آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی مختصر سیرت و سوانح پیش ہے جو کہ لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں مکرمہ مبارکہ شاہین صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تیس برس تھی جب حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپؐ کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کی پیدائش (پہلے بیٹے قاسمؓ کے بعد) ہوئی۔ چھوٹی عمر میں ہی آپؓ کا نکاح اپنے خالہ زاد حضرت ابوالعاص ؓ بن ربیع کے ساتھ ہوگیا جو حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تو آپؓ فوراً ایمان لے آئیں ۔ اس پر کفّار نے آپؓ کے خاوند سے آپؓ کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اگرچہ وہ اُس وقت ایمان نہیں لائے تھے لیکن حضرت زینبؓ سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس عمل کی ہمیشہ تعریف فرمائی۔
غزوۂ بدر میں ابوالعاص نے کفّار کی طرف سے شرکت کی اور گرفتار ہوگئے۔ اُن کے فدیہ میں حضرت زینبؓ نے کچھ چیزیں بھیجیں جن میں ایک ہار بھی تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا۔ یہ ہار دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت خدیجہؓ کی یاد تازہ ہوگئی اور آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اگر تم پسند کرو تو زینبؓ کا مال اُسے واپس کردو۔ چنانچہ وہ مال واپس کردیا گیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد فدیہ کے قائم مقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکّہ جاکر حضرت زینبؓ کو مدینہ بھجوادیں گے۔
جب حضرت زینبؓ مدینہ کے لئے مکّہ سے نکلیں تو چند قریش نے آپؓ کو بزور واپس لے جانا چاہا۔ جب آپؓ نے انکار کیا تو ایک بدبخت ہباربن اَسود نے نہایت وحشیانہ طریق پر آپؓ پر نیزہ سے حملہ کیا جس کے ڈر اور صدمہ سے آپؓ کو اسقاط ہوگیا اور پھر آپؓ کی صحت کبھی بحال نہیں ہوسکی۔ ابوالعاص کے چھوٹے بھائی کنانہ اس سفر میں آپؓ کے ساتھ تھے۔ قریش کے حملہ کے وقت انہوں نے بھی تیر نکالے اور کہا کہ اگر کوئی آگے بڑھا تو اُس کا نشانہ لوں گا۔ اس پر ابوسفیان نے قریب آکر کہا کہ ہمیں زینبؓ کو روکنے کی ضرورت نہیں مگر محمدؐ کی دشمنی کی وجہ سے اگر وہ ہمارے سامنے اور دن کے وقت جائیں گی تو اس میں ہماری سُبکی ہے۔ اس پر کنانہ حضرت زینبؓ کو واپس لے آئے اور پھر چند روز بعد رات کے وقت روانہ ہوئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ بن حارثؓ کومدینہ سے پہلے ہی روانہ فرمادیا تھا جو زینبؓ کو لے کر مدینہ پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ بعد قریش کا ایک قافلہ شام کی طرف گیا جس میں ابوالعاص بھی شامل تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حضرت زید بن حارثؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے اس قافلہ پر حملہ کیا۔ گرفتار ہونے والوں میں ابوالعاص بھی شامل تھے۔ اس موقع پر حضرت زینبؓ نے اُن کو پناہ دی اور اُن کا مال و اسباب واپس کرنے کی سفارش کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفارش قبول فرمائی۔ ابوالعاص اس سے اتنا متأثر ہوئے کہ واپس مکّہ جاکر پہلے مکّہ والوں کا مال واپس کیا اور پھر واپس مدینہ آکر اسلام قبول کرلیا۔ باقی زندگی مدینہ میں گزاری اور حضرت زینبؓ سے نہایت شریفانہ سلوک کیا۔ تاہم آپؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں اور 8 ہجری میں وفات پاگئیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھایا اور خود قبر میں اُتارا۔
حضرت زینبؓ کے بطن سے ایک لڑکا علیؓ اور ایک لڑکی امامہؓ پیدا ہوئے۔ علیؓ تو بچپن میں فوت ہوگئے مگر
امامہؓ بڑی ہوئیں اور حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ سے اُن کی شادی ہوئی مگر اُن سے نسل آگے نہیں چلی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں