صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (ائمۃ الکفرکے انجام کی روشنی میں)

اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات کاظہور اُس کے مامورین کے منکرین و مخالفین کی تباہی و بربادی، ذلّت اور ہلاکت کے ذریعہ ہوتا چلا آیا ہے۔ ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 15 تا 22 مارچ 2012ء (مسیح موعودؑ نمبر) میں مکرم سید آفتاب احمد صاحب کی اس حوالے سے ایک تقریر شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

زُعم میں اُن کے مسیحائی کا دعویٰ میرا
افتراء ہے جسے از خود ہی بنایا ہم نے
کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں
نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے

تاریخ گواہ ہے کہ خداوند ذوالجلال کے مامورین باموسم آتے ہیں اور باموسم ہی جاتے ہیں۔ یہ ایسے کونے کے پتھر کی مانند ہوتے ہیں کہ جس پر یہ گرے اُنہیں پیس ڈالتا ہے اور جو اِن پر گرے وہ چکناچور ہوجایا کرتا ہے۔ البتہ بعض جگہ مہلت بھی ملتی ہے مگر بالآخر تباہی و بربادی ہی مقدّر ہوتی ہے۔ اور محض عبرت کے لیے بعض کے نام اور عبرتناک انجام کا ذکر محفوظ رکھا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کی باتوں کو جھٹلاوے۔
نیز فرمایا : تجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں اُن کے ساتھ بھی ہنسی اور ٹھٹھا کیا گیا مگر آخر یہ ہوا کہ وہ لوگ جو اُن میں خاص طور پر ٹھٹھا کرنے والے تھے اُن کو اُن چیزوں نے گھیر لیا جن سے وہ ہنسی کرتے تھے۔ تُو کہہ دے کہ جاؤ زمین میں خوب پھرو اور دیکھو کہ خدا کے نبیوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی خدا کے مامورین کے سلسلے کی ایک کڑی تھے جو اپنے پیشرو مامورین کی طرح دونوں خوبیاں رکھتے تھے اوّل تعلق باللہ اور دوم مخلوق سے گہری شفقت۔ اسی وجہ سے منکرین کو ہلاکت سے محفوظ اور عافیت کے حصار میں رکھنے کے لئے آپؑ نے فرمایا:
’’مَیں بکمال ادب و انکسار حضرات علماء مسلمانان و علماءِ عیسائیان و پنڈتانِ ہندوان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتا ہوں کہ میں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دُنیا میں بھیجا گیا ہوں اور میرا قدم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہے۔ اِنہی معنوں سے میں مسیح موعود کہلاتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دنیا میں پھیلاؤں۔…… اور مَیں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے اُن تمام غلطیوں کو مسلمانوں سے دُور کردوں اور پاک اخلاق اور بُردباری اور حلم اور انصاف اور راستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلاؤں۔ مَیں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دُنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ مَیں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اُس سے بڑھ کر۔ مَیں صرف اُن باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اُصول۔‘‘ (اربعین صفحہ 2-1)
پھر بحیثیت نذیر آپؑ نے یہ بھی فرمایا :
’’میرے پر ایسی رات کوئی کم گزرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلّی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں۔ اگرچہ جو لوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے۔ لیکن مجھے اُس کے منہ کی قسم ہے کہ مَیں اب بھی اُس کو دیکھ رہا ہوں۔ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ مَیں وہ درخت ہوں جس کو مالکِ حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اِسکریوطی اور ابوجہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 8، 9)
حقیقت یہ ہے کہ مامورین کا انکار و استہزاء کرنے والوں کا عبرتناک انجام ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اگر خود کو سچا نہ سمجھتے تو اپنی ایک فارسی نظم میں یہ دعا نہ کرتے کہ اَے میرے قادر! …اَے دلوں کے بھیدوں کو جاننے والے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں! اگر تُو مجھے شر اور فسق و فساد سے بھرا ہوا پاتا ہے اور اگر تو یہ دیکھتا ہے کہ میں ایک بدطینت اور گندہ آدمی ہوں تو اَے خدا تو مجھ بدکار کو پارہ پارہ کرکے ہلاک و برباد کردے۔ (حقیقۃُالمہدی روحانی خزائن جلد 14)
پھر امرتسر کی عید گاہ میں بھی ایک موقع پر بندگانِ خدا کے سامنے اپنے متعلق خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اگر مَیں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں تو مجھے ہلاک کردے اور پھر اپنے معتقدات پر ایک مؤثر تقریر فرمائی جسے سُن کر مولوی عبداللہ غزنوی کے ایک شاگرد منشی محمد یعقوب صاحب سابق اووَرسِیَر محکمہ نہر نے مجمع عام میں بیعت کرلی۔
تاہم جو بدنصیب پھر بھی انکار اور استہزاء دکھاتے رہے اُن کے بارے میں حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ بڑے بڑے مکفرین کو خدا تعالیٰ ہمارے سامنے ہی اس زمین سے ناکام اُٹھا رہا ہے اور اُن کی مرادوں کے برخلاف دن بدن اس سلسلہ کو ترقی دے رہا ہے۔ ابتداء میں جن لوگوں نے بہت زور شور سے مخالفت کا بیڑا اُٹھایا تھا اُن میں سے کوئی چودہ پندرہ ایسے یاد ہیں جو ہماری مخالفت کے معاملے میں ناکام مرچکے ہیں۔اُن میں مولوی غلام دستگیر قصوری تھا جو مکّہ سے کفر کا فتویٰ لایا تھا۔ نواب صدیق حسن خان لکھوکے کا، مولوی محمد اور عبدالحئی، رشید احمد گنگوہی، لدھیانہ کے تین مولوی، سید احمد خان جو کہتا تھا کہ ہماری تحریریں بے فائدہ ہیں۔ محمد عمر، مولوی شاہ دین لدھیانوی، نذیر حسین دہلوی، محمد حسین بھینی، مولوی محمد اسماعیل علیگڑھی، رُسُل بابا امرتسری۔جس نے جلد معجزہ دیکھنا ہو اُسے چاہئے کہ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرے یا تو سخت مخالف بنے یا محبت کا کمال تعلق پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو تیری اہانت کرے گا اُس کی میں اہانت کروں گا اور جو تیری عنایت کرے گا اُس کی مَیں عنایت کروں گا۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 363-362)
الہام

اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ

کا چیلنج عام مخالفین کے لئے تو تھا ہی مگر خاص مخاطب مولوی محمد حسین بٹالوی تھے جو فرقہ اہل حدیث کے لیڈر تھے اور حضورؑ کے بچپن کے واقف تھے اور جنہوں نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت پر ریویو لکھتے ہوئے آپؑ کی اسلام کے لیے خدمات کو بے نظیر قرار دیا تھا۔ لیکن دشمنی میں اُنہوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ یہ میرے ریویوپر نازاں ہے۔ میں نے ہی اس کو بڑھایا ہے اور میں ہی اب اس کو گرادوں گا۔ یہ عزم کر کے مولوی صاحب نے ہندوستان بھر کے بیسیوں علماء سے آپؑ کے کفر کا فتویٰ لیا۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد مولوی صاحب کی ہی عزّت لوگوں کے دلوں سے اللہ تعالیٰ نے یوں مٹانی شروع کی کہ پہلے لاہور کے بازار میں وہ نکلتے تو تاحدنظر لوگ ان کے احترام میں کھڑے نظر آیا کرتے تھے، غیر مذہب کے لوگ بھی مسلمانوں کو دیکھ کر ان کا ادب کرتے تھے۔ اور گورنر و گورنرجنرل اُن سے عزّت سے ملتے تھے۔ مگر فتویٰ شائع کروانے کے بعد نوبت پہنچی کہ خود اہل حدیث کے لوگوں نے بھی اُن کو چھوڑ دیا جن کے وہ لیڈر کہلاتے تھے۔ اور دیکھا گیا کہ اسٹیشن پر اکیلے اپنا اسباب اپنی بغل اور پیٹھ پر اُٹھائے ہوئے چلے جارہے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں۔ لوگوں میں بے اعتباری اس قدر بڑھ گئی کہ بازار والوں نے سودا تک دینا بند کردیا۔ گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا۔ بعض لڑکوں نے اور بیویوں نے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ ایک لڑکا اسلام سے مُرتد ہوگیا۔ غرض تمام قسم کی عزتوں سے ہاتھ دھوکر اور عبرت کا نمونہ دکھاکر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ 1991ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے یہ تحقیق کروائی کہ محمد حسین بٹالوی کا بٹالہ میں بھی کوئی نام و نشان ہے یا نہیں۔ تب کوئی واقف کار ملا اور نہ قبر کا پتہ لگا۔
حیران کُن امر یہ ہے کہ جن معاندین نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ہلاک کرے اُن کو آپؑ کی زندگی میں ہی ہلاک کردیا گیا۔ اور جن لوگوں نے یوں کہا کہ جھوٹے کا سچے کی زندگی میں ہلاک ہوجانا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ جھوٹے کو لمبی مہلت دی جاتی ہے جیسا کہ مسیلمہ کذاب رسول اللہ ﷺ کے بعد ہلاک ہوا، اُن کو اللہ تعالیٰ نے مہلت دی۔ چنانچہ مولوی ثناء اللہ امرتسری جو اخبار اہل حدیث کے ایڈیٹر اور فرقہ اہل حدیث کے لیڈر کہلاتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی دعوت مباہلہ کے جواب میں اپنے اخبار میں متواتر لکھنے لگے کہ یہ ہرگز کوئی معیار نہیں کہ سچے کی زندگی میں جھوٹا مرے۔ اور اُنہوں نے مسیلمہ کذاب کی مثال دے کر کہا کہ خدا تعالیٰ کا فعل بھی اسی کی شہادت دیتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُن کو اُن کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق پکڑا اور وہ حضورؑ کی وفات کے بعد زندہ رہے اور اپنی تحریر کے مطابق مسیلمہ کذاب کے مثیل ثابت ہوئے۔ اُن کی لمبی زندگی کی کہانی تب ختم ہوئی جب قیام پاکستان کے وقت فسادات میں ان کا اکلوتا بیٹا ان کی نظروں کے سامنے قتل کیا گیا اور نایاب کتب کا ذخیرہ نذرِ آتش کیا گیا۔ ان کے سیرت نگار مولانا عبدالمجید سوہدروی کے مطابق یہ دونوں صدمات اُن کی موت کا سبب بنے۔
معاندِ احمدیت مولوی عبد الرحیم اشرف تلخ انجام کے سلسلے کو دیکھ کر حسرت سے لکھتے ہیں: ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا۔ لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم ہوتی گئی۔ مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا اُن میں سے اکثر تقویٰ، تعلق باللہ، دیانت، خلوص،علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیت رکھتے تھے۔ سید نذیر حسین دہلوی، مولانا انور شاہ دیوبندی، مولانا قاضی سلیمان منصورپوری، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رَحِمَھُمُ اللّہ وَ غَفَرَلَھُمْ کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر و رسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں۔ اگرچہ یہ الفاظ سُننے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخی پر مجبور ہیں کہ اِن اکابر کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے۔ (اخبار ‘‘اَلمُنِیر‘‘ لائل پور 23فروری 1956ء)
حضرت مسیح موعودؑ نے ’’انجام آتھم‘‘ میں تمام علماء گدّی نشینوں اور پیروں کو ’’آخری فیصلہ‘‘ (مباہلہ) کی دعوت دے کر فرمایا کہ فریقین ایک دوسرے کے حق میں بددُعا کریں کہ فریقین میں سے جو جھوٹا ہے، اَے خُدا تو اُس کو ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دُکھ کی مار میں مبتلا کر، کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگِ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔ اور اس کے بعد لکھا : ’’گواہ رہ اَے زمین اور اَے آسمان! کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ توہین و تکفیر کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو۔‘‘
پس خداوندذوالجلال نے سن لیا اور دنیا نے یہ عجیب کرشمۂ قدرت دیکھا کہ آپؑ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ بے اثر ثابت نہیں ہوئے ۔ چنانچہ مولوی رشید احمد گنگوہی اندھے ہوئے پھر سانپ کے ڈسنے سے مرے۔ مشہور مکفّرین مولوی عبدالعزیز اور مولوی محمد لدھیانوی صرف تیرہ دن کے وقفے سے مر گئے اوران کا پورا خاندان اُجڑ گیا۔ مولوی سعداللہ نومسلم اور رُسُل بابا طاعون کا شکار ہوئے۔ مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب ‘‘فتح رحمانی’’ میں حضور علیہ السلام کے خلاف بددُعا کی اور وہ کتاب کی اشاعت سے قبل ہی لقمۂ اجل بن گیا۔
غرض اکثر معاندین آپؑ کی زندگی میں تباہ و برباد ہوچکے تھے اور جو زندہ تھے وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار تھے۔ آپؑ کی وفات کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ امرتسری سلسلہ احمدیہ کے عروج کا مشاہدہ کرنے کے لئے دیر تک زندہ رہے اور بالآخر اوّل الذکر پے درپے صدمات میں مبتلا ہوکر فالج سے راہیٔ ملک عدم ہوئے۔
پھر حضرت اقدسؑ کی صداقت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاعون کا نشان بھیجا گیا اور امر واقعہ یہ ہے کہ
(1) مولوی رُسُل بابا امرتسری جس نے حضورؑ کے خلاف گندی کتاب لکھی اور بدزبانی سے کام لیا تھا طاعون کا شکار ہوا۔
(2) موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد میں ایک شخص نور احمد رہتا تھا جس نے تعلّی کی کہ طاعون ہمیں نہیں مرزا صاحب کو ہلاک کرنے آئی ہے۔ اس پر ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ وہ مرگیا۔
(3) مولوی زین العابدین نے ایک احمدی سے مباہلہ کیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد وہ خود اور اس کی بیوی اور داماد وغیرہ سمیت گھر کے 70؍افراد طاعون کا شکار ہوگئے۔
(4) حافظ سلطان سیالکوٹی اپنے خاندان کے نو دس افراد سمیت طاعون کے باعث دنیا سے رخصت ہوا۔
(5) حکیم محمد شفیع سیالکوٹی طاعون کا شکار ہوا اور اس کی بیوی اس کی والدہ اور اس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرگئے ۔
(6) مرزا سردار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ دہنی اور شوخی میں بڑھ گیا تھا طاعون میں مبتلا ہوا۔
(7) چراغ دین جمونی اپنی گستاخیوں کی پاداش میں ہلاک ہوا۔
(8) مولوی محمد ابوالحسن نے حضرت اقدس علیہ السلام کے خلاف ایک کتاب بعنوان ’’بجلی آسمان برسردجال قادیانی‘‘ لکھی جس میں کئی مقامات پر کاذب کی موت کے لیے بد دُعا کی۔ آخر جلد ہی طاعون سے مرگیا۔
(9) ابوالحسن عبد الکریم نے جب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا چاہا تو وہ بھی طاعون کا شکار ہوگیا۔
(10) فقیر مرزا آف دوالمیال ضلع جہلم نے آپؑ کے خلاف بدزبانی کر کے 7رمضان المبارک 1321ہجری کو یہ تحریری پیشگوئی کی کہ حضورؑ کا سلسلہ 27رمضان تک ٹوٹ پھوٹ جاوے گا اور بڑی سخت درجہ کی ذلّت وارد ہوگی۔
تب وہ رمضان تو گزر گیا لیکن اگلے سال کا رمضان آیا تو اُس کے محلہ میں طاعون نمودار ہوئی اور پہلے اس کی بیوی پھر خود فقیر مرزا سخت طاعون میں مبتلا ہوکر (اپنی پیشگوئی کے عین ایک سال بعد) 7؍رمضان (16؍نومبر 1904ء) کو ناکامی اور نامُرادی کا منہ دیکھتے ہوئے مر گیا۔ الغرض ؎

تُو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے
تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار

حضرت اقدسؑ کی تکذیب انفرادی طور پر بھی کی گئی اور اجتماعی رنگ میں بھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی آپ کی صداقت کے لیے اسی طرح چلی یعنی انفرادی عذاب کی شکل میں بھی اور اجتماعی عذاب کی شکل میں بھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ بستیاں جن کو ہم نے ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کر دیا ہے۔ اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے پہلے سے ایک میعاد مقرر کر دی تھی تا وہ چاہیں تو توبہ کرلیں۔ (الکہف:60)۔ چنانچہ اس تقدیر کے مطابق حضورؑ کی زندگی میں ہی 1896ء سے 1906ء تک ہندوستان میں زلزلے اور طاعون کے عذاب سے 38لاکھ 68ہزار 124؍اموات ہوئیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کو ملنے والی کچھ ایسی اخبار غیبیہ تھیں جن کے پوراہونے کا تعلق مستقبل سے تھا۔ مثلاً کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں تحریر فرمایا کہ : ایک شخص کی موت کی نسبت خدائے تعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ

کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ

یعنی وہ کتا ہے اور کتے کے عدد پر مرے گا جو 52سال پر دلالت کررہے ہیں۔ یعنی اس کی عمر 52سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔ جب 52سال کے اندر قدم دھرے گا تب اس سال کے اندر اندر راہی ملک بقا ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1956ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا : ’’مَیں ایسے شخص کو جسے خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائے گا تو …اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی۔‘‘ (خلافت حقہ اسلامیہ)
چنانچہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ جب خلیفۃالمسیح الثالث منتخب ہوئے تو معاندینِ احمدیت نے عام ہجوم اور جتھوں سے اُوپر اُٹھ کر منتخب حکومت کو احمدیت کی مخالفت پر انگیخت کیا۔ المختصر یہ کہ نوّے سالہ مسئلے کو حل کرنے کا کریڈٹ لینے والا خود اپنی ہی قوم کے ہاتھوں بدکار اور قاتل قرار دے کر 5؍اپریل 1979ء کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا جب کہ اُس نے 52سال کی عمر میں قدم ابھی رکھا ہی تھا۔
احمدیت کا قافلہ تو فتح کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا لیکن مخالفین کی دشمنی میں شدّت آتی گئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کے دَور میں اٹھنے والے ایک اور فرعون نے احمدیہ جماعت کو کینسر قرار دیتے ہوئے کچل دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورؒ نے للکارتے ہوئے فرمایا :
’’اَے مذہب کے پاک سرچشمہ سے پھوٹنے والی لازوال محبت کو نفرت اور عناد میں تبدیل کرنے والو! اَے ہر نُور کو نار میں اور ہر رحمت کو زحمت میں بدلنے کے خواہاں بدقسمت لوگو جو انسان کہلاتے ہو! یاد رکھو کہ تمہاری ہر سفلی تدبیر خدائے برتر کی غالب تقدیر سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہوجائے گی۔ تمہارے سب ناپاک ارادے خاک میں ملادئیے جائیں گے اور رب اعلیٰ کی مقدر چٹان سے ٹکراکر اپنا ہی سر پھوڑو گے۔ تمہاری مخالفت کی ہر جھاگ اٹھاتی ہوئی لہر ساحل اسلام سے ٹکراکر ناکام لوٹے گی اور بکھر جائے گی اور اسے پیش قدمی کی اجازت نہیں ملے گی۔ اَے اسلام کے مقابل پر اٹھنے والی ظاہری اور مخفی،عیاں اور باطنی طاقتو سنو کہ تمہارے مقدر میں ناکامی اور پھر ناکامی اور پھر ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ اور دیکھو کہ اسلا م کے جاں نثار اور فدائی ہم وہ مردانِ حق ہیں جن کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں۔‘‘ (خطبات طاہر جلد دوم صفحہ 423-422)
پھر دنیا نے دیکھا کہ احکم الحاکمین کے حضور ایک مردِ حق کی طرف سے دُعائے مباہلہ سے ٹکرانے کے بعد اُس مضبوط ترین آمرِ وقت کا وجود آگ میں جل کر اُس کے سارے بدعزائم سمیت آسمان کی فضاؤں میں راکھ کی طرح بکھیردیا گیا۔ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر بھی ظاہر ہوئی کہ مُردہ قرار دیا جانے والا اسلم قریشی (جس کے مزعومہ ناکردہ قاتل کو ’گرفتار کرو‘ کے نعرے لگ رہے تھے) وہ زندہ ہوکر معاندینِ احمدیت کے باب میں ایک اَور شکست رقم کرگیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اکتوبر 2011ء میں فرماتے ہیں:
ہمارا خدا سچے وعدوں والا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے لے کر اب تک مخالفتوں کی آندھیاں چلتی رہیں یہاں تک کہ خلافت ثانیہ کے وقت احرار نے قادیان کی اینٹ سے اینٹ اُکھاڑنے کی بڑ ماری۔ کسی نے حکومت کے نشے میں احمدیوں کو کشکول پکڑانے کی بات کی۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟ آج احمدیت 200 ممالک میں قائم ہوچکی ہے۔ یہ سلسلہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ ہے۔ ہم ہر آن خدا کی تائید و نصرت کے حوالے دیکھ رہے ہیں۔ بس فکر اس بات کی ہے کہ ہم انابت الی اللہ کر رہے ہیں یا نہیں۔ اللہ کے حضور عاجزی کے ساتھ جھک رہے ہیں یا نہیں۔ ہم اپنے دلوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف ظالمانہ الفاظ پڑھ اور سن کر صرف بے چینی محسوس کرنے والے نہ ہوں بلکہ راتوں کی دعاؤں میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کو کھینچنے والے ہوں۔ اپنی سجدہ گاہوں کو تر کریں۔ ہم آنحضرت ﷺ کے خدا کو پکاریں، جس نے کمزوروں کو حاکم بنادیا۔ پس اَے خدا ہم تیری رحمت کا واسطہ دے کر آج تجھ سے مانگتے ہیں کہ یہ زمین جو ہمارے لئے تنگ کی جارہی ہے ہمارے لئے گل وگلزاربنادے۔ ہمیں تقویٰ میں ترقی کرنے والا بنا۔ اَے اَرحم الراحمین خدا تُو ہم پر رحم کرتے ہوئے فضل نازل فرما۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (ائمۃ الکفرکے انجام کی روشنی میں)” ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم، بہت اعلٰی مضمون ھے پڑھ کر علم میں اور اضافہ ھوا، جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ تحریر میں الفاظ کے حروف قریب قریب لکھے ھوں تو پڑھنے میں آسانی ھوتی ھے۔ اس تحریر میں کافی الفاظ ٹوٹے پھوٹے لگتے ہیں۔ بڑے غور سے پڑھنا پڑا ھے۔
    آئندہ احتیاط برتی جائے۔ اللہ حافظ
    والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں