’’ڈاکٹر عبد السلام کو سلام‘‘

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جنوری 2005ء میں مکرمہ زینت محمود صاحبہ کے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارہ میں ایک انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ (از مکرم حافظ سمیع اللہ صاحب) شامل اشاعت ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

1925ء میں ضلع جھنگ کے ایک فرد کو اس کی دعاؤں کے نتیجہ میں یہ رؤیا دکھائی گئی کہ ایک بچہ اس کی گود میں ڈالا گیا ہے اور اس کا نام پوچھنے پر عبدالسلام بتایا گیا۔ چنانچہ 29؍جنوری 1926ء بروز جمعہ وہ بچہ پیدا ہوا۔ کچھ سالوں بعد باپ نے دیکھا کہ سلام ایک اونچے درخت پر چڑھ رہا ہے ۔ جب اس کو تنبیہ کی تو سلام نے جواب دیا کہ اباجان آپ نہ ڈریں، میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ پھر سلام ویسے ہی درخت پر چڑھتا رہا یہاں تک کہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
اعلیٰ تعلیم کے لئے سلام نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلے کی درخواست تو دیدی مگر ان کے والد محترم کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ سلام کو بیرون ملک تعلیم کے لئے بھجوایا جائے۔ حسن اتفاق سے سر چھوٹو رام (پنجاب کے ریونیومنسٹر) جو کہ خود بھی ایک غریب دیہاتی کے بیٹے تھے، نے جنگ کے لئے اکٹھے کئے گئے فنڈز کو ذہین طلبا کے سکالر شپ کے لئے مختص کردیا۔ اور سلام نے اپنی قابلیت کی بنا پر اسے حاصل کیا۔
کیمبرج میں سلام نے اندازہ لگایا کہ ان کا علم دنیا کے متعلق نہایت محدود ہے۔ رومیؔ کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے خود کو ’’کنویں کامینڈک‘‘ کہا۔ آپ نے اسلامی تصوف، فلاسفی، سیاسی اور مذہبی تاریخ، معاشرتی علوم اور مسلمان صوفیوں، سائنسدانوں اور سکالروں کے کارہائے نمایاں کا عرقریز مطالعہ کیا۔ اس مطالعہ نے سلام کو ایسی ہمہ گیر شخصیت بنایا جو کہ روحانی اور تاریخی ماحول کا ادراک رکھتی تھی۔
سلام نے یہاں Mathematics tripos ڈگری اور “Wrangler”کا ٹائٹل حاصل کیا اور بعد ازاں تین سال کی فزکس کی ڈگری ایک سال میں ہی مکمل کر لی۔ ان کے تھیوریٹیکل پیپرز کا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ ممتحن نے سلام سے پریکٹیکل رزلٹس کے بارہ میں دریافت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔
آپ کے ایک پروفیسر Sir Fred Hail آپ کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اپنے دوسرے شاگردوں کو کوئی چیز سمجھانی ہوتی تو گویا دو بھاری پتھروں کا ایک اونچی جگہ تک دھکیلنے والا کام تھا۔ ایک بھاری پتھر ’’مسئلہ بیان کرنا‘‘ اور دوسرا پتھر ’’اس مسئلے کی تفہیم کروانا‘‘ تھا لیکن سلام اتنا قابل تھا کہ اس سے بحث کرتے وقت صرف ایک پتھر دھکیلنا ہوتا تھا وہ بھی زیادہ تر سلام خود ہی دھکیلتا تھا۔
1956ء میں سلام نے تھیوریٹیکل فزکس میں Ph.D. کی ڈگری کیمبرج سے حاصل کی اور فیلوشپ کی پیشکش کے باوجود آپ وطن واپس چلے آئے اور گورنمنٹ کالج میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ آپ کے پروفیسر kemmer نے بالآخر آپکو آمادہ کیا کہ کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار کے فرائض انجام دیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میں خوب جانتا ہوں کہ ملک کی خدمت کے جذبہ سے سرشار سلام پر یہ بات گراں گزری ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر باہر جائیں لیکن اگر وہ جاتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ چند ہی سالوں میں سلام ان لوگوں میں شمار ہوں گے جن سے علم حاصل کرنے کیلئے دنیا کے ہر کونے سے طالبعلم آئیں گے اور سلام اس قابل ہوجائیں گے کہ تھیوریٹیکل فزکس کا اپنا ذاتی ادارہ قائم کریں گے‘‘۔ اور یہ بات سچ ثابت ہوئی۔
وہ دیہاتی لڑکا جس نے سولہ سال کی عمر تک بجلی کا بلب نہ دیکھا تھا، وہ1957ء میں امپیریل کالج لندن کے کم عمر ترین پروفیسر بنا۔ اب اس کی ملاقات دنیائے سائنس کے عظیم سائنسدانوں سے رہتی تھی۔ ایک بحث کے دوران جب Russelنے کہا وہ خدا کی ہستی کو بالکل نہیں مانتا تو سلام نے جواب دیا کہ ’’خدا پر ایمان کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سے نقصان اٹھائے جاچکے ہیں جبکہ وہ لوگ جو خدا پر ایمان لائے ہیں وہ انسانیت کے لئے زیادہ قربانیاں دیتے ہیں بہ نسبت ان کے جو خدا کی ہستی کے منکر ہیں‘‘۔
اسی طرح آئن سٹائن سے اپنی پہلی ملاقات میں دونوں نے مذہبی گفتگو کی اور سلام نے اس کے سامنے توحید کا نظریہ پیش کیا جس کے بعد وہ دونوں قریبی دوست بن گئے۔ ڈاکٹر سلام اپنی روحانیت اور تصوف میں دلچسپی کی وجہ سے دوسرے تمام سائنسدانوں سے منفرد تھے۔ آپ نے امپیریل کالج میں اپنا پہلا لیکچر قرآن مجید کی تلاوت سے شروع کیا۔
ڈاکٹر سلام صاحب کے ایک شاگرد Duff بیان کرتے ہیں کہ سلام کے لیکچرز سحرانگیز ہوا کرتے تھے ان میں ہمیشہ مشرقی تصوف کا رنگ غالب ہوتا۔ سننے والا اس سوچ میں گم ہوجاتا کہ یہ بندہ اتنا Genius کیونکر ہے۔ سلام کہا کرتے تھے کہ ایک سائنسدان کے کئی رُخ ہوتے ہیں وہ صوفی بھی ہوتا ہے، explorer بھی اور آرٹسٹ بھی۔ اور ان سب باتوں کی بنیاد پر اپنے علم سائنس کو مزید آگے بڑھاتا رہتا ہے۔

صدر محمد ایوب خان

جب سلام صدر ایوب خان کے مشیر تھے تب سلام نے پاکستان میں اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد رکھی (PAEC)۔ ڈاکٹر اشفاق (1998ء صدرPAEC) بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر سلام نے 500 فزکس دانوں، ریاضی دانوں اور سائنسدانوں کو Ph.D.کے لئے برطانیہ اور امریکہ کے بہترین اداروں میں بھجوایا۔
سلام نے پاکستان میں ایک سائنسی پلانٹ قائم کرنے کے لئے انتھک محنت کی۔ نیز1961ء میں ڈھاکہ میں آل پاکستان سائنس کانفرنس کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران پاکستان کو درپیش مشکلات اور تیسری دنیا کے ممالک سے غربت اور جہالت کے خاتمے کیلئے رہنما تجاویز بیان فرمائیں۔
سلام نے نیوکلیئر ریسرچ سنٹر PINSTECH اور SUPARCO کے قیام کے لئے بھی غالب کردار ادا کیا ۔ پاکستان میں سیم وتھور کا مسئلہ حل کرنے کے لئے سلام نے ریسرچ کی جو امریکہ کے ایوان نمائندگان میں پیش کی گئی۔ اور سلام کی درخواست پر امریکی صدر کینیڈی نے ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان بھیجی جنہوں نے آکر کئی لاکھ ایکڑ زمین کو زراعت کے قابل بنایا۔
سلام نے پاکستان میں فزکس کا ادارہ قائم کرنے کے لئے دن رات اَن تھک جدوجہد کی۔ مگر حکومت پاکستان نے اس میں دلچسپی نہ لی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ محمد شعیب نے ایوب خان کو بتایا کہ ’’سلام سائنسدانوں کے لئے ایک فائیوسٹار ہوٹل بنانا چاہتا ہے‘‘۔ چنانچہ سلام نے مایوس ہوکر یہ ادارہ بیرون ملک منتقل کردیا اور انٹرنیشنل سنٹر برائے تھیوریٹیکل فزکس (ICPT) کا قیام اٹلی میں 1964ء میں عمل میں آیا۔ آپ نے 30سال وہاں بطور ڈائریکٹر کام کیا اور اس ادارہ کو تیسری دنیا اور ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا دیا۔ 1979ء میں سلام کو Grand Unification تھیوری پر ریسرچ کی بناء پر نوبل انعام ملا۔ اس مؤحد سائنسدان کا خیال تھا کہ کائنات کی تمام قوتوں کا منبع ایک ہے۔ سلام گھنٹوں سائنسی تحقیق میں مستغرق رہنے کے باوجود نوافل اور تلاوت قرآن کے لئے بھی وقت نکال لیتے تھے۔
نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد سلام وطن واپس آئے تو ایک دن ڈاکٹر عثمانی سے کہا کہ گورنمنٹ کالج چلئے۔ ڈاکٹر عثمانی نے کہا کہ آجکل تو وہاں چھٹیاں ہیں۔ سلام نے کہا کہ جس شخص سے میں ملنا چاہتا ہوں وہ یقینا وہاں ہوگا۔ وہاں پہنچے تو سلام نے ایک ادنیٰ ملازم سے معانقہ کیا اور بتایا کہ یہ نیوہوسٹل کے میس میں ملازم تھا اور میرے کہنے پر یہ میرے کمرہ کو باہر سے تالا لگاکر کھانے پینے کی اشیاء کھڑکی سے تھما دیا کرتا تھا۔
سلام ان لوگوں کو بھولتے نہیں تھے جنہوں نے آپکی کسی بھی رنگ میں مدد کی ہو۔ جب کیمبرج میں تھے تب بھی اپنے جھنگ والے اساتذہ کی (جو ریٹائرڈ ہوچکے تھے اور غریب تھے) کی باقاعدگی سے مالی امداد کرتے تھے۔ آپ اپنے تمام اساتذہ کی نہایت عزت کرتے تھے اور جب آپ نے انڈیا کا سرکاری دورہ کیا تو اصرار کیا کہ ہر تقریب جو آپ کے لئے منعقد کی جائے اس میں آپ کے تمام ہندو اور سکھ اساتذہ (جو ہجرت کرکے ہندوستان آگئے تھے) کو بھی بلایا جائے۔
انڈیا میں آپ کی انتہائی تکریم کی گئی۔ وزیراعظم اندراگاندھی نے آپ کے برابر والی کرسی پر بیٹھنے کی بجائے پہلو میں زمین پر بیٹھنا پسند کیا۔ جب آپ سے ہندوستانی طلبہ نے پوچھا کہ نوبل پرائز آپکی زندگی میں کن تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا تو آپ نے فرمایا ’’سب سے بڑی تبدیلی یہ کہ اب میں ان تمام لوگوں سے مل سکتا ہوں جن سے ملاقات کرنا چاہتا تھا اور ان کی مدد اور اللہ کے کرم سے میں تیسری دنیا کے اُبھرتے ہوئے سائنسدانوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ اس سے زیادہ نوبل پرائز کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے‘‘۔
ایک مرتبہ ایک صحافی نے آپ کی غیرمعمولی کامیابی کے بارہ میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ جھنگ کے رہنے والے ہیں جو کہ ہیر کی لوک داستان کی وجہ سے معروف ہے اور اب آپ کی وجہ سے یہ گاؤں اس صدی کے عظیم سائنسی دماغ کا گھر بن گیا ہے۔ سلام نے نہایت عاجزی سے جواب دیا کہ: دنیا میں 325 سے زائد نوبل لارئیٹ ہیں لیکن ہیر صرف ایک ہی ہے۔
1988ء میں سلام کو فیض میموریل لیکچر پر مدعو کیا گیا تو اس موقع پر آپ کی تقریر آپکی عاجزی اور بے نفسی پر دلالت کرتی ہے۔ فرمایا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں فیض احمد فیض سے کم تر انسان ہوں۔ وہ محبت اور حسن کی دنیا کا باسی تھا جبکہ میں ایٹم کی بے رنگ اور خشک دنیا میں رہنے والا ہوں۔ مزید فرمایا کہ ’’قرآن مجید کا آٹھواں حصہ مومنوں کو دعوت دیتا ہے کہ آؤ اور قوانین قدرت کے بارہ میں سوچو، انہیں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرو‘‘۔ فیض غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک تھے جنہوں نے اس چلینج کو قبول کیا۔ انہوں نے یہ مضمون کھولا کہ کس طرح روحانی شاعری اور سائنس ایک ہی منبع سے نکلے ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلام نے نہایت تأسف سے کہا کہ میری اور فیض کی ایک اَور مشابہت یہ بھی ہے کہ ہم دونوں اپنے ارباب اختیار کی طرف سے ناپسندیدہ شخصیات سمجھے گئے ہیں۔
اپنی زندگی کا آخری حصہ سلام نے انگلینڈ میں گزارا اور جب آپ سے پوچھا گیا کہ پاکستان آنے کے بارہ میں کیوں متردد ہیں تو جواب دیا کہ میں نہیں بلکہ خود پاکستان مجھے بلانے کے بارہ میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ ڈاکٹر سلام کو کئی ممالک نے شہریت کی دعوت دی۔ اردن اور کویت نے بھی یہ پیش کش کی کہ اگر اُن کی شہریت قبول کرلیں تو وہ آپ کو UNESCO کا ڈائریکٹر جنرل بنانے کے لئے نامزد کریں گے۔ جواہر لعل نہرو نے آپ کو خط لکھا کہ ’’آپ ہمارے پاس آجائیں آپ کی جو بھی شرائط ہوں ہم مان لیں گے‘‘ ۔ حتیٰ کہ حکومت برطانیہ کی طرف سے آپ کو لکھا گیا کہ ملکہ معظمہ کی خواہش ہے کہ آپ کو Knighthoodکا خطاب دیا جائے (یہ شاہی اعزاز صرف ملکہ ہی دے سکتی ہے)۔ لیکن سلام نے کسی اور ملک کی شہریت قبول نہ کی اور اپنے پاکستانی کہلوانے پر ہی فخر کیا۔
1991ء میں منیر احمد خان سابق چیئر مین PAEC نے سلام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستانی بے شک ڈاکٹر عبد السلام کو نظر انداز کر دیں لیکن کُل عالم ان کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔
1979ء میں مشہور صحافی جمیل الدین عالی نے لکھا کہ مشرق کے دو ہیرو ایسے ہیں جن کی مشرق نے قدر نہ کی۔ مگر باقی تمام دنیا میں ان کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ وہ مدر ٹریسا اور ڈاکٹر سلام ہیں۔
گو سلام کو ساری دنیا سلام کرتی ہے مگر اپنے وطن میں سلام کی یادیں تعصب اور بے اعتنائی کے بوجھ تلے گم ہوگئی ہیں۔ سلام کا ذکر درسی کتب اور دیگر اہم لٹریچر سے بھی مٹادیا گیا ہے لیکن یہ ہمارا اپنا ہی نقصان ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں