حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ جرمنی 2003ء پر اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

مَیں نے جلسہ سالانہ یوکے پر آخری دن شرائط بیعت کا مضمون بیان کیا تھا اور وقت کی تنگی کے پیش نظر صرف تین شرائط پر قرآن حدیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی روشنی میں کچھ وضاحت کی تھی اور بقیہ مختصراً بیان کر کے کہا تھا کہ آئندہ بیان کروں گا تو آج آپ کے اس جلسہ کے آخری دن کے لئے بھی میں نے اسی مضمون کو چنا ہے۔
یہ اتنا اہم اور ضروری مضمون ہے اورموجودہ زمانہ میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے ۔ جبکہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے دور جارہے ہیں ہمیں یہ تو فخر ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلاں صحابی کی نسل میں سے ہیں لیکن اپنے آبا ؤ اجداد کی قربانیوں پر کم نظر ہے اگلی نسلوں میں جسمانی خون تو منتقل ہوگیا ہے لیکن روحانیت کے معیار کم ہوئے ہیں بہرحال یہ قدرتی امر ہے کہ جوں جوں نبوت کے زمانہ سے دور ہوتے جائیں کچھ کمیاں کچھ کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ترقی کرنے والی جماعتیں زمانے اور حالات کا رونا رو کر وہیں بیٹھ نہیں جایا کرتیں بلکہ کوشش کرتی ہیں ہم تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ خوشخبریاں اور پیش گوئیاں موجود ہیں کہ مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہوکر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے اور یہ مقدر ہے بشرطیکہ ہم توحید پر قائم رہیں اور اس تعلیم پر نہ صرف خود قائم ہوں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی قائم رکھیں اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کاایک اقتباس پیش کرتاہوں جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بیعت کرنے والوں سے کیا چاہتے ہیں اس کے بعد شرائط بیعت کی چوتھی شرط سے شروع کروں گا۔
حضور فرماتے ہیں۔’’میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتاہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو۔
بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں ۔میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تب فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘
(ملفوظات۔ جلد سوم۔ صفحہ262)

چوتھی شرط بیعت
’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے‘‘

جیسا کہ اس شرط سے واضح ہے کہ غصہ میں آکر مغلوب الغضب ہوکراپنی اَنا کا مسئلہ بناکر اپنی جھوٹی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے نہ ہی اپنے ہاتھ سے نہ ہی زبان سے کسی کو دُکھ نہیں دینا۔ یہ تو ہے ہی ایک ضروری شرط کہ کسی مسلمان کو دُکھ نہیں دوں گا یہ تو ہمارے اُوپر فرض ہے اس کی پابندی تو ہم نے خصوصیت سے کرنی ہی ہے کیونکہ مسلمان تو ہمارے پیارے محبوب پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ان کی برائی کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے سوائے اُن نام نہاد علماء کے جو اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہیں جنہوں نے اس زمانہ کے مسیح موعود اور مہدی کے خلاف اپنی دشمنی کی انتہاء کردی ہے ان کے خلاف بھی ہم اپنے خدا سے اُس قادرو توانا خدا سے جو سب قدرتوں کا مالک ہے ایسے شریروں کے خلاف مدد مانگتے ہوئے اُس کے حضور جھکتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہی اُن کو پکڑ اور یہ بھی اس لئے کہ خدا کا رسول ان کو بدترین مخلو ق کہہ چکا ہے ورنہ ہمیں کسی سے زائد عناد اور کسی کے خلاف غصہ نہیں ،ہم تو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے غصہ کو دبانے کی نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔(آل عمران: آیت۱۳۵)

یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے لوگوں سے درگذرکرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت سے ہی حضرت امام حسین علیہ السلام کے غلام نے آزادی حاصل کرلی تھی بیان کیا جاتا ہے کہ غلام نے آپ پر غلطی سے کوئی گرم چیز گرادی پانی یاکوئی پینے کی چیز تھی آپ نے بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ تو تھا وہ ہوشیار۔ قرآن کا بھی علم رکھتا تھا اور حاضر دماغ بھی تھا فوراً بولا

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظ

آپ نے کہا ٹھیک ہے غصہ دبا لیا۔ اب اس کو خیال آیا کہ غصہ تو دبا لیا لیکن دل میں تو رہے گا کسی وقت کسی اور غلطی پر مار نہ پڑ جائے فوراً بولا

وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس۔

آپ نے کہاٹھیک ہے جاؤ معاف بھی کردیا۔ علم اور حاضر دماغی پھرکام آئی فوراً کہنے لگا

وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

آپ نے کہا چلو جاؤ تمہیں آزاد بھی کرتا ہوں تو اس زمانہ میں غلام خریدے جاتے تھے اتنی آسانی سے آزادی نہیں ملتی تھی لیکن غلام کی حاضر دماغی اورعلم اور مالک کا تقوی کام آیا اور آزادی مل گئی۔ تو یہ ہے اسلام کی تعلیم۔

عفو و درگذر سے کام لو
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایصال خیر کی اقسام کے بیان میں دوسری قسم ان اخلاق کی جو ایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں کے متعلق فرماتے ہیں:
’’ پہلا خلق ان میں سے عفوہے ۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا ۔اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کوبھی ضرر پہنچایا جائے سزا دلائی جائے، قید کرایا جائے ،جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اُٹھایا جائے ۔پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اُس کے حق میں ایصال خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے:

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس۔
جَزَآءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَافَمَنْ عَفَاوَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللہ۔

یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں بدی کی جزا اُسقدر بدی ہے جوکی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر گناہ کو بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو ،نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا ‘‘ ۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔روحانی خزائن۔ جلد نمبر۱۰۔صفحہ۳۵۱)
ایک بڑی مشہور حدیث ہے۔ اکثر نے سنی ہوگی جس میں آنحضرت ﷺ اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہاں ہے یعنی حقیقی اور بے مثال تقویٰ اگر کہیں ہو سکتا ہے تووہ صرف او رصرف آپﷺ کا دل صافی ہے اس دل میں سوائے تقویٰ کے کچھ اور ہے ہی نہیں۔
پس اے لوگو اے مومنوں کی جماعت تمہارے لئے ہمیشہ یہ حکم ہے کہ تم نے جس اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ٔحسنہ ہے۔ پس اپنے دلوں کو ٹٹولو۔ کیا تم دل میں اُس اُسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو تقویٰ سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہو؟ کیا تمہارے اندر بھی اللہ کاخوف اُسکی خشیت اور اُس کے نتیجہ میں اُسکی مخلوق کی ہمدردی اور خیرخواہی ہے۔
اب میں پوری حدیث بیان کرتا ہوں جو یوں ہے :
حضرت ابوھریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں حسد نہ کرو۔ آپس میں نہ جھگڑو۔ آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنیاں مت رکھو اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پہ سودا نہ کرے اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا اُسے ذلیل نہیں کرتا اور اُسے حقیر نہیں جانتا پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا:

اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا

یعنی تقویٰ یہاں ہے۔ کسی آدمی کے شر کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصِّلۃ۔باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ … الخ)

کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ
چوتھی شرط میں یہ بیان ہے کہ نہ ہاتھ سے نہ زبان سے نہ کسی بھی طرح سے کسی کو تکلیف نہیں دینی۔ اس شرط کو مزید کھولتا ہوں۔یہ جو حدیث میں نے پڑھی ہے اس میں سے اس کو سامنے رکھیں فرمایا ’’ حسد نہ کرو‘‘ اب حسد ایک ایسی چیز ہے جو آخر کار بڑھتے بڑھتے دشمنی تک چلی جاتی ہے اس حسد کی وجہ سے ہر وقت دل میں جس سے حسد ہو اس کو نقصان پہنچانے کا خیال رہتا ہے ۔پھر حسد ایک ایسی چیز ہے، ایک ایسی بیماری ہے جس سے دوسرے کو تو جو نقصان پہنچتا ہے وہ تو ہے ہی، حسد کرنے والا خود بھی اس آگ میں جلتا رہتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو حسد پیدا کر رہی ہوتی ہیں کہ فلاں کا کاروبار کیوں اچھا ہے۔ فلاں کے پاس پیسہ میرے سے زیادہ ہے ۔فلاں کا گھر میرے سے اچھا ہے۔ فلاں کے بچے زیادہ لائق ہیں۔ عورتوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ فلاں کے پاس زیور اچھا ہے تو حسد شروع ہوگیا پھر اور تو اور دین کے معاملے میں جہاں نیکی کو دیکھ کر رشک آنا چاہئے ۔خود بھی کوشش ہونی چاہئے کہ ہم بھی آگے بڑھ کر دین کے خادم بنیں۔ اس کے بجائے خدمت کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح شکایات لگاکر اسکو بھی دین کی خدمت سے محروم کردیا جائے۔
پھر اس حدیث میں آیا ہے کہ جھگڑنا نہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں مثلاً چھوٹی سی بات ہے کسی ڈیوٹی والے نے کسی بچے کو جلسہ کے دوران اُسکی مسلسل شرارتوں کی وجہ سے ذرا سختی سے روک دیا یا تنبیہ کی کہ اب اگر تم نے ایسا کیا تو میں سختی کروں گا سزا دوں گا تو قریب بیٹھے ہوئے ماں یا باپ فوراً بازو چڑھا لیتے ہیں اور یہ تجربہ میں آئی ہیں باتیں اور اس ڈیوٹی والے بیچارے کی ایسی مٹی پلید کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ اب تمہاری اس حرکت سے جہاں تم نے عہد بیعت کو توڑا اپنے اخلاق خراب کئے وہاں اپنی نئی نسل کے دل سے بھی نظام کا احترام ختم کردیا اور اس کے دماغ سے بھی صحیح اور غلط کی پہچان ختم کردی۔
پھر فرمایادشمنیاں مت رکھو۔ اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنیاں شروع ہوجاتی ہیں دل کینوں اور نفرتوں سے بھر جاتے ہیں ۔تاک میں ہوتے ہیں کہ کبھی مجھے موقعہ ملے اور میں اپنی دشمنی کا بدلہ لوں حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ کسی سے دشمنی نہ رکھو، بغض نہ رکھو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی ایسی مختصر بات بتائیں ۔ نصیحت کریں جو میں بھول نہ جاؤں آپ ؐ نے فرمایا غصے سے اجتناب کرو۔ پھر آنحضرتؐ نے دوبارہ فرمایا ’’ غصے سے اجتناب کرو‘‘۔ تو جب غصے سے اجتناب کرنے کو ہر وقت ذہن میں رکھیں گے تو بغض اور کینے خود بخود ختم ہوتے چلے جائیں گے پھر ایک عادت کسی کو نقصان پہنچانے کی تکلیف پہنچانے کی یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح خراب کرنے کیلئے کسی کے کئے ہوئے سودے پر سودا کرے۔ اس حدیث میں اس سے بھی منع فرمایا ہے ۔ زیادہ قیمت دیکرصرف اس غرض سے کہ دوسرے کا سودا خراب ہوچیز لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ کوئی ذاتی فائدہ اس سے نہیں ہو رہا، یہاں بھی بتادوں کہ کسی کے رشتے کیلئے بھیجے ہوئے پیغام پر پیغام بھی اس زمرے میں آتا ہے او ریہ بھی منع ہے اس لئے احمدیوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ ظلم نہیں کرنا کسی کو حقیر نہیں سمجھنا کسی کو ذلیل نہیں کرنا ۔ ظالم کبھی خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل نہیں کرسکتا تویہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو آپ خدا کی خوشنودی کی خاطر بیعت کرکے زمانہ کے مامور من اللہ کو مان رہے ہوں اور دوسری طرف ظلم سے لوگوں کے حقوق پر قبضہ کر رہے ہوں ۔ بھائیوں کو ان کے حق نہ دیں بہنوں کو اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ نہ دیں صرف اس لئے کہ بہن کی شادی دوسرے خاندان میں ہوئی ہے ہماری جدی پشتی جائیداد دوسرے خاندانوں میں نہ چلی جائے یہ دیہاتوں میں عام رواج ہے تو بیویوں پر ظلم کرنے والے ہوں اُن کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والے ہوں۔ بیویاں خاوند کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والی ہوں تو روز مرہ کے معاملات میں بہت سی ایسی باتیں نکل آئیں گی جو ظلم کے زمرے میں آتی ہیں۔ تو بہت سی ایسی باتیں سرزد ہو جاتی ہیں۔ جن سے محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے کو حقیر سمجھ رہے ہیںیا دوسرے کو ذلیل سمجھ رہے ہیں تو ایک طرف تو بیعت کا دعوی ٰ کرنا تمام برائیوں کو چھوڑنے کا عہد کرنا اور دوسرے یہ حرکتیں ۔واضح حکم ہے ایک مسلمان پر یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھے اس طرح پر مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں کا خون مال اور عزت حرام ہے تو آپ جو اس زمانہ کے مامور کو مان کر اسلامی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل درآمد کا دعویٰ کرتے ہیں کے بارے میں کس طرح برداشت کیا جاسکتا ہے کہ یہ حرکتیں ہوں اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود کی جماعت میں بھی شامل رہیں ان باتوں کو چھوٹی نہ سمجھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے صحابہ کا اس بارے میں کیا عمل تھا۔ اسلام لانے کے بعد اُنہوں نے اپنے اندر کیا تبدیلیاں کیں۔ اس بارے میں احادیث کے مزید نمونے پیش کرتا ہوں۔
حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کے ایک حوض سے پانی پلایا جاتا تھا تو ایک خاندان کے کچھ لوگ آئے اُن میں سے کسی نے کہا تم میں سے کون ابوذر کے پاس جائے گا اور اُن کے سر کے بال پکڑ کر اُن کا محاسبہ کرے گا ایک شخص نے کہا میں یہ کام کروں گا چنانچہ وہ شخص اُن کے پاس حوض پر گیا اور ابوذر کو تنگ کرناشروع کردیا ابوذر اس وقت کھڑے تھے پھر بیٹھ گئے اُس کے بعد لیٹ گئے اس پر انہوں نے کہا کہ اے ابوذر آپ کیوں بیٹھ گئے اور پھر آپ کیوں لیٹے تھے اس پر انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیںمخاطب کرکے فرمایا تھا جب تم میں سے کسی کو غصہ آجائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر اس کا غصہ دورہو جائے تو ٹھیک وگرنہ وہ لیٹ جائے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد نمبر5۔صفحہ152۔مطبوعہ بیروت)
پھر ایک روایت ہے راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس ایک شخص آیا جس نے اُن کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ ان کو غصہ آگیا راوی کہتے ہیں کہ جب ان کو شدید غصہ آگیا تو وہ کھڑے ہوئے اور وضو کرکے ہمارے پاس لوٹ آئے پھر اُنہوں نے کہا کہ میرے والد نے مجھے میرے دادا عتیہ کے وصیلہ سے جو صحابہ میں سے تھے یہ روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعہ بجھایا جاتا ہے پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اُسے وضو کرنا چاہئے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد4۔ صفحہ226۔مطبوعہ بیروت)
حضرت زیاد بن عَلاقہ اپنے چچا قَطْبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ میں برے اخلاق اوربرے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
(سنن ترمذی۔کتاب الدعوات۔ باب دعاء امّ سلمۃ۔ حدیث نمبر۳۵۹۱)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں اور اُن کو جماعت سے کیا تو قعات ہیں وہ پیش کرتا ہوں، فرمایا:
’’میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہوکر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقوی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آسکے ۔وہ پنج وقت نماز باجماعت کے پابند ہوں ۔وہ جھوٹ نہ بولیں ۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہوجائیں اور کوئی زہریلہ خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے… اور تمام انسانوں کی ہمدری اُن کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں سے اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنج وقتہ نمازکو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اورغبن اور رشوت اور اتلافِ حقوق اور بے جاطرفداری سے باز رہیں اورکسی بدصحبت میںنہ بیٹھیں اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو اُن کے ساتھ آمدورفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابند نہیںہے… یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں ہے رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اُسکی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بدزبانی اور بہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکا دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہوگا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پرہیز کرو جو خطرناک ہے اورچاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجالس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کاموجب ہوں گے…‘‘
فرمایا: ’’…یہ وہ امور ہیں اوروہ شرائط ہیں جو میں ابتداء سے کہتا چلا آیا ہوں۔ میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ ان تمام وصیتوں کے کاربند ہوں اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو او رنیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہوکر زمین پر چلو اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ۔اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگذر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یاکوئی مذہبی گفتگو ہوتو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگرکوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جاؤ اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دئیے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہروگے جیسا کہ وہ ہیں۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راست بازی کا نمونہ ٹھہرو ۔سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکال لو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہوجائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اُس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راست باز بن جاؤ۔ تم پنج وقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات۔ جلد۳۔ صفحہ ۴۶ تا ۴۸۔ اشتہار مورخہ ۲۹مئی ۱۸۹۸ء)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’ انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو ۔بے حیائی نہ کرے۔ مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے۔ محبت اور نیکی سے پیش آوے۔ اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے۔ سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے‘‘
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد ۵۔ صفحہ۶۰۹)

عاجزی و انکساری کو اپناؤ
پھر فروتنی اور عاجزی کے بارہ میں آپ نے فرمایا :
’’ …اس سے پیشتر کہ عذاب الٰہی آکر توبہ کا دروازہ بند کردے توبہ کرو جبکہ دنیا کے قانون سے اسقدرڈر پیدا ہوتا ہے توکیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں جب بلا سر پر آپڑے تو اس کامزہ چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہئے کہ ہر شخص تہجد میں اُٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملادیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے توبہ کریں ۔تو بہ سے مراد یہ ہے کہ اُن تمام بدکاریوں اور خدا کی نارضامندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقوی اختیار کریں۔ اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے۔ عادات انسانی کو شائستہ کریں۔ غضب نہ ہو ۔تواضع اور انکساری اس کی جگہ لے لے۔ اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔

یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّاَسِیْرً ا۔

یعنی خدا کی رضا کیلئے مسکینوں اوریتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔
قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد اول۔ صفحہ۱۳۴-۱۳۵)
پھر آپ نے فرمایا :
’’سواے دوستو! اس اصول کو محکم پکڑو۔ ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بردباری سے گہرے خیال پیدا ہوتے ہیں اور جو شخص یہ طریق اختیار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کرے تو اسکا اختیار ہے کہ عدالت کی رو سے چارہ جوئی کرے مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ سختی کے مقابل سختی کرکے کسی مفسدہ کو پیدا کریں ۔یہ تو وہ وصیت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کردی اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کرے‘‘۔
(تبلیغ رسالت۔ جلد ۶۔ صفحہ۱۷۰۔ مجموعہ اشتہارات۔ جلد دوم۔ صفحہ ۴۷۲)

پانچویں شرط بیعت
’’ یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اورعسر اور یسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کیلئے اُسکی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا‘‘۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَاللہُ رَؤُوْفٌ بِالْعِبَادِ۔ (البقرہ:آیت ۲۰۸)

اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کیلئے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت مہربانی کرنے والا ہے۔
اس کی تفسیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خداکی مرضی کو مول لیتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے… خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان بیچ دیتا ہے۔ اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کوایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعتِ خالق اور خدمت ِخلق کے لئے بنائی گئی ہے…‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۰۔ صفحہ ۳۸۵)
پھرآپ فرماتے ہیں :۔
’’خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے ۔اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے ۔وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمتِ خاص کے مورد ہیں…‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۰۔ صفحہ ۴۷۳)
آپ مزید فرماتے ہیں:
’’بعض ایسے ہیں کہ اپنے نفسوں کو خدا کی راہ میں بیچ دیتے ہیں۔ تاکسی طرح وہ راضی ہو…‘‘
(پیغام صلح۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر۲۳ صفحہ۴۷۳)
ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی خدا تعالیٰ خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ۔ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:آیات ۲۸تا۳۱)

یعنی اے نفس مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف لوٹ جا، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے۔ پس میرے بندوں میں داخل ہوجا ۔اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
راضی بقضاء رہنے والوں اور اس کی خاطر دکھ اور مصیبت اٹھانے والوں کو خدا کبھی بغیر جزاء کے نہیں چھوڑتا ۔ہم میں سے کئی ایسے ہیںجو غلطیوں کو تاہیوں اور کمزوریوں کے پتلے ہیں اورہم سے کئی غلطیاں اور گناہ سرزد ہوجاتے ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی رہنے کی عادت ہے، اُس کی خاطرہر مصیبت اٹھانے کیلئے تیارہیںاور اُٹھاتے ہیں ،اُن عورتوں کی طرح نہیں جو ذرہ سے نقصان پر آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں۔ شور مچاکر اور واویلا کرکے آسمان سر پر اُٹھایا ہوا ہوتا ہے، تو ایسے صبر کرنے والوں کے لئے خدا کے رسولﷺ یہ خوش خبری دیتے ہیں۔

تکالیف گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو کوئی مصیبت کوئی دُکھ کوئی رنج و غم کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں پہنچتی یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی نہیں چبھتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ۔ باب ثواب المومن فیما یصیبہ من مرض أوحزن أو نحو ذٰلک)
پھر ایک روایت کہ حضرت صُہَیب بن سِنَان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کیلئے ہی مختص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت اور فراخی نصیب ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اور اس کی شکر گزاری اس کیلئے مزید خیروبرکت کاموجب بنتی ہے۔ اور اگر اس کو کوئی دُکھ رنج تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے ۔اس کا یہ طرز عمل بھی اس کیلئے خیروبرکت کا ہی باعث بن جاتا ہے کیونکہ وہ صبر کرکے ثواب حاصل کرتا ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب المومن امرہ کلہ خیر)
پھر بعض دفعہ اولاد کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ اولاد کے فوت ہونے کی صورت میں بہت زیادہ ماتم کیا جاتا ہے خاص طورپر عورتوں میں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس نے بہت صبر کرنے والوں اور اس کی رضا پر راضی رہنے والی ماؤں سے نوازا ہے۔ لیکن بعض دفعہ بعض جگہوں سے شکوے کے اظہار بھی ہو جاتے ہیں خاص طورپر کم پڑھے لکھے طبقے میں اور صرف خاص کم پڑھے لکھے طبقے میں ہی نہیں، پڑھے لکھوں میں بھی میں نے دیکھا ہے۔ناشکری اور شکوہ کے الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں۔
ایک روایت ہے کہ آنحضرتﷺ خواتین سے بیعت کے وقت اس بات پر عہد لیا کرتے تھے۔ حدیث اس طرح ہے۔ حضرت اُسید ایک دستی بیعت کرنے والی صحابیہ سے روایت کرتے ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت جوعہد ان سے لیا اس میں یہ بات بھی تھی کہ ہم حضور کی نافرمانی نہیں کریں گی ۔ماتم کے وقت نہ اپناچہرہ نوچیں گی اور نہ واویلا کریں گی، نہ اپنا گریبان پھاڑیںگی اور نہ اپنے بال بکھیریں گی( یعنی ایسا رویہ اختیار نہیں کریں گی۔ جس سے سخت برہمی ،شدید بے صبری اور مایوسی کا اظہار ہوتا ہو۔ )
(سنن ابو داؤد۔ کتاب الجنائز ۔باب فی النَّوح)

اصل صبر تو صدمہ کے آغاز کے وقت ہی ہوتا ہے
پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو ۔اس عورت نے کہا: چلو دور ہو اور اپنی راہ لو ۔جو مصیبت مجھ پر آئی ہے وہ تم پر نہیں آئی۔ دراصل اس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں تھا (تبھی اس کے منہ سے ایسے گستاخانہ کلمات نکلے) جب اسے بتایا گیا کہ یہ تو رسول اللہ ؐ تھے تو وہ گھبرا کر آپ کے دروازہ پرآئی۔ وہاں کوئی دربان روکنے والا تو تھا نہیں اس لئے سیدھی اندرچلی گئی اور عرض کیا حضور میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا ۔آپ نے فرمایا :اصل صبر تو صدمہ کے آغاز کے وقت ہی ہوتا ہے (ورنہ انجام کار تو سب لوگ ہی رو دھو کر صبر کرلیتے ہیں۔)
(صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب زیارۃ القبور)
ایک بہت ہی اہم نکتہ پانچویں شرط میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں، تنگی اور تنگ دستی کے دن لمبے ہوتے جارہے ہوں ،دنیاوی لالچیں سامنے نظر آرہی ہیں اور یہ بھی خیال آتا ہے اگر میں فلاں کام کروں اور اس طرف جھکوں تو بڑے فوائد حاصل کرسکتا ہوں۔ دنیاوی قوتیں بھی لالچ دے رہی ہوتی ہیں کہ کوئی بات نہیں۔احمدی ہوتے ہوئے جماعت سے تعلق رکھتے ہوئے بھی تم یہ کام کرلو ۔یہ کاروبار کرلو اس سے تم اپنے حالات بھی بہتر کرلوگے پھرجماعت کی خدمت بھی چندے دے کر کرلوگے۔ تو یہ سب دجالی فتنے ہیں جماعت سے دور کرنے کے، خد اسے دور کرنے کے ۔اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے بیعت کی ہے تو پھران چکروں میں نہ پڑو ۔اس دھوکے سے دور رہو۔ خدا سے وفاداری کا نمونہ دکھاؤ ۔اس کی طرف جھکو تو تم میرے ہو اور تمہیں سب کچھ مل جائے گا ۔اس بارہ میں آنحضرت ؐ کی بڑی پیاری نصیحت ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ میں آنحضرتؐ کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا۔ آپ نے فرمایا اے برخوردار میں تجھے چند باتیں بتاتا ہوں اول یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ، اللہ تعالیٰ تیرا خیال رکھے گا۔ تو اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ تو اسے اپنے پاس پائے گا ۔ جب کوئی چیز مانگنی ہو تو اللہ تعالیٰ سے مانگ اور جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر اور سمجھ لے کہ اگر سارے لوگ اکٹھے ہوکر تجھے فائدہ پہنچانا چاہیں تووہ تجھے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتے سوائے اس کے کہ اللہ چاہے اور تیری قسمت میں فائدہ لکھ دے۔ اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلیں توتجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ تیری قسمت میں نقصان لکھ دے۔ قلمیں اٹھا کر رکھ دی گئی ہیں اورصحیفۂ تقدیر خشک ہوچکا ہے ۔
(سنن ترمذی۔ کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب نمبر ۵۹)
ایک اور روایت میںہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا ۔تو اللہ تعالیٰ کو خوش حالی میں پہچان اللہ تعالیٰ تجھے تنگدستی میں پہچانے گا اور سمجھ لے کہ جو تجھ سے چوک گیا اور تجھ تک نہیں پہنچ سکا وہ تیرے نصیب میں نہیں تھا اور جوتجھے مل گیا ہے وہ تجھے ملے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ تقدیر کا لکھا یوں ہی تھا۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور خوشی بے چینی کے ساتھ مل ہوئی ہے اور ہر تنگی کے بعد یسر اور آسانی ہے۔
(ریاض الصّالحین للامام النوّوی۔ باب المراقَبۃ۔ حدیث نمبر ۶۲)
آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے حالانکہ، آپ کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی رضاکے بغیر تھا ہی نہیں ،پھر کس درد سے دعا مانگتے تھے ۔
روایت ہے کہ محمد بن ابراہیم حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ؐ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی۔ پھر رات کے حصہ میں میں نے حضور کو وہاں نہ پایا۔ پھر ٹٹولنے پر اچانک میرا ہاتھ حضور کو چھو گیا اور ہاتھ حضور کے قدم مبارک پر لگا جبکہ آپ سجدہ کر رہے تھے اور اس دوران دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ میں تیری ثنا کا شمار نہیں کرسکتا ۔تو ویسا ہی ہے جیسا خود تو نے اپنی ذات کی ثنابیان فرمائی ہے۔
(سنن ترمذی ۔کتاب الدعوات۔ باب ماجاء فی عقدالتّسبیح بالید)
پھر ایک روایت میں ہے کہ مدینہ کے ایک شخص سے حضرت عبد الوہاب بن ورد روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کی خدمت میں لکھا کہ مجھے تحریراً کوئی نصیحت فرمائیں۔اس پر حضرت عائشہ نے انہیں لکھ کر بھیجا۔ السلام علیکم۔ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کو ناراض کرکے بھی اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے بالمقابل خود اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور جو شخص لوگوں کی رضا جوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔
(سنن ترمذی ۔کتاب الزھد۔ باب ماجاء فی حفظ اللّسان۔ حدیث نمبر ۲۴۱۴)

تم خدا کی آخری جماعت ہو
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے وفا کا تعلق قائم رکھنے کیلئے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہوجیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے۔ سو خبر دار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ۔ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے۔ جب کبھی تم اپنا نقصان کروگے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے ۔اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا۔ سو تم اس کو مت چھوڑو ۔اور ضرور ہے کہ تم دُکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ۔ سو ان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکرکرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑ و۔ تم خداکی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو ۔ہرایک جو تم میں سست ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا او رحسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے۔ اگرچہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چنتا ہے۔ وہ اس کے پاس آجاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے۔ جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے‘‘۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد۱۹۔صفحہ۱۵)
پھرآپ فرماتے ہیں ’’ ہم کو تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اس کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی ،صدق و وفا کی، نہ یہ کہ قیل وقال تک ہی ہماری ہمت و کوشش محدود ہو۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت دیتا ہے اور اپنے فیوض و برکات کے دروازے کھول دیتا ہے۔… اس تنگ دروازے سے جو صدق و وفا کا دروازہ ہے گزرنا آسان نہیں۔ ہم کبھی ان باتوں سے فخرنہیں کرسکتے کہ رؤیا یا الہام ہونے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور مجاہدات سے دستکش ہورہیں اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
(البدر۔ جلد۳۔نمبر۱۸-۱۹۔بتاریخ ۸ تا۱۶؍مئی۱۹۰۴ء۔ صفحہ۱۰)
پھر آپ نے فرمایا ’’ ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے اگر وہ اخلاص اور وفاداری سے اس کا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کاولی بنتا ہے لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بے شک خطرہ ہوتا ہے۔ ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں۔… لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں ان پر خاص تجلی کرتا ہے اور خدا کے لئے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس بالکل چکنا چور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جائے۔ اس لئے میں بار باراپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو۔ اگر دل پاک نہیں ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کیا فائدہ دے گا… مگرجو سچا اقرار کرتا ہے اس کے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے‘‘ ۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ۶۵)

جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے
پھر آپ نے فرمایا:
’’ پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے۔ مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پرخار بادیہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے۔ پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں۔ جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہوسکتے ،نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے ،نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے۔ اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دَم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہوگا ۔کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں ۔کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہوجائیں گے۔ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں ہوسکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے۔ پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام۔ لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عنداللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے‘‘۔
(انوارالاسلام ۔روحانی خزائن۔ جلد ۹۔صفحہ۲۳-۲۴)

کامل وفا اور استقامت کا نمونہ دکھائیں
آج سے سو سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی زندگی میں دو بزرگوں نے کامل وفا کا اوراستقامت کا نمونہ دکھایا تھا اور اپنے عہد بیعت کو نبھایا تھا اور خوب نبھایا۔ عہد بیعت کو توڑ نے کیلئے مختلف لالچ ان کو دیئے گئے مگر ان استقامت کے شہزادوں نے ذرہ بھر بھی اس کی پرواہ نہ کی اور عہد بیعت پر قائم رہے۔ حضرت اقدسؑ نے ان کو زبردست خراج تحسین پیش فرمایا۔یہ حضرت صاحبزادہ سیدعبداللطیف شہیدؓ اور عبدا لرحمان خان صاحبؓ ہیں ۔حضورؑ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں فرماتے ہیں:
’’ اب ایمان اور انصاف سے سوچنا چاہئے کہ جس سلسلہ کا تمام مدار مکر اور فریب اور جھوٹ اور افترا ء پر ہو کیا اس سلسلہ کے لوگ ایسی استقامت اور شجاعت دکھلاسکتے ہیں کہ اس راہ میں پتھروں سے کچلا جانا قبول کریں اور اپنے بچوں اور بیوی کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں اور ایسی مردانگی کے ساتھ جان دیں اور باربار رہائی کاوعدہ بشرط فسخ بیعت دیاجاوے مگر اس راہ کو نہ چھوڑیں۔ اسی طرح شیخ عبد الرحمن بھی کابل میں ذبح کیا گیا اوردم نہ مارا اور یہ نہ کہا کہ مجھے چھوڑ دو۔ میں بیعت کو توڑتا ہوں۔ اور یہی سچے مذہب او ر سچے امام کی نشانی ہے کہ جب کسی کو اس کی پوری معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور ایمانی شیرینی دل و جان میں رچ جاتی ہے تو ایسے لوگ اس راہ میں مرنے سے نہیں ڈرتے ہاں جو سطحی ایمان رکھتے ہیں اور ان کے رگ و ریشہ میں ایمان داخل نہیں ہوتا وہ یہودا اسکریوطی کی طرح تھوڑے سے لالچ سے مرتد ہوسکتے ہیں ۔ ایسے ناپاک مرتدوں کے بھی ہر ایک نبی کے وقت میں بہت نمونے ہیں۔ سو خدا کا شکر ہے کہ مخلصین کی ایک بھاری جماعت میرے ساتھ ہے اور ہر ایک ان میں سے میرے لئے ایک نشان ہے یہ میرے خدا کا فضل ہے۔

رَبِّ اِنَّکَ جَنَّتِیْ وَ رَحْمَتُکَ جُنَّتِیْ وَآیَاتُکَ غِذَائِیْ وَفَضْلُکَ رِدَائِی‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد۲۲۔ صفحہ۳۶۰-۳۶۱)
یعنی اے میرے ربّ تو میری جنت ہے اور تیری رحمت میری ڈھال ہے تیرے آیات و نشانات میری غذا ہیں اور تیرا فضل میری چادر ہے ۔
اس کے بعد بھی جماعت کی سو سال سے زائد کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ وفا اور استقامت کی مثالیں قائم ہوتی رہیں۔ مالی و جانی نقصان پہنچائے گئے، شہید کئے گئے ،بیٹا باپ کے سامنے اور باپ بیٹے کے سامنے مارا گیا تو کیاخدا نے جو سب سے بڑھ کر وفاؤں کا جواب دینے والا ہے اس خون کو یوں ہی رائیگاں جانے دیا؟نہیں اس نے پہلے سے بڑھ کر ان کی نسلوں پر رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسائی۔ آپ میں سے کئی جو یہاں موجود ہیں یا دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اس بات کے چشم دید گواہ ہیں۔ بلکہ آپ میں سے اکثر ان فضلوں کے مورد بنے ہوئے ہیں۔ یہ اس وفا کا ہی نتیجہ ہے جو آپ نے خدا تعالیٰ سے کی اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کئے عہد بیعت کو سچ کردکھایا۔کشائش میں کہیں آپ یا آپ کی نسلیں اس عہد بیعت کو بھول نہ جائیں۔ اس پیارے خدا سے ہمیشہ وفا کا تعلق رکھیں تاکہ یہ فضل آپ کی نسلوں میں بھی قائم رہے اور اس وفا کے تعلق کو اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرتے چلے جائیں۔

چھٹی شرط بیعت
’’یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سرپر قبول کرے گا اور قَالَ اللہ اور قَالَ الرَّسُوْل کو اپنے ہر یک راہ میں دستورالعمل قرار دے گا‘‘۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ تم میرے سے اس بات پر بھی عہد بیعت کرو کہ رسم و رواج کے پیچھے نہیں چلوگے۔ ایسے رسم و رواج جو تم نے دین میں صرف اور صرف اس لئے شامل کرلئے ہیں کہ تم جس معاشرے میں رہ رہے ہو اس کا وہ حصہ ہیں۔ دوسرے مذاہب میں چونکہ وہ رسمیں تھیں اس لئے تم نے بھی اختیار کرلیں۔مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر بعض فضول قسم کی رسمیں ہیں۔ جیسے بری کو دکھانا یا وہ سامان جو دولہا والے دو لہن کے لئے بھیجتے ہیں اس کا اظہار، پھر جہیز کا اظہار۔باقاعدہ نمائش لگائی جاتی ہے ۔اسلام تو صرف حق مہر کے اظہار کے ساتھ نکاح کا اعلان کرتا ہے۔ باقی سب فضول رسمیں ہیں۔ ایک تو بری یا جہیز کی نمائش سے اُن لوگوں کا مقصدجو صاحبِ توفیق ہیں صرف بڑھائی کا اظہارکرنا ہوتا ہے کہ دیکھ لیا ہمارے شریکوں نے بھائی بہن یا بیٹا بیٹی کو شادی پرجو کچھ دیا تھا ہم نے دیکھو کس طرح اس سے بڑھ کر دیا ہے۔صرف مقابلہ اور نمود و نمائش ہے ۔آج کل آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے یہاں آنے کے بعد بہت نوازا ہے۔ بہت کشائش عطا فرمائی ہے ۔یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی برکت ہے اور ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو آپ کے بزرگوں نے دیں اور ان کی دعاؤں کی برکت ہے۔ تو بعض ایسے ہیں جو بجائے اس کے کہ ان فضلوں اور برکتوں کا اظہار اس کے حضور جھکتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے کریں اس کی بجائے شادی بیاہوں میں نام و نمود کی خاطر، خودنما ئی کی خاطر ان رسموں میں پڑکر یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر شادیوں پر، ولیموں پر کھانوں کا ضیاع ہو رہا ہوتا ہے۔اور دکھاوے کی خاطر کئی کئی ڈشیں بنائی جارہی ہوتی ہیں تو جو غریب یا کم استطاعت والے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی دیکھا دیکھی جہیز وغیرہ کی نمائش کی خاطر مقروض ہو رہے ہوتے ہیں پھر بعض دفعہ بچیوں والے لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے مطالبہ کی وجہ سے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بہو جہیز بھی نہیں لائی ،مقروض ہوتے ہیں۔ تو لڑکے والوں کو بھی کچھ خوف خدا کرنا چاہئے۔ صرف رسموں کی وجہ سے، اپنا ناک اونچا رکھنے کی وجہ سے غریبوں کو مشکلات میں، قرضوں میں نہ گرفتار کر یں اور دعوی یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں اور بیعت کی دس شرائط پر پوری طرح عمل کریں گے۔ تو یہ مختصراً میں نے ایک شادی کی رسم پر عرض کیا ہے۔ اگر اس کو مزید کھولوں تو اس شادی کی رسم پر ہی خوفناک بھیانک نتائج سامنے لانے والی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ اور جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مکمل طور پر ہواو ہوس کے قبضہ میں چلا جاتا ہے جبکہ بیعت کرنے کے بعد تو وہ یہ عہد کر رہا ہے کہ ہواو ہوس سے باز آجائے گا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کرلے گا۔ اللہ اور رسول ہم سے کیاچاہتے ہیں، یہی کہ رسم و رواج اور ہواؤ ہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔

فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَھْوَآءَ ھُمْ ۔وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللہِ اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔ (القصص:آیت۵۱)

پس اگروہ تیری اس دعوت کو قبول نہ کریں تو جان لے کہ وہ محض اپنی خواہشات ہی کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ اللہ ہرگز ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
تو دیکھیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے جو ہمارے لئے بڑے خوف کا مقام ہے کہ جو لوگ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں تو پھر وہ کبھی ہدایت نہیں پائیں گے۔ اب ہم ایک طرف تو یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو پہچان لیا ،مان لیا۔ دوسری طرف جو معاشرے کی برائیاں ہیں باوجود امام کے ساتھ عہد کرنے کے کہ ان برائیوں کو چھوڑنا ہے، ہم نہیں چھوڑ رہے تو کہیں ہم پھر پیچھے کی طرف تو نہیں جارہے۔ ہر ایک کو یہ محاسبہ کرنا چاہئے ۔ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے ۔اگر ہم اس عہد بیعت پر قائم ہیں، اپنے خدا سے ڈرتے ہوئے ہواو ہوس سے رکے ہوئے ہیں اور ہم اس پیارے خدا کی تعریف کرتے ہوئے حمد کرتے ہوئے پھر اس کی طرف جھکتے ہیں تو وہ ہمیں اس کے عوض اپنی جنت کی بشارت دے رہا ہے۔ جیسا کہ فرمایا

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَأوٰی (النازعات:آیات۴۱-۴۲)

اوروہ جو اپنے رب کے مرتبہ سے خائف ہوا اور اس نے اپنے نفس کو ہوس سے روکا تو یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی۔
رسم و رواج کے بارہ میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا: جو شخص دین کے معاملہ میں کوئی ایسی نئی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الصلح۔ باب اذا اصطلحواعلی صلح جَورٍ)
حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا۔آپ کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔آواز بلند ہوگئی۔ جوش بڑھ گیا گویا یوں لگتا تھا کہ آپ کسی حملہ آور لشکر سے ہمیں ڈرا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ لشکر تم پر صبح کو حملہ کرنے والا ہے یاشام کو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: میں اور وہ گھڑی یوں اکٹھے بھیجے گئے ہیں۔ آپ نے یہ کہتے ہوئے انگشت ِشہادت اور درمیانی انگلی کو ملاکر دکھایا کہ ایسے جیسے یہ دو انگلیاں اکٹھی ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: اب میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریق محمدﷺکا طریق ہے۔ بدترین فعل دین میں نئی نئی بدعات کو پیدا کرنا ہے ہر بدعت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب تخفیف الصلوۃ و الخطبۃ)
حضرت عمروؓ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا: جو شخص میری سنتوں میں سے کسی سنت کو اس طورپر زندہ کرے گا کہ لوگ اس پر عمل کرنے لگیں تو سنت کے زندہ کرنے والے شخص کو بھی عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اسے اپنا لیا تو اس شخص کو بھی ان پر عمل کرنے والوں کے گناہوں سے حصہ ملے گا اور ان بدعتی لوگوں کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب المقدّمۃ۔ باب من احیا سنۃ قد امیتت)

نئی نئی بدعات و رسوم ردّ کرنے کے لائق ہیں
تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے ،جو دین سے دور لے جانے والی، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں، وہ سب مردود رسمیں ہیں۔ سب فضول ہیں۔ رد کرنے کے لائق ہیں۔ پس ان سے بچو کیونکہ پھر یہ دین میں نئی نئی بدعات کو جگہ دیں گی اور دین بگڑ جائے گا۔ جس طرح اب دیکھو دوسرے مذاہب میں رسموں نے جگہ پاکر دین کو بگا ڑ دیا ہے ۔خیر یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس زمانے میں زندہ مذہب صرف اور صرف اسلام نے ہی رہنا تھا۔ لیکن آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دوسرے مذاہب نے مثلاً عیسائیت نے باوجود اس کے کہ ایک مذہب ہے۔ مختلف ممالک میں، مختلف علاقوں میں اور ملکوں میں اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنی رسموں کو بھی مذہب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ افریقہ میں بھی یہ باتیں نظر آتی ہیں۔ پھر جب بدعتوں کاراستہ کھل جاتا ہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں ۔ تو آنحضرت ؐ نے ان بدعتیں پیدا کرنے والوں کے لئے سخت انذار کیا ہے، سخت ڈرایا ہے۔ آپ کو اس کی بڑی فکر تھی حدیث میں آتا ہے فرمایا: میں تمہیں ان بدعتوں کی وجہ سے، تمہارے ہواؤ ہوس کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے دین میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے ۔تم گمراہ نہ ہو جاؤ ۔
آج کل آپ یہاں اس مغربی معاشرہ میں رہ رہے ہیں، یہاں کے بے تحاشا رسم و رواج ہیں، جو آپ کو مذہب سے دور لے جانے والے، اسلام کی خوبصورت تعلیم پر پردہ ڈالنے والے رسم و رواج ہیں، طور طریق ہیں ۔کیونکہ دنیاداری کی جو چکاچوند ہے زیادہ اثر کرتی ہے۔ اس لئے اس معاشرے میں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تو بجائے ان کی غلط قسم کی رسوم اپنانے کے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنی چاہئے ۔ہر احمدی کا اتنا مضبوط کیریکٹر ہونا چاہئے ،اتنا مضبوط کردار ہونا چاہئے کہ مغربی معاشرہ اس پر اثر انداز نہ ہو مثلاً عورتوں میں پردہ کا اسلامی حکم ہے۔ عورتوں کی عزت اسی میں ہے کہ پردہ کی وجہ سے ان کا ایک نمایاں مقام نظر آتا ہو۔ جب عورت خود پردہ کرے گی اور اس معاشرے میں پردے کی خوبیاں بیان کرے گی تو اس کا بہرحال زیادہ اثر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ مرد پردے کے فوائد اور خوبیاں اس معاشرے میں بیان کرتے پھریں۔ تو جو خواتین پردہ کرتی ہیں ان کو صرف ایک انفرادیت کی وجہ سے تبلیغ کے بھی زیادہ مواقع میسر آجاتے ہیں۔ اس طرف بھی بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ پھر اور بھی بہت سی اس مغربی معاشرے کی برائیاں ہیں۔ انہیں صرف اس لئے اپنانا کہ ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں، مجبوری ہے،یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ مثلاً آپ کی ایسے شخص سے دوستی ہے جو شراب پیتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ایسے ریسٹورنٹ میں یا بار وغیرہ میں چلے جائیں کہ ٹھیک ہے وہاں بے شک وہ شراب پیتا رہے میں تو کافی یا کوئی اور مشروب پی لوں گا تو یہ بھی غلط ہے۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے کسی دن آپ اس سے متاثر ہوکر ہوسکتا ہے کہ خود بھی پہلے ایک گھونٹ لیں اور اس کے بعد اس کی عادت پڑ جائے، اللہ نہ کرے۔ اس لئے درج ذیل حدیث کو جس میں آنحضرت ﷺ نے بہت فکر کا اظہار فرمایا ہے پیش نظر رکھیں۔
حضرت ابو برزہؓروایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ وہ بات جس کے سبب سے میں تمہارے بارہ میں خائف ہوں وہ ایسی خواہشات ہیں جو تمہارے شکموں میں اور تمہاری شرمگاہوں میں پیدا ہوجائیں گی۔ نیز ہواؤ ہوس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گمراہیوں کے بارے میں بھی خائف ہوں۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد۴۔ صفحہ۴۲۳۔مطبوعہ بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’جب تک انسان سچا مجاہدہ اور محنت نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا ہوا ہے اور جس کے حاصل ہونے پر گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہوتی ہے انسان خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز یں سنتا ہے اسے نہیں مل سکتا ۔ چنانچہ صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔

یہ تو سہل بات ہے کہ ایک شخص متکبرانہ طور پر کہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں اور باوجود اس دعوی کے اس ایمان کے آثار اور ثمرات کچھ بھی پیدا نہ ہو ں یہ نری لاف زَنی ہوگی ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا‘‘۔
(الحکم۔ جلد۹۔ نمبر۲۹۔مورخہ۱۷اگست۱۹۰۵ء۔ صفحہ۶)
پھر آپ فرماتے ہیں :’’جوکوئی اپنے ربّ کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو روکتا ہے توجنت اسکا مقام ہے۔ ہوائے نفس کو روکنایہی فنافی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے اسی جہان میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے ‘‘۔
(بدر۔ جلد نمبر۱۔ مورخہ۳؍اگست ۱۹۰۵ء۔ صفحہ۲)
اسلامی تعلیم کے لئے ہمارا راہنما قرآن شریف ہے
پس رسم و رواج سے بچنا اور ہوا ہوس سے بچنا اسلامی تعلیم کا حصہ ہے اور اس تعلیم کو سمجھنے کیلئے ہمارے لئے رہنما قرآن شریف ہے۔ اور اصل میں تو اگر ایک مومن قرآن شریف کو مکمل طور پر اپنی زندگی کا دستور العمل بنالے تو تمام برائیاں خودبخود ختم ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی ہوا وہوس کا خیال تک بھی دل میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ پاک کتاب ہے جو ایک دستور العمل کے طور پر شریعت کو مکمل کرتے ہوئے، انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک دل پر نازل فرمائی اور پھر جہاںضرورت تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اپنے فعل سے اپنے قول سے اسکی وضاحت فرمادی اسلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اسکو اپنے سرپر قبول کرو اس سلسلہ میں قرآن کریم حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کرتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر:آیت۱۸ )

اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنادیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ؟
حدیث میں آتا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ایسا مومن جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہوتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے اس کی خوشبو بھی اچھی ہوتی ہے اور ایسا مومن جو قرآن نہیں پڑھتا لیکن اسپر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ تو لذیز ہوتاہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال ریحان( نیازبو) کی طرح ہوتی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن اس کاذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال حنظل کی طرح ہوتی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور خوشبو بھی ناگوار ہوتی ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب اثم من رای بقراۃ القرآن او تاکل بہ اوفخربہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ …قرآن عمیق حکمتوں سے پر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیامیں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی دوبارہ قائم ہوگئی‘‘
(تحفہ قیصریہ ۔روحانی خزائن۔ جلد۱۲۔صفحہ۲۸۲)

قرآن شریف ہی میں تمہاری زندگی ہے
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑدو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیںگے وہ آسمان پر عزت پائیں گے ۔جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے انکو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام
آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ﷺ‘‘۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن۔ جلد ۱۹۔صفحہ۱۳)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلاکر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے ۔وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتاہے ۔اور ہر ایک جو اس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیروہے، خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتاہے ‘‘۔
(چشمہ ٔمعرفت ۔روحانی خزائن۔ جلد۲۳۔صفحہ۳۰۸-۳۰۹)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’سو تم ہوشیار رہو اورخدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتاہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اورباقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:

اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآن

کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی ۔تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے ۔پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں‘‘۔
(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد ۱۹۔ صفحہ۲۶-۲۷)
پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کس حد تک قرآن سے محبت کرتا ہے اس کے حکموں کو مانتا ہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ محبت کے اظہار کے بھی طریقے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری چیز جو ہراحمدی کو اپنے اوپر فرض کر لینی چاہئے وہ یہ ہے کہ بلا ناغہ کم از کم دو تین رکوع ضرور تلاوت کرے ۔پھر اگلے قدم پر ترجمہ پڑھے اور ہر روز تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھنے سے آہستہ آہستہ یہ حسین تعلیم غیر محسوس طریق پر دماغ میں بیٹھنی شروع ہو جاتی ہے۔
پھر اس چھٹی شرط میں ایک بات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکامات کو اپنے ہر معاملہ میں دستور العمل کے طور پر سامنے رکھے گا۔ جب ضرورت ہوگی ان سے مشورہ لے گا ۔اب یہ کوئی منہ سے کہنے والی بات نہیں؟ اس عہد کو پورا کرنے کیلئے آدمی غور کرے تو بڑی فکر پیدا ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْ ٍٔ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌوَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ۔ (النساء: آیت۶۰)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی اور اگر تم کسی معاملہ میں اولو الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے او رانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے ۔
پھر فرمایا:

اَطِیْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (آل عمران: آیت۱۳۳)

اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم رحم کئے جاؤ۔
پھر فرماتا ہے

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ۔ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ۔ فَاتَّقُواللہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَاَطِیْعُوااللہَ وَرَسُوْلَہٗ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔(الانفال: آیت۲)

وہ تجھ سے اموال غنیمت سے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تو کہہ دے کہ اموال غنیمت اللہ اور رسول کے ہیں۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیارکرو اپنے درمیان اصلاح کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے احکامات کو صحیح طور پر مانو، ان پر عمل کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احکامات کی جو تشریح کی ہے اس کے مطابق عمل کرو۔ تمہارے جو امراء مقرر ہیں ،جو نظام مقررہے اسکی پوری اطاعت کروتو کہا جاسکتا ہے کہ تم نے بیعت کرنے کا حق ادا کردیا ۔اس بارے میں چند احادیث بھی پیش کرتا ہوں ۔
حضرت عبادہؓ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس امر پرکی کہ ہم پسند کی صورت میں اور ناپسند کی صورت میں بھی ان کا ارشاد سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب کیف یبایع الامام الناس)
عبد الرحمن بن عَمرو سُلَمِی اور حجر بن حجر بیان کرتے ہیں کہ وہ عِرباض بن سَارِیہؓ کے پاس آئے پھرعرباضؓ نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ نے بہت موثر فصیح و بلیغ انداز میں ہمیں وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور دل ڈرگئے حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے۔ آپ کی نصیحت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہو ۔کیونکہ ایسا زمانہ آنے والاہے کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا۔ پس تم ان نازک حالات میں میری اور میری ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا اور اسے پکڑ لینا، دانتوں سے مضبوط گرفت میں کرلینا۔ تمہیں دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچنا ہوگا۔ کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام سے جاری ہو بدعت ہے اور بدعت نری گمراہی ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب العلم۔ باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ،ابو داؤد کتاب السنۃ باب لزوم السنۃ)
آنحضرتﷺ کی کامل پیروی اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے ہم احمدی جو ہیں ان کو ہر وقت اس نصیحت اور اس حدیث کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔اسی طرح ایک روایت ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس میں تین باتیں ہوں وہ ایمان کی حلاوت کو پا لیتا ہے ۔ نمبر ایک اللہ اور اس کا رسول دیگر تمام وجودوں سے اسے زیادہ محبوب ہوں۔ دو یہ کہ وہ کسی شخص کو صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر محبوب رکھے ۔ اورتین یہ ہے کہ وہ کفر میں لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب حلاوۃ الایمان )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ

خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے۔ انسان کا مدعا صرف اس ایک واحد لاشریک خدا کی تلاش ہونا چاہئے۔ شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہئے۔ رسوم کا تابع اور ہواوہوس کامطیع نہ بنناچاہئے۔ دیکھو میں پھر کہتاہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں ۔آجکل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں ۔سو تم ان سے پرہیز کرو۔ ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑناچاہا گویا اپنی الگ ایک شریعت بنالی ہے ۔تم یادرکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں ۔ بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے۔ ناکام مرے گا وہ جو اللہ اور اسکے رسول کے فرمودہ کا تابع دار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ ۱۰۲-۱۰۳)
پھر آپ فرماتے ہیں:

’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ۔

اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں ۔کوئی مرجاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہئے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں ۔رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت ﷺکی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اوروہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرتﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔‘‘
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ۳۱۶)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گذر جاوے گی خواہ تنگی میں گذرے خواہ فراخی میں مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے۔ پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اس نے صفائی کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اوروہ معصیت سے توبہ کرکے ہرایک گناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کرکے پکارا ہے بچتا رہا تو خدا تعالیٰ کا فضل اسکی دستگیر ی کرے گا اور وہ اس مقام پر ہوگا کہ خدا اس سے راضی ہوگا اور وہ اپنے ربّ سے راضی ہوگا ۔اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لاپرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کاانجام خطرناک ہے۔ اس لئے بیعت کرتے وقت یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا ۔اگر محض دنیا کی خاطر ہے تو بے فائدہ ہے لیکن اگر دین کیلئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائد اور منافع کی پوری امید کی جاتی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
(ملفوظات۔ جلد ششم۔ صفحہ۱۴۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے کا امام دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جس درد او ر توجہ سے آپ نے اللہ اور اس کے رسو ل ﷺکی حکومت کو دنیا پر قائم کرنے کے لئے اپنی جماعت تیار کرنا چاہتے ہیں اور جس درد سے نصیحت فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ویسا ہی بنادے اور جن شرائط پر آپ نے ہم سے عہد بیعت لیا ہے انکی ہم مکمل پابندی کرنے والے ہوں۔ اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ انکو اپنے سامنے رکھنے والے ہوں۔ ہماراکوئی عمل کوئی فعل ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ملزم ٹھہرانے والا نہ ہو اور ہم ہمیشہ اپنا محاسبہ کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے ۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا کے بعد اب یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچے گا اس جلسہ کی برکات او ر فیوض سے آپ سارا سال بلکہ زندگی بھر فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں میں بھی اللہ، اسکے رسول ﷺ، مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے محبت کا تعلق قائم رکھے ۔اللہ تعالیٰ ہماری پچھلی کمزوریوں اور گناہوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں محض اور محض اپنے فضل سے اپنے پیاروں کی جماعت میں شامل رکھے۔ اے خدا تو غفور رحیم ہے ۔ہمارے گناہ معاف فرما ۔ہم پر رحم فرما۔ اپنی مغفرت اوررحمت کی چادرمیں ڈھانپ لے ۔ہمیں کبھی اپنے سے جدا نہ کرنا۔ آمین یارب العالمین۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں