نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر2)

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل جولائی تا ستمبر 2012ء)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر2)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراءاور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضور انور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی کے واقفینِ نَو کے ساتھ وقف نو کلاس
(کلاس منعقدہ 27 مئی 2012ء میں سے انتخاب)

کلاس کے آغاز میں تلاوت و نظم کے بعد درج ذیل مضمون پڑھا گیا:

جرمنی میں احمدیت کا آغاز

سرزمین جرمنی پر سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ آپ کی ذاتی توجہ اور کوششوں سے یہاں احمدیت کا پودا لگا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شدید خواہش تھی کہ جرمنی میں جلد احمدیت پھیلے۔ جیسا کہ 1941ء میں مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا:’’میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر جنگ (یعنی جنگ عظیم دوم) میں جرمنی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد تبلیغ کا بہترین مقام جرمنی ہوگا۔ جرمن قوم تین سو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہی ہے اور اس غرض کے لئے اس نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اگر اس جنگ میں بھی اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ہم اسے بتا سکیں گے کہ خدا نے تمہاری ترقی کا کوئی اور ذریعہ مقرر کیا ہوا ہے جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تم خدا کے دین میں داخل ہو جاؤ۔ … پس میں سمجھتا ہوں جرمن قوم کا اس شکست میں دینی لحاظ سے بہت بڑا فائدہ ہے اور عنقریب تبلیغ کے لئے ہمیں ایک ایسا میدان میسر آنے والا ہے جہاں کے رہنے والے باتیں نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں اور زبانی دعویٰ نہیں کرتے بلکہ عملی رنگ میں قربانیاں کرکے دکھاتے ہیں‘‘۔
1922ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے مربی مکرم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی کو اور بعد میں حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے کو جرمنی بھجوایا اور اگلے ہی سال حضورؓ نے برلن میں پہلی مسجد بنانے کا فیصلہ فرمایا اور اس کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ لیکن سرزمین جرمنی کی بدقسمتی کہ جرمنی کے معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے یہ پراجیکٹ مکمل نہ ہوسکا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1945ء میں جنگ عظیم دوم کے بعد تین واقفین زندگی کو جرمنی کے لئے منتخب کیا اور انہیں اس مقصد کے لئے لندن روانہ فرمایا لیکن جرمنی کے سیاسی حالات کے باعث وہ جرمنی نہ آسکے۔ البتہ چند دنوں کے ویزے پر جرمنی آتے جاتے رہے۔ 1949ء میں چوہدری عبداللطیف صاحب یہاں تشریف لے آئے اور ہمبرگ میں جماعت کا ایک مستقل مشن قائم ہو گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کا دورہ جرمنی
بالآخر سرزمین جرمنی کی صدیوں کی محرومی اپنے اختتام کو پہنچی جب اس سرزمین پر پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک خلیفہ کے قدم پڑے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی مرتبہ 15 جون 1955ء کو جرمنی تشریف لائے اور دو دن قیام کے دوران نیورن برگ اور فرینکفرٹ تشریف لے گئے۔ ہالینڈ سے واپسی پر آپؓ 25 جون کو ہمبرگ تشریف لے گئے جہاں آپ تین دن تک قیام فرما رہے۔ اس تمام دورہ میں جہاں آپ نے احمدی احباب کو ملاقات کا شرف بخشا وہاں جرمنی میں تبلیغ اور مساجد کے متعلق بہت سے منصوبے بھی بنائے گئے۔ ہمبرگ میں ایک استقبالیہ میں حضورؓ نے فرمایا: ’’جرمن قوم کا کیریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلدی تعمیر کر لیا ہے۔ جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلدازجلد اسلام کو جو خود اس روح کو بلند کرنے کے لئے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی‘‘۔ نیز آپ نے فرمایا: ’’اسلام یورپ کے لئے مناسب حال مذہب ہے اور خاص طور پر جرمنی کے لئے عالمگیر مذہب ہونے کی بناء پر اسلام کا مستقبل جرمن میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی روح جرمنی میں زندہ ہے‘‘۔
آپ نے احمدیہ جرمن مشن ہمبرگ کی Visitor’s Book میں مندرجہ ذیل ریمارکس تحریر فرمائے: ’’خداتعالیٰ تمہیں ہمبرگ میں ایک موزوں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو جرمنی کے تمام لوگوں کے لئے اور خاص طور پر یہاں کے نومسلموں کے لئے ایک مرکز بنائے آمین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق یورپ یقینی طور پر اسلام کی طرف توجہ کررہا ہے۔ خداتعالیٰ جرمنی کے نومسلموں کو اپنی برکات میں سے حصہ عطا فرمائے اور ان کو لاکھوں لاکھ کی تعداد میں بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ جرمنی میں ان کی اکثریت ہوجائے۔ آمین‘‘۔
یہ اس مبارک دورہ کا نتیجہ ہی تھا کہ ابھی دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ 1957ء میں ہمبرگ میں پہلی مسجد ’’مسجد فضل عمر‘‘ اور 1959ء میں فرینکفرٹ میں ’’مسجد نور‘‘ کا افتتاح بھی ہو گیا۔
حضرت مصلح موعود کی جرمنی میں اشاعت حق کی شدید خواہش کا اظہار ان دونوں مواقع پر بھیجے گئے پیغامات سے بھی ہوتا ہے۔ مسجد نور کے افتتاح کے موقع پر آپ نے تار بھیجا جس میں تحریر فرمایا: ’’مَیں خداتعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اسلام جرمنی میں سرعت کے ساتھ پھیلے۔ آمین‘‘۔
اسی طرح مسجد فضل عمر ہمبرگ کے افتتاح کے موقع پر آپ نے اپنے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو بھجوایا اور اپنے پیغام میں تحریر فرمایا:
’’میرا ارادہ ہے اللہ تعالیٰ مدد کرے تو یکے بعد دیگرے جرمنی کے بعض شہروں میں بھی مساجد کا افتتاح کیا جائے۔ امید ہے مرزا مبارک احمد مولوی عبداللطیف صاحب سے مل کر ضروری سکیمیں اس کے لئے بنا کر لائیں گے تاکہ جلدی مساجد بنائی جائیں۔ خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیت کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے۔ … ہم ایک مربی یا درجنوں نومسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام قبول کریں تا اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جرمن قوم کے ہاتھ میں ہو۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْن‘‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور جرمنی کے دورہ جات
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سترہ سالہ دَورخلافت میں جرمنی کے 6 دورہ جات فرمائے۔ سب سے پہلا دَورہ 1967ء میں پھر 70ئ، 73ئ، 76ئ، 78ء اور آخری دورہ 1980ء میں فرمایا۔ یعنی ہر دوسرے یا تیسرے سال سرزمین جرمنی حضورؒ کے بابرکت وجود سے فیض پاتی رہی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ ستمبر 1967ء میں پہلے دورے سے قبل حضورؒ نے اس دورہ کے مقاصد کے بارہ میں فرمایا: ’’یہی میرے سفر کا مقصد ہے۔ میں کھل کر ان سے بات کرنا چاہتا ہوں … کہ یہ پیشگوئیاںہیں جو پوری ہوچکی ہیں اور یہ وہ واقعات ہیں جن کے پورے ہونے کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اس وقت جس دن یہ اعلان کیا گیا تھا کہ یوں واقع ہوگا اور یہ ایک سلسلہ ہے یوں ہوگا، یوں ہوگا، یوں ہوگا اور اس کے آخر پر یہ ہے کہ غلبۂ اسلام ہوگا۔ وہ غلبۂ اسلام خدا کے فیصلہ کے مطابق اس دنیا میں ضرور ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس کو دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی‘‘۔
جرمن قوم کے بارہ میں بشارت
پہلے مبارک دورہ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جرمنی میں احباب جماعت کو اپنا ایک مبشر خواب بھی سنایا کہ آپ جرمنی کے ایک عجائب گھر میں گئے ہیں جس کے ایک کمرہ میں مختلف اشیاء پڑی ہوئی ہیں۔ کمرہ کے درمیان میں پان کی شکل کا ایک پتھر ہے جیسے دل ہوتا ہے۔ اس پتھر پہ کلمہ طیبہ لآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا ہے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ تعبیر فرمائی کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم اگرچہ اوپر سے پتھر دل یعنی دین سے بیگانہ نظر آتی ہے مگر اس کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس دورہ کے اختتام پر 25؍اگست 1967ء کو ربوہ میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے آپ نے جرمنی جماعت کے بارہ میں فرمایا:
’’جب میں وہاں کے احمدیوں کے حالات بتاؤں گا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کس قسم کی جماعت تیار کررہا ہے اور اس جماعت سے مل کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نہایت خوشی کے سامان پیدا کئے اور آپ کے لئے بھی غور طلب ہے کہ وہ اب آپ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو گئے ہیں‘‘۔
1973ء کے تیسرے مبارک دورہ کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا: ’’ہمیں کامل یقین ہے کہ ہم محبت اور پیارے کے ساتھ دنیا کے دل جیتیں گے۔ اب دنیا کی نجات اسلام کے ساتھ وابستہ ہوچکی ہے جو کامل ترین اور آخری مذہب ہے‘‘۔
نیز حضورؒ نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’آئندہ پچاس سال تک جرمن قوم اسلام قبول کر لے گی‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے یورپ کے پہلے دورہ کے بعد ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’ہر احمدی کو دنیا کا رہبر اور قائد اور استاد بننے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کرنی پڑے گی اور پید اکرنی چاہئے۔ کیونکہ آج بھی دنیا کو ان سے کہیں زیادہ تعداد میں استادوں اور مبلغین کی ضرورت ہے جو آج ہمارے پاس ہیں۔ لیکن وہ زمانہ آنے والا ہے جب اس ضرورت کی ہماری موجودہ اہلیت کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہ ہوگی بلکہ دنیا لاکھوں آدمی مانگے گی۔ دنیا جماعت احمدیہ سے یہ کہے گی کہ ہم سیکھنے کے لئے تیار ہیں تم ہمیں آکر سکھاتے کیوں نہیں؟ کیا جواب ہوگا آپ کے پاس اگر آپ ان کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟ …پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دنیا کماتے ہوئے بھی اتنا دین سیکھ لیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کی آواز آپ کے کان میں پہنچے۔ … تو آپ میں سے ہر ایک اس قابل ہو کہ انہیں اسلام سکھاسکے اور اس بات کا عزم اپنے دل میں رکھتا ہو کہ وہ دنیا کے ہر کام کو چھوڑ دے گا اور اسلام سکھانے کے لئے جہاں ضرورت ہو گی چلاجائے گا‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم ستمبر 1967ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اورجرمنی کے دورہ جات
یہ خداتعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ خلافت رابعہ کے دور میں بھی سرزمین جرمنی کو خلیفۂ وقت کے قدم چومنے کی سعادت ملتی رہی۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی شفقت ہی تھی کہ انتخاب خلافت کے پہلے ہی سال 1982ء میں حضور جب سپین میں مسجد بشارت کے افتتاح کے لئے یورپ تشریف لائے تو جرمنی میں بھی قیام فرمایا اور احباب جماعت کوملاقات کی سعادت حاصل ہوئی اور حضور نے دو خطبات جمعہ کے علاوہ بہت سے پروگراموں میں احباب جماعت کو نصائح فرمائیں۔
1984ء میں جب پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف انسانیت سوز قوانین بنائے گئے اور خلیفۂ وقت کا وہاں رہنا ناممکن ہو گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سنّت نبوی ﷺ کے مطابق لندن ہجرت کر آئے۔ ہجرت کے ساتھ خداتعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کے جو وعدے ہیں، وہ جہاں پوری جماعت احمدیہ عالمگیر میں نظر آنے لگے وہاں جماعت احمدیہ جرمنی کو بھی اس سے وافر حصہ ملا۔ ایک بہت بڑی سعادت جو جماعت احمدیہ جرمنی کے حصے میں آئی وہ خدا کے پیارے خلیفہ کے بے شمار دورہ جات تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 1984ء سے 2001ء تک تقریباً ہر سال ہی جرمنی تشریف لاتے رہے اور بعض سالوں میں تو جماعت احمدیہ جرمنی کو دو دو بار یہ شفقت سمیٹنے کی سعادت ملی۔ ان دورہ جات میں حضور اقدس نے ازراہ شفقت جلسہ ہائے سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے نیشنل اجتماعات میں شرکت فرمائی۔ مجموعی طور پر حضور نے جرمنی کے 29 دورہ جات فرمائے۔
جماعت احمدیہ جرمنی جو 70 کی دہائی میں ابھی بچے کی طرح تھی خداتعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بار بار دوروں اور نصائح سے جلد جلد بڑھنے لگی اور اگر یہ بات کہی جائے کہ جماعت احمدیہ جرمنی خلافت احمدیہ کی گود میں پل کر جوان ہوئی ہے تو یہ بات غلط نہ ہوگی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جہاں جماعت احمدیہ جرمنی کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے وہاں ہمیں ہماری خامیوں اور کمزوریوں کی طرف توجہ بھی دلاتے رہے اور ہمیں ہمارے فرائض سے آگاہ بھی کرتے رہے۔ جیسا کہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’دو باتیں ایسی ہیں جماعت جرمنی کی جن کی وجہ سے خصوصیت سے اس جماعت کے لئے میرے دل میں محبت بھی ہے اور دعائیں بھی نکلتی ہیں۔ …جب بھی میں نے کوئی نیک کام کہا اتنی سنجیدگی کے ساتھ، اتنی محنت اور کوشش کے ساتھ ساری جماعت جُت جاتی ہے کہ تناسب کے لحاظ سے مجھے اور کہیں یہ تناسب دکھائی نہیں دیتا‘‘۔ (خطبہ جمعہ 24 مئی 1996ء)
اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: ’’کبھی ایک دن بھی، ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جب میں نے آپ کو، خصوصاً جرمنی کی جماعت کو ان کے ایثار کی وجہ سے اپنی دعا میں یاد نہ رکھا ہو۔ ایک رات بھی ایسی نہیں گزرتی۔ …… مَیں امید رکھتا ہوں کہ یہ ایثار انشاء اللہ جرمنی کے اندر رہنے والے جرمنوں اور غیرقوموں کے دل بدل دیں گے اور احمدیت کے لئے ان کے دلوں کی راہیں صاف ہو جائیں گی‘‘۔ (خطبہ جمعہ 21؍اگست 1998ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شدید خواہش تھی کہ جماعت احمدیہ جرمنی تبلیغ کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھے تاکہ جرمنی کے ذریعہ پھر پوری دنیا میں اشاعت اسلام ہو سکے جیسا کہ فرمایا: ’’میں پھر اس یقین کا اعادہ کرتا ہوں کہ سارے یورپ، سارے مغرب میں میرے نزدیک اگر کوئی قوم ہے کہ جو اسلام سے وابستہ ہو جائے تو تمام دنیا پر اسلام غالب ہوجائے تو وہ جرمن قوم ہے … اور خدا کرے کہ وہ دن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ جب جرمن قوم کو خدا وہ فرقان عطا کرے کہ وہ تمام دنیا پر غالب آجائے جس طرح صنعتکاری میں غالب آئی، جس طرح سائنسوں پر غالب آئی، جس طرح ادنیٰ ادنیٰ ایجادات میں غالب آگئی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی اور نورانی طور پر بھی دنیا پر غالب آجائے‘‘۔ (23 ؍اگست 1998ء)
اسی طرح نوجوانوں کو تبلیغ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:
’’اے احمدی نوجوانو! اے مستقبل کے محافظو! جو آئندہ دنیا میں اسلام کے فتح مند ہونے کے لئے آج خداتعالیٰ کی طرف سے اس بات کے لئے مقرر کئے گئے ہو۔ آج تم اسلام کو سیکھو تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تم اسلام سکھاسکو۔ آج اسلام کے امن کو اپنی سوسائٹیوں میں راسخ کردو تاکہ آئندہ آنے والی سوسائٹیوں کے امن کی ضمانت دے سکو۔… اگر تم اس مقصد میں کامیاب ہوگئے تو پھر دنیا کا مستقبل یقینا پُرامن ہوگا‘‘۔ (خطبہ جمعہ 24؍اکتوبر 1986ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ اور جرمنی کے دورہ جات
یہ خداتعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ خلافت خامسہ کے دَور میں بھی جماعت احمدیہ جرمنی کو پیارے آقا کی شفقت اور محبت سے وافر حصہ مل رہا ہے۔ یہ پیارے آقا کی شفقت ہی ہے کہ اپریل 2003ء میں خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنی بے انتہا مصروفیات کے باوجود اگست 2003ء میں پہلے ہی دورے میں سب سے پہلے جرمنی تشریف لائے اور پھر اب تک تقریباً نو سال میں پندرہ مرتبہ سرزمین جرمنی کو خلیفہ وقت کے قدم چومنے کی سعادت ملی۔ ان دورہ جات میں جہاں پیارے آقا نے ہزاروں افراد کو ملاقات کا شرف بخشا۔ وہاں ہماری حوصلہ افزائی کے لئے جلسہ ہائے سالانہ جرمنی میں بھی شرکت فرمائی اور ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کو بھی رونق بخشی۔ پھر بہت سی مساجد کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح بھی فرمایا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی برلن میں مسجد بنانے کی خواہش بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک دَور میںمکمل ہوئی اور صرف یہی نہیں بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری فرمودہ سو مساجد تحریک بھی تیزی کے ساتھ اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس بارہ میں حضور اقدس نے فرمایا: ’’انشاء اللہ تعالیٰ جرمنی یورپ کا پہلا ملک ہوگا جہاں کے سو شہروں یا قصبوں میں ہماری مساجد کے روشن مینار نظر آئیں گے اور جس کے ذریعہ سے اللہ کا نام اس علاقے کی فضاؤں میں گونجے گا جو بندے کو اپنے خدا کے قریب لانے والا بنے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ کام مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 16 جون 2006ء)
بلکہ آپ نے تو جماعت احمدیہ جرمنی کے متعلق اپنی توقعات کا اظہار ان الفاظ میں بھی کیا کہ ’’مَیں تو کہتا ہوں کہ ہر مسجد جو بنے اس کے ساتھ ہزاروں بیعتیں آپ پیش کرنے والے ہوں۔… آپ یہ عہد کریں کہ سو مساجد کیا وہ تو ہم چند سالوں میں بنالیں گے، اگر خداتعالیٰ توفیق دے تو خلافت خامسہ کے اس دَور میں ہم جرمنی کے ہر شہر میں مسجد بنائیں گے۔ انشاء اللہ‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 8 ؍اکتوبر 2004ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمنی میں فرمودہ خلافت کے موضوع پر کئی خطبات کے ذریعہ احباب جرمنی کے خلافت سے تعلق کو اور بھی مضبوط کر دیا۔ یہ اسی لمبی تربیت کا اثر تھا کہ پیارے آقا نے جماعت احمدیہ جرمنی کے متعلق پیار کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:
’’جرمنی میں افراد جماعت میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ اخلاص و وفا کے جذبات ابھرے ہوئے ہیں۔ … اللہ تعالیٰ اس اخلاص و وفا کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو میں نے اخلاص میں بڑھا ہوا پایا ہے۔… پس یہ خوبصورتی ہے جماعت احمدیہ کی جو آج ہمیں کسی اور جگہ نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ اس میں مزید نکھار پیدا کرتا چلاجائے۔ آمین‘‘
(خطبہ جمعہ یکم جولائی 2011ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمن قوم کے متعلق خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: ’’انشاء اللہ تعالیٰ اس قوم میں احمدیت پھیلے گی اور جس طرح آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے جرمن احمدی اپنے ہم قوموں کے اس ظالمانہ رویے سے شرمندہ ہورہے ہیں۔ آئندہ انشاء اللہ لاکھوں کروڑوں احمدی ان لوگوں کے خدا اور انبیاء کے بارہ میں غلط نظریہ رکھنے پر شرمندہ ہوں گے۔ جرمن ایک باعمل قوم ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگر آج کے احمدی نے اپنے فرائض تبلیغ احسن طور پر انجام دیئے تو اس قوم کے لوگ ایک عظیم انقلاب پید اکر دیں گے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 22 دسمبر 2006ئ)
نیز فرمایا: ’’جرمنوں میں مَیں نے دیکھا ہے خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جو احمدی ہورہے ہیں اسلام کی پیاری تعلیم کا بہت اثر ہے۔ کوشش کرتے ہیں کہ حتی الوسع ہر حکم کو مانیں اور ہر حکم کی پابندی کریں۔ … اس وقت یہاںنومبائعین کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ … لیکن انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی دور نہیں ہے جب یہ تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہونے والی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007ء)
حضور پُرنور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’جرمنی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ اور تعلقات کی وسعت میں ایک خاص کوشش کررہی ہے۔ اب ان کی کوششیں جو ہیں وہ پہلے سے بہت بڑھ کر ہیں اور اس کی وجہ سے اسلام کا پیغام اور جماعت کا تعارف بہت بڑھ کرجرمن قوم میں پہنچ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں جرمنی میں نوجوانوں میں کچھ عرصے سے کافی بیداری دیکھ رہا ہوں، ان کے تعلقات وسیع ہورہے ہیں اور تبلیغ کی طرف بھی رجحان ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ21 نومبر 2011ء)
نیز فرمایا: ’’یہ کوششیں جو آپ لوگ لیف لیٹس کے ذریعہ سے اور مختلف ذرائع اور وسائل کے ذریعے سے کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے اور لوگوں کے سینے کھولے۔ ایک طرف اگر اسلام کے خلاف شدت پسندی کی لہر ابھر رہی ہے تو دوسری طرف وسیع طور پر توجہ بھی پیدا ہورہی ہے۔ پس اب افراد جماعت جرمنی کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکرگزاری کے طور پر ان رابطوں اور تعلقات کو آگے بڑھائیں اور تبلیغی کاوشوں کو مزید تیز کریں تاکہ جلد ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کے اثرات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے دیکھیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ یکم جولائی 2011ء)
………………………

واقفینِ نَو سے مجلس سوال و جواب

آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت طلباء کو سوالات کرنے کا موقع عطا فرمایا۔
٭… ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ اگلے ماہ مجھے Abitur امتحان کے رزلٹ مل جائیں گے۔ کامیابی کے لئے دعا کریں نیز میر اارادہ ہے کہ میں سائنس میں جاؤں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا امتحان کیسا ہوا تھا؟ خود بھی تو پتہ لگ جاتا ہے کچھ نہ کچھ، ہمیں تو پتہ لگ جاتا تھا کہاں فیل ہونا ہے۔ کہاں پاس ہونا ہے۔ حضور انور نے فرمایا: اچھا اللہ کامیاب کرے۔
٭…ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ جلسہ کے بعد Abitur کے فائنل امتحان ہورہے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا جلسہ کی تاریخیں بڑی غلط رکھی ہیں۔ بچوں کے امتحان ہورہے ہیں۔ اس لئے اب جلسہ پر آنے والوں کو اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔
٭…ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ میں نے ہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں سکول میں ایک پریزنٹیشن دینی ہے۔ میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب ہمارا خدا (Our God) پڑھی ہے۔ حضورانور نے فرمایا اس کے Points نوٹ کرلینے تھے۔ نیز حضور انور نے فرمایا خود باقاعدہ نمازیں پڑھتے ہو؟ کبھی اپنی دعا قبول ہوئی ہے؟ طالبعلم نے بتایا قبول ہوئی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا وہ بھی بیان کر دینا اس سے بڑا ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت کیا ہے؟ ان کو بتاؤ کہ ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت یہ ہے کہ جب ہم دعائیں کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کی قبولیت کا نشان دکھاتا ہے۔
یاجوج ماجوج
٭…ایک واقف نو بچے نے عرض کیا کہ قرآن کریم میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر آتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے پڑھا ہے کہ آج کے زمانہ میں جو کرائسز (Crisis) آرہے ہیں وہ اس کی وجہ سے ہیں۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصل چیز اس کی یہی ہے کہ شرک ہے اور دجل ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں، خاص طور پر جب مسیح موعود کا زمانہ آئے گا تو سورۃ الکہف کی پہلی دس آیتیں اور آخری دس آیتیں پڑھنی چاہئیں۔ ان دس آیات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار اور شرک سے نفی کا ذکر ہے۔ اب یہ سائنسدان یا ایسی حکومتیں جو دین کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو شرک پرستی کر رہے ہیں۔ بت پرستی اگر نہیں کر رہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کے مقابلہ پر کھڑا کرکے شرک کرتے ہیں۔ تو یہی لوگ ہیں جو دجال ہیں۔ حدیثوں میں دجال کا ذکر آتا ہے۔ دجل سے، فریب سے، خداتعالیٰ کی ذات کے مقام کو گرانا ہے۔ یا دین کے خلاف حرکتیں کرنا ہے۔ تو یہ دجل اور فریب اور سائنس اور ترقی یہ سب کچھ اس زمانہ میں زیادہ ہو جائے گا۔ اس زمانہ میں رہتے ہوئے تم لوگوں نے زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کے قریب ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ دین کا علم حاصل کرنا ہے اور پھر دین کی تعلیم کو واضح کرنا ہے۔ خداتعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا پہ قائم کرنا ہے۔
اسلامی بینکنگ
٭… ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ میرا سوال اسلامی بینکنگ کے حوالہ سے ہے۔ کیا آجکل کوئی ایسی انسٹیٹیوشن ہے جو شریعت کے مطابق بینکنگ کا کوئی سسٹم بنائے؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہا جاتا ہے اور Claim کرتے ہیں۔ اسی موجودہ بینکنگ کے نظام کو انہوںنے تھوڑا سا ردوبدل کرکے سعودی عرب میں بھی اور باقی جگہوں پہ بھی کہہ دیا ہے کہ اسلامی بینکنگ ہے حالانکہ یہ مکمل طور پر اسلامی بینکنگ نہیں ہے کیونکہ وہاں بھی مختلف چیزوں پہ کچھ نہ کچھ سود کی ملونی نظر آجاتی ہے۔ لیکن بینکنگ کا اپنا نظام جو ہے وہ ایسا ہے کہ اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ موجودہ نظام بینکنگ جو ہے اس میں اتنی زیادہ زیرو زبر ہوئی ہے تبدیلیاں آچکی ہیں یا مسائل ہیں کہ اس کے بارہ میں نئے اجتہاد کی ضرورت ہے تو یہ فقہاء کی کوئی ٹیم بیٹھے۔ اس کے لئے میں نے ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے ایسے لوگوں کی جو اس بینکنگ کے نظام کے بارہ میں صحیح رائے قائم کرسکیں جو انٹرسٹ فری نظام ہو۔ یہ کمیٹی بڑی سستی سے کام کررہی ہے۔ کچھ احمدیوں نے اس پر مضامین بھی لکھے ہیں اور کچھ احمدی اس پر کام کر بھی رہے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بیٹے احمد سلام صاحب بھی بینکنگ سے منسلک ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اسلامی بینکنگ کے اوپر کام کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے ابھی تک ان ساروں کی اسلامی بینکنگ سے متعلق جو باتیں ہیں، ان پر تسلی نہیں ہوئی اس لئے یہ کہنا کہ سو فیصد اسلامی بینکنگ کا نظام کہیں چل رہا ہے تو یہ نہیں چل رہا۔
رحمی رشتے
٭… ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ یہ حکم ہے کہ میاں بیوی اپنے رحمی رشتہ داروں سے بہتر سلوک کریں تویہ رحمی رشتے کون کون سے ہیں؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا رحمی رشتے وہی ہیں جو تمام سگے رشتے ہیں۔ ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں، ماموں، چچا، تایا، خالہ وغیرہ۔ پھر ان کو بڑھاتے جاؤ۔ آگے قرابت دار ہیں، پھر ہمسائے ہیں ان سے بھی تو حسن سلوک کا حکم ہے۔
حضور انور نے فرمایا پھر تمام مخلوق سے حسن سلوک کا حکم ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تمہارے جو ہمسائے ہیں، تمہارے چار گھر والے ہمسائے نہیں بلکہ سو کوس تک تمہارے ہمسائے ہیں تو اس طرح سو کوس تک بڑھاتے رہو تو پوری دنیا سے حسن سلوک کرنا پڑے گا۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں حقوق العباد کا حکم دیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے بڑا زور دے کر فرمایا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس بارہ میں بڑی تلقین فرمائی ہے۔ رحمی رشتہ داروں سے بہتر سلوک تو ایک ابتدا ہے۔ والدین سے حسن سلوک کے بعد قرآن کریم نے اس کو آگے بڑھایا ہے اور مزید وسعت دی ہے اور باقی تعلق داروں اور قریبیوں سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے تو اس طرح اپنے اچھے تعلقات کو وسعت دینی چاہئے۔ لیکن جو فوری رشتے ہیں ان کا تو بہرحال لحاظ اور بہت زیادہ خیال کرنا چاہئے۔ اس طرح ایک دفعہ ادب اور احترام پیدا ہو جائے گا، لحاظ پیدا ہو جائے گا تو پھر اس میں مزید وسعت بھی آتی چلی جائے گی۔
مردہ جسم پر تجربات
٭…ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ لیبارٹری میں ایک مُردہ انسانی جسم کو چیر پھاڑ کرکے جو تجربات کئے جاتے ہیں۔ اس بارہ میں اسلامی تعلیم کیا ہے؟
اس بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر کسی جسم کو تم استعمال کررہے ہو۔ ایک تو تم ابتدا میں Skeleton کے بارہ میں جانتے ہو، ہڈیوں کی طرح تمہارے پاس Skeleton پڑے ہوئے ہیں۔ پھر Anatomy میں بعض دفعہ بعض چیزیں علم بڑھانے کے لئے تمہارے پاس آجاتی ہیں۔ لاوارث لاشیں آجاتی ہیں۔ اب ان کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اب اگر اس پر تجربات کرنے کے بعد ان کو عزت و احترام سے دفنا دیا جائے تو ٹھیک ہے۔ انسانی بہتری کے لئے کام کررہے ہو۔ جو زندہ لوگ ہیں ان کی بھلائی کے لئے کام کر رہے ہو تو اس مردہ نے ہوسکتا ہے بعض دفعہ خود ہی اپنے آپ کو پیش کر دیا ہو۔ اپنے اعضاء دے دیئے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
٭…ایک طالبعلم نے عرض کیا۔ میں نے جامعہ میں داخلہ کے لئے درخواست دی ہے میرے لئے دعا کریں۔ حضور انور نے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ کامیاب کرے۔
وصیت کی عمر
٭…ایک طالبعلم کے اس سوال پر کہ کس عمر میں وصیت کرنی چاہئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جب ہوش و حواس کی عمر ہوتی ہے عموماً ہمارے ہاں پندرہ سال کی عمر میں بچے وصیت کرلیتے ہیں۔ پھر ایک تجدید وصیت ہوتی ہے۔ دوبارہ ایک سال بعد تجدید کرواتے ہیں۔ سولہویں، سترہویں سال کی عمر میں تجدید کروالینی چاہئے۔ پرانے زمانے میں تو چودہ سال کی عمر میں لوگوں کی شادیاں ہو جاتی تھیں۔ باپ بن جاتے تھے۔ ہوش و حواس کی ہی عمر تھی جو باپ بن گئے۔ حضور انور نے فرمایا عمر کی کوئی قید تو نہیں ہے۔ لیکن بقائمی ہوش و حواس ہونا چاہئے۔ پتہ ہونا چاہئے کہ تم کیا کام کررہے ہو۔ کیونکہ ہمارا عموماً اب یہی رواج ہے کہ پندرہ سال کی عمر تک میٹرک کرنے کے بعد انتظامی لحاظ سے ایک معیار مقرر کردیا ہے۔ پھر اس کے ایک سال بعد تجدید ہو جاتی ہے۔
احمدی جرمنی کا سیاسی نظام
٭…ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ ایک دن جب جماعت احمدیہ جرمنی پر غلبہ پاجائے گی تو پھر کون سے پولیٹیکل سسٹم کے ساتھ یہ ملک چلے گا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ کہنا چاہئے کہ جب اکثریت جرمن قوم کی احمدی ہو جائے گی۔ غلبہ سے لوگ سمجھیں گے، پتہ نہیں ہم کوئی سلفی بن کر جنگ کرنے لگے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا نظام تو جمہوری ہوگا، پولیٹیکل سسٹم تو وہی ہے۔ پولیٹیکل پارٹیاں تو اس وقت بھی ہوں گی۔ خلافت نے تو بہرحال ہر سیاسی نظام سے علیحدہ رہنا ہے۔ نظریات ہوں گے، Manifesto ہوں گے۔ لیکن جب احمدی ہو جائیں گے تو جو بھی سیاسی پارٹیاں ہوں گی ایک ہو یا دو ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ ایک ہی ہو تو اس حکومتی نظام کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہئے۔ تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے عہدوں اور امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ تقویٰ پر قائم رہنے والے، ہر قسم کے لوگ ہمارے سامنے ہوں گے۔ جن جن کو لوگ زیادہ جانتے ہوں گے کہ یہ امانت کا حق ادا کرنے والے ہیں ان کے حق میں ووٹ دیں گے تو اس طرح وہ اوپر آجائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی پولیٹیکل سسٹم پارٹی نہ ہو۔ مختلف قسم کے لوگوں کی Gathering ہو۔ انفرادی طور پر یا آزاد امیدوار بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ایک زمانہ آئے، ایسے امیدوار کھڑے ہوں ان کی ایک حکومت بن جائے، جو حکومتی نظام کو چلانے والی ہو۔ اصل چیز تقویٰ ہے، امانت کا حق اداکرنا، عہدوں کی پابندی کرنا، یہ چیزیں ہیں جن پر حکومت کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ عوام کی خدمت کرنا، سَیَّدُالْقَوْمِ خَادِمُھُمْ پہ عمل کرنا، قوم کا جو سردار ہے وہ قوم کا خادم ہے۔ اس پہ چلیں گے تو ٹھیک ہے۔ اللہ کا خوف ہوگا تو ظاہر ہے پھر انصاف قائم کریں گے۔ انصاف قائم کرنے کا نظام اور عدالتی نظام اللہ تعالیٰ نے خود ہی قرآن کریم میں دے دیا ہے کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ اپنے عزیزوں کے خلاف، اپنے والدین کے خلاف گواہی دینی پڑتی ہے تو دو۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسا انصاف جو تمہیں کسی قوم کی دشمنی کی وجہ سے عدل سے نہ روکے۔ حضور انور نے فرمایا کہ احمدیوں میں تو دشمنی ہوتی نہیں۔ پھر یہ ہے کہ ایک قوم بن کے رہنا ہوگا۔ رُحَمَآء بَیْنَھُمْ کے حکم پر عمل کرنا ہوگا۔
٭…ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ اللہ کے فضل سے میرا نکاح ہوا ہے۔ میری درخواست ہے کہ میں آپ سے گلے مل سکتا ہوں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت فرمایا نکاح میں نے تو نہیں پڑھایا۔ کسی وقت آکے ملاقات کرلینا۔
استخارہ اور اس کا طریق
٭…ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ استخارہ کرنے کا اصل طریقہ کیا ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ استخارہ کو سمجھو۔ جو بھی کام کرنے لگے ہو اللہ تعالیٰ سے خیرمانگو۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کام کی خیر مانگنا کہ اللہ کے نزدیک یہ بہتر ہے تو میرے حق میں ہوجائے۔
دوسرا یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل دو نفل پڑھو۔ زیادہ لمبی دعائیں نہیں بتاتا۔ دو نفل پڑھو اور اس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور استخارہ کرکے سو جاؤ اور کئی دن تک کرو، بعض لوگ چالیس دن بھی رکھتے ہیں۔ بعض کو تو تیسرے، چوتھے دن بعض باتوں کی تسلی ہو جاتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ خبریں پہنچائے۔ خبریں پہنچانے کے لئے استخارہ نہیں ہوتا۔ استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خیرمانگنا کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں اس میں اگر میرے لئے خیر ہے تو میرے لئے آسانی کے سامان پیدا فرما۔
٭…ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ آجکل میں اکنامکس (اقتصادیات) میں M.Sc. کر رہا ہوں۔ سوچا ہے کہ آگے Ph.D. کرلوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا Ph.D. کرنی ہے تو ریسرچ میں چلے جاؤ۔ ریسرچ کریں اور پھر اکنامکس کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے Ph.D. کرنی ہے تو اس میں کریں اور اپنا Thesis یہ رکھیں کہ ’اسلامک بینکنگ‘۔
دور حاضر کے کرائسز
٭…ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ حضور انور نے پریذیڈنٹ اوباما کو خط لکھا تھا موجودہ کرائسز اور عالمی جنگ کے خطرات کے بارہ میں۔ اس میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ 1934ء کے جو کرائسز تھے اور آج کے جو کرائسز ہیں ان میں Similarities ہیں۔ تو وہ Similarities کیا ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ Similarities یہی ہیں کہ یوروکرائسز ہورہا ہے۔ Review of Religions میں وہ خط شائع ہو گیا ہے اور اس میں انہوں نے آپ جیسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے یہ عقلمندی کی ہے کہ 1932ء کی جو تصویریں تھیں بینکوں کے سامنے لوگ کھڑے ہیں اور Money Withdraw کر رہے ہیں اور اب جو 2008ء میں، 2010ء میںکرائسز آیا ہے اور جو بینکوں کے سامنے رَش ہوا ہے اور لوگ پیسے Withdraw کررہے ہیں۔ بلکہ اب خبروں میں آنے لگ گیا ہے۔ ٹی وی کی خبریں آپ نے دیکھی ہوں گی کہ بہت زیادہ لوگوں نے بینکوں سے اپنی رقم Withdraw کرنی شروع کر دی ہے۔ ایک تو یہ Similarity ہے۔ چیزیں آسمان پہ چڑھ گئی ہیں۔ لوگوں کی قوّتِ خرید (Purchasing Power) پاور کم ہوگئی ہے۔ بیروزگاری زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ ساری Similarities ہی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں