کینسر سے بچاؤ کے لئے چند غذائیں – جدید تحقیق کی روشنی میں

کینسر سے بچاؤ کے لئے چند غذائیں – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

ذیل میں ایسی غذاؤں کے بارے میں کچھ عرض ہے جو کینسر سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
٭ ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ اور امریکن انسٹیٹیوٹ فار کینسر ریسرچ کی طرف سے پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں چار ممالک (یعنی متحدہ امریکہ، برطانیہ، برازیل اور چین) میں تفصیلی مطالعاتی جائزہ لینے کے بعد بتایا گیا ہے عام طور پر لاحق ہونے والے کینسر کی بارہ اقسام میں سے ایک تہائی سے بچاؤ ممکن ہوسکتا ہے اگر مناسب غذا کا استعمال کیا جائے، ورزش میں باقاعدگی ہو اور موٹاپے پر قابو پالیا جائے۔ یہ جائزہ مرتب کرنے والی ٹیم کے سربراہ مارٹن وائزمین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی، موٹاپے میں اضافے، لوگوں کی جسمانی کاہلی کے علاوہ طاقتور غذاؤں اور دواؤں کے استعمال کی وجہ سے کینسر کے لاحق ہونے کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے رپورٹ میں کینسر سے بچاؤ کے بارے میں چار درجن ایسی ہدایات بیان کی ہیں جنہیں 23 اداروں نے مرتب کیا ہے۔
ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیلشیم کے باقاعدہ استعمال سے آنت کے کینسر اور نظام انہضام میں ٹیومز پیدا ہونے کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ نتائج آرکائیوز آف انٹرنل میڈیسن کا جائزہ لینے والوں نے مرتب کئے ہیں۔ اور ان کے حوالے سے میری لینڈ امریکہ کے نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جو قریباً 1900 ملی گرام کیلشیم روزانہ استعمال کرتی ہیں وہ کینسر میں ایسی خواتین کی نسبت 23فیصد کم مبتلا ہوئیں جو روزانہ کیلشیم کی صرف پانچ سو ملی گرام خوراک استعمال کرتی تھیں۔ اسی طرح وہ مرد جو کیلشیم کی 15سو ملی گرام سے زائد مقدار روزانہ لیتے رہے، اُن کے نظام انہضام کے کینسر میں مبتلا ہونے کا امکان دوسروں کی نسبت 16فیصد کم رہا۔ تاہم چھاتی کے کینسر یا پراسٹیٹ کینسر کے ساتھ کیلشیم کا براہ راست تعلق نہیں پایا گیا۔
٭ امریکی جریدے ’’کلینیکل نیوٹریشن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سویا کے استعمال سے معمر خواتین میں مثانے کے کینسر کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے اور سویا کا زیادہ استعمال کرنے والی خواتین میں بڑی آنت کے کینسر کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پچاس سال سے زیادہ عمر کے جو لوگ ’’سویا‘‘ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، اُن میں مذکورہ امراض پیدا ہونے کے خدشات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے چین کے شہر شنگھائی میں 40 سے 70 سال کی عمر تک کی 68ہزار 412 خواتین کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ سویا کی حامل خوراک لینے والی خواتین میں بڑی آنت کے امراض اور مثانے کے کینسر میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ سویا کو خوراک میں شامل کرنے سے خون میں کولیسٹرول کی سطح بھی کم ہوجاتی ہے۔
رپورٹ کے آخر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کینسر سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ نمک اور گوشت کے استعمال کو کم کرکے پودوں کے ذریعے پیدا ہونے والی خوراک کے استعمال میں اضافہ کردیا جائے، جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہا جائے اور وزن میں اضافہ نہ ہونے دیا جائے۔
٭ یہ تحقیق قبل ازیں ہم پیش کرچکے ہیں کہ سَبْز چائے سے رسولیوں کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے لیکن یہ تحقیق نئی ہے کہ سفید چائے یعنی کیمیلیا(camellia)کے نرم پتوں سے بنائی جانے والی چائے بڑی آنت کے کینسر سے حفاظت کے معاملے میں سبز چائے سے کہیں زیادہ مفید پائی گئی ہے۔ اوریگان سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے چائے کی ان دونوں قسموں کی بڑی آنت میں پیدا ہونے والے کینسر کے خلیات کی افزائش روکنے کی صلاحیت جانچی تھی جس میں سفید چائے کو دس فیصد زیادہ مؤثر پایا گیا اور اس چائے کے استعمال سے ایسے خُلیات کی افزائش قریباً اسی طرح رُک گئی تھی جیسے ایک طاقتور دافع سوزش دوا اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اس چائے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ دافع سوزش دوائوں کے استعمال سے آنتوں میں خون کے رسائو اور السر پیدا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ کیمیلیا کے پتوں سے تیارشدہ چائے ہر قسم کے سائیڈایفکٹس سے پاک قرار دی گئی ہے۔
= کینسر سے روکنے میں معاون ایک چیز دودھ کا عرق ہے جو دہی کے اوپر تیرتے ہوئے پانی اور چھاچھ میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اوہایوسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنے ایک تجربے میں پروسٹیٹ گلینڈ میں پیدا ہوجانے والے کینسر کے خلیات کا دودھ کے عرق کے ذریعے کامیاب علاج کیا اور دودھ کے عرق کے استعمال کے بعد خلیات میں موجود کینسر کو روکنے والے مرکب کی سطح میں 46 فیصد تک اضافہ نوٹ کیا۔ ماہرین کے مطابق دودھ کا عرق ایک مخصوص امینوایسڈ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ امینوایسڈ جسم میں پہنچنے کے بعد دافع کینسر مرکب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
= ماہرین کے مطابق سنگترے میں صحت کو بہتر رکھنے والی جتنی خوبیاں پائی جاتی ہیں، وہ سب نارنگی کے تازہ جوس میں بھی موجود ہوسکتی ہیں، سوائے ایک خوبی کے، جو کینسر سے محفوظ رکھنے سے متعلق ہے اور یہ خوبی سنگترے کے بیرونی رنگدار چھلکے میں ہی پائی جاتی ہے۔ ایریزونا یونیورسٹی کے ایک جائزے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی کے ساتھ سنگترے کے رنگدار چھلکے کا استعمال کرتے ہیں ،ان میں جلد کے سرطان کا خطرہ نمایاں طور پر کم پایا جاتا ہے۔
= پھر اِس رپورٹ کے مطابق ہلدی بھی کینسر کے خلیات کی افزائش روک دینے میں مفید ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ الی نوائے یونیورسٹی کے ماہرین نے آنتوں میں السر کا سبب بننے والے جراثیم H.pyloriکی 19 مختلف اقسام پر جب ہلدی کے سفوف کا چھڑکائو کیا تو ان کی سرگرمیاں ختم ہو گئیں۔ یہی جراثیم بڑی آنت اور معدے کے کینسر کا سبب قرار دیئے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلدی سے جراثیم کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ وہ سوزش کم ہوجاتی ہے جو ایچ پائلوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہی سوزش بالآخر کینسر کا سبب بنتی ہے۔
= رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اخروٹ اور تل کے دانوں میں پایا جانے والا تیل وٹامن E کے حصول کا بہترین ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے اور وٹامن ای کا ایک جزو Gamma Tocopherol ہے جو کینسر کا مقابلہ کرنے کی عمدہ صلاحیت رکھتا ہے۔ پرڈو یونیورسٹی کے ماہرین نے وٹامن ای کے اِس جزو کو جب پروسٹیٹ اور پھیپھڑے کے سرطانی خلیات کے خلاف استعمال کیا تو انہوں نے دیکھا کہ Gamma Tocopherol نے اُن خلیات کی افزائش روک دی تھی ۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وٹامن ای کے اس مرکب نے رسولی کے خلیات کو تباہ کرنے کے باوجود صحت مند خلیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مخصوص جزو ، وٹامن ای کی دوائوں میں موجود نہیں ہوتا بلکہ آپ اسے تل کے تیل اور اخروٹ سے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔
٭ امریکی سائنسدان ان دنوں جامنی گودے والی ایسی شکرقندی تیار کر رہے ہیں جو کینسر سے حفاظت کرنے میں مدد دے گی۔ اس جامنی شکر قندی میں نہ صرف سرطان سے بچاؤ کی خوبیاں موجود ہوں گی بلکہ اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ کیمکلز بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو بھی کچھ مزید عرصے کے لئے روک سکیں گے۔ کنساس سٹیٹ یونیورسٹی کی کی محقق سولونک لم کا کہنا ہے کہ شکر قندی کا جامنی رنگ ایک کیمیائی مادے Anthocyanin کی وجہ سے ہے جو کینسر کے خطرے میں کمی کرتا ہے اور بعض دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ کی رفتار کو بھی سست کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شکرقندی کی رنگت سے اس میں اینتھو سایانن کی مقدار کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ ماہرین بڑی آنت کے سرطان کے علاج میں اِس مادے کو استعمال کرکے مثبت نتائج حاصل کرچکے ہیں۔ اینتھوسایانن بعض دیگر پھلوں اور سبزیوں مثلاً بلوبیریز، سرخ انگور اور جامنی بندگوبھی میں بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم خصوصی طور پر تیار کی گئی جامنی شکر قندی میں اس کی مقدار کہیں زیادہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں