حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ محترمہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ اپریل 2011ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ محترمہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کے بارے میں ایک مختصر مضمون حضرت مولوی یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت چراغ بی بی صاحبہ کا تعلق موضع آیمہ ضلع ہوشیارپور کے ایک معزز مغل خاندان سے تھا۔ آپ کی صفاتِ عالیہ میں جودوسخا اور مہمان نوازی انتہا درجہ پر تھی۔ غرباء کا بہت خیال رکھتیں۔ غرباء کے مُردوں کے لیے کفن مہیا کرنا آپ کے معمولات میں سے تھا۔ گویا ایک مادر مہربان کی طرح تھیں۔ اپنے بیٹے (حضرت اقدسؑ) کی تربیت میں آپ نے غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ چونکہ حضورؑ ابتدا سے ہی اپنے خاندان کے دوسرے مَردوں کے برعکس دنیاوی مشاغل سے دُور رہتے اور خاندان میں مُلّاں کہلاتے تھے۔ایسے میں مادر مہربان ہی تھیں جو آپؑ کی نیکی اور سعادت مندی دیکھ کر نثار ہوئی جاتی تھیں اور آپؑ کے آرام کے لیے ہر طرح کوشش بھی کرتی تھیں۔ حضورؑ کی عادت تھی کہ اپنی حاجات مخلوق کے سامنے پیش نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ صبر و برداشت سے کام لیتے۔ آپؑ کی والدہ محترمہ کو اس عادت کا علم تھا اس لیے خاص توجہ سے آپؑ کی ضروریات کا انصرام فرماتی تھیں۔ گویا والد محترم کی گونہ بے اعتنائی کی تلافی مادر مہربان نے کررکھی تھی۔
حضرت اقدسؑ نے اپنے والد محترم کی اطاعت میں اپنے آپ کو انتظامِ زمینداری اور پیروی مقدمات تک میں لگانے سے عذر نہ کیا تو اپنی والدہ مکرمہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں تو آپؑ بے نظیر ہی تھے۔ گھر والے بھی آپؑ کی اپنی والدہ سے محبت کو محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپؑ کی والدہ محترمہ کی وفات ہوئی تو آپؑ قادیان سے باہر کسی جگہ تھے۔ میراں بخش حجام آپؑ کو لانے کے لیے گیا جسے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یکدم یہ خبر حضورؑ کو نہ سنائے۔ چنانچہ جس وقت بٹالہ سے نکلے تو حضورؑ کو اُس نے والدہ صاحبہ کی علالت کی خبر دی۔ یکّہ پر سوار ہوکر جب قادیان کی طرف چلے تو اُس نے یکّہ والے کو جلدی چلنے کا کہا۔ حضورؑ نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟ اُس نے کہا کہ اُن کی طبیعت بہت ناساز تھی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اُس نے یکّہ والے کو تاکید کی جلدی چلو۔ تب حضورؑ کے پوچھنے پر بتایا کہ طبیعت بہت ہی ناساز تھی اور کچھ نزع کی سی حالت تھی، خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہوجائیں۔ پھر حضورؑ خاموش ہوگئے۔ آخر یکّہ والے کو اُس نے سخت تاکید شروع کی تو حضورؑ نے فرمایا کہ تم اصل بات کیوں بیان نہیں کردیتے۔ تب اُس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہوگئی تھیں۔ آپ کے صدمے کے خیال سے یک دفعہ خبر نہیں دی۔ حضورؑ نے

اِنَّالِلہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡن

پڑھا اور سکون سے بیٹھے رہے۔
حضرت چراغ بی بی صاحبہ کی دُوراندیشی اور معاملہ فہمی مشہور تھی۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنی ہیبت اور جلال کے باوجود خانہ داری کے انتظامی معاملات میں اُن کی خلافِ مرضی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ آپ کی ایک بیٹی (حضرت مسیح موعودؑ کی ہمشیرہ) بی بی مراد بیگم صاحبہ تھیں جو بجائے خود ایک صاحب حال اور عابدہ زاہدہ خاتون تھیں۔ خداتعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت وہ عین عنفوانِ شباب میں بیوہ ہوکر قادیان آگئیں۔ ان حالات میں انہوں نے حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو مشورہ دیا کہ زنان خانہ میں وہ ہمیشہ دن کو تشریف لایا کریں۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب مرحوم کا اس کے بعد معمول ہوگیا کہ وہ صبح گھر کے ضروری معاملات پر ہدایات دے کر باہر آجاتے۔ حضرت مائی صاحبہ نے اپنی اس بیٹی اور بیٹے (حضرت اقدسؑ) کے لیے اپنے تمام آرام کو قربان کردیا تھا۔
ایک بار میری موجودگی میں حضرت مسیح موعودؑ سیر کے لیے اپنے خاندان کے پرانے قبرستان (موسوم بہ شاہ عبداللہ غازی) کی طرف چلے گئے۔ پھر راستہ سے ہٹ کر آپؑ ایک جوش کے ساتھ والدہ صاحبہ کی قبر پر آئے اور بہت دیر تک دیگر دوستوں کے ہمراہ دعا کی۔ ویسے حضورؑ جب بھی حضرت مائی صاحبہ کا ذکر کرتے تو چشمِ پُرآب ہوجاتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں