مکرم محمود عالم ملک صاحب کی خودنوشت ’’سفر حیات‘‘

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مارچ اپریل 2011ء میں فرخ سلطان محمود کے قلم سے ایک کتاب ’’سفر حیات‘‘ پر تبصرہ شامل اشاعت ہے۔
اگرچہ سچائی کسی مصنوعی دلیل کی محتاج نہیں ہوتی تاہم سچائی کو قبول کرنا اور خصوصاً ایسی سچائی کو قبول کرنا جس کے نتیجے میں دنیاوی تکالیف اور مصائب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہو، قربانی کی حقیقی روح کی موجودگی کے بغیر ناممکن ہے۔ مکرم محمود عالم ملک صاحب نے اپنی زندگی کا طویل سفر اپنی ایک مختصر کتاب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ اِس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں لیکن آپ کا تعلق بھارت کے ایک پسماندہ علاقہ آڑہ سے ہے۔ آپ کو 1937ء میں حضرت مصلح موعودؓکے دست مبارک پر بیعت کی سعادت ملی۔ بعدازاں طویل عرصہ تک روہڑی (سندھ) میں صدر جماعت اور کچھ عرصہ امیر ضلع سکھر کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ یہ وہی دَور تھا جب آمر ضیاء الحق کے کالے قوانین کی وجہ سے معصوم احمدی ملک بھر میں تختۂ ستم بنائے جارہے تھے۔

مکرم محمود عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں قریباً 1921ء میں موضع آڑہ ضلع مونگھیر (صوبہ بہار) میں پیدا ہوا۔ میرے والد عبدالعزیز صاحب ملازمت کے علاوہ دیسی دواؤں اور ہومیوپیتھی میں حکمت بھی کیا کرتے تھے۔ مَیں نے آڑہ میں مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ پھر نامساعد حالات کی وجہ سے مروّجہ تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور چودہ میل دُور شیخ پورہ سے ایک سالہ ٹیچر ٹریننگ کورس کیا کیونکہ وہاں رہائش بھی ملتی تھی اور وظیفہ بھی۔ میری والدہ قبولِ احمدیت سے پہلے بھی نماز روزہ کی پابند تھیں۔ جب میرا ایک بھائی بچپن میں سکول کی سختی سے گھبراکر گھر سے بھاگ گیا تو میری والدہ نے تہجّد میں مسلسل دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف بھائی کی زندگی کی بشارت دی بلکہ غیرمتوقّع طور پر اُس کی واپسی کے سامان بھی پیدا فرمادیئے۔
ٹیچر ٹریننگ کورس کے دوران ہی مجھے اطلاع ملی کہ میرے بھائی مشتاق عالم صاحب نے کلکتہ میں احمدیت قبول کرلی ہے۔ اس کے تین ماہ بعد میرے والد بھی احمدی ہوگئے۔ اس کی صورت یوں پیدا ہوئی کہ آڑہ میں حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحبؓ کے ذریعہ احمدیت داخل ہوئی تھی جنہوں نے فوج کی ملازمت کے دوران قادیان جاکر اپنی فیملی سمیت بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ آڑہ سے ایک نوجوان حضرت مولوی محمد سلیمان صاحبؓ بھی بیعت کرنے پیدل قادیان گئے تھے۔ اِن دونوں کے توسّط سے آڑہ میں کئی خاندان احمدی ہوگئے۔ اکتوبر 1934ء میں احمدیوں کا غیراحمدیوں سے ایک دو روزہ مناظرہ بھی منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے نمائندہ حضرت مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی تھے۔ مناظرہ سے قبل ہی غیراحمدیوں نے فتویٰ دے دیا تھا کہ احمدیوں کی بات سننا کفر ہے۔ مناظرہ کے دوران بھی غیراحمدیوں کی طرف سے تضحیک کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ علمی دلائل کسی کو سمجھ شاید ہی آئے ہوں لیکن دل احمدیت کی طرف کئی لوگوں کے مائل ہوگئے اور اسی مناظرہ کے نتیجہ میں میرے والد بھی احمدی ہوگئے۔ مناظرہ کے بعد سنّی علماء نے مجھے اپنا لٹریچر دیا اور مشورہ دیا کہ اپنے احمدی بھائی اور باپ سے دُور رہوں۔ پھر آڑہ میں احمدیوں کا سوشل بائیکاٹ بھی کردیا گیا۔
گو مجھے مذہب سے زیادہ واقفیت نہ تھی لیکن امام مہدی کی آمد کا چرچا سنتا آرہا تھا۔ پھلواڑی شریف (پٹنہ) کے ایک گدّی نشین پیر صاحب نے ایک اشتہار بھی دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ امام مہدی کے ظاہر ہونے کی تمام علامات پوری ہوچکی ہیں اور وہ پیدا ہوچکے ہیں اور 1320 ہجری تک ظاہر ہوجائیں گے۔ تاہم بھائی احمدی ہوگئے تو میرے اندر بھی تحقیق کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
اپنے علاقہ میں ملازمت کے حصول میں ناکامی کے کچھ عرصہ بعد مَیں ملازمت کی تلاش میں اپنے احمدی بھائی کے پاس مہگاؤں پہنچا جہاں وہ ایک سیمنٹ فیکٹری میں ملازم تھے۔ اُن کے پاس احمدیہ لٹریچر کافی میسّر تھا۔ یہاں سنّی علماء کے دیئے ہوئے لٹریچر کے حوالے اصل عبارت سے دیکھے تو معلوم ہوا کہ سیاق و سباق چھوڑ کر صرف دھوکہ دیا گیا ہے۔ تب مجھے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی کتب پڑھنے کی توفیق ملی اور مَیں دل سے احمدی ہوکر واپس گاؤں آگیا۔ یہاں والدہ اور بہن کو تبلیغ کی اور اللہ کے فضل سے جلد ہی ہم تینوں نے بیعت کرلی۔ جبکہ گاؤں میں احمدیوں کا سوشل بائیکاٹ اُس وقت بھی جاری تھا جو کئی ماہ کے بعد مجسٹریٹ کو درخواست دے کر ختم کروایا گیا۔
دسمبر 1937ء میں جلسہ سالانہ پر پہلی بار مَیں قادیان گیا اور حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ اگلے سال ہی مجلس مشاورت میں بطور زائر شرکت کا موقع بھی ملا۔
مجھے جن احمدیوں کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا اُن میں سے بعض نے خاص طور پر بے حد متأثر کیا۔ ایک محترم چودھری فضل احمد صاحب پٹواری تھے جنہوں نے اپنی ملازمت کے دوران بہت آمدنی بنائی تھی لیکن جب وہ احمدی ہوگئے تو اپنی حرام کمائی سے بنائی ہوئی جائیداد فروخت کرکے اُن افراد کو خود جاکر رقم واپس کی جن سے کبھی رشوت وصول کی تھی۔ اگر کوئی واپس لینے سے انکار بھی کرتا تو بھی زبردستی اُسے دیدیتے۔ اُن کے عملی نمونہ کی وجہ سے بھی کئی لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ موسم گرما میں رات کے وقت وہ اپنے گھر کی چھت پر تلاوت قرآن کرتے اور بلند آواز میں صداقت مسیح موعودؑ کے دلائل بیان کرتے تھے۔
اسی طرح کھلاری کی سیمنٹ فیکٹری میں جب مَیں ملازم تھا تو وہاں کے صدر جماعت حضرت چودھری عبدالحمید صاحبؓ تھے۔ وہ بھی تبلیغ کا جنون رکھتے تھے۔ میری تربیت میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
جب مَیں کھلاری میں ملازم تھا تو میرے اکثر ساتھی اضافی آمدنی بناتے تھے لیکن احمدیت کی تعلیم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے حرام کمائی سے محفوظ رکھا۔پہلے اُنہیں خوف تھا کہ مَیں اُن کی رپورٹ نہ کردوں لیکن میرے تسلّی دلانے پر کہ چغلی کرنا حرام ہے، وہ مطمئن ہوگئے۔
اکتوبر 1941ء میں مَیں اپنے والد صاحب کو اپنے ہمراہ لانے کے لئے اپنے گاؤں آڑہ پہنچا۔ لیکن سفر سے ایک شام پہلے اُن کی وفات ہوگئی۔ گاؤں والوں نے کہا کہ اگر تم احمدیت سے توبہ کرلو تو ہم ان کے کفن دفن میں تعاون کریں گے۔ وہ برسات کے دن تھے اس لئے مَیں کسی احمدی کو بُلا بھی نہ سکتا تھا۔ میری والدہ نے کہا کہ صحن میں دفن کردو لیکن طبیعت آمادہ نہ ہوتی تھی۔ لوگ طعنے دیتے تھے کہ باپ کی نعش گھر میں پڑی ہے اور یہ اپنے عقائد پر اڑا ہوا ہے۔ ایسے میں دل میں جوش پیدا ہوا اور مَیں نے دو نفل میں خوب دعا کی۔ پھر ایک ہمدرد ’حلیم چچا‘ کا خیال آیا تو رات دس بجے جاکر اُنہیں حالات بتائے۔ وہ اگلی صبح آئے اور کفن دفن کے انتظام میں مدد کی۔ اُن کو دیکھ کر چند اَور ہمدرد بھی اکٹھے ہوگئے۔ مَیں نے اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھائی اور پیچھے چند احمدی نابالغ بچے کھڑے ہوگئے جو حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحبؓ کے پوتے تھے۔ تدفین کے بعد گاؤں والوں کو سارا واقعہ معلوم ہوا تو بعض لوگ حلیم چچا کے خلاف ہوگئے اور بعض اُن کے حق میں بولنے لگے۔ لیکن شرفاء کے دخل دینے سے تنازعہ کا خطرہ ٹل گیا۔ مارچ 1947ء میں میری والدہ کی وفات پر بھی صرف ایک یا دو احمدی وہاں موجود تھے۔ اُس وقت بھی حلیم چچا نے بڑی دلیری سے میری مدد کی۔
کچھ عرصہ روہڑی میں رہ کر پھر مَیں سکھر منتقل ہوگیا۔ سکھر میں مُلّاؤں نے احمدیوں کے خلاف ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھا تھا جس میں ضیاء الحق کے دَور میں شدّت آگئی۔ کئی احمدی شہید کئے گئے۔ سکھر میں دریائے سندھ کے کنارہ پر اکبر بادشاہ کے زمانہ کی بنی ہوئی ایک یادگار مسجد واقع ہے۔ 23؍مئی 1985ء کو اس مسجد میں نماز فجر کے دوران نامعلوم افراد نے دو بم پھینک دیئے جس کے نتیجہ میں دو نمازی ہلاک اور بارہ زخمی ہوگئے۔ مُلّاؤں نے اس کا الزام احمدیوں کے سر پر عائد کیا تو بِلا تحقیق کئی احمدی گرفتار کرلئے گئے۔ پولیس ہمارے گھروں کو تالے لگواکر ہمیں تھانہ لے گئی اور ہماری عورتوں کو سیمنٹ فیکٹری بھجوادیا گیا۔ محمد ایوب مرحوم بھی گرفتار کرلیا گیا حالانکہ بم حملے کے دن وہ ربوہ میں تھا۔ اُس کو ناکردہ جرم منوانے کے لئے شدید تشدد کیا گیا۔ ہم کُل 24؍احمدی گرفتار تھے۔ ہم وہاں پانچ وقتہ نماز کے علاوہ نماز تہجد بھی باجماعت ادا کرتے تھے۔ روزانہ رات بارہ بجے SP صاحب تحقیقات کے لئے آتے اور ہر ایک کو باری باری بلاکر بیان لیتے۔ دو ہفتے بعد وہ دو مُلّاؤں کو ہمراہ لائے اور انہیں ہم سب کا چہرہ دکھا دیا۔ اگلے دن اُنہی دونوں مُلّاؤں کو بلاکر کہا گیا کہ وہ مجرموں کو الگ کرلیں۔ مُلّاؤں نے پہلے سے شناخت کئے ہوئے افراد کی فوراً ہی نشاندہی کردی اور پولیس نے اُسی وقت 7؍ افراد کو گرفتار کرکے اُنہیں ہتھکڑی پہناکر سکھر جیل میں منتقل کردیا۔ اُن اسیران میں مولوی حمیداللہ خالد صاحب بھی تھے جنہوں نے اپنی ہتھکڑی کو چوم لیا اور بلند آواز میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم نے یہ زیور پہن لیا ہے۔
پھر ہم باقی احمدیوں کو مسجد لاکر چھوڑ دیا گیا۔ مسجد بہت گندی ہوچکی تھی۔ ہم نے صفائی کی اور نماز شکرانہ ادا کی۔ گھر پہنچے تو تالا ٹوٹا ہوا ملا۔ پولیس نے بم بنانے کا سامان برآمد کرنے کے لئے خانہ تلاشی لی تھی۔ کوئی مشتبہ چیز تو برآمد نہیں ہوئی تھی لیکن قیمتی سامان غائب تھا۔ پولیس نے غائب شدہ سامان کی فہرست لے لی لیکن کچھ واپس نہیں ملا۔
جیل جانے والے احمدیوں کو پہلے تو دیگر قیدیوں کی طرف سے نفرت کا رویہ سہنا پڑا۔ لیکن پھر وہ انہیں نمازیں اور تہجد پڑھتا دیکھ کر قریب ہوگئے اور دوستی بھی ہوگئی۔
دسمبر 1985ء میں جب مارشل لاء کی عدالت میں مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہدایت پر چھ وکلاء کے ایک پینل نے مقدمہ کی نہایت عمدہ پیروی کی۔ جرح کے دوران مُلّاؤں کو سخت ذلّت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ جھوٹے کیس کو ثابت کرنے میں بُری طرح ناکام رہے لیکن نام نہاد عدالت کے فیصلہ میں سب کو سزائے موت سنادی گئی۔ یہ فیصلہ جب گورنر سندھ جنرل جہانداد خان کے سامنے دستخط کے لئے گیا تو اُس نے دیکھا کہ جرم تو کسی کا ثابت ہی نہیں ہے۔ اس پر اُس نے دو احمدیوں (جن کا نام FIR میں شامل تھا) یعنی پروفیسر قریشی ناصر احمد اور قریشی رفیع احمد کی سزا کا فیصلہ بحال رکھا اور باقی سب کو بری کردیا۔ جماعت نے رہائی پانے والوں کو کراچی بھجوادیا جہاں سے دو محمد ایوب اور میرے بیٹے مظفر احمد (حال مینیجر رقیم پریس یوکے) کو لندن بھجوادیا گیا۔ جبکہ قریشی برادران سکھر جیل میں تین سال تک پھانسی گھاٹ میں قید رہے لیکن سزا پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ یہ محض حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اور احمدیوں کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا۔ اِس دوران ایک بار مجرموں کے ایک گروہ نے جیل پر حملہ کرکے اپنے ساتھیوں کو چھڑالیا اور اِن دونوں یعنی پروفیسر قریشی ناصر احمد اور قریشی رفیع احمد کو بھی بھاگ جانے کے لئے کہا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حالات تبدیل کئے اور ضیاء الحق اپنے بدانجام کو پہنچا۔ بے نظیر کی حکومت نے مارشل لاء دَور کے تمام افراد کی سزائے موت عمرقید میں تبدیل کرکے اُنہیں سول عدالت میں اپیل کا حق دیدیا۔ چنانچہ اپیل کردی گئی لیکن مقدمہ شروع ہونے میں مزید تین سال لگ گئے۔ بہرحال پہلی ہی پیشی پر دونوں کی رہائی عمل میں آگئی کیونکہ کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں