خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 3؍جون 2005ء

ہراحمدی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اپنی مالی قربانیوں کو باقاعدہ رکھے تا کہ ساتھ ساتھ تزکیہ نفس بھی ہوتا رہے
مالی سال کے اختتام کے حوالہ سے اپنے لازمی چندہ جات کے وعدوں کو جلد پورا کرنے کی تاکید
شادی بیاہ کے موقع پر اسراف سے بچیں اور غریب بچیوں کی امداد کے لئے مریم شادی فنڈ میں حسب توفیق حصہ لیں
سپین میں ویلنسیا میں مسجد کی تعمیر کے لئے اپنے وعدہ جات کو جلد پورا کریں
جرمنی میں سو مساجد کی تعمیر کے کام میں تیزی پیدا کرنے کی ہدایت
طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی نئی تحریک۔خصوصیت سے احمدی ڈاکٹرز کو اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی دعوت
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 3؍جون 2005ء (3؍احسان1384ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ لَایُتْبِعُوْنَ مَا اَنْفَقُوا مَنًّا وَّلَا اَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَاھُمْ یَحْزَنُوْن۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر263)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ: وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر جو خرچ کرتے ہیں اس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے، ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو یہ خوشخبری دی ہے کہ اگر بے نفس ہو کر اس کی راہ میں خرچ کرو گے، خرچ کرنے کے بعد نہ ہی احسان جتاؤ گے اور نہ ہی کسی کو تکلیف دو گے، نہ ہی اپنے مطلب حل کرنے کی کوشش کرو گے تو تمہارا خدا تمہیں اس کا بہترین اجر دے گا۔ اب دیکھیں غیروں میں بعض لوگ تھوڑا سا کسی نیک کام میں خرچ کر لیتے ہیں اور پھر اس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جیسے کہ قربانی کے کوئی اعلیٰ معیار قائم کر لئے ہوں۔ مثلاً آج کل ہمارے ملک پاکستان میں یا ہندوستان میں گرمیوں کے دن ہیں اس موسم میں بازاروں میں ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا جاتا ہے اور پھر بڑا فخر ہوتا ہے کہ ہم نے یہ انتظام کیا ہوا ہے۔ یا مسجدوں کی تعمیر میں معمولی سی رقم پانچ دس روپے دے دیتے ہیں تو باقاعدہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان ہوتا ہے کہ فلاں صاحب نے اتنی قربانی دی اور خاص طور پر پاکستان میں چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں یہ بہت رواج ہے۔ تو عموماً کچھ نہ کچھ دینے والے مسلمانوں کا یہ حال ہے۔ اور اکثریت تو ایسی ہے کہ خدا کی راہ میں دینے کا تصور ہی نہیں ہے اور ایسے لوگوں میں سے چند امیر لوگ جن کو کچھ احساس ہے کہ دین کی خاطر خرچ کریں تو ایسے مدرسوں یا اداروں کی سر پرستی کی جاتی ہے جہاں انسانیت کے خلاف نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ اور پھر اگر اپنے مطلب کے مطابق خرچ نہ ہو یا کوئی اختلاف ہو جائے تو پھر وہ ساری امدادیں بھی بند ہو جاتی ہیں۔تو یہ خرچ جو وہ کر رہے ہوتے ہیں اصل میں خدا کی خاطر نہیں ہو رہے ہوتے بلکہ اپنے مقاصد کے لئے یا اپنی نیکی کے اظہار کے لئے یہ خرچ ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہوتا ہے کہ ہم نے اتنا خرچ کیا ہے۔ اور جب نیّتیں نیک نہ ہوں تو پھر ظاہر ہے نتائج بھی بُرے ہی نکلتے ہیں۔ یہ لوگ نیکیاں پھیلانے کی بجائے اپنے مطلب حاصل کرنے کی وجہ سے لوگوں کی تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ اور خاص طور پر احمدیوں کے لئے تو اس بات کو کارِ ثواب سمجھا جاتا ہے کہ خدا کے نام پر ان کو تکلیفیں دی جائیں۔
لیکن تصویر کا ایک دوسرا اور صحیح رُخ بھی ہے جو احمدیوں کی مالی قربانیوں کا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی مالی قربانیوں کا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر چلتے ہوئے جب قربانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھ کر ہی قربانی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو کسی فرد پر یا جماعت پر احسان کا رنگ رکھتے ہوئے قربانی کرتے ہیں، نہ ہی کسی کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے یہ قربانی کرتے ہیں۔ نیت ہوتی ہے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام دنیامیں پہنچانے کے لئے ہم بھی حصہ لیں۔ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہم بھی کچھ پیش کریں اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔ اِن لوگوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر مالی قربانی کرنے والے ہیں، چندے دینے والے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو بڑی مالی قربانیاں پیش کرنے والے ہیں۔ اپنے باقاعدہ چندوں کے علاوہ بھی کروڑوں روپے کی قربانی کر دیتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ لگے۔ پس یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے ربّ سے ان قربانیوں کا اجر پانے والے لوگ ہیں۔ ان کو ان قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے۔ ان کے غموں کو خوشیوں میں بدل دیتا ہے۔ ان کے خوفوں کو اپنے فضل سے دور فرما دیتا ہے۔ ان کی اولادوں کو ان کی آنکھ کی ٹھنڈک بنا دیتا ہے اور آئندہ زندگی میں خدا تعالیٰ نے ان کو جن نعمتوں سے نوازنا ہے اس کا تو حساب ہی کوئی نہیں ہے۔
تویہ اللہ والے یہ قربانیاں اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں خداتعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے۔ یہ قربانیاں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا ادراک ہے کہ اپنے پیسوں کی تھیلی کا منہ بند کرکے نہ رکھو ورنہ خداتعالیٰ بھی رزق بند کر دے گا۔ اللہ کی راہ میں گن گن کر دو گے تو خداتعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس بات کا یقین ہے اور خدائی وعدہ پر مکمل ایمان ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍفَلِاَ نْفُسِکُمْ۔ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآء وَجْہِ اللہِ۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْن (البقرہ:273)

یعنی جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدے میں ہے۔ جبکہ تم اللہ کی رضا جوئی کے سوا (کبھی) خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہیں بھرپور واپس کر دیا جائے گااور ہرگز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ تو جب اللہ تعالیٰ یہ وعدہ کر رہا ہے کہ کوئی خوف نہ کرو بلکہ جو بھی تم خرچ کرو گے وہ تمہیں لوٹا دیا جائے گا۔ اور کسی بھی قسم کی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ بلکہ زیادتی کا یا لوٹا ئے جانے کا کیا سوال ہے؟ اللہ تعالیٰ تو ایسا دیالو ہے،اس قدر بڑھا کر لوٹاتا ہے کہ اس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے خزانے لامحدود ہیں۔ اور جس کے خزانے لامحدود ہوں وہ انسانی ذہن میں کسی معیار کا تصور پیدا کرنے کے لئے پیمانے کا اظہار تو کر دیتا ہے لیکن وہ معیار یا پیمانے آخری حد نہیں ہوتی، انتہانہیں ہوتی۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۔ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآء۔وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ (البقرہ:262)

یعنی ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اگاتا ہو، ہربالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے اس سے بھی بڑھا کر دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ یعنی گو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے پیمانے کوئی نہیں وہ تو بے حساب رزق دینے والا ہے لیکن کیونکہ انسان کی سوچ محدود ہے اس لئے وہ بے حساب سے کہیں یہ نہ سمجھے کہ دس، بیس یا تیس گنا یا سو گنا اضافہ ہو جائے گا۔ نہیں ، بلکہ بڑھانے کی ابتدا سات سو گنا سے ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ تو معیار تقویٰ اور ہر ایک کے معیارِ قربانی کے لحاظ سے اس سے بھی زیادہ بڑھا سکتا ہے۔ وہ جس کو چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا کر دے دے۔ جتنا زیادہ اس پر ایمان میں بڑھتے جاؤ گے اتنا زیادہ اس کے فضلوں کے وارث ٹھہرتے جاؤ گے۔ وہ تمہاری نیتوں کو بھی جانتا ہے۔ وہ تمہاری قربانیوں کی گنجائش کو بھی جانتا ہے۔ اس لئے جب احمدی اس نیت سے قربانی کر رہے ہوتے ہیں تو وہ خداتعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کے وارث بھی ٹھہرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی کی قربانی کا یہ معیار، پیش کرنے کا یہ فہم اور ادراک بڑھتا چلا جائے۔ ہر احمدی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو۔ ہر شخص کی توفیقیں مختلف ہوتی ہیں، استعدادیں مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن اپنے اپنے دائرے میں ہر احمدی کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ وہ مالی قربانی کرنے والا ہو۔ اور قربانی کا لفظ تو تقاضا ہی یہ کرتا ہے کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات کو دبا کر، اپنے آپ کو اور اپنے مال کو خدا کی رضا کی خاطر جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیش کیا جائے۔
پس جو اس قربانی کے جذبے سے اپنے مال خدا کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں وہ یقینا اللہ تعالیٰ سے اجر پانے والے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ صدقہ اور مالی قربانی کا ذکر ایک حدیث میں یوں فرمایا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ: ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا اللہ کی راہ میں سب سے بڑاخرچ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو۔ غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو۔ صدقہ و خیرات میں دیر نہ کر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب جان حلق تک پہنچ جائے تو توُ کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا۔ حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا وہ فلاں کا ہو ہی چکا‘‘۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب فضل الصدقۃ)
پھر ایک اور روایت میں آپؐ نے فرمایا:’’ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو۔ خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی ہی استطاعت ہو‘‘۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ۔باب اتقوا النار و لو بشق تمرۃ)
پس جہاں صدقہ اور مالی قربانی کرکے ہم اپنے آپ کو اگلے جہان کی آگ سے محفوظ کر رہے ہوں گے وہاں دنیا کی حرص، لالچ اور ایک دوسرے سے دنیاوی خواہشات میں بڑھنے کی دوڑ سے بھی محفوظ ہو رہے ہوں گے اور یوں آگ سے بچنے کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھیں گے۔ کیونکہ حسد کی آگ بھی بڑی سخت آگ ہے۔ احمدیوں میں تو بے شمار ایسے ہیں جو اس میدان کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو سکون مالی قربانی کرنے کے بعد ملتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں، اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر بھی عمل کرنے کی توفیق دے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ: ’’الشُّحُّ یعنی بخل سے بچو۔ یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 159مطبوعہ بیروت)
اللہ تعالیٰ اس حکم پر عمل کرنے کی ہمیں توفیق دے اور ہم کبھی ہلاک ہونے والوں میں شمار نہ ہوں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہوں۔ اس کے لامحدود فضلوں اور انعاموں کے وارث ٹھہریں۔
ایک حدیث میں ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے۔ ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا۔ دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی اور اس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے‘‘۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب انفاق المال فی حقہ)
اللہ کرے کہ ہم اس فرمان کو سمجھنے والے ہوں اور اس رشک کی وجہ سے مالی قربانیوں اور انصاف قائم کرنے میں بڑھنے والے ہوں۔ جب قربانیوں میں بڑھنے کی دوڑ شروع ہو گی تو نیکیوں میں بڑھنے کے حکم کے مطابق ہر شخص اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اپنی اس انتہا کو پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ اپنی استعدادوں کو انتہا تک استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور یوں ایک حسین اور پاک معاشرہ قائم ہو جائے گا۔
جیسا کہ آپ سب کو علم ہے جماعت کے مالی سال کا یہ آخری مہینہ ہے عموماً جماعت کے متعلقہ عہدیدار جن کے سپرد چندوں کی وصولی کا کا م ہوتا ہے بڑے پریشان ہو جاتے ہیں کہ ایک مہینہ رہ گیا ہے اور وصولیاں ابھی اس رفتار سے نہیں ہوئیں۔ مجھے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی فکر نہیں اور پوری تسلّی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی جہاں کمی ہے اپنے فضل سے پوری فرمائے گا۔ لیکن کیونکہ نصیحت کرنے اور توجہ دلانے کا بھی حکم ہے اس لئے میں احباب جماعت کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جن کے چندہ عام کے بجٹ کی ادائیگی میں اور اسی طرح چندہ جلسہ سالانہ، یہ لازمی چندہ جات جو ہیں ان کی ادائیگی میں کمی رہ گئی ہے وہ کوشش کرکے ادا کریں۔ جماعت کا بڑے عرصہ سے یہ مزاج بن گیا ہے کہ آخر وقت پر جا کر اپنے چندوں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جو لازمی چندے ہیں وہ تو آپ کو ہر ماہ ادا کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں ادائیگی کا بوجھ نہ پڑے۔ اور اس سے فائدہ یہ ہے کہ باقاعدہ چندہ دینے کا اور باقاعدہ قربانی کرنے کا جو ثواب ہے وہ بھی آپ حاصل کرنے والے ہوں گے۔
ماہوار چندوں کی ادائیگی کے سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ سو اے اسلام کے ذی مقتدرت لوگو! دیکھو میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیتاہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانے کی جو خداتعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہئے اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظر عزت دیکھ کر بہت جلد حق خدمت اداکرنا چاہئے۔ جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حقِ واجب اور دَینِ لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضے کو خالصتاً للہ نذر مقرر کرکے اس کے ادا میں تخلف یا سہل انگاری کو روا نہ رکھے۔ اور جو شخص یک مشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے۔ لیکن یاد رہے کہ اصل مدعا جس پر اس سلسلہ کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے وہ یہی انتظام ہے کہ سچے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اوراپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہوار ی کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرا لیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں ‘‘۔ یعنی سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو جائے عام طور پر جو آسانی سے ادا کر سکتے ہیں ماہوار چندے ادا کیا کریں۔ ’’ہاں جس کو اللہ جلّشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندے کے اپنی وسعت، ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یک مشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے۔ اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سر سبز شاخو! جو خداتعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال ا س راہ میں فدا کر رہے ہو۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے۔ لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا، تاکہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں ‘‘۔ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 34-33)
پس ہر احمدی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اپنی مالی قربانیوں کو باقاعدہ رکھے تاکہ ساتھ ساتھ تزکیہ نفس بھی ہوتا رہے۔ خلافت ثانیہ کے ابتدا میں جب سے چندہ عام کی ایک شرح مقرر ہو چکی ہے یعنی 1/16کے لحاظ سے۔ تو ہر احمدی کو اس کے مطابق چندہ دینا چاہئے اور چندہ دیتا ہے۔ لیکن اگر مالی حالات اجازت نہ دیں تو اسی اجازت کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے چھوٹ مل سکتی ہے۔ لیکن ہمیشہ ہر احمدی کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توفیقوں کو جانتا ہے۔ اس لئے تقویٰ پر چلتے ہوئے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اپنے چندوں میں کمی کرنی چاہئے تو بے شک کریں لیکن اس کے لئے جماعت میں طریق ہے کہ خلیفۂ وقت سے اجازت لے لیں کہ میرے حالات ایسے ہیں جس کی وجہ سے میں پوری شرح سے چندہ نہیں دے سکتا، ادائیگی نہیں کر سکتا۔لیکن اپنے آپ کو مکمل طور پر مالی قربانی سے فارغ نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ اس طرف توجہ دلائی ہے اور ابتدا میں ہی (سورۃ بقرہ میں) متقیوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ نماز پڑھنے والے، عبادتیں کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں جو متقی ہیں۔ پس جب آپ استحکام خلافت اور استحکام جماعت کے لئے دعا مانگتے ہیں اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے دعائیں مانگتے ہیں تو ان حکموں پر عمل بھی کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے دئیے ہیں۔
پس ہر احمدی فکر سے اپنے بقایا جات صاف کرنے کی کوشش کرے۔ یہ جو چھ مہینے تک بقایا دار کی شرط ہے جماعت کا یہ قاعدہ ہے کہ یہ نہ ہو۔ تو یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو زمیندارہ کرتے ہیں، زمیندار ہیں جن کی فصلوں کی آمد چھ مہینے کے بعد ہوتی ہے۔ یا جو ایسے کاروباری ہیں جن کو کسی وقفے کے بعد یا کچھ عرصے کے بعد منافع ملتا ہے۔ ملازم پیشہ اور تاجر پیشہ جو لوگ ہیں جن کی ماہوار آمد ہے ان کو تو فکر کے ساتھ ہر ماہ چندوں کی ادائیگی کرنی چاہئے اور جماعت میں ہزاروں ایسے ہیں جو اس فکر کے ساتھ ادائیگی کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اپنے پیسوں میں برکت کے بیشمار نظارے دیکھتے ہیں۔ یہ جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک زمیندار کو اللہ تعالیٰ اس طر ح نوازتا تھا کہ اس کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تھی تو بادل کو حکم ہوتا تھا کہ فلاں جگہ برس اور اس کی ضرورت پوری کر۔ تو اس زمیندار کی یہی خوبی تھی کہ اپنی آمد میں سے وہ ایک حصہ علیحدہ کرکے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے رکھ لیتا تھا۔ تو کیا یہ قصہ روایتوں میں اس لئے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں سے یا پرانے لوگوں سے ایسا سلوک کرتا تھا اب اس کی یہ قدرت بند ہو گئی ہے!؟ اب اس کو یہ قدرت نہیں رہی؟ نہیں، بلکہ آج بھی وہ زندہ اور قائم خدا یہ نظارے بے شمار احمدیوں کو دکھاتا ہے۔ پس اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی راہ میں کی گئی قربانیوں کو خداتعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے۔ وہ لامحدود قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ دیتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا، لیکن تقویٰ اور نیک نیتی شرط ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں بعض اور تحریکات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں، ان کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک تو مریم شادی فنڈ ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ آخری تحریک تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بابرکت ثابت ہوئی ہے۔ بے شمار بچیوں کی شادیاں اس فنڈ سے کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ احباب حسب توفیق اس میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شروع میں جس طرح اس طرف توجہ پیدا ہوئی تھی اب اتنی توجہ نہیں رہی۔ جو لوگ مالی لحاظ سے اچھے ہیں، بہتر مالی حالات ہیں ان کو پتہ ہی نہیں کہ بچیوں کی شادیوں پر غریب لوگوں کے کتنے مسائل ہوتے ہیں۔
ایک تو میں عموماً لڑکے والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کا خوف کریں،ان کی بھی بچیاں ہوں گی، بلاوجہ کے مطالبے نہ کیا کریں۔ تقویٰ پر قدم ماریں۔ آپ بیٹے کی شادی کر رہے ہیں یا کوئی لڑکا اپنی مرضی سے اپنی شادی کرتا ہے۔ یہ شادی ہے کوئی کاروبار نہیں ہے کہ اتنا جہیز ہو گا، اتنا زیور ہو گا، اتنا سرمایہ ہو گا، اتنی فلاں چیز ہو گی تو شادی ہو گی۔ یہ سب دنیا کے دکھاوے کی چیزیں ہیں۔ ایک احمدی کو یہ زیب نہیں دیتیں۔ بعض ایسے خط بچیوں کی طرف سے آتے ہیں۔شادی کے بعد سسرال کی طرف سے بھی اور لڑکے کی طرف سے بھی یہ طعنے ملتے ہیں کہ کچھ نہیں لے کے آئی۔ بعض لڑکے پاکستان سے بیاہ کرباہر آتے ہیں اور شاید اس سوچ کے ساتھ آ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے وہاں جاکے سب کچھ سسرال سے ہی لینا ہے۔وہ مطالبے شروع کر دیتے ہیں کہ گھر ہمارے نام کرو اور فلاں چیز ہمارے نام کرو یا فلاں چیز ہمیں دو۔ تو پھر بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنے عزیزوں کے زیر اثر اس طرح کے گھٹیا قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں۔ شرم آتی ہے۔ بعض ان میں سے اپنے آپ کو بڑے خاندانی بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ تو ایسے لڑکے اور ایسے خاندان اپنی اصلاح کریں اور خدا کا خوف کریں ورنہ بہتر ہے کہ ایسے گھٹیا لوگ جماعت سے قطع تعلق کر لیں اور جماعت کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔
اب میں پھر پہلی بات کی طرف آتا ہوں۔ غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ اندازہ نہیں ہے۔ اب مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بھی بہت بڑھ رہے ہیں اس لئے توجہ دینی چاہئے۔ جو لوگ باہر کے ملکوں میں ہیں اپنے بچوں کی شادیوں پر بے شمار خرچ کرتے ہیں۔ اگر ساتھ ہی پاکستان، ہندوستان یا دوسرے غریب ممالک میں غریب بچوں کی شادیوں کے لئے کوئی رقم مخصوص کر دیا کریں تو جہاں وہ ایک گھر کی خوشیوں کا سامان کر رہے ہوں گے وہاں یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہو گا جو ان کے بچوں کی خوشیوں کی بھی ضمانت ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نیکیوں کوضائع نہیں کرتا۔ پھر بعض صاحب حیثیت لوگوں میں بے تحاشا نمود و نمائش اور خرچ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ شادیوں پر بے شمار خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی کئی قسم کے کھانے پک رہے ہوتے ہیں جو اکثر ضائع ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے جب خاص طور پر پاکستان میں جا کر شادیاں کرتے ہیں اگر سادگی سے شادی کریں اور بچت سے کسی غریب کی شادی کے لئے رقم دیں تو وہ اللہ کی رضا حاصل کر رہے ہوں گے۔
کھانوں کے علاوہ شادی کارڈوں پر بھی بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے۔ دعوت نامہ تو پاکستان میں ایک روپے میں بھی چَھپ جاتا ہے۔ یہاں بھی بالکل معمولی سا پانچ سا ت پینس (Pens) میں چھپ جاتا ہے۔ تو دعوت نامہ ہی بھیجنا ہے کوئی نمائش تو نہیں کرنی۔ لیکن بلاوجہ مہنگے مہنگے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں۔پوچھو تو کہتے ہیں کہ بڑا سستا چھپا ہے۔ صرف پچاس روپے میں۔ اب یہ صرف پچاس روپے جو ہیں اگر کارڈ پانچ سو کی تعداد میں چھپوائے گئے ہیں تویہ پاکستان میں پچیس ہزار روپے بنتے ہیں اور پچیس ہزار روپے اگر کسی غریب کو شادی کے موقع پر ملیں تو وہ خوشی اور شکرانے کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ تو اس طرح بے شمار جگہیں ہیں جہاں بچت کی جا سکتی ہے۔ اور جن کو اتنی توفیق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم بچیوں کی شادیوں میں بھی مدد کر سکتے ہیں اس لئے ہمیں اس قسم کی چھوٹی بچت کی ضرورت نہیں ہے تو پھر ایسے لوگوں کو کم از کم جو خرچ وہ اپنے بچوں کی شادی پر کرتے ہیں اس کا ایک فیصد تو غریب کی شادی کی مدد کے لئے چندہ دینا چاہئے۔ پاکستان میں بھی بہت سے لوگ ہیں جو بڑی فضول خرچی کرتے ہیں۔ کچھ باہر سے جا کر کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ وہاں رہنے والے کر رہے ہوتے ہیں۔ یا جوفضول خرچی نہیں بھی کرتے ان کی ایسی توفیق ہوتی ہے کہ بچوں کی شادی میں مدد کر سکیں۔ ان سب کو آگے آنا چاہئے اور اس نیک کام میں حصہ لینا چاہئے۔عموماً ایک غریبانہ شادی پچیس تیس ہزار روپے کی مدد سے ہو جاتی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو انہوں نے خود بھی کیا ہوتا ہے۔ اتنی مدد ہو جائے تو لوگوں کی بڑی مدد ہو جاتی ہے۔ تو پھر یہ غریب آدمی کے لئے سکون کا باعث بن رہی ہوتی ہے اور آپ کو دعاؤں کا وارث بنا رہی ہوتی ہے۔ بہرحال ہر ایک کو حسب توفیق اس فنڈ میں ضرور حصہ لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔
دوسرے میں اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ سپین میں نئی مسجد کی تعمیر کا میں نے اعلان کیا تھا اور سپین کی جماعت کے محدود وسائل کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس میں حصہ لینے کی تحریک کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین نے اس میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا۔ بڑی تعداد میں وعدے آئے۔ الحمدللہ۔ اور کچھ احباب نے اپنے وعدے تو پورے بھی کر دئیے یا کچھ حصہ ادا کر دیا۔ لیکن ابھی کافی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے وعدے قابل ادا ہیں۔ اب وہاں ایک جگہ پسند آئی ہے اور سودا ہو رہا ہے۔ ویلنسیا سے کوئی پندرہ سولہ کلو میٹر پہ مین ہائی وے کے اوپر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور ہائی وے کے اوپر ہی ایک پلاٹ ہے۔ اس میں تعمیرشدہ ایک چھوٹی سی مضبوط عمارت بھی ہے جو رہائش کے لئے استعمال ہو سکتی ہے۔ بہرحال وہاں خالی جگہ بھی کافی ہے۔ وہاں مسجد کا پلان انشاء اللہ بن رہا ہے۔ تعمیر شروع ہو جائے گی۔ اللہ کرے کونسل کی طرف سے اجازت بھی مل جائے۔ اسی طرح اس کے ساتھ ایک اور خالی پلاٹ بھی ہے جو کونے (Corner) کا پلاٹ ہے۔ میں نے انہیں کہا ہے کہ وہ بھی خریدنے کی کوشش کریں۔ اس طرح اس پلاٹ کو دو طرف سے سڑک مل جائے گی۔ پہلا پلاٹ 2800مربع میٹر کا ہے۔ اگر دوسرا بھی مل گیا تو انشاء اللہ 5000مربع میٹر سے اوپر جگہ بن جائے گی جو انشاء اللہ تقریباً ایک ایکڑ سے زیادہ جگہ ہے۔ اللہ کرے کہ یہ سودا بھی جلد ہو جائے تاکہ وہاں مسجد کی تعمیر جلدی شروع کی جا سکے۔ تو جیسا کہ میں نے کہا جن لوگوں نے اس تحریک میں وعدہ کیا ہے ان سے درخواست ہے کہ اپنے وعدے پورے کریں۔ لیکن یاد رکھیں کہ لازمی چندہ جات یعنی چندہ عام وغیرہ کو پیچھے رکھ کر یہ ادائیگی نہیں کرنی۔ پہلے بہرحال لازمی چندہ جات ضروری ہیں۔ اور انہوں نے ہی وعدے کئے ہیں جن کو توفیق تھی۔ مجھے امید ہے وہ آسانی سے ادا کر سکتے ہیں۔
اسی کے ساتھ آج میں جرمنی والوں کو بھی توجہ دلا دوں۔ ان کی 100مساجد کی رفتار بھی بڑی سست ہے۔ ان کو بھی چاہئے کہ اپنے کام میں تیزی پیدا کریں۔ دنیا میں بڑی تیزی سے مسجدیں بن رہی ہیں۔
تیسرے میں آج ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں خاص طور پر جماعت کے ڈاکٹرز کو اور دوسرے احباب بھی عموماً، اگر شامل ہونا چاہیں تو حسب توفیق شامل ہو سکتے ہیں، جن کو توفیق ہو، گنجائش ہو۔ یہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ربوہ میں خلافت رابعہ کے شروع میں یہ خواہش تھی کہ یہاں ایک ایسا ادارہ ہو جو اس علاقے میں دل کی بیماریوں کے علاج کے لئے سہولت میسر کر سکے۔ اس دور میں کچھ بات چلی بھی تھی لیکن پھر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ بہرحا ل میرا خیال ہے کہ آخری دنوں میں حضور کی اس طرف دوبارہ توجہ ہوئی تھی لیکن خلافت خامسہ کے شروع میں اس پر کام شروع ہوا۔ ایک ہمارے احمدی بھائی ہیں انہوں نے اپنے والدین کی طرف سے خرچ اٹھانے کی حامی بھری۔ پھر امریکہ کے ایک احمدی ڈاکٹر بھی اس میں شامل ہوئے۔ انہوں نے خواہش کی کہ میں بھی شامل ہونا چاہتا ہوں۔ بہرحال نقشے وغیرہ بنائے گئے اور بڑی خوبصورت ایک چھ منزلہ عمارت تعمیر کی جا رہی ہے جو اپنی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے اور اس فیلڈ کے ڈاکٹر ماہرین کے مشوروں سے یہ سارا کام ہوا ہے۔ وہ اس میں شامل ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر نوری صاحب سے مشورہ لیا گیا ہے۔ ایک ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے کیسی کیسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرکزی کمیٹی میں شامل بھی ہیں۔ مستقل وقت دیتے ہیں ماشاء اللہ۔ پھر جو نقشے انہوں نے بنوانے تھے جیسا کہ میں نے کہا وہ چھ منزلہ عمارت کے تھے جس میں تمام متعلقہ سہولتیں رکھی گئی تھیں جو دل کے ایک ہسپتال کے لئے ضروری ہیں۔ تو اس وقت انہوں نے جوتخمینہ دیا تھا، جو اندازہ خرچ دیا تھا اس وقت بھی اس رقم سے زیادہ تھا جس کی ان دو صاحبان نے (جن کا میں نے ذکر کیا) دینے کی حامی بھری تھی۔ تو انتظامیہ کچھ پریشان تھی۔میں نے انہیں کہا کہ یہ نقشے جو بنائے گئے ہیں جن کی میں نے منظوری دی تھی اسی کی منظوری دیتا ہوں۔اللہ کا نام لے کر اسی کے مطابق کام کریں۔ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا، فضل فرمائے گا۔ پھر کچھ اور لوگ بھی اس میں شامل ہوتے رہے اور اب جہاں تک عمارت کا تعلق ہے وہ قریباً مکمل ہو چکی ہے،جلدچند مہینوں میں ہو جائے گی۔ اس تعمیر میں (بتا چکا ہوں) کچھ لوگوں نے حصہ بھی لیا۔ اور فضل عمر ہسپتال کی انتظامیہ نے بڑی محنت سے اور ہر جگہ پر جہاں بچت ہو سکتی تھی جہاں ضرورت تھی، انہوں نے بچت کرائی اور تعمیرکروانے میں احتیاط کی۔ خاص طور پر ڈاکٹر نوری صاحب کے ٹیکنیکل مشورے بھی باقاعدہ ہر قدم پر ملتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔لیکن اب جو ایکوپمنٹ (Equipment) اور سامان وغیرہ ہسپتال کا آنا ہے وہ کافی قیمتی ہے۔ میں نے انہیں کہا ہے کہ جیسے جیسے رقم کا انتظام ہوتا جائے گایہ فیزز (Phases) میں خریدیں۔ لیکن ابتدائی کام کے لئے بھی کافی بڑی رقم کی ضرورت ہے۔
اس لئے میں احمدی ڈاکٹروں سے خصوصاً کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر بڑا فضل فرمایا ہے اور خاص طور پر امریکہ اور یورپ کے جو ڈاکٹر صاحبان ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بعض ایسے ڈاکٹرز ہیں جو مالی لحاظ سے بہت اچھی حالت میں ہیں۔ اگر آپ لوگ خدا کی رضا حاصل کرنے اور غریب انسانیت کی خدمت کے لئے اس ہارٹ انسٹیٹیوٹ کو مکمل کرنے میں حصہ لیں تو یقینا آپ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن کو خدا بے انتہا نوازتا ہے اور ان کے اس فعل کا اجراس کے وعدوں کے مطابق خدا کے پاس بے انتہا ہے۔ کوشش کریں کہ جو وعدے کریں انہیں جلد پورا بھی کریں۔ اس ادارے کو مکمل کرنے کی میری بھی شدید خواہش ہے۔ کیونکہ میرے وقت میں شروع ہوا اور انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ سے امید ہے وہ خواہش پوری کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ موقع دے رہا ہے کہ اس نیک کام میں، اس کار خیر میں حصہ لیں اور شامل ہو جائیں اور اس علاقے کے بیمار اور دکھی لوگوں کی دعائیں لیں۔ آجکل دل کی بیماریاں بھی زیادہ ہیں۔ ہر ایک کو علم ہے کہ ہر جگہ بے انتہا ہو گئی ہیں اور پھر علاج بھی اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی تو افورڈ (Afford)کر ہی نہیں سکتا۔ ایک غریب آدمی تو علاج کروا ہی نہیں سکتا۔ پس غریبوں کی دعائیں لینے کا ایک بہترین موقع ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کو دے رہا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم وہ آخرین ہیں جنہوں نے نیکی کے ہر میدان میں پہلوں سے ملنا ہے، ہم اپنے دعوے میں تبھی سچے ثابت ہو سکتے ہیں جب ان نیکی کے کاموں میں ان مثالوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو پہلوں نے ہمارے لئے قائم کی ہیں۔ وہ لوگ تو امیر ہوں یا غریب کسی بھی مالی تحریک پر بے چین ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مال پیش کیا کرتے تھے۔ محنت کرتے تھے، مزدوری کرتے تھے اور اپنی استعدادوں کے مطابق قربانی پیش کرتے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو بے انتہا نوازا اور اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ان قربانیوں کا ذکر حدیث میں یوں آتا ہے۔
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار چلا جاتا جہاں وہ محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طورپر جو ایک مُدّ اناج وغیرہ ملتا۔ چھوٹی موٹی جومزدوری وغیرہ ملتی تھی، اللہ کی راہ میں خرچ کرتا۔ اور اب ان کا یہ حال ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ہیں ‘‘۔ (بخاری کتاب الأجارہ۔باب من آجر نفسہ لیحمل علی ظھرہ ثمّ تصدق بہ)
تو اس اُسوہ پر چلتے ہوئے قربانیوں کے نظارے جماعت احمدیہ میں بھی نظر آتے ہیں۔ پس آج بھی ان نظاروں کو ختم نہ ہونے دیں اور خدمت انسانیت کے اس اہم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
جہاں تک انسٹیٹیوٹ کے لئے ڈاکٹرز کا تعلق ہے، ہمارے امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے مستقل وقف کیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ جلد ربوہ پہنچ جائیں گے۔ دوسرے یہاں بھی بعض نوجوان واقفین زندگی ڈاکٹرز تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو اپنی تعلیم مکمل ہونے پر وہاں چلے جائیں گے۔اور پاکستان میں بھی بعض نوجوان ہیں جنہوں نے وقف کیا ہے ٹریننگ لے رہے ہیں۔ اور اسی طرح ڈاکٹر نوری صاحب کی سرپرستی میں انشاء اللہ یہ ادارہ چلتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمراور صحت میں بھی برکت ڈالے۔ اور پھر یہ ادارہ مکمل ہونے کے بعدمیں دوسرے سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی وقف عارضی کرکے یہاں آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ، انشاء اللّٰہ ان کی قربانیوں کے بدلے ضرور دے گا، اجر ضرور دے گا۔ اور دعا کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ اس ادارے کو بہت کامیاب ادارہ بنائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خداتعالیٰ سے بھی۔ صرف ایک محبت کر سکتے ہو، پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے۔ اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کرکے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خداکے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جوشخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا۔ لیکن جو شخص مال سے محبت کرکے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا‘‘۔ یعنی اس کا مال ضائع ہو جائے گا۔’’ یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خداتعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو۔بلکہ یہ اُس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ا گر تم سب مجھے چھوڑ دو اورخدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی۔ تم یقینا سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے۔ اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں۔ میں بار بار تم کو کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں۔ ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 498-497)
اللہ کرے کہ کبھی کسی احمدی کے دل میں قربانی کرنے کے بعد تکبرپیدا نہ ہو۔ اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کو ایک اعزاز سمجھے، ایک فضل سمجھے، اور ہمیشہ کی طرح وہ قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتا چلا جائے۔اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننے والا ٹھہرے، نہ کہ آپ کی ناراضگی سے حصہ پانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا کہ: میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ کل انشاء اللہ تعالیٰ میں کینیڈا کے سفرکے لئے روانہ ہو رہا ہوں۔ وہاں جلسہ بھی ہے اور بہت سارے دوسرے پراجیکٹس بھی ہیں ، مساجد اور مشن ہاؤسز کے افتتاح یا سنگ بنیاد وغیرہ۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ کامیاب کرے۔ اور اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتا رہے۔آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں