جنرل ناصر احمد چودھری صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25 اکتوبر 2019ء)

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر 2011ء میں سانحہ لاہور میں شہادت پانے والے جنرل چودھری ناصر احمد صاحب کے بارے میں ایک مضمون اُن کے کزن مکرم کرنل انتصار احمد مہار صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
پاکستان بننے سے قبل ہی محترم چودھری صاحب جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں آباد ہوچکے تھے جہاں آپ کے والد کی شہادت کے بعد آپ کورقبہ الاٹ ہوا تھا۔ میری والدہ کو بھی اپنے والد کی زمین اسی گاؤں میں ملی چنانچہ چودھری صاحب کی والدہ اور میری والدہ نے لمبا عرصہ ایک ہی گاؤں میں گزارا۔ کبھی کبھار گاؤں میں شہید مرحوم سے ملاقات ہوتی تو بہت شفقت سے ملتے، پڑھائی کے متعلق پوچھتے اور قیمتی نصائح کرتے۔ عاجزی سے اپنی والدہ کے ساتھ چولہے کے پاس بیٹھ کر کھانا کھالیتے۔
خاکسار فوج سے ریٹائرڈ ہوکر لاہور آیا تو شہید مرحوم اُس وقت ماڈل ٹاؤن کے صدر تھے۔ بعد میں سیکرٹری اصلاح و ارشاد ضلع بنے۔ اس دوران قریب سے آپ کو دیکھنے اور آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جس چیز نے سب سے زیادہ متأثر کیا وہ آپ کی انکساری تھی۔ کوئی تکلّف نہیں کرتے تھے۔ گرمی اور حبس میں بھی گھنٹوں بیٹھ کر میٹنگز کرتے، اپنے ہاتھ سے ہر کام کرتے۔ اگر کوئی ذکر کرتا کہ کسی اَور کو کہہ دیا ہوتا تو جواب ملتا کہ جماعتی خدمت ہے اس لیے خدا کا شکر کرو۔ اگر مَیں فون پر کسی سے کہتا کہ جنرل صاحب کے کہنے پر فون کررہا ہوں تو فوراً ٹوک دیتے کہ بھئی اب مَیں جنرل نہیں ہوں، مَیں صرف ناصر احمد ہوں۔ اگر کسی خط کے نیچے دستخط والی جگہ جنرل ریٹائرڈ لکھ دیتا تو کاٹ دیتے اور کہتے صرف ناصر احمد لکھا کرو۔ کسی میٹنگ میں آتے اور جگہ پُر ہوچکی ہوتی تو پیچھے ہی بیٹھ جاتے جب تک امیر صاحب آپ کو آگے نہ بلالیتے۔
فوج کے اعلیٰ عہدیدار ہونے کی وجہ سے آپ بہت باحوصلہ تھے۔ قریباً 90 سال کی عمر میں مسلسل گھنٹوں کام کرتے۔ 1971ء کی جنگ میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ گھٹنے میں گولی لگی تھی جو نکالی نہیں گئی تھی۔ چال میں فرق تھا۔ پراسٹیٹ کینسر کی بھی شکایت تھی۔ نماز بھی کرسی پر پڑھتے لیکن مسلسل لکھتے چلے جاتے۔ اسی دوران امیر صاحب یاد کرتے تو اُٹھ کر جاتے اور واپس آکر اُسی انہماک سے لکھنا شروع کردیتے۔ اس دوران دوسروں کو ہدایات بھی دیتے رہتے۔ کام مکمل کرکے ہی اُٹھتے۔
خدمت دین کو اعزاز سمجھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے کہ محنت، پوری استعداد اور بغیر کسی لالچ کے خدمت کرو تو اللہ تعالیٰ ہر مشکل آسان کردے گا۔ آپ خود اس کا عملی نمونہ پیش کرتے تھے۔ پیرانہ سالی اور چلنے میں دشواری کے باوجود مقررہ وقت 10 بجے دارالذکر پہنچ جاتے اور ایک بجے مسجد نُور نماز ادا کرنے چلے جاتے۔ دوستوں اور گھر والوں کے صحت کے حوالہ سے توجہ دلانے پر کہتے کہ جب تک جماعت خود فارغ نہ کرے مَیں کبھی اس کا اظہار نہیں کروں گا۔
خلافت سے عشق تھا اور نظام کی اطاعت آپ کا شیوہ تھا۔ وقت کا ضیاع برداشت نہیں کرتے تھے۔ ہر میٹنگ سے پہلے اس کی بھرپور تیاری کرتے اور پروگراموں کے ہر پہلو پر گہری نظر رکھتے۔ یادداشت بہت عمدہ تھی۔ تمام پروگراموں اور رپورٹوں کی تاریخیں زبانی یاد ہوتیں۔ ایک مشین کی طرح کام کرنے کا نمونہ پیش کرتے۔
شہید مرحوم اپنے عزیزوں کا بہت خیال رکھتے، بزرگوں کا احترام کرتے۔ میری والدہ اپنی زندگی میں جب بھی میرے ہاں آتیں تو شہید مرحوم خود اُن کو ملنے کے لیے آتے۔ آپ کے مزارعین گاؤں سے آتے تو اُن کی بھی عزت کرتے اور اُن کے مسائل کوشش کرکے حل کرتے۔ ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں