احمدیہ مشن ہنگری کی ابتداء

روزنامہ الفضل ربوہ یکم فروری 2012ء میں مکرم عطاء الرؤف سلمان صاحب کے قلم سے ایک مختصر مضمون میں احمدیہ مشن ہنگری کی ابتداء پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
فروری 1936ء کی رات دس بجے ایک ٹرین ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو سٹیشن پر ہُو کا عالم تھا۔ مسافر ٹرین سے اُترکر اپنا اپنا راستہ ماپنے لگے لیکن ایک 27 سالہ خوبرو نوجوان ململ کا کرتہ، سر پر پگڑی باندھے ایک ہاتھ میں ٹرنک اور ایک ہاتھ میں بستر دبائے سوچنے لگا کہ رات گئے اپنا ٹھکانہ کہاں بناؤں۔ اس کا ململ کا کرتہ سردی روکنے میں یکسر ناکام ہوچکا تھا لیکن دل میں ایک عزم تھا کہ اس سرزمین کے باشندوں کو احمدیت کے جھنڈے تلے جمع کرکے خلیفۃالمسیح کے خواب کو پورا کرنا ہے۔ یہ نوجوان محترم کیپٹن حاجی احمد خان ایاز صاحب تھے جو 1909ء میں حضرت چودھری کرم دین صاحب ؓ آف کھاریاں کے ہاں پیدا ہوئے۔ پرائیویٹ ایف۔اے اور بی۔اے پاس کیا۔ پھر لاء کالج دہلی سے قانون کی ڈگری لی۔آپ کو کھاریاں کا پہلا گریجوایٹ وکیل اور کمیشنڈ آفیسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1934ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر آپ نے اپنی زندگی وقف کردی۔ ابتداء حضورؓ نے مدرنیشنل لیگ کی درخواست پر آپ کی خدمات اُس کے سپرد کردیں ۔ بعدازاں 15 جنوری 1936ء کو ہنگری میں اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ فرمایا۔
محترم ایاز صاحب نے ہر قسم کی تکالیف کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اشاعتِ اسلام کا کام پہنچتے ہی شروع کردیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ خرچ ختم ہونے پر دو دن تو مَیں نے لنگر حضرت مسیح موعودؑ کی اُن روٹیوں پر گزارے جو مَیں تبرکاً قادیان سے لایا تھا۔ مَیں نہ کسی کو اپنا حال بتانا چاہتا تھا اور نہ کسی پر بار بننا پسند کرتا اس لئے دو دو تین تین دن اپنے کمرے میں بغیر آب و دانہ گزارنے شروع کردیئے۔ شدّتِ بھوک کی وجہ سے نیند بھی آتی تھی اس لئے ہنگری کی تاریخ کا مطالعہ کرتا یا روزنامچے لکھتا۔ نمازوں میں بھی بہت لطف آتا۔ گو بعض دفعہ بھوک کی وجہ سے بخار ہو جاتا تھا مگر مجھے تسلّی ہوتی تھی کہ خدا مجھے ایسے نہیں مارے گا اور یہ امتحان ہے ورنہ بھوک کی کیا طاقت ہے کہ مجھے کمزور کردے۔ اُنہی دنوں ہنگری کے متعلق چند مضامین لکھے تو ہنگری کے اخبارات نے ان کی بہت قدر کی اور احمدیت کی اشاعت میں مجھے آسانیاں بہم پہنچائیں۔ ایک نمائندہ پریس نے میرا انٹرویو میرے فوٹو کے ساتھ مشہور روزنامہ میں اس عنوان کے تحت شائع کیا کہ یہ ہندوستانی سارے ہنگری کو مسلمان بنانا چاہتا ہے۔
مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک نوجوان جلد ہی مع خاندان احمدی ہونے والا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہنگری میں قدم جمادے گا۔ پھر جلد ہی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم پانے والے ایک کیتھولک عیسائی نوجوان نے اسلام قبول کرکے ہنگری کے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اُس کا اسلامی نام احمد رکھا گیا۔ خوشی سے تمام رات نیند نہ آئی اور بڑے لمبے سجدے کئے۔
جلد ہی خلقِ خدا کی بھاری اکثریت کا احمدیت کی طرف رجوع ہونا شروع ہوگیا۔ ہنگری کے انگریزی دان حلقہ کی سوسائٹی میں ہستی باری تعالیٰ کے مضمون پر ایک مناظرہ کرکے ڈاکٹر Fabre کو شکست دی تو مسٹر سٹیفن یونگو (Pongo Istvan) نے اسی مجمع میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔
ہنگری کے متعدّد معزّزین کو تبلیغی خطوط لکھے ایک خط بے شمار کتب کے مصنّف ڈاکٹر تاپائی (Tapayi) کو بھیجا جو اخبار اخبار “Pesti Naplo” کے ایڈیٹر بھی تھے۔ انہوں نے میرے خط پر جوابی خط اخبار کے تین کالم میں شائع کیا۔ اپنے خط میں انہوں نے میری اور جماعت احمدیہ کی تعریف بھی کی لیکن اسلام پر ہونے والے معروف اعتراضات کی ایک فہرست بھی شائع کردی۔ مَیں نے انگریزی میں تیس ورقوں کا ایک جواب الجواب تیار کیا جو خاص خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے لکھا گیا۔ جوابات غیب سے ذہن میں آتے گئے اور قرآن کریم و کتب سلسلہ سے بعض باتیں فوراً ملتی چلی گئیں۔ یہ جواب الجواب اس قدر مقبول ہوا کہ جو پڑھتا وہ حامی اسلام ہوجاتا اور کئی تورانی اسے پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں