جلسہ سالانہ برطانیہ2005ء کے دوسرے روز سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب

2004 – 2005 ء میں جماعت احمدیہ عالمگیر پر نازل ہونے والے بے انتہا فضلوں کا ایمان افروز تذکرہ
امسال تین نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہوا ۔ کل 181ممالک میں احمدیت کاپودا لگ چکاہے۔ 1984ء سے اب تک جماعت کو 13776مساجد عطا ہوئیں ۔ اس سال 189تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا۔
امسال ازبک اور کریول میں قرآن کریم کے تراجم کی طباعت کے ساتھ تراجم قرآن کریم کی تعداد 60 ہوگئی۔
مختلف زبانوں میں کثیر تعداد میں لٹریچرکی اشاعت۔نمائشوں ،بکسٹالز اور بک فیئرز کے ذریعہ لاکھوں افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ ریڈیو، ٹی وی پروگراموں اور ویب سائٹ کے ذریعہ اسلام احمدیت کے پیغام کی وسیع پیمانے پر تشہیر۔افریقہ میں 37ہسپتال اور 465 سکول بنی نوع انسان کی بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں ۔ ایک سال کے اندر16148نئے موصیان کی درخواستیں مرکز میں پہنچ چکی ہیں ۔ اسلام آباد ،ٹلفورڈ سے چند میل کے فاصلے پر 208ایکڑ زمین کی خرید۔ ایم ٹی اے، وقف نو،طاہرفاؤنڈیشن اور مختلف شعبہ جات اور اداروں کی کارکردگی اور دوران سال بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے بے پناہ افضال کا ایمان افروز تذکرہ
جماعت احمدیہ برطانیہ کے 39ویں جلسہ سالانہ منعقدہ Rushmoor Arena Aldershot کے موقع پر
30 جولائی 2005ء کو بعد دوپہر کے اجلاس میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا روح پرور خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَاللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔(الصف:9 )

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے۔ خواہ کافر ناپسند کریں۔
آج کے دن اس وقت کی تقریر میں جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوتی ہے اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اِن ذکروں پر گو مخالفین اور حاسدین کے حسد کی آگ مزید بھڑکتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو روکنا اور چھیننا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی کبھی لوگوں کے روکنے سے رُکے ہیں؟ یا جس پر اللہ تعالیٰ فضل کرنا چاہے اس سے چھین کر کوئی زبردستی اپنے لیے لے سکتا ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ آپؑ کو الہاماً فرمایا گیا کہ:

’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 317)

کہ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ہمیشہ کھڑا ہوں اور ہر موقع پر کھڑا ہوں ،کھڑا رہوں گا۔ تو یہ وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا آپؑ سے اور آپؑ کی جماعت سے۔ اس لیے مخالفین جتنا مرضی زور لگا لیں ان ترقیات کی رفتار کو نہیں روک سکتے، ختم نہیں کر سکتے، کم نہیں کر سکتے۔ اور یہ بھی آپؑ کا الہام ہے کہ:

’’اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 301)

کہ اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کرتا رہ اور اس کے فضلوں کا ذکر کرتا رہ۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اُس کے فضلوں کا یہ ذکر بھی اُس کے حکم کے مطابق ضروری ہے اور ہم کرتے ہیں اور دورانِ سال اللہ تعالیٰ جو فضل فرماتا ہے یہ بھی ان نعمتوں کے ذکر کا ایک حصّہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے فضلوں کو جاری رکھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی خوش خبریوں کو ہمیں بھی پورا ہوتے ہؤا دکھائے۔ ہماری کسی کوتاہی یا کمزوری یا کمی کی وجہ سے یہ آگے نہ چلی جائیں۔
اب مَیں ان اَفضال کا کچھ ذکر کرتا ہوں۔

نئے ممالک میں جماعت احمدیہ کا نفوذ

پہلے تو مَیں نئے ممالک میں جماعت احمدیہ کا نفوذ لیتا ہوں۔ اِس سال اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 181 ممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگ چکا ہے۔ گویا مخالفین کی اُن کوششوں کے بعد کہ جماعت کو ختم کر دو۔ یعنی 1984ء سے لے کر اب تک اللہ تعالیٰ نے 90 نئے ممالک میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی جماعت کو توفیق دی ہے۔ اور دورانِ سال تین ممالک شامل ہوئے ہیں۔ گو چھوٹے چھوٹے ہیں لیکن بہرحال یہاں پیغام پہنچا ہے۔ ایک جبرالٹر (Gibraltar) ہے، ایک بہاماز (Bahamas) ہے اور سینٹ وِنسنٹ (Saint Vincent) ہے۔ یہ آئی لینڈ ہیں جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔
جبرالٹر میں تو جماعت جرمنی کو پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ وہاں مخالفت بھی ہوئی کیونکہ سمندر کے ذرا پار سامنے ہی مراکو (Morocco) ہے وہاں عرب لوگ کافی آجاتے ہیں تو یہاں جب یہ وفد گیا تو مراکش کے جو باشندے تھے ان سے تبلیغی گفتگو ہوتی تھی۔ لیکن وہاں کے جو امام تھے جب ان کو پتہ چلا کہ یہ احمدی ہیں اور ہمارے عقائد کیا ہیں تو انہوںنے مسجد میں آنے سے، نمازیں پڑھنے سے روک دیا۔ پھر باہر تبلیغ جاری رہی۔ بُک سٹال لگائے گئے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح ایک آدمی کو توفیق ملی کہ وہ احمدی ہو اور مزید بھی امکانات ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس سال اور ظاہر ہوں گے۔
اِسی طرح جماعت احمدیہ امریکہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہاماز (Bahamas) میں احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق ملی۔ یہ بھی سات سو جزیروں پر مشتمل ہے اور امریکہ کی ریاست فلوریڈا سے لے کر کیوبا (Cuba) تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں بھی مختلف وفود گزشتہ سالوں میں جماعت امریکہ نے بھجوائے اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، دو پھل عطا فرمائے۔یہاں پر بھی امکان ہے انشاء اللہ تعالیٰ مزید کامیابیاں ہوں گی۔
پھر جزائر غرب الہند کا جو جزیرہ سینٹ وِنسنٹ ہے اس کی آبادی ایک لاکھ ہے۔ چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ یہاں افریقن نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ٹرینیڈاڈ (Trinidad) کی جماعت کو یہاں توفیق ملی۔ یہاں ہمارے مبلغین نے دَورہ کیا اور لٹریچر وغیرہ تقسیم کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم یہاں گئے ہیں تو ایک جگہ تلاش کر کے کتب کا سٹال لگایا اور لوگ فوری طور پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اور ہماری کتابیں دیکھنی شروع کر دیں اور سوالات کرنے لگے۔ مبلغ صاحب کہتے ہیں کہ اتنا ہجوم ہو گیا اور سوال پوچھنے والوں کی اتنی کثرت ہو گئی کہ ہم دو آدمی تھے ہمارے لیے ممکن نہیں رہا کہ ان کے جواب دے سکیں، کسی کو سن بھی سکیں۔ تو بہرحال لٹریچر بھی تقسیم ہوا۔ قرآن کریم کا ترجمہ بھی بعض کو دیا اور ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور “Message of Peace” لوگوں نے دلچسپی سے خریدیں اور یہاں چار اَفراد نے بیعت کی ۔ ان میں سے تین عیسائی تھے اور ایک خاتون مسلمان تھی۔ تو یہاں بھی امید ہے انشاء اللہ مزید رابطے بڑھیں گے۔

نومبایعین سے رابطے:

ایک مَیں نے زور یہ دیا تھا کہ جو پرانی بیعتیں ہوئی ہیں اُن سے رابطوں پہ زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے کیونکہ اتنی کثیر تعداد میں اور وسیع پیمانے پر مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں کہ ہمارے مبلغین کے لئے، جماعتی نظام کے لیے اتنا ممکن نہیں تھا کہ وہ ہر جگہ رابطے رکھتے، کچھ سستی بھی تھی۔بہرحال رابطے ٹوٹے، تو وہاں بھی وفود بھجوائے گئے کہ رابطے زندہ کیے جائیں جہاں کئی سال پہلے جماعت احمدیہ کا نفوذ ہو چکا تھا اور کمزوریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ تو ان میں سے جماعت جرمنی کو بھی توجہ دلائی گئی تھی کہ اپنے رابطے زندہ کریں۔ چنانچہ جرمنی سے جلال شمس صاحب اور ایک اور داعی الیٰ اللہ ریاض صاحب ’’آذربائیجان‘‘ گئے اور وہاں رابطہ کیا۔ جب ان لوگوں کے پاس گئے تو انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ کچھ سال پہلے آپ نے جو کتب ہمیں بھجوائی تھیں وہ بھی ہم نے لوگوں کو پڑھنے کے لیے دی ہیں اور پھر نومبایعین جو تھے وہ خود بھی مطالعہ کر کے نماز وغیرہ میں باقاعدہ ہو چکے تھے۔تو جہاں اس دورہ کی وجہ سے پرانے رابطے دوبارہ زندہ ہوئے، قائم ہوئے وہاں اللہ تعالیٰ نے مزید چودہ افراد کو بیعت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ اب یہ باقاعدہ رابطے رہنے بھی چاہئیں۔
پھر Macedonia ہے۔ یہاں بھی وفد بھیجا گیا اس میں ہمارے مبلغ اور ایک داعی الیٰ اللہ گئے اور ایک مقامی احمدی دوست شریف دروسکی صاحب بھی تھے۔ یہاں بھی جب رابطہ کیا گیا تو نومبایعین نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ کہتے ہیں کہ یہاں ایک اسلامک سینٹر (Islamic Centre) کے زیر انتظام ایک مسجد کے امام کی طرف سے ایک نشست کے منعقد کرنے کا پیغام ملا۔ یہ مسجدMacedonia کے پانچویں بڑے شہر Strumica میں واقع ہے۔ یہاں ترک زبان بولنے والے مسلمان آباد ہیں۔ مجلس سوال و جواب کا آغاز ہوا اور جماعت کا تعارف کروایا گیا اور اختلافی مسائل کو کھول کر بیان کیا گیا۔ جب ’’وفاتِ مسیح‘‘ کے عقیدہ کی بات ہوئی تو وہاں جو مولوی صاحب تھے وہ بے چین ہونے لگے اور دخل اندازی کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ عقیدہ غلط ہے اور وہ قرآن سے ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ چنانچہ وہ باہر گئے اور بیس منٹ کے بعد واپس آئے۔ قرآن کریم کے دو نسخے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے اور سب کے سامنے ورق گردانی شروع کردی، صفحے پلٹنے شروع کر دئیے۔ آخر تھک ہار کے کہنے لگے کہ اُنہیں کوئی ایسی آیت نہیں مل رہی اور بے بسی سے ایک طرف خاموش ہو کے بیٹھ گئے۔ بہرحال یہ کہتے ہیں کہ تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا اور آخر جب مجلس ختم ہوئی تو نماز کا وقت بھی ہو رہا تھا۔ وہاں لوگوں نے اصرار کرکے ہمارے مبلغ کو کہا کہ آپ ہی آج نماز کی امامت کرائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے امامت کروائی اور نماز کے بعد سوائے ان مولوی صاحب کے یا ان کے ایک معاون کے تمام حاضرین نے بیعت فارم پُر کر کے اعلان کیا کہ وہ آج احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ اور اس طرح انہوں نے بیعت کر لی۔
پھر اسی دورہ کے دوران ایک اور شہر ہے وہاں سے ایک امام صاحب کا پیغام ملا کہ سنا ہے آپ آئے ہوئے ہیں تو آ کے ہماری مسجد میں جمعہ پڑھائیں اور خطبہ دیں۔ چنانچہ وہاں مبلغ صاحب نے خطبہ دیا، جمعہ پڑھایا تو حاضرین پر اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور انہوں نے جماعت میں شامل ہونے کا اس وجہ سے اظہار کیا کہ یہ تو آپ کی بڑی سچی باتیں لگ رہی ہیں۔ وہاں اسلامک سینٹر کے صدر بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ لوگ جماعت میں شامل ہوئے تو یہ مسجد آپ سے واپس لے لی جائے گی۔ جماعت احمدیہ یہاں مسجد تعمیر کروا دے تو ہم جماعت احمدیہ میں شامل ہو جائیں گے۔ اسی رات مسجد کے امام ہمارے وفد کی قیامگاہ پر آئے اور کہنے لگے کہ آپ کے جانے کے بعد اسلامک سینٹر کے مرکز سے فون آیا تھا کہ احمدی امام کو کیوں دعوت دی ہے؟ امام صاحب کہتے ہیں کہ اس پر مَیں نے جواب دیا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد حق پر مبنی ہیں اور وہ جماعت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ امام صاحب بھی تیار ہو گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے راستے ہموار ہو رہے ہیں۔
اسی طرح ایک تیسرے شہر میں بھی اسلامک سینٹر والوں نے ہی کہا کہ آ کے میٹنگ کریں اور ایک شیعہ مسلک رکھنے والے سے جب سوال جواب ہو رہے تھے تو انہوں نے حیات مسیح پر دلائل دینے کی کوشش کی۔ جب ہمارے مبلغ نے اُن کو جواب دئیے تو وہ کہنے لگے کہ آج تک میں نے قرآن کریم کی ایسی تفسیر نہیں سنی۔ چنانچہ امام مسجد نے خود اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد درست ہیں۔
اِسی مقدونیا (Macedonia) میں جہاں ہمارے وفود کو جماعت کے ممبروں کو مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی اور پولیس کے ذریعہ سے رکاوٹ ڈالی جاتی تھی اب یہ حال ہے کہ خود دعوت دے کر بلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے حق میں غیرمعمولی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے اور اس سال اللہ کے فضل سے اس ملک میں مجموعی طور پر 350 نئی بیعتیں ہوئی ہیں۔ یہ غریب ملک ہے اس لیے وہاں میڈیکل کیمپ وغیرہ لگانے اور اسی طرح ہیومینٹی کی خدمت کرنے کا بھی موقع ملا۔
تیسرا ملک مالدووا (Moldova) ہے جہاں جرمنی کے ذریعہ سے دوبارہ رابطے قائم ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں جماعت کی رجسٹریشن بھی ہو گئی ہے اور کرائے کی ایک عمارت بطور سینٹر حاصل کر لی گئی ہے اور اس دورہ کے دوران بھی تین عرب فیملیوں کو قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔یہاں بھی باقاعدہ نظامِ جماعت قائم ہو چکا ہے۔
اِس کے علاوہ جرمنی سے مالٹا (Malta) میں بھی وفد بھجوایا گیا۔ نومبایعین سے رابطے قائم کئے گئے۔
پھر سالومن آئی لینڈز (Solomon Islands) ہے۔ یہاں بھی جماعت کا قیام طوالو (Tuvalu) کے مشن کے ذریعہ 1988ء میں ہوا تھا۔ پھر بعد میں اس سے رابطہ کمزور ہو گیا۔ یہ ملک جماعت آسٹریلیا کے سپرد کیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے وفود بھجوائے اور اللہ کے فضل سے یہاں بھی پرانے رابطے زندہ ہوئے، بحال ہوئے اور نئی بیعتیں بھی ہوئیں۔ اس سال 20نئی بیعتیں ہوئی ہیں۔ اور جماعت نے اللہ کے فضل سے نصف ایکڑ زمین پر تعمیر شدہ عمارت بطور سینٹر خریدلی ہے اور ایم ٹی اے بھی باقاعدہ وہاں سنا جاتا ہے، دیکھا جاتا ہے۔ اللہ کے فضل سے احباب اکٹھے ہوتے ہیں۔
پھر آسٹریلیا کے سپرد ہی ایک اور جزیرہ تھا نیو کیلیڈونیا (New Caledonia)۔ انہوں نے یہاں بھی ایک داعی الی اللہ کو دورہ پر بھجوایا۔ ایک بیعت بھی ہوئی۔ ان کا خیال ہے کہ یہاں انشاء اللہ مزید رابطے ہوں گے اور بیعتیں ہوں گی۔
اس کے علاوہ گیانا کے مبلغ جن کو وینزویلا (Venezuela) بھجوایا گیا تھا انہوں نے بھی پرانے رابطوں کو زندہ کیا اور تعلیم و تربیت کے پروگرام بنائے۔
اسی طرح زمبابوے (Zimbabwe) میں ہمارے مبلغ ہیں انہوں نے ہمسایہ ملک نمیبیا (Namibia) میں بھی دورہ کیا۔ پرانے رابطے بحال ہوئے اور اللہ کے فضل سے دو نئی بیعتیں بھی ہوئیں۔
سید کمال یوسف صاحب جو ہمارے پرانے مبلغ ہیں، اب باقاعدہ اس طرح تو مبلغ نہیں رہے لیکن بہرحال جماعتی خدمات کرتے ہیں، ان کو فِن لینڈ (Finland) کے دورہ پر بھجوایا گیا جہاں انہوں نے کافی کام کیا اور تبلیغ کے مواقع میسر آئے۔
اصل چیز یہی ہے کہ پرانی بیعتیں بھی اور نئے بھی جو ہیں اُن کو سنبھالنا چاہیے۔ انہیں ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس طرف بھی جماعتوں کو بہت زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک وار نئی جماعتوں کا قیام

اب ملک وار نئی جماعتوں کا کہاں کہاں قیام ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 488ہے۔ اس کے علاوہ اس سال 497 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔تو اس طرح اس سال مجموعی طور پر 985 نئے علاقوں میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے اور نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ گزشتہ سال یہ تعداد 542تھی۔
نئی جماعتوں کے قیام اور نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ میں ہندوستان سرِ فہرست ہے جہاں 133 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
اس کے بعد بورکینافاسو ہے۔ یہاں 71نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ سیرالیون، گھانا ، آئیوری کوسٹ وغیرہ اور بہت سارے ممالک ہیں جہاں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔تفصیل تو کافی ہے لیکن خلاصۃً پیش کرتا ہوں۔

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی بنی بنائی مساجد

پھر نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد میں بھی اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑا کام ہوا ہے اور مزید وسعت اور پھیلاؤ پیدا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال جماعت کو جو نئی مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی اور بنی بنائی بھی ملیں ان کی کُل تعداد 319ہے۔ جن میں سے184 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 135 مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ جبکہ گزشتہ سال 74 مساجد نئی تعمیر ہوئی تھیں اور 88 بنی بنائی عطا ہوئی تھیں۔ اس طرح نئی تعمیر ہونے والی مساجد میں گزشتہ سال کی نسبت دوگنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔
1984ء سے لے کر اب تک، کیونکہ ہم نے 1984ء کو ہی حوالہ رکھا ہوا ہے جب دشمن نے کوشش کی تھی کہ احمدیت کو ختم کر دیا جائے، اُس وقت سے لے کر اب تک کُل 13,776 مساجد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اور اس میں خاص بات اللہ تعالیٰ کا خاص فضل یہ ہے کہ اس تعداد میں جو یہ اضافہ ہوا ہے اس میں 11,695 مساجد ایسی ہیں جو اماموں اور مقتدیوں سمیت اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا کی ہیں۔
بعض بڑی بڑی مساجد کا مَیں تھوڑا سا تفصیلی جائزہ بتا دیتا ہوں۔
مثلاًاس سال امریکہ میں ولنگبورو (Willingboro) شہر میں ایک مسجد زیرِ تعمیر ہے اور تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس کو اگر شامل کر لیا جائے تو امریکہ میں مساجد کی تعداد اللہ کے فضل سے 16 ہو جائے گی۔ اسی طرح ڈیٹرائٹ (Detroit) میں مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔ نقشہ منظور ہو چکا ہے۔ کام شروع ہو جائے گا انشاء اللہ۔ ورجینیا (Virginia) میں بھی کہتے ہیں انشاء اللہ جلد کام شروع کر دیں گے۔ امریکہ والے بھی مسجدیں بنانے میں کافی تیز ہوئے ہیں، الحمدللہ۔
کینیڈا کے دورہ کے دوران میں نے تین مساجد کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔اس سے پہلے بھی خطبے میں ذکر کر چکا ہوں ۔ مثلاً بیت الرحمٰن وینکوور (Vancouver) میں ہے۔ مسجد کے ساتھ اس کا مشن ہاؤس بھی تعمیر ہو گا، دفاتر بھی ہوں گے۔ رہائشی حصہ، گیسٹ ہاؤس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تقریباً پونے چار ایکڑ رقبہ ہے جس میں یہ تعمیر ہو رہی ہے اور مسجد کا جو کورڈ ایریا (Covered Area) ہے۔ یہ بیس ہزار مربع فٹ ہے۔ کافی بڑی ہوگی انشاء اللہ۔
اسی طرح مسجد بیت النور کیلگری (Calgary) ہے۔ یہاں بھی مسجد کے ساتھ مشن ہاؤس، دفاتر، گیسٹ ہاؤس وغیرہ اور کچھ ہال ہوں گے۔ اس کے کورڈ ایریا (Covered Area)کا رقبہ 44ہزار مربع فٹ ہو گا۔ انشاء اللہ۔ اور کینیڈا کی ابھی تک کی سب سے بڑی مسجد ہو گی۔ اللہ تعالیٰ آئندہ ان کو اور مزید بڑی مسجدیں بنانے کی توفیق دے۔
اور تیسری مسجد جس کا سنگ بنیاد رکھا گیا وہ بریمپٹن (Brampton) کے مقام پر ہے۔ یہ چھوٹی مسجد ہے۔ ٹورانٹو کے قریب ہی ہے۔ جہاں ہمارا جلسہ ہوتا ہے اس کے بھی قریب ہے۔ یہ بھی بارہ ہزار مربع فٹ کا رقبہ کورڈ (Covered) ہو گا، انشاء اللہ۔
پھر کارنوال میں ایک جگہ خریدی ہے۔ اس کا مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ یہ بھی بنا بنایا ہال ہے اس کو بھی مسجد کی شکل دی جا رہی ہے۔ کُل رقبہ ایک ایکڑ کا ہے۔
نوواسکوشیا (Nova Scotia) کینیڈا کا مشرقی صوبہ ہے۔ اس کا ایک شہر سڈنی ہے۔ یہاں بھی اللہ کے فضل سے جماعت کو ایک عمارت بطور سینٹر اور مسجد خریدنے کی توفیق عطا ہوئی ہے۔ اس سال جماعت کینیڈا نے ڈرہم (Durham) میں ایک نہایت باموقع اور پختہ قلعہ نما اور محل نما عمارت خریدی ہے۔ اس کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا۔ اس زمین کا رقبہ 18؍ ایکڑ ہے۔ اور 13,000مربع فٹ رقبہ کورڈ ایریا (Covered Area) ہے۔ یہ بھی جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ایک فیملی نے اس کا سارا خرچ برداشت کیا ہے۔
پھر لائیڈ منسٹر میں دو ایکڑ رقبہ زمین مسجد کے لیے خرید اگیا ہے۔ انہوں نے مجھے دورہ کے دوران بتایا کہ یہ بھی ایک شخص نے خرید کر دیا ہے۔ اور انہوں نے کہا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں اس مسجد کی تعمیر جلد کروا کر دوں گا۔
پھر ایڈمنٹن میں 33 ایکڑرقبہ ہے۔ سیسکاٹون میں 16ایکڑ رقبہ ہے۔ اس طرح کافی وسیع رقبے مساجد کی تعمیر کے لئے خریدے گئے ہیں۔
یوروپین ممالک میں سے جرمنی کا سو مساجد کا جو منصوبہ ہے۔اس میں پچھلے سال پانچ مساجد مکمل ہو گئیں جن کا افتتاح میں نے کیا تھا اوردو مساجد زیرتعمیر ہیں اور اس سال ایک مکمل ہو رہی ہے اور مزید پانچ کا کام بھی شروع ہونے والا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ کیونکہ وہاں کچھ قانونی روکیں ہیں اس لیے بعض جگہ اتنی آسانی سے کام نہیں ہو سکتے۔
پھر برطانیہ میں دورانِ سال مسجد دارالبرکات برمنگھم کے افتتاح کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ بڑی خوبصورت مسجد ہے۔ مشن ہاؤس، دفاتر وغیرہ ساتھ ہیں ۔ پھر بریڈفورڈ اور ہارٹلے پول میں بھی مساجد کے سنگِ بنیاد رکھے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی جلد ازجلد مکمل کرنے کی توفیق دے۔ ہارٹلے پول والے تو بڑے پکے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اکتوبر، نومبر تک مکمل کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔
ہندوستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال میں45 مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کی مساجد کی کُل تعداد 2099ہوچکی ہے۔ بنگلہ دیش میں3مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ یہاں ہماری مساجد کی مجموعی طورپر تعداد 92 ہو چکی ہے۔ انڈونیشیا میں جماعت کو 10 مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے۔ یہاں کی مساجد کی کُل تعداد 377 ہو چکی ہے۔ کام میں تیزی کی وجہ سے انڈونیشیا میں مخالفت بھی بہت زیادہ تیزی سے ہے اور اب کل کی اطلاع یہ ہے کہ پھر بعض جگہوں پر حکومت نے پابندی لگانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے سینٹر کو زبردستی سِیل (Seal) کرنے کی کوشش کی ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے ہر شرّ سے بچائے اور جماعت کے افراد کو بھی محفوظ رکھے اور جماعت کی مساجد کو بھی محفوظ رکھے اور جائداد کو بھی محفوظ رکھے اور دشمن کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے۔
غانا میں 14مساجد کا اضافہ ہوا ہے جس میں سے 13انہوں نے تعمیر کی ہیں اور ایک بنی بنائی عطا ہوئی ہے۔ غانا میں عموماً اچھی مسجدیں بنانے کا رواج ہے۔ مخیّر افراد میں سے کوئی نہ کوئی ایسا مل جاتا ہے جو کوئی نہ کوئی مسجد بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کے اَموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ وہاں عورتیں جو ہیں وہ بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ ایک خاتون مسز جمیلہ کوٹے (Mrs. Jameela Kotey) ہیں۔ اُنہوں نے دو سو ملین سیڈیز خرچ کر کے ایک بڑی خوبصورت دومنزلہ مسجد تعمیر کروا کر جماعت کو دی ہے۔ اسی طرح ایک اور خاتون مادام حبیبہ ہیں اُنہوں نے بھی اشانٹی ریجن میں ایک مسجد اور ساتھ مشن ہاؤس تعمیر کرواکے جماعت کو دیا ہے۔
نائیجیریا میں امسال جماعت نے 23نئی مساجد تعمیر کی ہیں اور 21بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ یہاں مساجد کی کُل تعداد 660ہو چکی ہے۔
کیمرون میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی پہلی مسجد زیرِ تعمیر ہے۔ یہ مسجد انشاء اللہ دو منزلہ ہو گی اور اس میں 500افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو گی۔
سیرالیون میں اس سال 62مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ 35 انہوں نے تعمیر کی ہیں اور 27بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔
اِسی طرح سینیگال میں جماعت کو اب تک کُل 88 مساجد تعمیر کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔
آئیوری کوسٹ میں دورانِ سال 6نئی مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کی مساجد کی مجموعی تعداد 2878ہوچکی ہے۔
گیمبیا میں اس سال 2مساجد تعمیر ہوئی ہیں وہاں بھی مساجد کی کُل تعداد 50ہو گئی ہے۔
مڈغاسکر ان ممالک میں سے ہے جو چند سال قبل احمدیت میں داخل ہوئے تھے اور دو سال پہلے یہاں جماعت کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی تھی۔ اب یہاں اللہ کے فضل سے جماعت کو 6نئی مساجد تعمیر کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔
اِسی طرح کونگو (Congo) میں چار مساجد نئی تعمیر ہوئی ہیں جبکہ چھ بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ ان کی مساجد کی کُل تعداد 89 ہوگئی ہے۔
پھر کینیا میں دورانِ سال 3مساجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ان کو بھی 5سال قبل سو مساجد کا منصوبہ دیا گیا تھا۔ اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 54مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔ اور اب جو منصوبہ مَیں ان کو دے کر آیا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے کہ یہ سو مساجد جو ہیں یہ 2006 ء کے وسط تک مکمل ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔
تنزانیہ میں 5نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ یہاں بھی 100مساجد کا منصوبہ تھا۔ 47مکمل ہو چکی ہیں۔
یوگنڈا میں اس دورہ کے دوران میں 2مساجد کا افتتاح ہوا۔
بورکینا فاسو میں اس سال 33مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ 7 ؍انہوں نے تعمیر کی ہیں اور 26ان کو بنی بنائی مل گئیں۔
مالی (Mali) میں بھی اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی پہلی مرکزی مسجد اس وقت زیرِتعمیر ہے۔ اس سے قبل یہاں چھوٹی سی مسجد تھی۔ اور جو مساجد مختلف دیہات کے احمدی ہونے کے ساتھ عطا ہوئی ہیں ان کی تعداد 55ہے۔
بینن (Benin) میں امسال 26 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں جبکہ 6 بنی بنائی عطا ہوئی ہیں اور 3مساجد زیرِتعمیر ہیں۔ اس طرح بینن میں ہماری مساجد کی کُل تعداد 230ہوگئی ہے۔ وقارعمل کے ذریعہ سے بھی لوگ بڑی محنت سے خرچ کم کر کے مساجد تعمیر کرتے ہیں۔
نائیجیر (Niger) میں بھی جو احمدیت کے نفوذ کے لحاظ سے نیا ملک ہے، چند سال پہلے وہاں احمدیت کا نفوذ ہوا۔ یہاں بھی امسال جماعت کو دوسری مسجد کی تعمیر مکمل کرنے کی توفیق ملی ہے۔
اِس سال اللہ کے فضل سے جماعت سپین(Spain) نے ویلنسیا کے علاقے میں مسجد کی تعمیر کے لیے قطعۂ زمین خرید لیا ہے۔ الحمدللہ۔ فی الحال تو یہ کُل رقبہ 2800مربع میڑ ہے۔ مزید کوشش کی جارہی ہے کہ ساتھ کے پلاٹ بھی مل جائیں۔ جو زمین خریدی گئی ہے اس میں 200مربع میٹر پر عمارت بنی ہوئی ہے اور بڑی اچھی عمارت ہے۔ انشاء اللہ اب دوسری مسجد سپین میں یہاں بن جائے گی۔
پھر پُرتگال میں بھی مسجد کی زمین کی خرید کے لیے کارروائی ہو رہی ہے۔ بڑی خوبصورت زمین ہے۔ امید ہے انشاء اللہ سودا جلد ہی ہو جائے گا اور پہاڑی کی چوٹی پر جس کو تین طرف سے سڑک لگتی ہے ایک خوبصورت مسجد وہاں بھی تعمیر ہو گی انشاء اللہ۔
گزشتہ 21 سالوں میں ہماری چند مساجد کو جو ظالموں نے شہید کیا تھا یا حکومتِ پاکستان نے ان کو تالے لگوائے تھے، بڑی خدمت انہوں نے انجام دی تھی۔ وہ چند ایک تھیں۔ اس کے مقابلے میں 13,776 مساجد جماعت کو مل چکی ہیں۔

مشن ہاؤسز / تبلیغی مراکز میں اضافہ

اللہ کے فضل سے دورانِ سال جو تبلیغی مراکز ہیں ان میں 189کا اضافہ ہوا ہے۔ اور اب تک گزشتہ سالوں کو شامل کر کے 85 ممالک میں تبلیغی مراکز کی کُل تعداد 1587 ہوچکی ہے۔
تبلیغی مراکز کے قیام میں ہندوستان کی جماعت سرفہرست ہے جہاں اس سال 107 تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کی کُل تعداد669ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف علاقوں میں آٹھ قطعات زمین بھی تبلیغی مراکز کے قیام کے لئے خریدے ہیں۔
انڈونیشیا میں دوران سال 18 نئے تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافہ کے ساتھ ان کے مراکز کی تعداد 159 ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ 26 مقامات پر مساجد اور مراکز کے لئے زمین خریدنے کی توفیق ملی ہے۔ جن میں سے 10 قطعات زمین مخیّر احمدیوں نے تحفۃًجماعت کو پیش کئے ہیں۔
جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ آیا ہوں یہ جو اتنی تیزی پیدا ہوئی ہے اس سے مخالفین کی حسد کی آگ بھڑک رہی ہے اور روکیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور حکومت کے ذریعہ سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ حالات پیدا نہ کرے جو پاکستان میں ہیں اور ان لوگوں کو عقل دے۔ اچھا بھلا ملک ہے۔ ان کا ترقی کی طرف قدم بڑھ رہا ہے۔ اگر انہوں نے احمدیوں سے چھیڑ چھاڑ کی تو کہیں پاکستان والا حال نہ ہو کہ پھر ترقی وہیں رُک جائے گی اور اس میں کبھی امن قائم نہیں رہے گا۔ ہم پاکستان میں روز دیکھ رہے ہیں بدامنی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی واقعہ ہوتا ہے پاکستان کا نام لگ جاتا ہے۔ عقل ان کو پھر بھی نہیں آتی۔
امریکہ میں بھی 4 نئے تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے اور اس میں عمارتیں خریدی گئی ہیں بلکہ اکثر خریدی گئی ہیں۔ یہ عمارات میامی، روچیسٹر، Seattle اور Long Island نیویارک میں خریدی گئی ہیں۔ اب ان سینٹرز کی تعداد جو ہے وہ 40ہو گئی ہے۔
گیانا میں بھی ایک نئے مشن ہاؤس کا اضافہ ہوا ہے۔ گھانا میں 3 مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا ہے۔ نائیجیریا میں ایک کا اضافہ ہوا ہے۔ تنزانیہ میں 5کا اضافہ ہوا ہے اور بینن میں 14کا۔ نائیجر اور یوگنڈا میں تین، تین کا۔ اِسی طرح سیرالیون، آئیوری کوسٹ، مالی وغیرہ افریقہ کے بہت سارے ملک ہیں۔
جرمنی میں بھی 5تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کی کُل تعداد اب 99 ہو گئی ہے۔
بیلجیم میں ایک تبلیغی مرکز کا اضافہ ہوا ہے۔اینٹورپن (Antwerpen) شہر میں اللہ کے فضل سے جماعت بیلجیم کو ایک چارمنزلہ عمارت خریدنے کی توفیق ملی ہے۔ اس میں ہال بھی ہیں، کمرے بھی ہیں، دفتر وغیرہ بھی شامل ہیں اور اوپر نیچے پوری سہولیات ہیں۔ پہلے کوئی بینک کی عمارت تھی۔ اچھی عمارت ہے۔مَیں جب پچھلے سال گیا ہوں تو دیکھا ہے اچھی جگہ بن گئی ہے۔ جماعت کے لئے نماز پڑھنے کا سینٹر ہے۔ وہاں نماز بھی پڑھائی تھی۔ اُمید ہے فی الحال کچھ عرصہ کے لیے وہ کافی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کو مزید توفیق دے۔
آسٹریلیا میں بھی جماعت کو ملبورن شہر سے باہر Clyde کے مقام پر 20 ایکڑ زمین خریدنے کی توفیق ملی ہے۔ 4لاکھ ڈالر میں یہ خریدی گئی ہے۔

تراجم قرآن کریم

تراجم قرآن کریم۔ گزشتہ سال تک مطبوعہ تراجم کی تعداد 58 تھی۔ اس سال اللہ کے فضل سے 2 نئے تراجم کا اضافہ ہوا ہے۔
کریول (Creole) ماریشس کی زبان ہے اور اس زبان میں شمشیر سوکیا صاحب نے ترجمہ کیا ہے۔
دوسرا ترجمہ ازبک (Uzbek) زبان میں ہے۔ اس ترجمہ میں اور اس کی نظر ثانی میں ہمارے مبلغ (سید حسن طاہر) بخاری صاحب، ارشد محمود صاحب، بشارت احمد صاحب اور ملک طاہر حیات صاحب وغیرہ کے علاوہ وہاں کے لوکل جو اُزبک احمدی ہیں قابل جان صاحب اور عثمان احمد صاحب، بختیار صاحب وغیرہ انہوں نے بڑا کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔
اس طرح اب یہ تعداد اللہ کے فضل سے 60 ہو گئی ہے۔
اس کے علاوہ سنڈانیز (Sundanese) زبان میں جو انڈونیشیا کی زبان ہے قرآن کریم کے تفسیری نوٹس کی چوتھی جلد سورۂ انفال سے لے کر سورۂ یوسف تک مکمل ہوکر شائع ہوئی ہے۔ پھر اسی طرح 21 تراجم جو ہیں مکمل ہو چکے ہیں لیکن ان کی نظرثانی ہو رہی ہے۔ ان میں جنوبی افریقہ کی دو زبانیں ہیں۔ گھانا کی دو زبانیں ہیں۔ آئیوری کوسٹ کی دو زبانیں ہیں۔ بوزنین زبان ہے۔ گیمبیا کی 3زبانیں ہیں۔ ہنگیرین ہے۔ قازقستان کی قازق ہے۔ کینیا کی زبان ہے، کانگو کی، فجی کی، گنی بساؤ، لتھوانین۔ پھر مالاگاسی زبان ہے، مورے بورکینا فاسو کی زبان ہے، سری لنکا کی سنہالہ اور تنزانیہ کی Yao وغیرہ زبانیں ہیں۔ بہرحال ان پر نظرثانی ہو رہی ہے۔
پھر انگریزی قرآن کریم کا ترجمہ جو حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ والا ہے جس میں کچھ مزید نوٹس حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی شامل فرمائے تھے یا متبادل ترجمے دئیے تھے وہ شامل کیے گئے ہیں۔ اس کو اب چھوٹے سائز میں بھی شائع کروایا گیا ہے، تحفوں میں آسانی سے دئیے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر جو 8جلدوں پر مشتمل تھی۔ پہلے پاکستان سے چار جلدوں میں شائع ہوئی ہیں۔پھر اب اس کو ہندوستان سے 3جلدوں میں شائع کروایا گیا ہے۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہے ’’حقائق الفرقان‘‘ پہلے چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس کو 2جلدوں میں کر دیا ہے۔ یہ بھی ہندوستان میں طبع ہو ئی ہے۔
پھر چھوٹے سائز میں صرف قرآن کریم کا متن جو ہے وہ شائع کیا گیا ہے اور انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا گیا ہے۔ وکالتِ اشاعت کی محنت ہے۔
اسی طرح دوسری جو مختلف کتب ہیں 18زبانوں میں 58 کتب و فولڈرز تیار کروائے گئے ہیں۔ یہ دنیا کی مختلف زبانیں ہیں۔ اور اِس وقت 27زبانوں میں 151فولڈر تیار کروائے جا رہے ہیں۔ ابھی تیاری کے مرحلے میں ہیں۔ بعض پر چند سالوں سے کام ہو رہا ہے۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ بہت اہم کتاب ہے۔ 53زبانوں میں یہ چھپ چکی ہے اور اس وقت فی الحال 4مزید زبانوں میں اس کا ترجمہ کروایا جا رہا ہے۔ رسالہ الوصیت 9 زبانوں میں طبع ہو چکا ہے تاکہ وصیت کی روح کا پتہ لگ سکے اور لوگ زیادہ سے زیادہ نظامِ وصیت میں شامل ہوں جیساکہ گزشتہ سال مَیں نے تحریک میں بھی کہا تھا۔ ان کے لیے رسالہ پڑھنا بھی ضروری ہے۔ پھر مزید اس کا 21زبانوں میں ترجمہ کروانے کا پروگرام ہے۔ اور ’’شرائطِ بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں‘‘ جو میرے خطبات پر مشتمل کتاب تھی اس کا انگریزی ترجمہ ہو گیا ہے۔
ہماری کتابوں کو کس طرح سراہا جاتا ہے۔اس سلسلہ میں”Islam’s Response To Contemporary Issues” جو ہے اس کے فرنچ ترجمہ کے متعلق امیر صاحب بینن نے لکھا ہے کہ اس کو بہت سراہا گیا ہے۔ ایک عیسائی پروفیسر ہیں وہ مختلف کالجز میں جا کر لیکچر دیتے ہیں انہوں نے یہ کتاب ان کالجز میں جہاں یہ لیکچر دیتے ہیں طالبعلموں کے کورس کے لیے لازمی قرار دے دی ہے۔

نئی کتب کی طباعت
دورانِ سال جو نئی کتب طبع ہوئی ہیں ان کا مختصر تعارف

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کو علیحدہ طبع کروانے کے پروگرام کے تحت دوسری کتاب ’’اَلْاِسْتِفْتَاء‘‘ بھی شائع ہو گئی ہے۔ الحمدللہ۔ اِس میں ربوہ میں سید عبدالحئی شاہ صاحب کی نگرانی میں کمیٹی نے کام کیا ہے۔ رسالہ الوصیت کو نئے سرے سے ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں عربی ڈیسک کے مجید عامر صاحب، طاہر ندیم صاحب نے کام کیا ہے۔ تفسیر کبیر کے عربی زبان میں ترجمہ کی پہلی 4جلدیں شائع ہوئی ہیں۔پانچویں جلد اب شائع ہو چکی ہے۔ اس کا ترجمہ مومن طاہر صاحب نے کیا ہے۔ [حضور نے سٹیج پر موجود نئی مطبوعہ کتب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:] یہاں جو بھی کتب پڑی ہیں یہ ساری اِس سال کی شائع شدہ ہیں اوربک سٹال میں بھی دستیاب ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتاب ’’دیباچہ تفسیرالقرآن‘‘ سے لے کر “Life of Muhammad” جو انگریزی میں شائع کیا تھا اس کا عربی ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ ایک عربی مصری دوست ہیں فتحی عبدالسلام صاحب انہوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔
پھر وائٹ پیپر (White Paper) کا جواب جو تھا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات کا مجموعہ ’’زَھَقَ الْبَاطِلُ‘‘ وہ بھی شائع کیا گیا ہے ۔ اس کا عربی ترجمہ بھی مجید عامر صاحب نے کیا ہے۔
“Christianity: A journey from Facts to Fiction” کا عربی زبان میں ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ یہ منیر ادلبی صاحب نے عربی زبان میں کیا ہے۔
پھر چند ماہ قبل کبابیر کے ایک دوست ابراہیم اسعد عودہ صاحب کا ’’الأزھر‘‘ کے مفتی کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ جماعت کے عقائد اور تعلیمات کے بارہ میں گفتگو ہوئی تھی تو ان کو اس کے بعد جماعت کے تعارف اور عقائد اور تعلیمات پر مشتمل ایک دستاویز بھیجی گئی تھی اور بھی بہت ساری کتابیں تھیں۔ تو یہ جو کتاب بھیجی گئی تھی، ’’اَلْجَمَاعَۃُ الْاَحْمَدِیَّۃُ الْاِسْلَامِیَّۃُ‘‘ کے عنوان سے یہ کتاب بھی شائع کر دی گئی ہے۔ یہ بھی جماعت کے تعارف میں عربی لٹریچر میں ایک اضافہ ہے۔
’’خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ اَلْمَفْہُوْمُ الْحَقِیْقِیْ‘‘ یہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا خطاب تھا۔ اس کا بھی عربی ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔
’’مَرْیَمْ۔تَکْسِرُالصَّلِیْب‘‘حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ سورۃ مریم کی تفسیر کے اس حصہ کا عربی ترجمہ شائع کیا گیا ہے جس میں عیسائیت کا ردّ ہے۔
“Essence of Islam” کی تیسری جلد انگریزی میں شائع کی گئی ہے۔ اِس سے قبل دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات اور ارشادات ہیں۔ اس جلد میں جو مضامین ہیں وہ انسان کی طبعی اور اخلاقی حالتیں، ایمان ، یقین اور معرفت، جذب و سلوک، مسیح ناصری، اسلام میں نبوت، یاجوج ماجوج، عورت، پردہ، تربیت اولاد، وغیرہ مضمون ہیں۔ یہ ترجمہ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحب کا تھا جو آپ کی وفات کے بعد دستیاب ہوا اور پھر اس کے بعد دوبارہ اس کی revision ہوئی۔ اب سعید احمد صاحب ہیں امریکہ کے اُن کی ٹیم نے اس پر کام کیا ہے۔ باقاعدہ کافی عرصے سے اِس پر کام ہو رہا تھا۔ اسی طرح چودھری محمد علی صاحب جو وکیل التصنیف ہیں انہوں نے اس پر کافی کام کیا۔ اب اللہ کے فضل سے یہ شائع ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والوں کو اَجر سے نوازے۔
’’نظامِ نَو‘‘ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا لیکچر ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔New World Order کے نام سے چھپا ہوا تھا۔ اس کو اب دوبارہ نئے سرے سے شائع کیا گیا ہے۔ نیا ترجمہ نہیں ہے۔
’’نشانِ آسمانی‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے اور چھپ گئی ہے۔ اکرم غوری صاحب مرحوم نے ترجمہ کیا تھا۔ بعد میں اِس کی نظرثانی افتخار ایاز صاحب اور عشرت شیخ صاحبہ نے کی ہے۔
’’اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے انگریزی میں لیکچر “Islam’s Response to Contemporary Issues” کا اردو ترجمہ ہے۔ چودھری محمدعلی صاحب اور ان کی ٹیم نے کیا ہے۔ محمود اشرف صاحب بھی ان کے ساتھ تھے۔
’’بابی اور بہائی مذہب‘‘ انگریزی میں یہ کتاب بہت عرصہ پہلے چھپی تھی۔ ازسرِ نو ٹائپ (type) کر کے چھپوایا گیا ہے۔
اِسی طرح بچوں کے لیے انگریزی میں حضرت نوح علیہ السلام کے حالات پر مشتمل چھوٹی سی ایک کتاب چلڈرن کمیٹی نے شائع کی ہے۔اِسی طرح بچوں کی آٹھ اَور چھوٹی چھوٹی سی ابتدائی کتابیں اور پوسٹرز بھی ہیں جو چودھری رشید صاحب اور ان کے بیٹے فرید احمد صاحب نے بچوں کے لئے تیار کی ہیں اور بڑی اچھی ہیں۔
’’ہومیوپیتھی‘‘ جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایم ٹی اے پر نشر کیے گئے لیکچرز کی کتاب اُردو میں شائع کر دی گئی تھی۔ لیکن انگریزی دان طبقہ جو اُردو نہیں پڑھ سکتا اُن کا مطالبہ تھا کہ ہمیں انگریزی میں دی جائے ۔ ایسٹ افریقہ کے دورہ کے دوران بھی مجھے کینیا میں بعض سکھ اور دوسرے لوگ جو دلچسپی رکھتے تھے اُنہوں نے کہا کہ ہم پوچھ پوچھ کے مبلغین سے نوٹس تو بنا لیتے ہیں لیکن ہمیں یہ کتاب انگریزی میں چاہیے۔ تو چونکہ ترجمہ ہو چکا تھا مَیں نے اُن کو بتایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ جولائی تک آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کتاب بھی چھپ گئی ہے۔ ہومیوپیتھی کا انگریزی میں ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس کا ترجمہ ڈاکٹر امتیاز صاحب آف امریکہ نے کیا ہے۔ پھر ڈاکٹر مجیب الحق صاحب نے بھی اِس میں مدد کی ہے۔ پھر ہومیوپیتھی کے لحاظ سے ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب نے بھی نظرثانی کی ہے اور منیر شمس صاحب کی ٹیم نے پروف ریڈنگ وغیرہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔
انگلستان کی جماعت نے نوجوانوں کے لیے دو مختلف مضامین کتابی صورت میں شائع کروائے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے کہ “Taking drugs and alcohol abuse” اور دوسری ہے: “Dangers of Internet” ۔
پھر ’’اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت ‘‘ کے موضوع پر جو حضر خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی جلسہ سالانہ کی ایک تقریر تھی اس کا انگریزی ترجمہ کروایا گیا ہے۔
اِس کے علاوہ مکرم مرزا حنیف احمد صاحب نے مختلف کتابوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ اقتباسات لے کر ’’تعلیم فہمِ قرآن‘‘ کے نام سے اِس کو اکٹھا کیا۔ وہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہ جماعت کے لٹریچر میں بڑا اچھا اضافہ ہے۔ سارے حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے اقتباسات ہی ہیں، ان کو ترتیب دیا گیا ہے۔
پھر ’’وقفِ زندگی کی اہمیت اور برکات‘‘ یہ افتخار ایاز صاحب کی ایک کتاب ہے۔

طاہر فاؤنڈیشن کی شائع شدہ کتب

2003ء کے موقع پر جو میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے کام کو جاری کرنے کے لیے طاہر فاؤنڈیشن کا قیام کیا تھا اس کے تحت بھی کچھ کام ہوا ہے۔ پہلے تو گزشتہ سال ’’خطباتِ طاہر‘‘ کی جلد اوّل آئی تھی جس میں 1982ء کے خطبات شامل تھے۔ اِس سال دوسری جلد شائع ہوئی ہے جو 1983ء کے خطباتِ جمعہ پر مشتمل ہے اور تیسری جلد 1984ء کے خطبات پر مشتمل ہے۔
پھر وکالتِ تصنیف کی جو رپورٹ ہے اس کے مطابق ملک غلام فرید صاحب کی کمنٹری جو تھی معروف غلطیوں کے حوالے ٹھیک کر کے دوبارہ مرکز سے ٹائپ ہوئی ہے۔
اور پھر تلاوت قرآن کریم کی کیسٹ قاری عاشق صاحب کی آواز میں اور ملک غلام فرید صاحب کے ترجمہ قرآن کے ساتھ C.D. تیار ہوئی ہے۔ یہ بھی اچھی ہے۔
پھر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ انگریزی آڈیو کی پانچ CDs تیار ہوئی ہیں۔ انگلش ترجمہ کسی ماہر نے پڑھا ہے۔
روحانی خزائن، ملفوظات ، مجموعہ اشتہارات۔ ان تمام کی سی ڈیز بھی تیار ہوئی ہیں۔
پندرہ مختلف زبانوں میں 288 جماعتی مختلف کتب، پمفلٹس اور فولڈرز وغیرہ 9لاکھ 71ہزار سے زائد کی تعداد میں شائع ہوئے ہیں۔
“Review of Religions” انگریزی اور ’’اَلتَّقۡوٰی‘‘ عربی جو جماعتی رسالے ہیں، ان کی جو اشاعت ہے اس میں ابھی تک کمی ہے۔ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے جماعتیں اس طرف توجہ دیں۔ عربی دان طبقہ ’’اَلتَّقۡوٰی‘‘ کو خود اپنے نام بھی لگوائیں اور اپنے دوستوں کے نام بھی لگوائیں۔ اور جو “Review of Religions” ہے اس طرف بھی خصوصی توجہ دیں تاکہ اس کی خریداری بڑھے۔

نمائشیں

جماعت کے تعارف کے لیے جو مختلف نمائشیں لگتی ہیں اور جہاں قرآن کریم کے تراجم بھی پیش ہوتے ہیں۔ لٹریچر بھی ہوتا ہے، یہ بھی ایک تبلیغ کا ذریعہ ہے۔ اس سال مختلف جگہوں پر 257 نمائشیں لگائی گئیں جن کے ذریعہ اندازًا پانچ لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ انڈیا، ہالینڈ، کینیڈا، امریکہ اور یوکے نے اس میں نمایاں کام کیا ہے۔

بک سٹالز اور بک فیئرز

بک سٹالز اور بک فیئرز، یہ بھی پیغام پہنچانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے ، مختلف لوگ آتے ہیں۔ جہاں نمائشیں ہوتی ہیں وہاں جب سٹالز لگائے جاتے ہیں تو ہمارے سٹالوں پر بھی لوگ آتے ہیں۔ تو اس سال 2,755 بک سٹالز اور بک فیئرز میں جماعت نے حصہ لیا اور تقریبًا 19لاکھ افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ اور ان بکسٹال لگانے والوں میں جو نمایاں ممالک ہیں ان میں جرمنی ہے، ہالینڈ ہے، یو کے ہے، بیلجیئم، اٹلی، سپین، سوئٹزرلینڈ، تنزانیہ، کینیا، ماریشس، بورکینا فاسو ، امریکہ اور کینیڈا۔

رقیم پریس

رقیم پریس جو ہمارا جماعت کا ایک پریس ہے۔ اسلام آباد میں بھی یہ کام کر رہا ہے۔ ہیڈکوارٹر اس کا یہیں ہے اور اسی کے تحت افریقہ کے 6 ممالک میں یہ کام کر رہا ہے۔ غانا، نائیجیریا، تنزانیہ، سیرالیون، آئیوری کوسٹ اور گیمبیا میں۔ تین چار ملکوں کے تو مَیں دیکھ بھی چکا ہوں ۔ اچھا کام کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے جماعتی لٹریچر میں ان کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے اور لکھوکھہا کی تعداد میں لٹریچر چھپتا ہے۔

لٹریچر کی طباعت

اس سال جو مختلف لٹریچر یہاں سے چھپا ہے چھوٹے چھوٹے پمفلٹس وغیرہ وہ دو لاکھ گیارہ ہزار (2,11,000) کی تعداد میں چھپے۔ اور افریقن ممالک میں جو مختلف کتابیں وغیرہ شائع ہوئیں ان کی تعداد 3,09,500 تھی۔ اخبارات، فولڈرز اور چھوٹا چھوٹا لٹریچر جو ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ افریقہ کے پریسوں میں سے نائیجیریا کا پریس اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت سب سے اچھا کام کر رہا ہے۔ غانا کو بھی ذرا تیز ہونا چاہیے۔ وہاں 25 مختلف جماعتی کتب ایک لاکھ 16ہزار کی تعداد میں طبع ہوئی ہیں ۔ اور پھر نائیجیریا کا پریس بالکل اپنے پاؤں پر کھڑا ہے۔ باقی تو کچھ نہ کچھ مدد لے لیتے ہیں اس پریس نے 4مختلف مشینیں بھی اپنی آمد سے ہی خریدی ہیں۔ گیمبیا کا پریس بھی ترقی کی طرف چل رہا ہے، اچھا کام شروع ہو گیا ہے۔ اس میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ سیرالیون کے پریس نے بھی کچھ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ آئیوری کوسٹ کا جو پریس ہے وہاں سے ہمارا “Review of Religions” فرانسیسی زبان میں شائع ہوتا ہے جو افریقہ کے مختلف فرنچ بولنے والے ملک ہیں ان کو بھجوایا جاتا ہے۔ غانا کے پریس میں ـ ـ”Guidance” اور “Review of Religions” شائع ہو رہا ہے لیکن اس میں مزید بہت گنجائش ہے۔ اس بارے میں امیر صاحب کو مزید کوشش کرنی چاہیے۔ انچارج پریس کو اس دفعہ یوکے سے بھجوایا گیا تھا وہاں دورہ بھی کر کے آئے ہیں۔

عربک ڈیسک

عربک ڈیسک جو ہے یہاں بھی مختلف کام ہوئے ہیں۔ کچھ کا تو مَیں ذکر کر آیا ہوں ۔ امسال اللہ کے فضل سے 44 مختلف پمفلٹس شائع ہوئے ہیں اور9 نئی کتابیں شائع ہوئیں۔ 7 پر نظرثانی ہو رہی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف کتب ہیں ان پر کام ہو رہا ہے۔ ’’اَلسِّیْرَۃُ الْمُطَّہَّرَۃ‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت ہے ۔یہ مصطفیٰ ثابت صاحب نے لکھی ہے۔ پھر اَور مختلف کتب ہیں جن پر یہاں کام ہو رہا ہے۔ پھر عربی میں 13کتب اور پمفلٹس انٹرنیٹ پر بھی دئیے جا چکے ہیں کیونکہ آج کل نوجوانوں کو اور بعض پڑھے لکھے لوگوں کو انٹرنیٹ پر بیٹھ کے پڑھنے کا زیادہ شوق ہے۔ اسی طرح 2001ء سے رسالہ ’’اَلتَّقْوٰی‘‘ بھی دیا جا رہا ہے اور کچھ اَور کتابیں بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عربی زبان میں پہلی دفعہ جماعت کی ویب سائٹ شروع ہوئی ہے جو کہ جماعت کبابیر نے بڑی محنت سے تیار کی ہے اور اچھا مواد اس میں ڈالا ہے۔ امیر صاحب کبابیر کی نگرانی میں یہ کام ہو رہا ہے۔ خدّام کی ایک ٹیم یہ کام کر رہی ہے۔ اس کے منیجر میمون لطفی عودہ صاحب ہیں جبکہ دوسرے کام کرنے والے ربیع مفلح صاحب، جعفر محمد عودہ صاحب، بلال عبدالکریم عودہ صاحب، ہاشم عودہ صاحب اور عبدالسلام عودہ صاحب ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔

فرنچ ڈیسک

فرنچ ڈیسک میں جہانگیر صاحب کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کافی کام ہو رہا ہے۔ قرآن کریم کے فرنچ ترجمہ کے نئے ایڈیشن کی نظرثانی ہو رہی ہے۔ ’’نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ اور Revelation, Rationality, Knowledge & Truth اور An Elementary Study of Islam کا فرنچ ترجمہ ہو رہا ہے۔ Message of Hope جو ہے اُس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ True Story of Jesus کا ترجمہ ہو رہا ہے۔ ایم ٹی اے کے کام بھی ہو رہے ہیں۔ دو آدمی ہیں اور بڑی محنت سے کام کرتے ہیں ۔ اِسی ڈیسک کے تحت ’’لقاء مع العرب‘‘ کے 389 پروگراموں کا فرنچ ترجمہ ہو چکا ہے۔ 270 مجالس سوال و جواب کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ترجمۃ القرآن کی 55 کلاسیں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اور اسی طرح ہر ہفتے جو میرے خطبات ہیں اور تقاریر وغیرہ ان کا بھی باقاعدہ ترجمہ ہو رہا ہے۔

بنگلہ ڈیسک

اِسی طرح بنگلہ ڈیسک ہے یہ بھی اچھا کام کر رہا ہے۔ پرانے خطبات کے تراجم بھی کر رہے ہیں۔ لائیو (Live) بھی چل رہے ہیں۔ فیروز عالم صاحب نے مجھے بتایا کہ جب یہ پروگرام ایم ٹی اے پر پیش ہوتے ہیں تو یہاں لندن میں جودو لاکھ سے اُوپر بنگالی ہیں، یہ بڑے شوق سے ایم ٹی اے کے پروگرام سنتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بنگلہ ڈیسک بھی بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔

چینی ڈیسک

پھر چینی ڈیسک ہے۔ عثمان چینی صاحب کی زیرِ نگرانی اس میں بھی کافی کام ہوا ہے۔ جہاد پر اور دوسرے عناوین کے تحت انہوں نے پمفلٹ وغیرہ چینی ترجمہ کیے ہیں۔ چینی صاحب کہتے ہیں کہ چین میں کئی لوگ ہمارے ترجمۂ قرآن سے فائدہ اٹھا کر چینی زبان میں اپنا ترجمہ کر رہے ہیں۔بلکہ کچھ تھوڑی ایمان داری ان میں ہے کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک نے تو تبصرہ کے لیے عثمان چینی صاحب کو اپنا ترجمہ بھجوا دیا ہے۔ اگرچہ وہاں کھلی اجازت نہیں ہے لیکن پھر بھی وہاں لٹریچر پہنچ جاتا ہے۔ چینی زبان میں انٹرنیٹ پر مواد ڈالا جا رہا ہے اور قرآن کریم کا مکمل ترجمہ چینی زبان میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مزید 7 کتابیں ڈالی جا چکی ہیں۔

مجلس نصرت جہاں

مجلس نصرت جہاں کے تحت افریقہ کے 12 ممالک میں ہمارے 37 ہسپتال اورکلینکس اللہ کے فضل سے کام کررہے ہیں اور 465 ہائر سیکنڈری سکول اور جونئیر سکولز اور سکینڈری سکول کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح پرائمری سکولز ہیں۔ بینن میں پاراکو کے مقام پر کرائے کی عمارت میں اس سال ہمارا نیا کلینک شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال دورے کے دوران اس کلینک کی میں نے بنیاد رکھی تھی وہ عمارت بھی انشاء اللہ تعمیر ہو جائے گی۔
اس سال کینیا میں دورے کے دوران شیانڈا کے مقام پر ہسپتال کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔ نیروبی میں جو ہمارا کلینک ہے اس کو وسعت دی جا رہی ہے۔ یہاں بھی انشاء اللہ مزید شعبے قائم ہوں گے۔ بینن میں بھی ایک ڈسپنسری نے کام شروع کر دیا ہے۔
فرنچ ممالک میں پہلے ہمارے سکول نہیں ہوتے تھے اب وہاں بھی سکولوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ بورکینا فاسو میں ڈوری کے مقام پر سکول کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے۔
پھر کایاؔ (Kaya) میں ایک عمارت لے کر سکول شروع کر دیا ہے۔ عمارت بھی جلد ہی تعمیر ہو جائے گی۔ انشاء اللہ۔
لیو (Leo) کے مقام پر بھی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ جب یہ مکمل ہو جائے گی تو مزید تعارف کے راستے کھلیں گے۔

ایمان افروز واقعات

اب اس مجلس نصرت جہاں کے کام کے سلسلے میں بعض واقعات کا ذکر کردیتا ہوں۔
ہمارے جو ہسپتال اور کلینک ہیں اُن میں اِس طرح سہولتیں میسر نہیں ہیں جس طرح ایک اچھے ہسپتال میں ہونی چاہئیں لیکن اس کے باوجود لوگ علاج کے لیے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے ہسپتالوں کو جو شہرت دی ہوئی ہے کہ یہاں سے مریض شفایاب ہو کر جاتے ہیں اس کی وجہ سے اکثر مریض یہاں آتے ہیں۔ڈاکٹر طارق صاحب نائیجیریا سے لکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑا پیچیدہ آپریشن تھا۔ ایک مریضہ کے رحم سے 21کلو وزنی رسولی نکالی گئی۔ اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔ یہ خاتون کئی سالوں سے رسولی کی وجہ سے بیمار تھیں۔ تو اس وجہ سے ان کو نئی زندگی ملی۔ بڑی خوش ہو کے گئیں۔ اور ہمارے ہسپتال ہیں بھی سستے۔ عموماً 7 گنا کم قیمت ہے۔ وہاں جو لوکل تھے حیران تھے کہ تم نے اتنا بڑا آپریشن کر کس طرح لیا ہے؟ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں شفا رکھی ہے۔
پھر اسی طرح اور بہت سارے مریض ہیں۔ ایک ایگزیما کے مریض تھے جن کو صحت نہیں مل رہی تھی۔ ہمارے ہسپتال میں آ ئے۔ اس حد تک بیمار ہو گئے تھے کہ کہتے تھے میرا خودکشی کرنے کو دل چاہتا ہے۔ بڑا سخت ایگزیما تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو شفادی۔ پھر پراسٹیٹ کے کینسر کے ایک مریض تھے اُن کو اللہ تعالیٰ نے شفا دی۔ اس طرح اَور بہت سارے واقعات ہیں۔

پریس اینڈ پبلیکیشن سیکشن

پھر پریس اینڈ پبلیکیشن (Press and Publication) ایک سیکشن ہے۔اس میں چودھری رشید صاحب بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ مخالفین کے وقتاً فوقتاً جو اعتراضات آتے ہیں ان کا اخباروں میں جواب دیتے ہیں۔ مختلف ملکوں میں جماعت کے خلاف تحریکیں ہوتی ہیں، تنگ کیا جاتا ہے اس کا اخباروں میں بیان آتا ہے۔ مختلف جگہوں سے رابطے ہوتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔

ایم ٹی اے (M.T.A.)

پھر ایم ٹی اے کی نشریات دَوروں کی وجہ سے اب مختلف ملکوں سے براہِ راست بھی آنی شروع ہوگئی ہیں۔ اِس کا پہلے تصور نہیں تھا۔ افریقہ سے، کینیا سے براہِ راست آیا ہے۔ باقی جگہوں سے ٹیلی فون پر آتا رہا۔ پھر انگلستان میں بھی گزشتہ سال پہلی دفعہ لندن سے باہر دو جگہوں سے خطبات آئے۔ کینیڈا میں ٹورانٹو سے باہر دو تین جگہوں سے آئے۔
ایم ٹی اے کی ٹیم میں 99مرد اور 39خواتین ہیں۔ 13ڈیپارٹمنٹس ہیں۔ ان میں سے اکثریت جو ہے والنٹیئرز کی ہے اور اللہ کے فضل سے بڑی خوش اسلوبی سے سارا کام چلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ لوگ جو خط لکھتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایم ٹی اے دیکھنے کی وجہ سے کتنی دور بیٹھے لوگوں کی کتنی پیاس بجھتی ہے۔
اس موقع پر کچھ نعرے لگائے گئے تو حضور نے فرمایا: فگرز(figures) سے تو بعض لوگوں کو نیند آنی شروع ہو جاتی ہے اس لئے بیچ میں نعرے لگ جاتے ہیں۔
اب کچھ واقعات بیان کر دیتا ہوں۔
امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تبلیغ کے بہت سے مواقع مل رہے ہیں۔مل کیا رہے ہیں، خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تیونس کی ایک خاتون تھیں انہوں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے گھر میں ڈش انٹینا لگوایا اور عرب ملکوں کے چینل دیکھتے دیکھتے ان کا ایم ٹی اے کا چینل بھی click ہو گیا تو لقاء مع العرب دیکھنا شروع کیا۔ کہتی ہیں کہ اس سے مجھے اتنی دلچسپی بڑھی کہ دوسرے پروگرام بھی دیکھنے شروع کر دئیے۔ سمجھ تو نہیں آتی تھی لیکن کہتی ہیں جو نظمیں تھیں وہ مجھے بڑی اچھی لگیں اور میں باقاعدہ دیکھنے لگ گئی اور کافی فاصلہ طے کر کے وہ مشن ہاؤس آئیں اور کہا کہ اب میں جماعت میں داخل ہونا چاہتی ہوں اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئیں۔
اسی طرح فرانس کے ایک شہر سے ایک دوست ہیں مسٹر سمتھ (Mr. Smith) کہتے ہیں کہ اُن کا فون آیا کہ کافی عرصہ سے مَیں ایم ٹی اے دیکھ رہا ہوں اور کافی عرصے سے آپ لوگوں کے ساتھ رابطے کی کوشش کر رہا تھا۔ آج آپ کا نمبر ملا ہے۔ صحیح معنوں میں تو آپ ہی اسلام کو پیش کر رہے ہیں اور شکریہ بھی ادا کیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آگئے اور احمدی ہو گئے۔ پھر اسی طرح ایک اور دوست ایم ٹی اے پر لقاء مع العرب پروگرام دیکھ کر احمدی ہو گئے۔
کہتے ہیں کہ بینن میں پانی کی سپلائی کرنے کے لیے کنوؤں کی کھدائی کا ہمارا کام جاری تھا تو ایک جگہ پر نیچے سے زمین سے پتھر نکل آئے اور اس پتھر کو توڑنے کے لیے جس مشین کی ضرورت تھی وہ مل نہیں رہی تھی۔ تو پتہ لگا کہ فلاں مسجد کے امام صاحب ہیں جن کو عرب ملکوں سے مدد ملتی ہے۔ وہ لوگ اس وقت وہاں کافی وسیع کام کر رہے تھے اور ان کے پاس وہ مشین ہے۔ تو ہمارے مبلغ صاحب اُن کے پاس گئے تو امام صاحب جو تھے وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور دکھایا کہ ایم ٹی اے کا چینل لگا ہوا ہے اور میں باقاعدہ سنتا ہوں اور سعودی عرب کی طرف سے جو مساجد ہیں ان کا نمائندہ ہوں لیکن مَیں آپ کو بتا دوں کہ میں آپ کو مسلمان ہی سمجھتا ہوں۔ بہرحال ان کو یہ راز فاش نہیں کرنا چاہیے تھا کہیں ان پر کوئی مشکل نہ آن پڑے۔

دیگر ٹی وی اور ریڈیو پروگرام

پھر اسی طرح دیگر ٹیلی ویژن پروگرام ہیں۔ ایم ٹی اے کی 24 گھنٹے کی نشریات کے علاوہ مختلف ملکوں کے جو پروگرام آتے ہیں ان پر 1086 ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ 805 گھنٹے کا جماعت کو وقت ملا اور اندازہ ہے کہ یہ پروگرام جو تھے وہ 7کروڑ سے زائد افراد نے دیکھے۔ اس طرح یہ بھی تبلیغ کا ایک بڑا وسیع ذریعہ ہے۔
بورکینا فاسو میں بھی جماعت کا ریڈیو سٹیشن ہے اور یہاں وہ کوشش کر رہے ہیں چار پانچ اور مختلف جگہوں پر ریڈیو سٹیشن اور ٹی وی سٹیشن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُمید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جلدی شروع ہو جائے گا۔
اسی طرح مختلف ممالک کی تفصیل ہے کہ کہاں کہاں کتنا کام ہوا۔ وقت کافی ہو گیا ہے اس لیے میں باقاعدہ زیادہ تفصیل تو نہیں دیتا لیکن بہرحال اس کا اچھا اثر قائم ہو رہا ہے اور افریقہ کے ممالک میں بھی، یورپ کے ممالک میں بھی مقامی ملکوں کے ٹیلی ویژن اور ریڈیوسٹیشنوں کے ذریعہ سے ہماری کافی تبلیغ ہو رہی ہے اور پیغام پہنچ رہا ہے۔

ریڈیو کے واقعات

یہ ریڈیو سے متعلق ہی کچھ واقعات ہیں کہ لوگوں پر اس کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
بورکینا فاسو والے لکھتے ہیں کہ بوبوجلاسو جہاں ریڈیو ہے اس سے 35کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا اور خاوند نے بیوی کو گھر سے نکال دیا۔ کہتے ہیں کہ اپنے چند ماہ کے بچے کو لے کر وہ عورت سیدھی بوبوجلاسو جہاں ہمارا ریڈیو سٹیشن ہے وہاں آگئی کہ میری مدد کریں۔ تو وہاں سے جماعت کا ایک وفد اس خاتون کو لے کر ان کے گھر پہنچا اور جب اس کے خاوند کو معلوم ہوا کہ جماعت کا وفد آیا ہے تواس نے اس وقت بغیر کچھ کہے صلح صفائی کی اور کہا کہ آپ کا آنا جو ہے یہی میرے لیے کافی ہے۔ آپ کا ریڈیو سنتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ آپ سچے لوگ ہیں۔ مجھے معاف کر دیں اور بیوی سے راضی ہو گیا۔
یہ دیکھیں غیر بھی اب ہمیں سچا سمجھ کر کہ انہوں نے صحیح بات کی ہو گی اپنے مسائل حل کر لیتے ہیں۔ احمدی میاں بیوی جو ہیں ان کو تو بجائے جھگڑوں کے اور عائلی مسائل کے پہلے سے بڑھ کر آپس میں محبت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ اصلاح و ارشاد اور تربیت کا شعبہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ انہیں اس لحاظ سے کوئی کام ہی نہ ہو۔ کیونکہ یہ اکثر عائلی مسائل میں الجھا رہتا ہے۔ باقی دوسرے لحاظ سے تو بہرحال کام ہوگا۔
پھر ہمارے ایک مبلغ صاحب لکھتے ہیںکہ مَیں ریڈیو کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ تشریف لائے جن کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے، منہ سے بولنا مشکل تھا۔ پانی وغیرہ پلایا تو کہنے لگے کہ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں اور بیعت فارم پُر کرنے کے بعد کہنے لگے کہ مَیں اس محلہ میں آج سے تقریباً 15سال قبل مشن کے قریب ہی آباد تھا۔ اس وقت یہاں ایک بہت ہی پرانا اور بہت ہی بڑا درخت تھا جو کہ 1994ء میں خود سوکھ کر گر گیا تھا۔ کہتے ہیں اس وقت مَیں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ اس درخت کے قریب ہی ایک بہت اونچا لوہے کا کھمبا لگا ہوا ہے جس کو تاروں کے ذریعہ جکڑا ہوا ہے اور اس کھمبے کے نیچے دو شخص بیٹھے ہوئے ہیں جو کچھ بولتے ہیں اور اس کھمبے میں کچھ روشنی پیدا ہوتی ہے جو نیچے سے اوپر جاتی ہے اور اوپر جا کر سبز شعاعوں میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس سے

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

کی آواز آرہی ہے اور ایک عجیب روحانی کیفیت طاری ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد خواب ختم ہو گیا۔ یہ خود بھی اس عرصہ میں وہاں سے شفٹ کر گئے، کہیں اور چلے گئے۔ کہتے ہیں دو ماہ پہلے جب میں واپس آیا تو دوسرے محلہ میں تھا۔ وہاں اتفاقاً انہوں نے ایک دن احمدیہ ریڈیو سنا لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ریڈیو کس طرف ہے؟ خیر پوچھ پوچھ کر وہ آئے تو جب وہ ہمارے ریڈیو سنٹر کے قریب پہنچے تو ریڈیو کا جو انٹینا تھا، لمبا کھمبا نظر آیا اور وہ کہتے ہیں یہ بالکل اس کے مشابہ تھا جو منظر مَیں نے دیکھا تھا۔ اور جب وہ ریڈیو سٹیشن میں داخل ہوئے تو وہ چھوٹے سے دو کمرے ہیں کوئی اتنا بڑا ریڈیوسٹیشن نہیں ہے۔ شاید دو کمروں کا کُل سائز 12×12 کا ہو۔ تو بہرحال کہتے ہیں اس کمرے میں دو شخص بیٹھے ہوئے تھے اور اُ س وقت ریڈیو پر یہ نظم لگی ہوئی تھی کہ ’’ہے دستِ قبلہ نما

لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ‘‘۔

کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر مجھ پر رِقّت طاری ہو گئی اور سب سے پہلے انہوں نے مسجد میں جا کر شکرانے کے دو نفل پڑھے اور پھر بیعت کر لی۔
تو دیکھیں کتنی دُور دُور اللہ تعالیٰ خود ہی پیغام پہنچانے کے سامان پیدا کرتا ہے۔ جن کو یہ کہتے ہیں کہ یہ علم سے عاری ہیں اُن کے علم کے سامان خود اللہ میاں کرتا ہے اور جن کو یہ عالم سمجھتے ہیں ان کی عقلوں پر، آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔

تحریک وقفِ نَو

پھر تحریک وقفِ نَو ہے۔ اس میں بھی اِس سال غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس سال 3,689 نئے واقفینِ نَو آئے ہیں اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان واقفینِ نَو کی تعداد تیس ہزار سے اوپر ہو گئی ہے۔ لڑکوں کی تعداد 19,795 اور لڑکیوں کی تعداد 10,215 ہے۔ یہاں بھی وہی نسبت 2:1 کی ابھی تک قائم ہے۔ اور اس میں بھی زیادہ تر تعداد پاکستان کی ہے اور پاکستان میں بھی ربوہ کے سب سے زیادہ ہیں۔ پھر لاہور، سیالکوٹ وغیرہ آتے ہیں۔ اور بیرونی ممالک میں جرمنی کے سب سے زیادہ ہیں۔ پھر انڈیا، کینیڈا وغیرہ ہیں۔
آئندہ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ یہ بھی اپنے فضل سے غیرمعمولی فضل کرتے ہوئے دئیے چلا جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضرورتیں انشاء اللہ بڑھنی ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی اُسی سوچ کے ساتھ اپنے کام تیز کرنے چاہئیں۔

نادار، ضرورتمندوں اور یتیموں کی امداد

نادار، ضرورتمندوں اور یتیموں کی امداد ہے۔ اس میں بھی مختلف جگہوں پر افریقہ میں، بنگلہ دیش میں کافی کام ہوا ہے اور وہاں میڈیکل کیمپ لگائے گئے۔ افریقہ میں کافی بڑی تعداد میں، چالیس ہزار سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ ساڑھے تین لاکھ کے قریب لوگوں کو خوراک مہیا کی گئی۔ پھر جیلوں میں جا کر بھی کام ہوتے ہیں۔ خون کی بوتلیں مہیا ہوتی ہیں۔ غرض بے تحاشا کام ہیں۔

ہومیوپیتھی

اسی طرح ہومیوپیتھی کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ جماعت کو کافی خدمت کی توفیق دے رہا ہے۔ اس میں اب تک 55 ممالک میں ہمارے کلینک قائم ہیں اور ان کی تعداد 650 سے بڑھ چکی ہے۔
طاہر ہومیوپیتھک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ دو ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں سے چالیس ہزار سے زائد غیرازجماعت تھے۔ علاج کروانے کے لیے ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف جگہوں پر کافی معجزانہ شفا ہوئی ہے ۔
غانا کے ہومیوپیتھک کلینک کے واقعات ہیں۔اللہ کے فضل سے مختلف لوگوں کو شفا ہوئی ۔

ہیومینٹی فرسٹ

ہیومینٹی فرسٹ ، خدمتِ انسانیت کا ایک ادارہ ہے جو ایک لحاظ سے آزاد بھی ہے۔ جو سونامی، زلزلہ اور سمندر کا طوفان آیا تھا اس کی وجہ سے کافی کام ہوا ہے۔ اللہ کے فضل سے وہاں جا کر خدمت کی توفیق ملی ہے۔ انہوں نے تقریباً 9 لاکھ ڈالر سے زیادہ اکٹھا کرکے انڈونیشیا، انڈیا اور سری لنکا میں خرچ کیا ہے۔ جرمنی نے 4,251 مریضوں کا علاج کیا۔ دو ہزار سے زائد لوگوں کی ضروریات پوری کیں جس میں سونامی کے ایک ہفتہ کے بعد ایسے لنگر جاری کیے جن میں چالیس خدام ڈیڑھ ماہ کے لیے روزانہ 850 افراد کو کھانا کھلاتے رہے۔ یہاں یوکے سے بھی کنٹینر لوڈ (Container Load) کر کے بھجوائے گئے۔ دو لاکھ پچاسی ہزار کلو گرام کا سامان بھجوایا گیا جس میں خوراک، ادویات، کپڑے، بستر اور ٹینٹ وغیرہ شامل تھے۔ انڈونیشیا میں 8 ڈاکٹروں اور 9مددگار طبی سٹاف نے سہولتیں باہم پہنچائیں۔ پھر 16ڈاکٹر دوبارہ گئے۔ 4 ڈاکٹر امریکہ سے گئے۔ 3 ڈاکٹرز اور 4پیرامیڈیکس سری لنکا گئے۔ پھر اسی ہیومینٹی فرسٹ کے تحت ہی 43مچھیروں کو جن کی کشتیاں ٹوٹ گئی تھیں یا بہہ گئی تھیں انہیں نئی یا مرمت شدہ کشتیاں مہیا کی گئیں۔ 400 طلبا کو انڈونیشیا میں کتابیں دی گئیں۔ اِسی طرح بہت ساری جگہوں پر ہسپتالوں کو کچھ سامان دیا گیا،مچھیروں کو سامان دیا گیا، زمینداروں کو سامان دیا گیا، مکانوں کی مرمت کروائی گئی۔ تو کافی کام ہوا ہے۔ پھر صحارا Desert کے قریب ایک جگہ ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے تقریباً ڈیڑھ سو ٹن خوراک فراہم کی گئی۔ وہاں بورکینا فاسو میں عمومی طور پر بارشیں کم ہوئی ہیں لیکن اِس طرف تو قحط سالی سے بہت برا حال تھا ۔ عیسائی تنظیمیں وہاں آرہی تھیں اور مسلمانوں کو کھانے کا لالچ دے کر عیسائی بنا رہے تھے تو جماعت نے ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے فوری کارروائی کی اور اللہ کے فضل سے ان کو خوراک مہیا کی۔ اسی طرح مالیؔ میں تیس ٹن کے قریب خوراک مہیا کی۔ یوگنڈا کے بعض علاقوں میں قحط پڑا وہاں 10ٹن کھانے کا سامان بھیجا گیا ۔ پھر اس کے علاوہ نلکے اور کنوؤںکے ذریعہ سے پانی مہیا کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کپڑے اور ادویات وغیرہ کے بڑے بڑے کنٹینر مختلف افریقن ممالک میں جا رہے ہیں۔ اور ٹوگو میں پہلے کام کم تھا وہاں پر بھی اب جماعت کے کام کو وہاں کے وزیر صحت نے بڑا سراہا ہے۔ جاپان میں بھی جو گزشتہ سال زلزلہ آیا تھا اس میں خدمت کا موقع ملا۔ یہ سب اس لیے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ:
’’سچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خدا کی رضاجُوئی کے لیے اپنے قریبیوں کو اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعہّد اور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اور مسکینوں کو فقر و فاقہ سے بچاتے ہیں اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان مالوں کو غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے اور قرضداروں کو سبکدوش کرنے کے لیے بھی دیتے ہیں۔‘‘ (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 112)۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں کافی قربانیاں دینے اور صدقے کا رواج ہے۔

احمدیہ ویب سائٹ

پھر احمدیہ ویب سائٹ کی رپورٹ ہے کہ ہر مہینے تقریباً 2.2 ملین (22لاکھ) لوگ اس کو وِزٹ (Visit) کرتے ہیں اور اسی طرح آن لائن (Online) لائبریری ہے اور مختلف کتابیں اور خطبات وغیرہ اب اس پر آچکے ہیں۔ اس کو وزٹ (Visit) کریں۔ جو کرنے والے ہیں ان کو تو پتہ لگ جائے گا۔

احمدیہ انٹرنیشنل آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز ایسوسی ایشن

یہاں یوکے میں جو احمدیہ انٹرنیشنل آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز ایسوسی ایشن ہے ان کو میں نے کہا تھا کہ کم قیمت پر بجلی کا کوئی پروگرام یا اس کے کوئی متبادل نظام رائج کریں ۔ پھر غریب ملکوں میں پینے کے صاف پانی کے لییاور عمارتوں کے ڈیزائن کے لیے بھی کہا تھا تو یورپین چیپٹر (European Chapter) جو ہے انہوں نے اس سلسلے میں بڑا کام کیا ہے اور چین وغیرہ بھی گئے ہیں اور وہاں سے سامان خریدا ہے اور یہاں سے بھی سامان خرید کر افریقہ کے ملکوں میں بھجوایا گیا ہے۔ اس سسٹم (System) کو خریدنے کے لیے اُنہوں نے تقریباً دو سو کمپنیوں سے رابطے کیے تھے اور چائنا اور ہانگ کانگ کے تین دورے کیے تو پائلٹ پراجیکٹ کے لیے یہ سسٹم چائنا سے خریدے گئے۔چائنا سے یہ سامان اب افریقہ چلا گیا ہے۔ اب پروگرام کے مطابق ستمبر کے مہینہ میں کم ازکم 10 سسٹم غانا اور بورکینا فاسو میں لگائے جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ یہ صرف بجلی پیدا کرنے اور پانی کے لیے ہوں گے۔ اس طرح انشاء اللہ تعالیٰ ان جگہوں میں بھی، دُور کے علاقوں میں جہاں بجلی اور پانی نہیں ہیں ان کو بھی یہ سہولتیں ان ہمارے احمدی انجینئرز کی وجہ سے میسر آجائیں گی انشاء اللہ تعالیٰ جو بڑے وقف کی روح سے، بڑے جذبے سے کام کر رہے ہیں اور اکثر اُن میں سے نوجوان ہیں۔اور یہ ہو گا کہ ہم اُن کو محتاج نہیں کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ان کو سکھائیں گے کہ کس طرح وِنڈ مل (Wind Mill) اور باقی چیزیں وہاں کے حالات کے مطابق بن سکیں اور سستی بن سکیں تو انہی لوگوں کو ٹرینڈ (Trained) کر کے دے آئیں گے تاکہ اُن کا کاروبار بھی چل جائے اور سستے داموں ان کی خدمت بھی ہو جائے۔

نئی بیعتیں

اب بیعتوں کی تعداد ہے۔ اس دفعہ نائیجیریا کی بیعتیں سب سے زیادہ ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ بارہ ہزار سے زائد تعداد ہے اور اکتیس اماموں نے احمدیت قبول کی ہے اور 122 نئی جگہوں پر احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ اور نائیجیریا کو ہمسایہ ممالک کیمرون، چاڈ، ایکٹوریل گنی میں بھی کامیابیاں ملی ہیں۔ کیمرون میں 537 بیعتیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح مختلف جگہوں پر بیعتیں ہیں۔
مبلغ انچارج صاحب نائیجیریا لکھتے ہیں کہ باؤچی (Bauchi) زون کے ایک گاؤں کُوکُوبِینی(Kukubini) میں سارے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کر لی ہے۔ اس کے بعد ایک مرکزی نمائندہ اس گاؤں میں پہنچا تو گاؤں کے چیف امام اور دیگر لوگوں نے بتایا کہ اس گاؤں کی مسجد آزارے (Azare) شہر کے ایک آدمی نے ہمارے لیے بنائی تھی جو تیجانیہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے (افریقہ میں ایک فرقہ تیجانیہ کہلاتا ہے جن کا اکثر زور ہے) اور ہم سب بھی اسی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ جب ان کو علم ہوا کہ ہم احمدی ہو گئے ہیں تو آزارے شہر آ کر اس نے مسجد کو تالہ لگا دیا تاکہ ہم نماز نہ پڑھ سکیں۔ اس پر گاؤں کے چیف نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو تم بلاک، اینٹیں اور دروازے لے جاؤ یعنی تم یہ عمارت توڑ کے لے جاؤ زمین تو ہماری ہے۔ اس پر وہ آدمی آیا۔ اس نے مسجد کھول دی۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ ہم اس سے مسجد خرید لیں کیونکہ وہ یہاں دوبارہ نہیں آنا چاہتا تھا۔وہ لالچی لوگ تھے ، چنانچہ اسے کچھ تھوڑی سی رقم دے کر اس سے وہ مسجد خرید لی گئی۔ الحمدللہ۔
اسی طرح بورکینا فاسو میں 16مختلف قوموں کے تقریباً چھبیس ہزار لوگ احمدی ہوئے۔ 20 چیفس نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔
بعض لوگ احمدیہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے پہلے ہی احمدیت سے متعارف تھے جب وہاں کوئی نہ کوئی احمدیوں کا نمائندہ پہنچتا تھا تو کہتے تھے ہم تو پہلے ہی انتظار کر رہے تھے کہ آپ آئیں اور ہماری بیعت لیں۔ غرض مختلف قسم کے واقعات ہیں۔
اسی طرح مالی میں بیعتیں ہوئی ہیں۔ یہاں کے مختلف واقعات بیان کر دیتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ کولون ڈیبو (Kolondieba) شہر میں جب جماعت کا پروگرام ایک ریڈیو سٹیشن پر نشر کیا گیا تو ایک وہابی عثمان جاکیتی نے سب فرقوں کو اُکسایا کہ احمدی کافر ہیں۔ ان کے پروگرام ریڈیو سٹیشن پر نشر نہیں ہونے چاہئیں اور مزید کہا کہ جس طرح عیسائی متحد ہو کر کام سرانجام دیتے ہیں ہم کو بھی اتحاد کرنا چاہیے۔ چنانچہ یہ لوگ حکومتی ریڈیو کی انتظامیہ کے پاس گئے اور کہا کہ اگر آپ جماعت کے پروگرام نشر کریں گے تو جہنم میں جائیں گے اور ہم اپنے پروگرام بھی اس پر نشر نہیں کریں گے۔ اس پر حکومتی نمائندے نے کہاکہ تم خدا ہو؟ جس کو چاہتے ہو جہنم میں گراتے ہو؟ مَیں تو تم لوگوں کو صرف اتنا بتاتا ہوں کہ یہ حکومت کا ریڈیو ہے، کسی فرقہ کا نہیں۔ اس لیے تم اپنے پروگراموں کو بند کرتے رہو اس سے حکومت کو کوئی خسارہ نہیں ہو گا احمدیوں کے پروگرام جاری رہیں گے۔بعض جگہ حکومتی نمائندے عقلمند ہیں، زیادہ روشن خیال ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو نور سے بھرا ہوا ہے۔
پھر مالی کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک وہابی امام جو سرکاری ملازم بھی ہیں انہوں نے کہا کہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن جماعت احمدیہ کے متعلق جو سنا اس پر پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اب اسلام کی ترقی احمدیت سے ہی وابستہ ہے اور کہتے ہیں وہاں تمام شاملین میں بہت جوش تھا۔ اور جلسہ سالانہ سے بہت خوش ہو کر اور جوش اور جذبے سے واپس گئے۔
پھر غانا کے حالات ہیں۔ غانا سے طالب یعقوب صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے اشانٹی ریجن میں ایک چیف نے خواب کی بنا پر احمدیت قبول کی ہے۔ انہوں نے پانچ سال قبل ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک شخص مسلمانوں جیسا لباس پہن کر ان کے پاس آیا اور ان کو حکم دینے لگا کہ آئندہ گھر میں شراب کبھی نہ لانا ۔ خواب دیکھنے کے بعد اُنہوں نے اِس کی طرف توجہ نہ کی۔ اب دورانِ سال انہوں نے دوبارہ ایک خواب دیکھا کہ انہوں نے دروازہ بند کیا ہے لیکن پھر بھی اُن کو ایسا لگا کہ دروازہ کھل گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی مسلمانوں کی طرح سفید لباس پہنے ہوئے اندر آیا اور کہنے لگا You are becoming so stubborn تم نے احمدیت قبول نہیں کی جو مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے جاری کردہ تحریک ہے۔ اس سے اگلے دن اس آدمی نے اپنی فیملی کو بتایا کہ وہ اب احمدیت کو قبول کر رہا ہے۔ چنانچہ اس نے 2004ء میں بیعت کی۔
اسی طرح اللہ کے فضل سے بینن میں بھی کافی بیعتیں ہوئی ہیں اور اماموں کے سمیت ہوئی ہیں۔ ایک واقعہ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک گاؤں تھا اور انہوںنے جب معلم کو پڑھانے کے لیے کہا تو اس نے بہت سارے مطالبے کیے۔ وہ مطالبے پورے نہیں کر سکتے تھے۔ تو کہتے ہیں کہ اس بزرگ نے کہا کہ وہ حج پر خانہ کعبہ میں گیا، رو رو کے دعا کرنے کی توفیق ملی کہ ہماری تربیت کے لیے کسی کو بھیج۔ تو جب ہمارے معلم وہاں گئے تو اُنہوںنے کہا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ آپ خود نہیں آئے بلکہ آپ کو خداتعالیٰ نے بھیجا ہے اور اسی وقت 300 سے زائدلوگوں نے بیعت کر لی۔
اس طرح افریقہ کے مختلف ممالک میں بیعتیں ہیں اور مختلف واقعات ہیں۔ سارے تو اس وقت بیان کرنے مشکل ہیں۔
یورپ میں بھی اللہ کے فضل سے بیعتیںہو رہی ہیں۔ ہندوستان کے بھی واقعات ہیں۔
اب مَیں اس سال کی بیعتوں کی کُل تعداد بتا دیتا ہوں ۔ بیعتوں کی کُل تعداد 2 لاکھ9 ہزار799ہے ۔
دنیا کے مختلف ممالک میں بہت ساری بیعتیں ہیں جو خوابوں کے ذریعہ ہوئیں۔ بعض لوگ مولویوں کے مخالفانہ پروپیگنڈے کی وجہ سے جماعت میں شامل ہوئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اپنے فضل سے ترقیات سے نوازا۔
کچھ اور واقعات بھی ہیں لیکن وقت کم ہے۔ مختلف واقعات ہیں۔ مثلاً لکھا ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں دو آدمی ایک سوئس اور ایک اٹالین احمدی ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد دوسرے مسلمانوں کے ساتھ رابطے کی وجہ سے وہ جماعت سے منحرف ہوگئے تو جماعت والے بڑے پریشان تھے۔ میں نے انہیں لکھا کہ اللہ میاں اور دے دے گا فکر نہ کریں۔ تو کہتے ہیں کہ دو دن بعد ہی ایک بڑی مخلص فیملی جماعت کو مل گئی۔ سوئس فیملی تھی اور اللہ کے فضل و کرم سے ہماری وہ کمی ایک زائد ہو کے پوری ہوئی۔ اسی طرح مختلف واقعات ہیں۔

نظامِ وصیت میں شمولیت

مالی قربانیوں کے بہت سارے واقعات ہیں۔
پھر مَیں نے گزشتہ سال نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی جو تحریک کی تھی کہ پندرہ ہزار شامل ہو جائیں۔ تو اللہ کے فضل سے اب تک 16,148 نئی درخواستیں جمع کروا دی گئی ہیں۔ پراسس (Process) ہو رہا ہے۔انشاء اللہ تعالیٰ قبول ہو جائیں گی۔
اِس میں سب سے زیادہ دس ہزار دو سو بہتّر (10,272) سے زائد پاکستان سے شامل ہوئے ہیں۔ انڈونیشیا میں تقریباً بارہ سو، جرمنی اور کینیڈا میں ایک ہزار سے زائد اور آسٹریلیا میں بھی شامل ہوئے ہیں اور کچھ میرا خیال ہے اب ان کی گنتی اس سے بھی زیادہ ہو چکی ہے کیونکہ امریکہ سے بھی کافی زیادہ تعداد آئی تھی۔ اِس طرح مالی قربانیوں کے واقعات ہیں۔ اللہ کے فضل سے بڑی توفیق مل رہی ہے۔
اب آخر پر میں ایک تحریک کرنا چاہتا ہوںاور بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سے پیوستہ جمعہ کو میرا خیال ہے، دو یا تین ہفتے پہلے میں نے کہا تھا کہ جماعت احمدیہ برطانیہ کو یہاں اسلام آباد میں جلسے کی جگہ کی تنگی ہے تو ان کو بھی اب نئی جگہ زمین لینی چاہئے۔ یہ جگہ آپ نے دیکھ لی جہاں جلسہ ہو رہا ہے اَور کھلی جگہ ہے۔ تو بہرحال اُس وقت بات چیت چل رہی تھی تو آج میں بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو 208 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ایک زمین کا ٹکڑا مل رہا ہے اور اس کی خرید کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ تقریباً 25لاکھ پاؤنڈ میں یہ مل رہا ہے اور اسلام آباد سے یہ گیارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ علاقہ جس میں جلسہ ہو رہا ہے اور جو کرائے پر لیا ہوا ہے تقریبًا 120ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے قریبًا دوگنا خریدنے کی توفیق عطا فرما دی ہے۔ الحمدللہ۔ اور وہ جو رقبہ خریدا جا رہا ہے اس میں مَیں نے بڑے اچھے مکان بنے ہوئے ہیں دیکھے ہیں۔ اس میں چار چار رہائشی بیڈروم بنے ہوئے ہیں۔پھر شیڈ (Shed) بنے ہوئے ہیں۔ مختلف ضروریات بھی پوری کر لیں گے۔ یہاں تو ہمیں ہر چیز عارضی طور پر بنانی پڑی ہے۔ مارکی بنانی پڑی ہے، ٹینٹ لگانے پڑے ہیں تو وہاں ہمیں کچھ بنی بنائی شیڈ اور عمارتیں بھی مل جائیں گی۔ انشاء اللہ ۔ لیکن جب میں نے جمعہ پر کہا تھا تو میرے گھر پہنچنے سے پہلے پہلے، دفتر پہنچنے سے پہلے پہلے باہر سے بھی لوگوں کی بعض فیکسیں(Faxes) پڑی ہوئی تھیں کہ اس تحریک میں جو آپ کسی بھی وقت کریں گے، یوکے میں جلسہ گاہ کے لیے یا مختلف پروگراموں کے لئے جماعتی جائداد خریدنے کے لیے تو ہم اس میں شامل ہوناچاہتے ہیں۔ مجھے اس وقت خیال آیا تھا گو کہ میں نے یہی کہا تھا کہ یوکے والوں کو اپنے وسائل سے ہی یہ پورے کرنے ہوں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ کریں گے۔ اُنہوںنے نہیں کہا کہ وہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بڑی ہمت کی ہے۔ توفیق نہیں کہہ رہا ہمت کہہ رہا ہوں اِس لیے کیونکہ توفیق تو اللہ میاں بڑھاتا چلا جائے گا۔ اگر وہ اسی طرح ہمت سے کام لیتے چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توفیق کو بھی بڑھائے گا۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی چونکہ جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے یہاں جو جلسہ ہو رہا ہے جو تقریباً انٹرنیشنل جلسہ ہی کہلاتا ہے، تو اس لیے باقی دنیا کو بھی مَیں کہتا ہوں جس حد تک اپنی سہولت سے وہ اس میں حصہ ڈال سکتے ہیں ضرور ڈالیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ بڑی وسیع جگہ ہو گی۔ اور میرا خیال ہے یورپ میں بلکہ امریکہ میں بھی اور کینیڈا میں بھی کہیں بھی جماعت نے اتنا بڑا رقبہ کبھی بھی نہیں خریدا ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 208 ایکڑ رقبہ انشاء اللہ تعالیٰ خریدیں گے اور بڑا سستا مل گیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا ہے ۔ لوگ بھی حیران ہیں کہ اتنا سستا کیسے مل گیا؟بات چیت ہو رہی ہے۔ سودا طے پا گیا ہے بلکہ ہو چکا ہے، Payments وغیرہ ہو جائیں گی۔ یہ جلسہ جواَب عالمی جلسہ کی صورت اختیار کر گیا ہے تو اس لئے جو لوگ حصہ لے سکتے ہیں اس میں حصّہ لیں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے، مالی وسعت اور کشائش پیدا کرے اور حصہ لینے والوں کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلے کے برباد کرنے کے لیے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جانکاہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے کے مکر کیے یہاں تک کہ حُکّام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں۔ خون کے جھوٹے مقدمے کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایا۔اور ہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دئیے۔ اور مخالفانہ منصوبوں کے لیے کمیٹیاں کیں۔ مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا؟ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا۔ کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہؤا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا۔ پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحۂ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرندے اس پر آرام کر رہے ہیں۔‘‘ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 383 تا 384)
آپ لوگ ان دنوں میں دعائیں بھی کرتے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ یہ جو کامیابیاںہمیں عطا فرما رہا ہے ان میں ہمیشہ اضافہ فرماتا رہے اور ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں