۔ پھر یہ تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا معاملہ ہے اس لئے صرف تمہاری تدبیروں اور کوششوں سے یہ مقام حاصل نہیں ہو جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہی یہ معیار تمہیں حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور اس کے لئے تمہیں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنا ہوگا، اُس کے حضور گڑگڑانا ہوگا، اُس سے دعائیں مانگنی ہوں گی۔ اور جب تم کوشش کے ساتھ دعاؤں میں لگو گے تو تم ان لوگوں میں شامل ہونے والوں کی طرف قدم اُٹھانے والے ہوگے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ یہاں بھی شیطان تمہارے راستے میں روڑے اٹکاتا رہے گا، تمہیں ورغلاتا رہے گا۔ تو تدبیر اور دعا کے ساتھ یہ بھی کوشش کرو کہ تم صحبتِ صالحین سے فائدہ اُٹھاؤ۔ نیک مجالس اور نیک لوگوں میں بیٹھنے کی کوشش کرو جو تمہیں نیکیوں کی تلقین کرنے والے ہوں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہوں۔ تو اس طرح تم نیکیوں کے معیار قائم کرتے چلے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوگے۔ (تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام برموقع جلسہ سالانہ۔ 29دسمبر 1904ء بعد نماز ظہر۔ بمقام مسجد اقصیٰ۔)
یہ ارشادات جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا جن کا خلاصہ میں نے بیان کیا ہے یہ 1904ء میں آپ نے جلسہ سالانہ میں فرمائے تھے اور بڑے درد سے آپ نے جماعت کو انجام بخیر ہونے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ لیکن ٹھیک ایک سال کے بعد جیسا کہ میں نے پہلے ضمناً ذکر کیا تھااللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ جماعت کو بتا دو کہ نیکیوں پر قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور انجام بخیر حاصل کرنے کے لئے ایک اور ذریعہ بھی ہے جو تمہیں نیکیوں پر قائم رہنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے میں مددگار ہوگا بلکہ انتہائی اہم نسخہ ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے سامان بھی پیدا ہو رہے ہونگے اور حقوق العباد ادا کرنے کے سامان بھی پیدا ہو رہے ہوں گے اور وہ ہے نظامِ وصیت۔ اس کی اہمیت کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اُس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں’‘۔ (الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308 مطبوعہ لندن)
پس آپ نے وصیت کا نظام جاری کرتے ہوئے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ یہ نظام خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں خدا تعالیٰ سے خاص انعام ملے تو اس نظام میں شامل ہو جاؤ اور اس دروازے میں داخل ہو جاؤ۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ
‘’دنیا کے کام کسی نے نہ تو کبھی پورے کئے ہیں اور نہ ہی کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیا میں آئے اور کیوں جائیں گے۔ کون سمجھاوے جب کہ خدا ئے تعالیٰ نے نہ سمجھایا ہو۔ دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں مگر مومن وہ ہے جو درحقیقت دین کو مقدم سمجھے اور جس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اُٹھاتا ہے ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکہ ہے۔ موت کا ذرا اعتبار نہیں’‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر9 صفحہ 72,73)
بعض لوگوں کی صرف دنیا کمانے اور نفس کی خواہشات کی طرف توجہ رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آواری اور دینی معاملات کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ موت کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ اس لئے انجام بخیر ہونے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں رہتی۔
ایک جگہ آپ نے فرمایا:’’اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور نفسانی جذبات کو بکلّی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کروجو اُس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں۔ اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو۔ وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذّت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے۔ اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اُس فتح سے بہتر ہے جو موجبِ غضبِ الٰہی ہو۔ اُس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے۔ اگر تم صاف دل ہو کر اُس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذّات چھوڑ کر، اپنی عزّت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کراس کی راہ میں وہ تلخی نہ اُٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر تم تلخی اُٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آ جاؤ گے۔ اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں۔ اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے۔ لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں۔ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے۔ وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے۔ انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ جو زبان سے خدا طلبی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن قدمِ صدق نہیں رکھتا۔ دیکھو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ آدمی ہلاک شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے۔ اور اُس نفس سے جہنم بہت قریب ہے جس کے تمام ارادے خدا کے لئے نہیں ہیں بلکہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دنیا کے لئے۔ پس اگر تم دنیا کی ایک ذرّہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں۔ اس صورت میں تم خدا کی پیروی نہیں کرتے بلکہ شیطان کی پیروی کرتے ہو۔ تم ہرگز توقع نہ کرو کہ ایسی حالت میں خدا تمہاری مدد کرے گا۔ بلکہ تم اس حالت میں زمین کے کیڑے ہو اور تھوڑے ہی دنوں تک تم اس طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس طرح کہ کیڑے ہلاک ہوتے ہیں۔ اور تم میں خدا نہیں ہوگا بلکہ تمہیں ہلاک کر کے خدا خوش ہوگا۔ لیکن اگر تم اپنے نفس سے درحقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا۔ اور وہ گھر بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہوگے۔ اور اُن دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں۔ اور وہ شہر بابرکت ہو گا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا۔ اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے۔ تم بھی انسان ہو جیسا کہ میں انسان ہوں اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے۔ پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو مَیں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اُس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ کینہ وری سے پرہیز کرو۔ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ‘‘۔ (الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308-307)
تو یہ وصیت کا جب نظام جاری فرمایا تو اُس وقت کا آپ کا یہ ارشاد ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں اتنی حیثیت ہے جتنی کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر وہ اُسے نکال کر دیکھے کہ اُس پر کتنا پانی لگا ہوا ہے‘‘(ترمذی کتاب الزھد۔ باب ما جاء فی ھوان الدنیا علی اللہ)
تو جب دنیا کی اتنی بھی حیثیت نہیں ہے تو ہمیں کس قدر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جس چیز کے ہم پیچھے پڑے ہوئے ہیں اُس کی تو کوئی حیثیت نہیں اور جو اصل مقصود ہونا چاہئے اُس کی طرف توجہ ہی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ہے جو انجام بخیر کی طرف لے جاتی ہے۔
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام الوصیت میں فرماتے ہیں کہ:۔ ’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم، صدق کا قدم ہے‘‘۔ (الوصیت،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 309)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فرمان کے مطابق، آپ کے ارشادات کو سن کر، آپ کی خواہشات کو دیکھ کر جو شخص اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتا آپ فرماتے ہیں کہ اس میں نفاق پایا جاتا ہے کہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ اور اگر کامل اطاعت گزار اور تمام باتوں کو دل سے تسلیم کرنے والا ہے تو وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف صدق سے قدم اُٹھانے والا ہے اور اس کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والا ہے۔
پھر اسی رسالہ میں آپ نے خدا کے ایسے پسندیدہ اور کامل الایمان لوگوں کے بارے میں خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر بتایا کہ یہ حقیقت میں بہشتی لوگ ہوں گے۔ جب وصیت کا نظام شروع کیا اُس وقت 1905ء میں آپ نے یہ رسالہ لکھا تھا اور اس کو لکھنے کی وجہ یہ فرمائی تھی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میرا وقت قریب ہے اور اب ایک تو نظام خلافت کا سلسلہ شروع ہوگا جو میرے بعد میرے کاموں کی تکمیل کرے گا۔ اور دوسرا اس سلسلہ کو چلانے کے لئے ایسے مخلصین جماعت میں پیدا ہوتے رہیں گے جن کا پہلے ذکر آ چکا ہے جو روحانیت کے بھی اعلیٰ معیار تک پہنچنے والے ہوں گے اور مالی قربانیوں کو بھی اعلیٰ معیار تک پہنچانے والے ہوں گے۔ اور ایسے مخلصین جو ہوں گے اُن کی انفرادیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہشتی قرار دیا ہے اور اس وجہ سے اُن کا ایک علیحدہ قبرستان بھی ہوگا جہاں اُن کی تدفین ہوگی۔ اس لئے بہشتی مقبرہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔
پس یہ وہ نظام ہے جو اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی یقین دہانی کرانے والا نظام ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو دین کی خاطر قربانیاں دینے والی جماعت کا نظام ہے۔ اور یہ وہ جماعت ہے جو دنیا میں دکھی انسانیت کی خدمت کرتی ہے۔ پس ہر احمدی ان باتوں کے سننے کے بعد غور کرے اور دیکھے کہ کس قدر فکر سے اور کوشش سے اس نظام میں شامل ہونا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری نیکی کے معیار وہاں تک نہیں پہنچے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس معیار کی شرائط کو پورا کر سکیں۔ تو وہ سن لیں کہ یہ نظام ایک ایسا انقلابی نظام ہے کہ اگر نیک نیتی سے اس میں شامل ہوا جائے اور شامل ہونے کے بعد جیسا کہ آپ نے فرمایا اپنے اندر بہتری کی کوشش بھی کی جائے تو اس نظام کی برکت سے روحانی تبدیلی جو کئی سالوں کی مسافت ہے وہ دنوں میں اور دنوں کی گھنٹوں میں طَے ہو جائے گی۔ پس اپنی اصلاح کی خاطر بھی اس نظام میں احمدیوں کو شامل ہونا چاہئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے جو دعائیں ہیں اُن سے حصہ لینا چاہئے۔
آپ 1905ء میں فرماتے ہیں کہ:
‘’مجھے ایک جگہ دکھلا دی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی۔ ایک فرشتہ مَیں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے۔ تب ایک مقام پر اُس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے۔ پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے۔ اور ایک جگہ مجھے دکھائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ اُن برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں’‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ:’’مَیں دعا کرتاہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے۔ اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ ﷺکے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ اٰمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن۔
پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اِس زمین کو میری جماعت میں سے اُن پاک دلوں کی قبریں بنا جو
فی الواقع تیرے لئے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔ اٰمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘۔
اور پھر فرمایا کہ:’’میں تیسری دفعہ دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم !اے خدائے غفور و رحیم! تو صرف اُن لوگوں کو اِس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اوربدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے۔ اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں۔ اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں۔ جن سے توُ راضی ہے اور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے۔ اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ اٰمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن۔
فرمایا : ’’اور چونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے۔ بلکہ یہ بھی فرمایا کہ

اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ

یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے۔ اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں۔ اس لئے خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے ایسے شرائط لگا دئیے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہو سکیں جو اپنے صدق اور کامل راستبازی کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں۔ سو وہ تین شرطیں ہیں اور سب کو بجا لانا ہوگا‘‘۔
’’پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے اُن مصارف کے لئے چندہ داخل کرے اور یہ چندہ محض اُنہی لوگوں سے طلب کیا گیا ہے، نہ دوسروں سے‘‘ ’’ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتا رہے گا اعلائے کلمۂ اسلام اور اشاعتِ توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں’‘۔
’’دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیّت کرے جو اُس کی موت کے بعد دسواں حصہ اُس کے تمام ترکہ کا حسبِ ہدایت اس سلسلہ کے اشاعتِ اسلام اور تبلیغِ احکامِ قرآن میں خرچ ہوگا۔ اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہوگا‘‘۔
فرمایا:’’خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی دے گا۔ اس لئے امید کی جاتی ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے ایسے مال بھی بہت اکٹھے ہو جائیں گے۔ اور ہر ایک امر جو مصالح اشاعتِ اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور ان اموال سے انجام پذیر ہوں گے۔
اب زمانہ ایسا آرہا ہے جب کہ یہ باتیں ظاہر بھی ہونا شروع ہوگئی ہیں اُن باتوں کے علاوہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درج کی ہیں۔ پتہ لگتا ہے کہ مزید کہاں کہاں خرچ کئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ آپ نے فرمایا اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت کے لئے بھی یہ خرچ ہو سکتے ہیں۔
پھر فرمایا:’’یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دُورازقیاس باتیں ہیں۔ بلکہ یہ اُس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔ مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیو نکر ہونگے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردا نہ کام دکھلائے’‘۔
تو آپ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ توقع رکھی ہے کہ ایسی جماعت پیداہوگی اور ضرور پیدا ہوگی جو یہ مردانہ کام دکھائے اور اس جوش اور جذبے کے ساتھ نظام میں شامل ہو اور قربانیوں کی مثالیں قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی ہوگی۔
پھر فرمایا: ’’تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہواور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو۔ سچّا اور صاف مسلمان ہو‘‘۔
اور پھر چوتھی شرط ہے جو اصل میں اس کا ضمنی نوٹ ہی ہے کہ: ’’ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تووہ اس قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد نمبر 20۔ صفحہ نمبر 316تا320)
اس نظام کو قائم کئے 2005ء میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک سَو سال ہو جائیں گے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ 1905ء میں آپ نے اسے جاری فرمایا تھا لیکن جیسا کہ متعدد جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس نظام وصیت میں شامل ہونے والوں کو خوشخبریاں دے چکے ہیں۔ آپ نیجماعت پر حسن ظن فرمایا ہے کہ ایسے مومنین ملتے رہیں گے اور ضرور ملتے رہیں گے جو اس طرح اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی مالی قربانیاں پیش کرنے والے ہوں گے اور روحانیت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں گے۔ لیکن جس رفتار سے جماعت کے افراد کو اس نظام میں شامل ہونا چاہئے تھا، نہیں ہو رہے۔ جس سے مجھے فکر بھی پیدا ہوئی ہے اور میں نے سوچا ہے کہ آپ کے سامنے اعداد و شمار بھی رکھوں تو آپ بھی پریشان ہو جائیں گے۔ وہ اعداد و شمار یہ ہیں کہ آج ننانوے سال پورے ہونے کے بعد بھی تقریباً 1905ء سے لے کر آج تک صرف اڑتیس ہزار کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے۔ اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کو قائم ہوئے سَو سال ہو جائیں گے۔ میری یہ خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرنا چاہتاہوں کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے شامل ہوں۔ آگے آئیں اور اس ایک سال میں کم از کم پندرہ ہزارنئی وصایا ہو جائیں تا کہ کم از کم پچاس ہزار وصایا تو ایسی ہوں کہ جو ہم کہہ سکیں کہ سو سال میں ہوئیں۔ تو ایسے مومن نکلیں کہ کہا جا سکے کہ انہوں نے خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔
پھربہت سے لوگوں کی طرف سے یہ تجویزیں بھی آئی ہیں کہ 2008ء میں خلافت کو بھی سَو سال پورے ہو جائیں گے اس وقت خلافت کی بھی سَو سالہ جوبلی منانی چاہئے تو بہرحال وہ تو ایک کمیٹی کام کر رہی ہے۔ وہ کیاکرتے ہیں، رپورٹس دیں گے تو پتہ لگے گا۔ لیکن میری یہ خواہش ہے کہ 2008ء میں جو خلافت کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سَو سال ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں،ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں،جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں۔ اور روحانیت کو بڑھانے کے اور قربانیوں کے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بن چکے ہوں۔ اور یہ بھی جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہوگا جو جماعت خلافت کے سَوسال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوگی۔ اور اس میں جیسا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایسے لوگ شامل ہونے چاہئیں جو انجام بالخیر کی فکر کرنے والے اور عبادات بجا لانے والے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے اس لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ صف دوم جو ہے اور لجنہ اماء اللہ کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ کیونکہ ستر پچھترسال کی عمر میں پہنچ کر جب قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں تو اُس وقت وصیت تو بچا کچھا ہی ہے جو پیش کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ احمدی نوجوان بھی اور خواتین بھی اس میں بھرپور کوشش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو خاص طور پر مَیں کہہ رہا ہوں کہ اپنے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کو بھی اس عظیم انقلابی نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ دنیاوی لحاظ سے بھی اگر اس نظام کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہے تو آج سے ساٹھ سال پہلے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تقریر فرمائی جلسے کے موقع پر’ نظام نو‘ کے نام سے چھپی ہوئی کتاب ہے۔ اُسے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو کہ آج کل دنیا کے ازموں اور مختلف نظاموں کے جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ سب کھوکھلے ہیں۔ اور اگر اس زمانے میں کوئی انقلابی نظام ہے جو دنیا کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے، جو روح کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے، جو انسانیت کی خدمت کرنے کا دعویٰ حقیقت میں کر سکتا ہے تو وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کردہ نظام وصیت ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نظام کی قدر نہ کرنے والوں کو انذار بھی بہت فرمایا ہے، ڈرایا بھی بہت ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ:۔ ‘’بلاشبہ اُس نے ارادہ کیا ہے کہ اس انتظام سے منافق اور مومن میں تمیز کرے۔ اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الٰہی انتظام پر اطلاع پاکر بلاتوقّف اس فکرمیں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ کُل جائیداد کا خداکی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ اپناجوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگادیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

الٓمٓ۔ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:3-2)

کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں اسی قدر پر راضی ہو جاؤں کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور ابھی اُن کا امتحان نہ کیا جائے؟اور یہ امتحان تو کچھ بھی چیز نہیں۔ صحابہؓ کا امتحان جانوں کے مطالبہ پر کیا گیا اور انہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دئے۔ پھر ایسا گمان کہ کیوں یونہی عام اجازت ہر ایک کو نہ دی جائے کہ وہ اس قبرستان میں دفن کیا جائے کس قدر دُورازحقیقت ہے۔ اگر یہی روا ہو تو خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں امتحان کی کیوں بنیاد ڈالی؟ وہ ہرایک زمانہ میں چاہتارہا ہے کہ خبیث اور طیّب میں فرق کر کے دکھلاوے اس لئے اب بھی اُس نے ایساہی کیا‘‘۔ (الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20۔ صفحہ 327,328)
فرمایا:’’یہ بھی یاد رہے کہ بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جو زمین کو تہ و بالا کر دے گا قریب ہے۔ پس وہ جومعائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدُّنیا ہونا ثابت کردیں گے اور نیز یہ بھی ثابت کر دیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اُس کے دفتر میں سابقین اوّلین لکھے جائیں گے۔ اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ زمانہ قریب ہے کہ ایک منافق جس نے دنیا سے محبت کر کے اِس حکم کو ٹال دیا ہے وہ عذاب کے وقت آہ مار کر کہے گاکہ کاش مَیں تمام جائیداد کیا منقولہ اور کیا غیر منقولہ خدا کی راہ میں دیتا اور اس عذاب سے بچ جاتا۔ یاد رکھو !کہ اس عذاب کے معائنہ کے بعد ایمان بے سُود ہوگا اور صدقہ خیرات محض عبث۔ دیکھو! مَیں بہت قریب عذاب کی تمہیں خبر دیتا ہوں۔ اپنے لئے وہ زاد جلد تر جمع کرو کہ کام آوے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں۔ بلکہ تم اشاعت دین کے لئے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے۔ بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کر کے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے۔ تب آخری وقت میں کہیں گے

ھٰذَا مَاوَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْن‘‘َ۔

(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 328،329)
پس غور کریں فکر کریں۔ جو سستیاں، کوتاہیاں ہو چکی ہیں اُن پر استغفار کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جلد از جلد اس نظامِ وصیت میں شامل ہو جائیں۔ اور اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی حصہ پائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں