ابتدائی واقف زندگی اور امریکہ کے پہلے مبلغ – حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ

(مطبوعہ سہ ماہی اسماعیل جولائی تا ستمبر 2012ء)

ذرا اوپر والی تصویر کو ملاحظہ فرمائیں جس میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی چھڑی کا اوپر والا حصہ پکڑے ہوئے کرسی پر تشریف فرما ہیں جبکہ چھڑی کا نچلا حصہ قدموں میں بیٹھے ہوئے حضرت مفتی صاحبؓ نے بڑی محبت و عقیدت سے پکڑا ہوا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ عاشق صادق وہ تھا جس نے بڑی محبت سے حضور علیہ السلام کے حضور خدمتِ دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور حضورؑ کی محبت جذب کرنے کے لئے غیرمعمولی خدمات بجالانے کی توفیق پائی۔

(مرتّبہ: محمود احمد ملک)

حضرت مفتی صاحبؓ 13؍جنوری 1872ء کو مفتی عنایت اللہ قریشی عثمانی صاحب کے ہاں بھیرہ میں پیدا ہوئے۔
آپؓ نے قریباً 13 سال کی عمر میں بھیرہ کے ایک نیک شخص کی زبانی سنا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جن کو الہام ہوتے ہیں۔ آپ کے والد نے آپ کو قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کے پاس جموں بھجوادیا جہاں آپ چھ ماہ مقیم رہے اور حضرت مولوی صاحبؓ کی مجلس میں حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر بھی سنتے رہے۔ 1889ء میں آپ نے ایک رؤیا دیکھا جس کا آپ کی طبیعت پر بہت اثر ہوا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
جمّوں میں قیام کے دوران

میٹرک کرنے کے بعد حضرت مفتی صاحبؓ کو حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے ذریعہ انگریزی کے استاد کے طور پر جموں میں ملازمت مل گئی تھی اور انہی کا تعارفی خط لے کر آپؓ دسمبر 1890ء میں پہلی بار حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ اگلی صبح سیر کے دوران آپ نے حضورؑ سے پوچھا کہ گناہوں سے بچنے کا علاج کیا ہے؟ حضورؑ نے فرمایا کہ موت کو یاد رکھنا چاہئے، جب آدمی اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اس نے آخر ایک دن مرجانا ہے تو اس میں طول امل پیدا ہوتا ہے، لمبی لمبی امیدیں کرتا ہے اور گناہوں میں دلیری اور غفلت پیدا ہوجاتی ہے۔
قادیان آمد کے تیسرے دن آپؓ نے بیعت کی سعادت حاصل کی۔ آپ کے والد محترم مفتی عنایت اللہ صاحب کی وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل ہوچکی تھی۔ جبکہ آپؓ کی والدہ محترمہ نے 1897ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میری بیعت کے ابتدائی سالوں میں ایک صوفی نے یہ معلوم کرکے کہ مَیں نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کرلی ہے مجھے کہا کہ تم بہت جلد عیسائیوں، آریوں وغیرہ اقوام مخالفینِ اسلام کے جواب دینے میں ایک خاص طاقت حاصل کروگے۔ میں نے کہا آپ کو کس طرح معلوم ہوا۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جس شخص کی بیعت کی ہے اس کی توجہ ادیانِ باطلہ کی نیست کرنے کی طرف بہت بڑھی ہوئی ہے اور مرشد کی توجہ کا اثر مریدین پر پڑتا ہے۔
بیعت کے وقت آپؓ جموں میں ہائی سکول میں انگریزی کے استاد تھے۔ 1895ء تک آپؓ وہیں ملازم رہے۔ ہر سال ایک دو بار قادیان حاضر ہوتے۔ 1894ء میں سورج گرہن کے وقت بھی قادیان میں موجود تھے۔ پہلی بار جب آپؓ قادیان سے واپس جموں گئے تو حضرت مولوی صاحبؓ اور دوسرے احمدیوں نے حضور علیہ السلام کے واقعات دریافت فرمائے۔ اس کے بعد آپؓ کا معمول بن گیا کہ جب بھی قادیان گئے تو ایک ڈائری اپنے پاس رکھتے اور قادیان میں گزارے جانے والے لمحات کی تفصیل اُس میںد رج کرتے جاتے۔ اس ڈائری سے بعد میں بہت ہی فائدہ پہنچا۔
1895ء میں آپؓ لاہور آ گئے اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملازمت کا آغاز کیا۔ اس طرح قادیان جلد جلد آنے کا موقع پیدا ہوگیا۔ جلد ہی آپؓ کو خواہش ہوئی کہ ملازمت ترک کرکے قادیان آبسیں۔ حضورؑ کی خدمت میں اجازت کے لئے لکھا تو حضورؑ نے جواباً تحریر فرمایا کہ مومن کے واسطے قِیَام فِیْمَا اَقَامَ اللّٰہ ضروری ہے یعنی جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے روزی کا سبب بنایا ہے وہیں صبر کے ساتھ کھڑا رہے یہاں تک کہ کوئی سبب ایسا بنے کہ آپؓ کو کسی کام کے واسطے قادیان بلالیا جائے لیکن ہجرت کے ارادہ کا ثواب آپؓ کو ملتا رہے گا۔
18؍ مئی 1900ء کو بشپ لیفرائے کی لاہور میں ’’زندہ رسول اور معصوم نبی‘‘ کے موضوع پر تقریر کے بعد حضرت مفتی صاحبؓ نے سوالات کر کے اسے لاجواب کر دیا۔ چنانچہ 25؍ مئی کو اس نے ایک اَور لیکچر کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حضرت مفتی صاحبؓ کی درخواست پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مضمون لکھا جو بشپ صاحب کے لیکچر کے بعد آپؓ نے پڑھا اور جسے سن کر فضا ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس پر بشپ لیفرائے نے جواب دینے کے بجائے کہا: ’’میرا لیکچر دوسرے مسلمانوں کے لئے ہے، تم احمدی ہو، تم سے مَیں بات نہیں کر سکتا‘‘۔
1900ء کے آخر میں قادیان میں مڈل سکول بنا تو حضورؑ کے ارشاد پر آپؓ پہلے تین ماہ کی رخصت لے کر سکول کے سیکنڈ ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ پھر تین ماہ کی مزید رخصت لی۔ ملازمت سے استعفیٰ دینے سے قبل حضورؑ کے ارشاد پر استخارہ کیا۔ بعد ازاں پورے انشراح قلبی کے ساتھ آپؓ نے قادیان مستقل سکونت کا فیصلہ کیا تو حضرت اقدسؑ نے اجازت مرحمت فرمادی۔
جولائی 1901ء میں حضرت مفتی صاحبؓ مستقل قادیان آ بسے جہاں 1903ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے اور اسی سال قادیان میں کالج کے اجراء پر کالج کے مینیجر اور استاد بھی مقرر ہوئے۔
مارچ 1905ء میں حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ (مالک و مدیر اخبار البدر) کی وفات پر حضرت مسیح موعودؑ کی اجازت سے حضرت مفتی صاحبؓ اخبار کے مدیر اور مینیجر مقرر ہوئے۔
1908ء میں حضور علیہ السلام نے آپؓ کو اُس وفد میں شامل فرمایا جو حضرت بابا گرونانکؒ کی پوتھی کی تحقیق کے لئے بھجوایا گیا تھا۔
حضرت مفتی صاحب کا 313 صحابہ میں نمبر 65 تھا۔ 11؍ اپریل 1900ء کو خطبہ الہامیہ ضبط تحریر میں لانے کا شرف پانے والے تین اصحاب میں بھی آپؓ شامل تھے۔ حضورؑ کی آمدہ ڈاک کا خلاصہ خدمت اقدسؑ میں پیش کر کے حضورؑ کے ارشادات کی روشنی میں خطوط کے جواب بھی آپؓ دیا کرتے تھے۔ غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر ترجمانی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ اردو، عربی اور انگریزی کے علاوہ آپؓ عبرانی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے اور ’’قاعدہ عبرانی‘‘ کے مصنف تھے۔ حضورؑ کی خواہش پر آپ نے عبرانی زبان سیکھی تھی۔ چنانچہ بائبل کے حوالوں کی تلاش کے علاوہ عربی زبان کو عبرانی کا مبدء ثابت کرنے میں بھی آپؓ کی تحقیق قابل قدر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرمعمولی شفقت
حضرت مفتی صاحبؓ کی خدمات کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ آپؓ کے ساتھ غیرمعمولی شفقت کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے خادم سے جو پیار تھا اُس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1904ء میں ایک دفعہ جب آپؓ کے بیمار ہونے پر آپؓ کی والدہ نے حضورؑ سے دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؑ نے فرمایا: ’’ہم تو ان کے لئے دعا کرتے ہی رہتے ہیں۔ آپ کو خیال ہوگا کہ صادق آپ کا بیٹا ہے اور آپ کو بہت پیارا ہے لیکن میرا دعویٰ ہے کہ وہ مجھے آپ سے زیادہ پیارا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعودؑ جب لاہور میں قیام فرما ہوئے تو حضرت مفتی صاحبؓ شدید بیماری کے باعث خدمت اقدسؑ میں حاضر نہ ہوسکے۔ حضورؑ کو جب آپؓ کی بیماری کا علم ہوا تو حضورؑ خود اپنے خادم کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔


حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ گورداسپور سے ایک خط لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ سخت گرمی تھی اور رات سو بھی نہ سکے تھے۔ حضور اقدسؑ خط لیتے ہی شربت لانے کے لئے گھر میں تشریف لے گئے۔ جب واپس تشریف لائے تو حضرت مفتی صاحبؓ گرمی اور تکان کے باعث اونگھ رہے تھے۔ مفتی صاحب کی جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حضورؑ پنکھا جھل رہے ہیں۔ آپؓ گھبراکر اٹھے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’تھکے ہوئے تھے سو جاؤ اچھا ہے‘‘ ۔ پھر شربت پلایا-
مقبول عام عنوان ’’ذکر حبیبؑ‘‘ کی ابتداء حضرت مفتی صاحبؓ نے ہی کی۔ تقریباً 17 تصانیف آپؓ کی یادگار ہیں۔
ذکرحبیبؑ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز صبح کی سیر کے وقت مَیں نے حضورؑ سے سوال کیا کہ گناہوں سے بچنے کا کیا ذریعہ ہے؟ تو حضورؑ نے فرمایا: ’’انسان طولِ امل نہ کرے اور موت کو یاد رکھے۔ اس طریقہ سے گناہوں سے بچا رہتا ہے‘‘۔
آپؑ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے

دنیا کی بے ثباتی کے اظہار اور عاقبت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورؑ فرمایا کرتے: ’’شب تنور گزشت و شب سمور گزشت‘‘ یعنی سردیوں کی راتیں کسی نے تنور کی آگ تاپ کر گزار دیں اور کسی نے پوستین اور سمور پہن کر، دونوں کی رات گزر ہی جاتی ہے اور وقت نکل جاتا ہے۔
حضورؑاکثر فرماتے: ’’سب کرامتوں کی اصل جڑ دعا ہے‘‘۔ فرماتے تھے کہ ’’ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ بخل تو جائز نہیں، لیکن اگر بالفرض بخل جائز ہوتا تو مَیں کس چیز پر بخل کرتا۔ مَیں نے بہت غور کیا، دنیا کی کوئی شے مجھے ایسی محبوب نہ معلوم ہوئی جس پر بخل کرنا مَیں روا رکھتا۔ نہ مال و دولت نہ نسخہ۔ لیکن مَیں نے سوچا کہ دعا ایک ایسی نعمت ہے کہ اگر بخل جائز ہوتا تو مَیں اس بات کے بتلانے میں بخل کرتا کہ دعا کے ذریعہ ہر ایک مشکل حل ہوجاتی ہے اور ہر ایک نعمت اور برکت حاصل ہوسکتی ہے‘‘۔
حضورؑ یہ بھی فرمایا کرتے تھے: ’’نماز مشکلات سے بچنے کی چابی ہے‘‘۔ 1904ء میں مجھے ایسا بخار آیا جو اُترتا نہ تھا۔ ایک دن ایسی حالت ہوئی گویا کہ آخری وقت ہے۔ میری بیوی روتی چیختی حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپؑ فوراً اٹھے اور وضو کرکے نماز میں کھڑے ہوگئے اور ہنوز نماز میں ہی تھے کہ میری حالت سنبھل گئی اور تندرستی کی طرف مائل ہوگئی۔ حضورؑ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ نماز کے اندر تو دعا کرتے نہیں، جب نماز ختم ہوجاتی ہے تو بعد میں دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ اُن کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوکر خاموش کھڑا رہے لیکن جب دربار سے باہر آجائے تو پکارنے لگے کہ میری یہ درخواست بھی اور یہ درخواست بھی ہے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ پر ذاتی مشاہدات کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ حضورؑ قادیان تشریف لانے والے احمدی احباب سے عموماً اُن کے شہر میں سلسلہ کی مخالفت کے بارہ میں دریافت فرمایا کرتے تھے اور اگر جواب نفی میں ہوتا تو اظہارافسوس فرماتے کہ مخالفت نہیں ہے تو پھر ترقی کیسے ہوگی!؟
دوسرا سوال عموماً مسجد کے بارے میں ہوتا، آپ فرمایا کرتے تھے: ’’خدا کی عبادت کے واسطے جگہ ضرور بنوانی چاہئے خواہ ایک تھڑا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؑ کی مخالفت میں جو اشتہار شائع ہوا کرتے تھے اُنہیں حضور ایک بستہ میں رکھتے جاتے تھے۔ چنانچہ ایسے اشتہاروں کا بہت بڑا بستہ بن گیا تھا۔
حضرت مفتی صاحبؓ کی روایت ہے کہ حضورؑ کی بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ 1897ء میں ملتان جاتے ہوئے دو روز کے لئے لاہور میں قیام فرمایا تو ایک نہایت غریب ان پڑھ احمدی حضرت صوفی احمد دین صاحبؓ ڈوری باف کی درخواست پر اُن کے ہاں کھانا تناول فرمانے تشریف لے گئے۔
’’اکرام ضیف‘‘ کے ضمن میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک مہمان نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کی کہ اس کے پاس بستر نہیں ہے۔ حضورؑ نے حافظ حامد علی صاحبؓ سے فرمایا اس کو لحاف دے دو۔ حافظ صاحبؓ نے کہا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا وغیرہ۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ اگر یہ لحاف لے گیا تو اس کا گناہ ہوگااور اگر بغیر لحاف کے سردی سے مر گیا تو ہمارا گناہ ہو گا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضور علیہ السلام مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو مَیں کوشش کرکے آپؑ کے قریب بیٹھتا اور مَیں نے بار بار آپؑ کو

’سبحان اللہ وبحمدہٖ‘ ، ’سبحان اللہ العظیم‘

پڑھتے سنا-
خلفاء احمدیت سے تعلق اور خدمات
حضرت مفتی صاحبؓ کا تعلق بھی چونکہ بھیرہ سے ہی تھا اور آپ کی زندگی میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓؓ کا غیرمعمولی اثر رہا۔ چنانچہ نہ صرف ملازمت کے دوران بلکہ قبول احمدیت میں بھی حضرت خلیفہ اوّلؓ کا نمایاں اثر دکھائی دیتا ہے۔ اسی لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے حضورؓ کے بارہ میں بھی بے شمار واقعات بیان فرمائے ہیں جن سے حضورؓ کی سیرۃ پر بہت عمدہ روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً آپؓ کی زندگی میں توکّل علی اللہ کے پہلو کو بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب مَیں جموں ہائی سکول میں ٹیچر تھا تو حضرت مولوی صاحبؓ ریاست کی ملازمت میں تھے اور ہزار پندرہ سو روپے ماہوار آپؓ کی آمدن تھی۔ اور خرچ جو قریباً سارا ہی فی سبیل اللہ ہوتا تھا، وہ اس کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتا تھا۔ کبھی آپؓ کی عادت نہ تھی کہ روپیہ پیسہ جمع رکھیں۔ غالباً 1892ء میں ریاست جموں سے جب آپؓ کو علیحدگی کی اطلاع اچانک ملی تو مَیں اُس وقت آپؓ کی خدمت میں موجود تھا۔ اس اچانک علیحدگی کے باوجود نہ آپؓ کے چہرہ پر کوئی ملال تھا، نہ اس کا کوئی احساس تھا۔ بلکہ جیسا روزمرہ آپؓ درس و تدریس میں، بیماروں کو دیکھنے میں، لوگوں کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں، اپنی کتب کے مطالعہ کرنے میں مصروف رہتے تھے، اپنی نشست گاہ میں کھلا دربار لگائے بیٹھے رہتے، جہاں لوگ بے تکلّف آتے جاتے رہتے تھے، ایسا ہی اُس دن بھی حسب معمول بیٹھے رہے۔ گویا ملازمت سے علیحدگی کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں یا ہوا ہے تو روزمرّہ کی باتوں میں سے ایک معمولی سی بات ہے۔ اگلے روز جموں سے آپؓ اپنے وطن بھیرہ تشریف لے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی خدمت دین کے غیرمعمولی مواقع حضرت مفتی صاحبؓ کو حاصل ہوئے۔
مغرب میں دعوت الی اللہ
سیدنا حضرت مصلح موعودؑ کے ارشاد پر حضرت مفتی صاحبؓ 10؍ مارچ 1917ء کو انگلستان کے لئے روانہ ہوئے اور 17؍اپریل کو یہاں پہنچے۔ اڑھائی سال تک انگلستان میں خدمات بجا لانے کے بعد حضورؓ کے ارشاد پر 26؍جنوری 1920ء کو امریکہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ فروری 1920ء کے دوسرے ہفتہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے فلاڈلفیا (امریکہ) میں احمدیت کا پودا لگایا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ انگلستان سے روانہ ہو کر بغرض تبلیغ امریکہ پہنچے تو ساحل پر اترنے سے پہلے ایک ڈاکٹر جہاز پر ہی آیا تاکہ مسافروں کا طبی معائنہ کرے اور جن کو ناقابل سمجھے ان کو اترنے کی اجازت نہ دے۔ حضرت مفتی صاحب کی آنکھوں میں روئے تھے اور ایسے مریض کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ آپؓ نے بہت الحاح وزاری کے ساتھ دعا کی اور پھر مسافروں کی قطار میں جا کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹر جب معائنہ کرتا کرتا آپؓ کے پاس آیا تو سبز پگڑی دیکھ کر کہنے لگا کیاآپ ہندوستان سے آئے ہیں؟ آپؓ نے کہا جی ہاں۔ پھر بہت سی باتیں ہوئیں اور آخر میں وہ خود ہی کہنے لگا کہ آپؓ کی صحت بہت اچھی ہے، آپ بے شک امریکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر اُس نے سرٹیفیکیٹ لکھ دیا۔ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ معائنہ کی نوبت نہ آئی۔ ورنہ آپؓ کاامریکہ میں داخلہ ناممکن تھا۔
حضرت مفتی صاحبؓ کی امریکہ میں تاریخی خدمات کا ذکر یوں ہے کہ آپؓ ایک لمبا عرصہ شکاگو میں تبلیغ اسلام میں مصروف رہے جہاں کی پہلی مسجد اب تعمیر نو کے بعد آپؓ کے نام پر ’’مسجد صادق‘‘ کہلاتی ہے۔ امریکہ میں آپؓ نے رسالہ “The Muslim Sun Rise” کا اجراء کیا۔
امریکہ میں عربوں اور سیاہ فام لوگوں میں آپؓ کی تبلیغ سے پانچ برس کے اندر 1025؍ افراد احمدیت کی آغوش میں آئے۔ امریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف آپؓ نے بلاتاخیر آواز اٹھائی۔ ایفرو امریکن کے لئے چلائی جانے والی تحریک حقوق انسانی (Black Civil Rights) کے اوائل میں جمیکا میں پیدا ہونے والے ’’مارکس گاروی‘‘ نے یونائیٹڈ نیگرو امپروومنٹ ایسوسی ایشن (UNIA) کی بنیاد رکھی تھی جس کے نظریات بین الاقوامی تھے۔ یہاں سے گاروی اور حضرت مفتی صاحبؓ کے درمیان دوستی کا آغاز ہوا اور آپؓ نے ایسوسی ایشن میں کئی لیکچر دئیے جس کے نتیجہ میں 40؍افراد نے اسلام قبول کرلیا جن میں پادری ریورنڈ رسل بھی شامل تھے جن کا اسلامی نام شیخ عبد السلام رکھا گیا اور وہ بعدازاں ڈیٹرائیٹ کے امیر کے طور پر بھی خدمات بجالاتے رہے۔ امریکی تنظیم ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے بانی عالیجاہ محمد بھی UNIA میں کام کیا کرتے تھے۔ امریکہ میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں حضرت مفتی صاحب ؓ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔
تکمیلِ مشن کے بعد 4؍دسمبر 1923ء کو آپؓ واپس قادیان پہنچے۔
بعض دیگر خدمات
حضرت مفتی صاحبؓ ناظر امورخارجہ اور ناظر امورعامہ بھی رہے۔ 1927ء میں ایک عیسائی پادری سے مناظرہ کے لئے آپؓ کو سیلون (سری لنکا) بھیجا گیا۔ اندرون ہندوستان بھی آپؓ نے متعدد دورے کئے۔ 1937ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی آپؓ بدستور خدمات بجا لاتے رہے۔ آپؓ کو تحریر و تقریر پر عبور حاصل تھا۔
حضرت مفتی صاحب ؓ کو سیدنا حضرت مصلح موعودؑ کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات بجالانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
وفات
13؍ جنوری 1957ء کو آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؑ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
قبولیت دعا کا ایک نشان
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
’’جب میں ہندوستان سے انگلینڈ کے لئے روانہ ہوا تو پاسپورٹ کی رو سے راستہ میں فرانس نہیں اتر سکتا تھا لیکن میرا بڑا دل چاہتا تھا کہ فرانس میں اُتروں۔ اس کا ذکر میں نے افسر جہاز سے کیا۔ اس نے کہا کہ تم فرانس میں صرف اس صورت میں اتر سکتے ہو جب تمہارے پاس اتنا خرچ ہو۔ جب میں نے اپنے سرمایہ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ جس قدر کپتان کہتا ہے کہ خرچ ہوگا میرے پاس اس سے دو پاؤنڈ کم تھے۔ میں نے سوچا کسی سے یہ رقم قرض لے لوں۔ مگر جہاز میں میرا کوئی بھی شناسا نہ تھا۔ کس سے لیتا۔ آخر جب بالکل مایوس ہو گیا تو میں نے دعا کی کہ اے زمین اور آسمان کے مالک! اے خشکی اور تری کے خالق! تو ہرچیز پر قادر ہے اور تجھے ہر قسم کی قدرت اور طاقت حاصل ہے تو جانتا ہے کہ مجھے اس وقت دو پاؤنڈ کی ضرورت ہے پس تو مجھے یہ دو پاؤنڈ دیدے۔ خواہ آسمان سے گرا یا سمندر سے نکال مگر دے ضرور۔ میں نے بہت ہی الحاح اور زاری کے ساتھ خدا سے دعا مانگی۔ اور دعا مانگنے کے بعد مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ مجھے دو پاؤنڈ ضرور مل جائیں گے۔ مگر میری یہ سمجھ میںنہ آتا تھا کہ بالکل اجنبی جگہ اور بالکل اجنبی آدمیوں میں یہ دو پاؤنڈ کس طرح ملیں گے؟
یہ جنگ یورپ کا زمانہ تھا۔ جہاز چلتے چلتے یکدم ایک ایسی جگہ ٹھہر گیا۔ جہاں پہلے کبھی نہیں ٹھہرا تھا۔ میں نے اس خیال سے کہ جنگ کا زمانہ ہے ممکن ہے اس جگہ ہمارے کچھ احمدی دوست ہوں کپتان سے کہا کہ مجھے خشکی پر جانے کی اجازت دیں۔ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا آپ یہاں ہرگز نہیں اترسکتے۔ ہم تو ویسے ہی یہاں محض سمندر کی حالت معلوم کرنے کے لئے اتفاقاً کھڑے ہوگئے ہیں ورنہ اس سے پہلے یہاں آج تک کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ تھوڑی دیر میں مَیں نے دیکھا کہ ایک کشتی جہاز کی طرف آرہی ہے میں نے کپتان سے کہا کہ یہ کشتی کیوں آرہی ہے جب یہاں اترنے کی اجازت ہی نہیں؟ کپتان نے کہا مجھے پتہ نہیں کہ کیوں آرہی ہے۔ پاس آئے تو حالات کا علم ہو۔ جب کشتی جہاز کے قریب آئی تو میں نے پہچانا کہ اس میں ہمارے بھائی حاجی عبدالکریم صاحب تھے۔ انہوں نے کسی طرح سن لیا تھا کہ میں فلاں جہاز سے انگلستان جا رہا ہوں اور فلاں وقت جہاز یہاں سے گزرے گا۔ ان کو معلوم تھا کہ جہاز یہاں نہیں ٹھہرے گا۔ پھر بھی وہ ساحل پر آگئے تھے۔ لیکن جب جہاز جزیرہ کے سامنے آکر اچانک ٹھہر گیا تو وہ فوراً کشتی لیکر جہاز کے پاس آگئے۔ کپتان نے ان کو دریافت حال کے لئے اوپر آنے کی اجازت دی۔ خیر وہ مجھ سے ملے اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو یہ کہہ کر دو پونڈ میری جیب میں ڈال دئیے کہ ’’مجھے کچھ مٹھائی آپ کے لئے لانی چاہئے تھی مگر مجھے تو اس کا وہم بھی نہ تھا کہ جہاز ٹھہر جائے گا اور میں آپ سے مل سکوں گا اس لئے یہ دو پاؤنڈ مٹھائی کے ہیں رکھ لیں۔ ‘‘
(لطائف صادق صفحہ 66-65)
اس واقعہ میں سوال دو پاؤنڈ کا نہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایک مجاہد فی سبیل اللہ کی جو ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح معجزانہ رنگ میں پوری کی اور غیب سے اس کے سامان مہیا فرما دیئے۔ نیز اس واقعہ میں حضرت مفتی صاحبؓ کے روحانی مقام کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
حضرت مفتی صاحبؓ کا قابل تقلید نمونہ
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی نے سیرۃ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان کرتے ہوئے ضمناً حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا ایک عمل قابل تقلید قرار دیا ہے جس سے حضرت مفتی صاحبؓ کی حضرت مسیح موعودؑ سے غیرمعمولی محبت اور آپؑ کی بے پناہ خدمت کے جذبہ کا اظہار ہوتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’برداران!مَیں بھی بہت کڑھتا ہوں اپنے ان بھائیوں کے حال پر جو (قادیان) آنے میں کوتاہی کرتے ہیں اور میں بار ہا سوچتا ہوں کہ کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو ان کو یقین دلا سکوں کہ یہاں رہنے میں کیا فائدے ہوتے ہیں۔علم صحیح اور عقائد صحیحہ بجز یہاں رہنے کے میسر آہی نہیں سکتے۔ ایک مفتی صادق صاحب کو دیکھتا ہوں (سلمہ اللہ وبارک لہ وعلیہ وفیہ)۔ کوئی چھٹی مل جائے یہاں موجود۔ مفتی صاحب تو عقاب کی طرح اسی تاک میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ کے زور آور ہاتھوں سے کو ئی فرصت غصب کریں اور محبوب و مولیٰ کی زیارت کا شرف حاصل کریں۔ اے عزیز برادر خدا تیری ہمت میں استقامت اور تیری کوششوں میں برکت ڈالے اور تجھے ہماری جماعت میں قابل اقتدا اور قابل فخر کارنامہ بنائے۔ حضرت نے بھی فرمایا: لاہور سے ہمارے حصہ میں تو مفتی صادق صاحب ہی آئے ہیں۔مَیں حیران ہوں کہ کیا مفتی صاحب کی کو ئی بڑی آمدنی ہے اور کیا مفتی صاحب کی جیب میں کسی متعلق کی درخواست کا ہاتھ نہیں پڑتا اور مفتی صاحب تو ہنوز نوعمر ہیں اور اس عمر میں کیا کیا اُمنگیں نہیں ہوا کرتیں۔ پھرمفتی صاحب کی یہ سیرت اگر عشق کامل کی دلیل نہیں تو اور کیا وجہ ہے کہ وہ ساری زنجیروں کو توڑتاڑ کر دیوانہ وار بٹالہ میں اتر کر نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن نہ سردی نہ گرمی نہ بارش نہ اندھیری آدھی آدھی رات کو پیادہ پا پہنچتے ہیں جماعت کو اس نوجوان عاشق کی سیرت سے سبق لینا چاہئے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں