نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر4)

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل جنوری تا مارچ 2013ء)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر4)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

کینیڈا کے واقفینِ نَو کے ساتھ کلاس
(کلاس منعقدہ 2 1 جولائی 2012ء میں سے انتخاب)

پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ کلاس مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو میں منعقد ہوئی۔ تلاوت اور اس کے ترجمہ کے بعد حضور انور نے دیکھا کہ منتظمین نے حدیث کا عنوان پروگرام میں نہیں رکھا تھا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا حدیث رکھنی چاہئے تھی۔ حدیث کے اوپر ہی تقریر تیار ہو جاتی ہے۔ ایسا کونسا مسئلہ ہے۔ کوئی حدیث لے کر اس کی وضاحت کر دیتے تو وہ تقریر بن جاتی۔
دو تین بچوں کی مختصر تقاریر کے بعد ایک Presentation دی گئی جس میں واقفین نو کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی سابقہ اہم ہدایات کا خلاصہ بیان کیا گیا۔

واقفینِ نَو کو حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کا خلاصہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی واقفین نو بچوں کے لئے درج ذیل ہدایات پڑھ کر سنائیں جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 6 مئی 2012ء کو وقف نو اجتماع یوکے میں دی تھیں۔
٭ آپ کے والدین نے جو خلیفۃ المسیح کے ساتھ آپ کو وقف کرنے کا عہد کیا ہے۔ اسے کبھی مت توڑیں۔
٭ آپ کے والدین نے حضرت مریم علیہا السلام کی روایت کی تجدید کی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت مریمؑ نے جو کچھ بھی ان کے رحم میں تھا خداتعالیٰ کی نذر کر دیا تھا۔
٭ اپنی بہترین خدمات جماعت کو پیش کریں۔
٭ وہ واقفین جو جامعہ کے علاوہ دوسری فیلڈز اختیار کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ آپ اپنے آپ کو ہمیشہ وقف ہی سمجھیں گے اور اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنے آپ کو جماعت کے سامنے پیش کردیں گے۔
٭ وہ بچے جو وقف نو کی سکیم میں رہنا چاہتے ہیں انہیں اس سکیم کی حقیقی روح کو یاد رکھتے ہوئے زندگی بھر واقف بن کر رہنا چاہئے۔
٭ حضرت مریم علیہاالسلام کے اسوہ پر چلتے ہوئے اپنے والدین کے عہد کو پورا کرنے کے لئے آپ جو کچھ زندگی میں کریں وہ محض اللہ کی خاطر ہو۔
٭ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ وقف کی روح پر پورا نہیں اتر سکتے تو بہتر ہے وقف نو کی سکیم چھوڑ دیں۔ یہ ا س سے کہیںبہتر ہے کہ آپ اپنے آپ کو، اپنے والدین کو اور جماعت کو دھوکہ میں رکھتے ہوئے اپنا وقف جاری رکھیں۔
٭ ساری دنیا کو ہدایت دینا اور لوگوں کو خدا کے قریب لانا تمام واقفین نو کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ آپ مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے ہیں۔
٭ جس طرح ہمارے آقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعود کو بھی آپ ؐ کی کامل اتباع میں دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ آپ سب خوش قسمت ہیں کہ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ساری دنیا کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں۔
٭ ایک واقف نو کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے عہد وقف کی وجہ سے باقی احمدیوں کی نسبت روحانی اعتبار سے بہتر ہو۔ آپ کی زندگی کا مقصد اللہ کے دین کی خدمت کرنا ہو۔
٭ یاد رکھیں کہ جب آپ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو نماز آپ پر فرض ہوجاتی ہے۔
٭ تمام نمازوں کو مقررہ اوقات پر ادا کرو۔
٭ سکول میں بھی آپ کو وقفہ کے دوران نماز ادا کرنی چاہئے یا پھر اپنے اساتذہ سے اجازت لے کر نماز ادا کریں۔
٭ یہ بہت ضروری ہے کہ ہر واقف نو بچہ روزانہ تلاوت کرے۔
٭ جو کچھ آپ اس عمر میں سیکھیں گے اس کا فائدہ آپ کو ساری زندگی ہوگا۔
٭ اپنے والدین کی ا طاعت کریں اور واقفین نو بچوں میں اس خوبی کا زیادہ اظہار ہونا چاہئے۔
٭ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ پیار سے رہیں اور لڑائی جھگڑے سے بچیں۔
٭ اپنے دوستوں کے ساتھ پیار محبت سے رہیں۔
٭ گالی گلوچ اور گندی زبان کے استعمال سے بچیں۔ پاک صاف زبان کا استعمال کریں جوکہ آپ کے کردار کا حصہ ہو۔
٭ آپ سکول کی پڑھائی میں دوسرے بچوں سے آگے ہوں۔
٭ توجہ کے ساتھ کلاس میں بیٹھیں اور پوری قابلیت کے ساتھ اپنا ہوم ورک کریں۔
٭ آپ کے استاد کو آپ میں اور دوسرے بچوں میں ایک فرق محسوس ہو۔
٭ یہ ضروری ہے کہ آپ دنیوی علم بھی سیکھیں لیکن یاد رکھیں کہ یہ علم اسلام کی خدمت کے لئے ممد ہونا چاہئے۔ آپ کی تعلیم دنیاوی مقاصد کے حصول کی خاطر نہ ہو ماسوائے اس کے کہ خلیفہ وقت آپ کو کچھ مخصوص عرصہ کے لئے جماعت سے باہر کام کرنے کی اجازت دے۔
٭ آپ سب کو دنیوی علم کے ساتھ ساتھ مذہبی علم کے حصول کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے۔
٭ پوری توجہ کے ساتھ روزانہ پانچ فرض نمازیں ادا کریں اور جس حد تک ممکن ہو نوافل ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دیں۔
٭ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کریں اور اس کا ترجمہ اور تفسیر سیکھیں۔
٭ قرآنی تعلیمات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کریں۔
٭ فضول اور وقت ضائع کرنے والے مشاغل سے بچیں۔
٭ آپ کی دلچسپی جدید رسم و رواج (Fashion) میں نہیں ہونی چاہئے۔
٭ یاد رکھیں کہ آپ کا عہد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ وہ آپ کے ہر فعل اور حرکت کو دیکھ رہا ہے۔
٭ آپ اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہیں اور یہ واقفین نو پر بھاری ذمہ داری ہے۔
٭ روزانہ اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کر رہے ہیں؟ اور اگر جواب نہ میں ہے تو پھر آپ کے وقف کی کوئی اہمیت نہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بچوں کو ہدایات

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
MTA والوں نے ایک CD بنائی ہوئی ہے (One Leader – One Community)۔ وہ وقف نو کو بھی دکھانی چاہئے تاکہ ان کو اس لحاظ سے بھی پتہ چلے۔ اس قسم کے Topics اس زبان میں زیادہ ہونے چاہئے جس میں ان کو سمجھ آئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وقف نو میں سے نظم پڑھنے والے لڑکے کافی مل جائیں گے۔ آپ لوگ صرف سمجھتے ہیں کہ جلسہ پہ چالیس سال سے اوپر ہو تو نظم پڑھ سکتا ہے اور کوئی نہیں پڑھ سکتا۔ یوکے اور جرمنی کے جلسہ میں، مَیں نے ہی کچھ لڑکے اپنی طرف سے چنے ہوئے ہیں، نہیں تو اگر انتظامیہ پہ چھوڑتا تو پھر وہی بوڑھوں نے ہی آنا تھا۔

واقفین نَو کے ساتھ مجلس سوال وجواب

٭…اس کے بعد ایک واقف نو نے سوال کیا کہ ایک سنی مسلم لڑکی تھی میری کلاس میں، اس نے کہا کہ عورتیں ایسے (ہاتھ) باندھ کر نماز پڑھتی ہیں، لیکن احمدی عورتیں ایسے کرکے کیوں پڑھتی ہیں؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ باندھنے سے متعلق جو مختلف روایتیں پہنچی ہیں اس کے مطابق بعض ذرا سا اوپر کرکے ہاتھ باندھتے ہیں، بعض درمیان میں باندھتے ہیں اور بعض بالکل نیچے لا کر ہاتھ باندھتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ جس طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوام رہا ہے اور آپ نے اس پر زیادہ عمل کیا ہے وہ ہم نے اختیار کیا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی طرح پڑھا کرتے تھے، پھر اشارہ سے بتایا کہ اس جگہ یہاں ہاتھ رکھتے تھے اور اس طرح انگلیاں۔ لیکن جو ذرا اوپر رکھتے ہیں یا بالکل نیچے لا کر پڑھتے ہیں وہ بھی غلط نہیں ہیں۔ جو مالکی فرقہ کے لوگ ہیں، افریقہ میں امام مالک رحمہ اللہ کے ماننے والے بہت زیادہ ہیں، وہ ہاتھ نہیں باندھتے، وہ ہاتھ چھوڑ کے نماز پڑھتے ہیں۔ اذان بھی دیتے ہیں تو کانوں میں انگلیاں نہیں ڈالتے۔ تم جاکے دیکھو افریقہ میں بہت ساری جگہوں پر، اذان دے رہے ہوں گے تو دیوار کے ساتھ ایک آدمی کھڑا ہوگا، اس نے ہاتھ نیچے رکھے ہوں گے اور اذان دے رہا ہوگا۔ تو وہ اس لئے کہ حضرت امام مالک پر جو ظلم ہوئے تھے ان کی تکلیف کی وجہ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ جب وہ نہیں اٹھاسکتے تھے تو ان کے ماننے والے سمجھے کہ شائد یہی اب شریعت بن گئی ہے۔ لیکن بہرحال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ کس طرح ہاتھ باندھے، اس کے مطابق ہم پڑھتے ہیں اور حضرت مسیح موعودعلیہ ا لسلام نے جس طرح ہمیں بتایا کہ اس طرح ہونا چاہئے۔ عموماً تو سنی بھی اس طرح باندھتے ہیں، عورتیں عموماً میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اوپر کرلیتی ہیں۔
کونسا مذہب صحیح ہے
٭…ایک واقف نو نے سوال کیا کہ سارے مذاہب کہتے ہیں کہ ہم صحیح ہیں۔ سنّی کہتے ہیں کہ ہم صحیح ہیں۔ ہم احمدی بھی کہتے ہیں کہ ہم صحیح راستہ پر جارہے ہیں۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کونسا صحیح ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ میری امت میں بہت سارے فرقے بن جائیں گے، بہت سارے Sects ہو جائیں گی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اس زمانہ میں مسیح موعود اور مہدی موعود کا ظہور ہوگا۔ وہ ظاہر ہوں گے۔ وہ ایک جماعت بنائیں گے اور تم ان کو میرا سلام کہنا، ان کی جماعت میں شامل ہو جانا اور یہ بھی فرمایا کہ تمہیں اگر مشکل ترین راستے ہوں، برف کے Glaciers پر چل کر جانا پڑے تو جانا اور میرا سلام کہنا۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود و مہدی موعود وہ شخص ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آئے اور اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تہتر (73) فرقے ہوں گے، جن میں سے صرف ایک صحیح ہوگا، باقی سب غلط ہوں گے۔ ایک صحیح ہوگا جو صحیح راستہ دکھائے گا جو ہر فرقہ کو کہے گا کہ اس کے ساتھ شامل ہو۔
جماعت احمدیہ میں اب تم دیکھ رہے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو ماننے والے ہیں وہ سنّیوں میں سے بھی آئے اور شیعوں میں سے بھی آئے۔ اب سنّیوں اور شیعوں کے بھی آگے کئی فرقے بنے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کے تیس تیس سے اوپر فرقے بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں سے بھی تبلیغ کے نتیجہ میں لوگ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں، ہندوؤں میں سے بھی شامل ہورہے ہیں۔
پھر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود آئے گا اور اس کے بعد خلافت قائم ہوگی۔ اب دنیا میں جو دوسرے فرقے ہیں، کسی کے پاس ایک لیڈر نہیں، خلافت نہیں اور سنّی اپنا فرقہ چھوڑ کر شیعہ فرقہ میں داخل نہیں ہوتے۔ تمہیں نظر نہیں آئیں گے، کوئی اکادکا شائد ہو یا شیعہ کسی خوف کے مارے سنّی بن جائے تو بن جائے ورنہ ایسا نہیں ہے۔ جماعت میں جب شامل ہوتے ہیں تو سارے فرقوں کے شامل ہوتے ہیں اور یہی فرقہ ایسا ہے جو سچا ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید بھی ہے۔ پھر جماعت بڑھ بھی رہی ہے۔ ہر روز بڑھ رہی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جماعت سچی ہے۔
اگر جماعت جھوٹی ہوتی، اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی مدد ساتھ نہ ہوتی، تو یہ ختم ہو چکی ہوتی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہی فرمایا کہ اگر میں نے اپنے پاس سے کچھ بنایا ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ اس کا روز بروز بڑھنا، پھیلنا، ترقی کرنا اور Organized طریقے سے کام کرنا، دنیا میں پھیل جانا، 200 سے زیادہ ملکوں میں جماعت پھیل گئی، یہ باتیں بتاتی ہیں کہ ہم سچے ہیں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بھی یہ الہام ہوا تھا کہ تمام مسلمان فرقوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کر لو اور ایک امت واحدہ بنالو۔ اس لحاظ سے ہم کام کررہے ہیں۔ اَوروں کے پاس تو کوئی لیڈر نہیں ہے اور نہ اس طرح کوئی تبلیغ کررہا ہے، قرآن کریم کی تعلیم نہیں پھیلا رہا اور قرآن کریم کے تراجم نہیں پھیلا رہا۔ صرف جماعت احمدیہ ہے جس نے قرآن کریم کے تراجم کرکے دنیا کے ملکوں میں پھیلا دیئے ہیں۔ حدیثوں کے تراجم کرکے پھیلا دیئے۔ تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ مساجد بنا رہے ہیں۔ سنّیوں میں، شیعوں میں کونسا فرقہ ہے جو اتنے Large Scale پر کام کررہا ہے؟ کوئی نہیں کررہا۔
٭…ایک واقف نو بچے نے سوال کیا کہ میرا ایک بنگلہ دیشی دوست کہتا ہے کہ پاکستان کچھ نہیں ہے اور بنگلہ دیش سب سے اچھا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وہ کہتے ہیں بنگلہ دیش اچھا ہے۔ وہ بنگالی ہیں۔ ان کا ملک ہے تو ان کو اچھا ہی لگے گا۔ تم پاکستان سے آئے ہو۔ تم کہو مجھے پاکستان اچھا لگتا ہے۔ اپنا اپنا ملک ہر ایک کو اچھا لگنا چاہئے۔ وہ کہتا ہے بنگلہ دیش اچھا ہے تو اس کو بنگلہ دیش اچھا لگنا چاہئے کیونکہ اپنے وطن سے محبت ہونی چاہئے۔ تم پاکستان سے آئے ہو، اگر پاکستان تمہارا وطن ہے تو تمہیں اس سے محبت ہونی چاہئے۔ تم کہو پاکستان اچھا ہے۔ لڑنے کی ضرورت نہیں۔ کہو کہ تمہارے لئے وہ اچھا ہے، میرے لئے یہ اچھا ہے۔ بغیر لڑے فیصلہ ہو جائے گا۔
٭…ایک بچہ نے سوال کیا کہ آپ جب حضور بنے تھے تو آپ کو کیسے لگا تھا؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: انتخاب کے بعد MTA نے جو دکھایا تھا وہ دوبارہ دیکھ لینا تو پتہ لگ جائے گا کہ کیسے لگا تھا۔
عالمی راہنماؤں کو خطوط
٭…ایک واقف نو نے سوال کیا کہ آپ نے Different World Leaders کو جو Letters بھیجے تھے، جس طرح پوپ کو، باراک اوباما کو،
تو ان کا کوئی آپ کو جواب واپس آیا؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہی تو ابھی تک مسئلہ ہے۔ ابھی کسی نے بھی جواب نہیں دیا اور مجھے کسی سے جواب کی امید بھی نہیں تھی گو کہ ان کے ہاتھ میں پہنچ گئے ہیں۔ لیکن اب میرا یہ خیال تھا کہ یہاں کے جو کینیڈین Prime Minister صاحب ہیں، یہ تعلق رکھتے ہیں تو یہ ضرور جواب دے دیں گے۔ لیکن انہوں نے بھی ابھی تک تو نہیں دیا۔ لیکن کہتے ہیں کہ میں چند دن تک دے دوں گا۔ کہتے ہیں بڑا مشکل خط تھا۔ میرے لئے اس کا جواب دینا بڑا مشکل ہے۔ میں سوچ سمجھ کے جواب دوں گا۔ یہی باراک اوباما کے طرف سے جواب آیا تھا۔ جب میں امریکہ گیا ہوں تو وہاں فنکشن میں White House کا ایک نمائندہ آیا تھا، میں نے کوئی بات نہیں کی۔ اس نے خود مجھے کہا تھا کہ President صاحب جواب دینے کے لئے سوچ رہے ہیں۔ ایک دو ہفتہ تک دے دیں گے۔ اب کیا دیتے ہیں یا نہیں دیتے یا اس کا سیاسی جواب تھا، کیونکہ مجھے تو ان کے جواب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف یہی ہے کہ اگر توجہ پیدا ہو جائے تو ٹھیک ہے۔ تو اس نے بھی مجھے یہ کہا کہ وہ ایک دو ہفتہ تک جواب دے دیں گے۔ وہ بھی سوچ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ سوال اتنے مشکل اٹھائے ہوئے ہیں کہ ہمیں جواب دینا مشکل لگ رہا ہے۔ لیکن بہرحال یہاں کینیڈا کے Prime Minister صاحب بھی کہتے ہیں کہ میں بھی جلدی جواب دے دوں گا۔ ابھی تک تو کسی کا نہیں آیا۔
شہید کون ہوتا ہے
٭…ایک واقف نو نے سوال کیا کہ آپ صرف اس صورت میں شہید بنتے ہیں جب آپ اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں یا دوسرا طریقہ بھی ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ کی راہ میں قربان ہونے والا بھی شہید ہے اور ہر شخص جو اس خواہش کے ساتھ کام کرتا ہے کہ جو بھی ہو، اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینی پڑے تو میں دوں گا تو وہ بھی اللہ کی راہ میں جان دے کر شہادت کا رتبہ پالیتا ہے۔ شہید وہ بھی ہے جو نبی کی جماعت کی خاطر قربانی کرے اور سچی گواہی دے۔ خداتعالیٰ کی باتوں پر یقین رکھنے والا ہو اور اپنے عمل سے بھی ہر بات کا گواہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت کے مختلف رتبے رکھے ہوئے ہیں۔ باقی اللہ تعالیٰ، اگر کوئی شہادت کی خواہش رکھنے والا ہو تو اس کو بھی یہ مقام دے سکتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے اپنے مال کی خاطر قربانی کرنے والا بھی شہید ہو جاتا ہے۔ اپنی جائیداد کی حفاظت کرنے والا بھی شہید ہے۔ بعض حادثات میں مرنے والا بھی شہید ہے۔ تو شہید کی مختلف Categories ہیں۔ مختلف درجات ہیں۔
حجر اسود کی اہمیت
٭…ایک بچہ نے سوال کیا کہ جب خانہ کعبہ بنا تھا تو اس کے اندر وہ جو Rock ہے اس کا کوئی مطلب ہے یا نہیں؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کا مطلب حجر اسود سے ہے؟ حجراسود ایک کالا پتھر ہے۔ اس کی اہمیت پرانے زمانہ سے چلی آرہی ہے۔ اس کو Sacred سمجھا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے باقی پتھر بھی آسمان سے گرے ہوں۔ جو Meteors گرتے ہیں ان پتھروں سے نکلا ہوگا۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ کوئی Meteor گرا تھا اور یہ پتھر اس کا ٹکڑا تھا۔ یہ اس کی اہمیت ہے۔ عربوں میں پرانے زمانہ سے اس کی ایک خصوصیت چلی آرہی ہے۔ اسی لئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو اس وقت سارے قبیلوں کا جھگڑا پیدا ہو گیا کہ کون اس کو اس کے کونے پر، اس کی جگہ پر لگائے گا۔ تو سارے لیڈرز نے فیصلہ کیا کہ جو شخص ہمیں صبح پہلے آتا ہوا نظر آئے گا۔ اس سے ہم یہ پتھر لگوالیں گے تاکہ لڑائی نہ ہو۔ تو صبح دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آرہے تھے۔ انہوں نے کہا یہ سب سے زیادہ صادق اور امین شخص ہے۔ ان سے لگوائیں گے۔ سچے بھی ہیں، امانتدار بھی ہیں اور ہم سے سب سے زیادہ نیک بھی ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ ایک چادر بچھائی جائے اور اس کے اوپر وہ پتھر رکھ دیا جائے۔ پھر سارے لیڈروں کو کہا اس کے کونے پکڑ لو اور اس کو اٹھاؤ۔ انہوں نے اٹھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پتھر وہاں Fix کردیا۔ تو اس کی اس لحاظ سے ایک Value ہے کہ وہ مقدس پتھر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی بہت بڑا مقام بن گیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حج کرتے ہوئے اس پتھر کو ڈنڈا مار دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ تمہار ی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے، پیار کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو مَیں تمہیں کبھی پیار نہ کرتا۔ یعنی میرے نزدیک تمہاری ذاتی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ تو کسی چیز کو شرک نہیں بنانا چاہئے۔ اللہ کا گھر ہے، خانہ کعبہ ہے۔ وہ تو بہرحال ہے اور اسی وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اہمیت دی ہے۔ اس لئے اس کی اہمیت ہے۔ تو حضرت عمرؓ نے اپنے ماننے والوں کو یہ سمجھانے کے لئے، امت کو بتانے کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ جب میں تمہیں پیار کررہا ہوں یا بوسہ دے رہا ہوں تو وہ اس وجہ سے ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اس سنت پر اس لئے عمل کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا۔ تو اس طرح اس کی اہمیت ہوگئی اور اب تو اس کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تبرک بن گیا۔ اگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی انگوٹھی اور کپڑے برکت والے ہوسکتے ہیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چیز تو بہت برکت والی ہے، سب سے زیادہ برکت والی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں