بچوں میں نیند کی کمی سے مسائل – جدید تحقیق کی روشنی میں

بچوں میں نیند کی کمی سے مسائل – جدید تحقیق کی روشنی میں
(عبادہ عبداللطیف)

٭ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ خراٹے لینے والے بچوں میں نیند کی کمی اور افسردگی کا فوری طور پر علاج کروایا جانا چاہئے۔ ماہرین کے مطابق بچپن میں خراٹے لینے کے عادی بچوں کی ذہنی استعدادکار، دوسرے نارمل بچوں سے کم ہوتی ہے اور ایسے بچوں میں افسردگی اور چڑچڑاپن بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس بارے میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کنٹکی (امریکہ) میں ماہرین نے خراٹے لینے کی عادت میں مبتلا 87 بچوں کی ذہانت، عمومی رویے، افسردگی، تھکاوٹ، نیند کے دورانیے اور سیکھنے کی صلاحیتوں کا دیگر بچوں سے موازنہ کرکے تقابلی جائزہ لیا۔ اس تحقیقی مطالعے سے اخذ کردہ نتائج کے مطابق خراٹے لینے والے، نیند کے دورانیے میں کمی کے شکار اور نیند کے دوران آنکھوں کو حرکت دینے والے بچے نہ صرف ڈیپریشن اور تھکاوٹ کا جلدی شکار ہوجاتے ہیںبلکہ ان بچوں میں مختلف علوم سیکھنے کی صلاحیت بھی دوسرے بچوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔
٭ کینیڈا کی مانٹریال یونیورسٹی کے ماہرین کی کئی سال جاری رہنے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نیند کی کمی کے شکار بچوں کو مستقبل میں جذباتی مسائل کے ساتھ ساتھ وزن بڑھنے کے خطرے کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق کے لئے ماہرین نے پانچ ماہ کی عمر کے بچوں کے نو سو سے زیادہ والدین سے اُن کے بچوں کی نیند کے انداز اور اُنہیں سُلانے کے طریق کے حوالے سے بات چیت اور پھر اُن بچوں کے چھ سال کی عمر میں پہنچنے کے بعد اُن کے والدین کے ذریعے دوبارہ مطالعاتی جائزہ لیا گیا۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جن بچوں کو نیند کی کمی کے مسئلے کا سامنا تھا، صرف چھ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ان میں سے کئی ایک مختلف جذباتی مسائل کا شکار ہوچکے تھے اور کئی ایک کا وزن عمر کے تناسب سے بڑھ چکا تھا۔ تحقیق کے نتائج میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں میں نیند کی کمی کے مسئلے کے ذمے دار اُن کے والدین ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ والدین بچے کے سونے کے وقت پر اس کے سونے کے عمل میں جتنی مداخلت کریں گے، بچہ سونے کے لئے اُن پر اُتنا ہی زیادہ انحصار کرے گا۔
٭ امپیریل یونیورسٹی آف لندن کے ماہرین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن بچوں کو نیند سے متعلق مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہ کسی بھی خطرناک مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یعنی نیند کا نہ آنا، نیند کے دوران سانس کا اکھڑنا، نیند میں چلنا، بولنا یا بار بار کروٹیں بدلنا کسی بھی خطرناک بیماری کی قبل از وقت علامات ہوسکتی ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہئے۔ ورنہ امکان ہے کہ اُن کی قوت مدافعت خطرناک امراض کی واضح علامات کے ظاہر ہونے تک بہت کم ہوجائے گی۔ نیند کے مسائل اور خطرناک بیماریوں کے امکانات کے درمیان پہلی بار ہونے والی اس تحقیق میں یہ معلوم ہوا ہے کہ نیند کے مسائل سے دوچار بچے گہری نیند سونے والے بچوں کی نسبت خطرناک بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ جبکہ نیند کی کمی بھی بذات خود ایک خطرناک بیماری ہے لیکن بچوں میں یہ بیماری سب سے زیادہ اُن کے سیکھنے کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نیند میں کمی سے قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے متعد چھوٹی بڑی بیماریاں اس پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں۔ یہ تحقیق سکولوں کے 5ہزار سے زائد بچوں پر مکمل کی گئی ہے جن کی عمر 7 سے 9 سال کے درمیان تھی۔
٭ ایک اور تحقیق جو کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کے زیرانتظام پندرہ ہزار نوجوانوں پر کی گئی ہے، اُس میں کہا گیا ہے کہ نیند کی کمی نوجوانوں میں انتہائی ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے جس سے خودکُشی کے خیالات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ڈپریشن کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ عموماً اِس کی نشاندہی نہیں ہوپاتی جس سے مریض کے اعصابی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جو مزید مختلف بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
٭ ایک رپورٹ میں ماہرین نے بتایا ہے کہ رات کو آرام دہ نیند سے لطف حاصل کرنے والے بچوں میں موٹاپے کا رجحان اُن بچوں کی نسبت کم ہوتا ہے جنہیں رات کو اچھی نیند میسر نہیں آتی۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر ایک گھنٹے کی اچھی نیند سے موٹاپے کا شکار ہونے کا خدشہ نو فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ ماہرین نے ایسی سترہ تحقیقی رپورٹوں کو بھی پیش نظر رکھا جن میں بچپن کے موٹاپے سے نیند کے دورانیے کا تعلق واضح کیا گیا تھا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کے سونے کا دورانیہ روزانہ گیارہ گھنٹے یا اُس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے جبکہ پانچ سے دس برس کی عمر کے بچوں کو روزانہ دس گھنٹے یا اُس سے زیادہ کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دس سال سے بڑی عمر کے بچوں کے لئے نو گھنٹے کی نیند بھی کافی ہوسکتی ہے۔
٭ اور آخر میں بڑوں اور بچوں کی پُرسکون نیند کے حوالے سے یہ رپورٹ ہے جس میں ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگ صرف آنکھوں کے ذریعے دماغ پر ہی اثرانداز نہیں ہوتے بلکہ یہ سارے ماحول کو متأثر کرتے ہیں اور نیند کے دوران بھی ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ سونے کے کمرے کا ماحول اور خاص طور پر پردوں، دیواروں اور بستر کا رنگ ہماری نیند پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ رنگوں کے انسانی نیند پر اثرات کا جائزہ لینے کے لئے آسٹریلوی ماہرین نے 200 افراد پر تجربات کئے جن میں انہیں مختلف رنگوں سے مزین ماحول میں سلایا گیا اور اُن کی نیند کو زیر مشاہدہ رکھا گیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ نیلے رنگ سے سجے کمرے میں سونے والے دوسروں کی نسبت زیادہ پُرسکون نیند لیتے رہے جبکہ زرد اور سرخ رنگ کئے ہوئے کمروں میں سونے والوں کی نیند میں نمایاں زیادہ خلل پیدا ہوا اور انہوں نے بے خوابی کی شکایت کی۔ اس لئے کوشش کریں کہ خوابگاہ میں دیواروں اور چھت پر پینٹ کے جو رنگ استعمال کئے جائیں وہ نیند لانے میں‌ ممد ثابت ہوں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں