بچوں کے بعض نفسیاتی مسائل – جدید تحقیق کی روشنی میں

بچوں کے بعض نفسیاتی مسائل – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

٭ ایک جائزے کے مطابق بچپن میں موٹاپے کا شکار ہونے والے بچے تنہائی پسندی اور دیگر ذہنی بیماریوں کا نسبتاً زیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔ اس جائزے کے لئے 8ہزار بچوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا یعنی نارمل، زائد وزن اور کم وزن والے بچوں کے تین گروپ بنائے گئے۔ تینوں گروپوں کے بچوں کو 3 مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد جب اِن بچوں کے رویوں پر غور کیا گیا تو زائد وزن بچے ذہنی بیماریوں کی علامات میں مبتلا نظر آئے۔ ماہرین طب کے مطابق بچپن میں ایک حد تک موٹے بچے خوبصورت اور بھلے محسوس ہوتے ہیں مگر بعد میں یہی بچے لوگوں کی نظروں اور مختلف سوالوں کے نتیجے میں ایک خاص طرح کے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
٭ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ بچپن میں بچوں پر سختی اور تشدد سے پیدا ہونے والے ڈپریشن سے ان کے اندر دمہ کی علامات جنم لے لیتی ہیں، جن بچوں کو دمہ لاحق ہو ان کے ساتھ خصوصی سلوک روا رکھا جائے۔ یونیورسٹی آف بوفالو میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ڈپریشن جب نروس سسٹم کو متاثر کرتا ہے تو سانس لینے کی دشواری کا عمل شروع ہوتا ہے جس سے دمہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس تحقیق میں جذباتی دباؤ، تشویش، کوف او نروس سسٹم کے درمیان تعلق دیکھا گیا تھا۔ اس تحقیق کو پروفیسر ڈی ملز نے مکمل کیا جو بچوں کی بیماریوں کے ماہر ہیں۔ یوبی سکول آف میڈیسن اینڈ بائیو میڈیکل سائنس میں آنے والے مختلف بچوں کے تجزیے کے بعد انہوں نے اپنی رپورٹ مرتب کی تھی۔
٭ امریکہ میں ایک مطالعاتی تجزیئے کے نتیجے میں بتایا گیا ہے کہ ذہنی الجھنوں یعنی ڈپریشن کا شکار مائیں اپنے بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک اختیار کرلیتی ہیں جس سے بچے بھی تشدد آمیز رویہ اپنا لیتے ہیں یا جنسی بے راہروی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ماں اور بچے کے درمیان خوشگوار تعلقات میں کمی پر ہونے والے اس سروے میں ساڑھے 5ہزار امریکی خاندانوں کا تجزیہ کرنے کے علاوہ دیگر تین سروے رپورٹس سے بھی مدد لی گئی تھی۔ ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں پر سختی کرنے سے پہلے غور کرلیں کہ بچے کو دی جانے والی سزا اُس کی غلطی پر دی جارہی ہے یا پھر یہ والدین کے ڈپریشن کا نتیجہ ہے اور ایسی سزا بچوں کو بھی خطرناک راستے پر لے جاسکتی ہے۔
اسی طرح ایک دوسرے طبّی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ بچے جو نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں اور ان میں انتہاپسندی، سماجی سطح پر بے جا خوف یا ڈپریشن کی علامات نمایاں ہوتی ہیں۔ ایسے بچے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے جلد عادی ہوجاتے ہیں اور انہیں انٹرنیٹ کی دنیا میں سکون محسوس ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ عملی زندگی میں بے کار ہوجاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بچوں کے اندر نفسیاتی علامات اور اُن کے اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ تحقیق کے مطابق ایسے بچوں کی سکول میں تعلیمی قابلیت، خاندان میں تعلقات اور جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت میں بھی نمایاں خامیاں پائی جاتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر گھنٹوں مصروف رہنے والے ان بچوں کی یہی عادت اُنہیں مزید بوریت، تشویش اور پریشانی میں مبتلا کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ انٹرنیٹ کا استعمال بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ رپورٹ میں والدین، اساتذہ اور طبّی ماہرین سے کہا گیا ہے کہ ایسے بچوں کی ظاہری علامات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ میں اُن کی موجودہ یا سابقہ دلچسپی کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
٭ دنیا بھر کے تحقیقی مراکز میں کئی طبی ماہرین ایسی جسمانی بیماریوں پر کام کر رہے ہیں جن کا تعلق انسانی دماغ کی قوّت فکر سے ہے اور اس طرح یہ نفسیاتی بیماریاں بھی کہلاسکتی ہیں۔ اسی قسم کی ایک بیماری شیزوفرینیا کہلاتی ہے جس پر دو امریکی سائنسدانوں نے اپنی حالیہ تحقیق کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں شیزوفرینیا کے بارے میں مزید حقائق جاننے میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس بیماری کا مریض بظاہر تو اپنے قول و فعل میں تضاد کا مظہر ہوتا ہے لیکن عملاً اس بیماری کے اثرات خطرناک نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بیماری کا تعلق ماحول یعنی معاشرتی اثرات اور نسل در نسل چلنے والے مسائل سے ہوسکتے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کے دماغ میں ایک مقام کی نشاندہی میں بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ حالیہ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جوانی میں شیزوفرینیا کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن دراصل یہ بیماری بچپن سے ہی شروع ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں