حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ جرمنی 2003ء پر خواتین سے خطاب

عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعًا نہیں کی۔
اسلام نے عورت کو بلند مقام دیاہے اور اس سے عظیم توقعات وابستہ کی ہیں۔
اسلام عورتوں کو جو بعض احکامات کا پابند کرتاہے تو اس سے وہ ان کی عزت ،احترام اور تکریم پیدا کرنا چاہتاہے اورمعاشرہ کو پاک اور جنت نظیر بنانا چاہتاہے۔
(قرآ ن مجید ،احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود کے حوالہ سے اسلام میں عورتوں کے مقام اور ان سے وابستہ عظیم توقعات کا ذکرکرتے ہوئے احمدی مسلم خواتین کو زرّیں نصائح)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا 23؍اگست 2003ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر لجنہ اماء اللہ سے خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآء۔وَاتَّقُوااللہ الَّذِیْ تَسَآء لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا- (النساء: 2)

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے: اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تمہیں اللہ نے نفس واحدہ سے پیدا فرمایا ہے۔ اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔ اور رحموں کے تقاضوں کا بھی خیال رکھا کرو۔ یقینا اللہ تم پر نگران ہے۔
حضرت خلیفۃا لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مختصر تفسیر یہ فرمائی ہے کہ:’’ نفس واحدہ کے بہت سے مفاہیم ہیں۔ ایک ان میں سے یہ ہے کہ ہم نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا یعنی تمہاری عزت مرد اور عورت کے لحاظ سے برابر ہے۔ تمہارے حقوق مرد اور عورت کے لحاظ سے برابر ہیں۔ تم نفس واحدہ کی پیداوار ہو۔ اور تمہیں ایک دوسرے پر برتری حاصل نہیں۔
نفس واحدہ سے پیدا ہونے کا ایک دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز ایک ایسے جاندار سے ہوا ہے جو اپنی ذات میں نہ نر تھا نہ مادہ۔افزائشِ نسل کے لئے زندگی کی ایک ہی ابتدائی قسم استعمال ہوتی تھی جسے نفس واحدہ فرمایا گیا ہے۔ یعنی وہ قسم نہ نر تھی نہ مادہ۔ پس اس پہلو سے نہ نر کو مادہ پر کوئی فوقیت حاصل ہے اور نہ مادہ کو نر پر‘‘۔
(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ برموقع جلسہ سالانہ انگلستان 26؍جولائی 1986ء)
اسلام کی خوب صورت تعلیم پر مغرب میں جہاں اور بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے کہ عورت کو اس کا صیح مقام نہیں دیا جاتا۔ یہ ایک انتہائی جھوٹا اور گھنائونا الزام ہے جو عورت کے دل سے اسلام کی حسین تعلیم کو نکالنے کے لئے دجالی قوتوں نے لگایا ہے۔ حالانکہ مغرب جو آج عورت کی آزادی کا دعویدار ہے خود یہاں بھی ماضی میں چند دہائیاں پہلے تک عورت کو بہت سے حقوق سے محروم کیا جاتا تھا۔ تفصیلات میں اگر جائوں تو سارا وقت انہی تفصیلات پر ختم ہو سکتا ہے کہ عورت پر یورپ میں، مغرب میں کیا کیا پابندیاں لگائی جاتی تھیں۔ مختصراً مثال دیتا ہوں کہ عورتوں سے مردوں کی نسبت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔عورتوں کو مرد کی جائیداد سمجھا جاتا تھا۔ عورت کو گواہی کا حق حاصل نہیں تھا۔ اور 1891ء تک، تقریباً سو سال پہلے تک، بہت سے مغربی ممالک میں عورت کو مرد کی طرف سے وراثت میں جائیداد ملنے کا جو حق ہے اس سے محروم رکھا گیا تھا۔ ووٹ کا بھی حق نہیں تھا۔ بعض ملکوں میں طلاق کی صورت میں عورت بچوں کے حق سے بھی محروم کر دی جاتی تھی۔ بیسویںصدی میںبھی بہت سے ایسے حقوق تھے جن سے عورتیں صرف اس لئے محروم تھیں کہ وہ عورت ہے۔ تو اِن لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اسلام پر اعتراض کریں کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں ہیں۔ پس کوئی عورت، کوئی بچی مغرب کے اس دجل سے متاثر نہ ہو ۔
اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے اگر پہلے مغرب میں عورت کے حقوق نہیں تھے تو اب تو ہم نے قائم کر دئے ہیں۔ تو یہ غلط کہتے ہیں۔ یہ اب انہوں نے قائم نہیں کئے بلکہ یہ عورت نے خود لڑبھڑ کر شور مچاکر ایک ردِعمل کے طور پر لئے ہیں۔ اگر آپ ان لوگوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھیں تو ان حقوق کے حصول کے بعد مرد جو ظاہراً یہی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آزادی ہونی چاہئے، عورت کو بھی آزادی ملنی چاہئے، حقوق ٹھیک ہیں، لیکن اس پر عمومًا مرد خوش نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ تمام ایک ردِعمل کے طور پر ہے اور اس طرح جو حقوق لئے جاتے ہیں وہ یقینا غیر فطری ہوں گے اور جو چیز فطرت سے ٹکراؤ کے بعد ملے وہ کبھی سکون کا باعث نہیں بنتی۔ آپ مشاہدہ کرلیں مغرب کی زندگی اس نام نہاد آزادی اور غیرفطری حقوق کے بعد بے سکونی اور بے چینی کی زندگی ہے اور جو کوئی بھی اس غیرفطری طرزِعمل کو اختیار کرے گا وہ بے سکون ہی ہوگا۔ اس لئے ان کی اس چکاچوند سے اتنی متاثر نہ ہوں کہ یہ بہت آزادی کے علمبردار ہیں اور پتہ نہیں ان کی کتنی خوبیاں ہیں۔
اب اس کے مقابل پر دیکھیں کہ فطرت کے عین مطابق چودہ سو سال پہلے اسلام عورت کو کس طرح حقوق دے رہا ہے۔ اس کے مقام کا کس طرح تعین کر رہا ہے اور پھر کس طرح نشاندہی کر رہا ہے۔ یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے یہ نکاح کے وقت تلاوت کی جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اے لوگو !مردو اور عورتو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔اس سے ڈرو اور اس کے احکامات کی تعمیل کرو ۔اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔ حقوق اللہ ادا کرنے سے تمہارے دل میں اُس کی خشیت قائم رہے گی، تمہارا ذہن اِدھر اُدھر نہیں بھٹکے گا، تم دین پر قائم رہو گی، شیطان تم پر غالب نہیں آسکے گا،حقوق العباد ادا کروگے۔ تم دونوں مردوں اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہے۔ سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھیں ۔اپنے گھروں کو محبت اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اولاد کے حق ادا کریں ۔ان کو وقت دیں ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کریں۔ بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو ماں باپ دونوں کو بچوں کو سکھانی پڑتی ہیں، بجائے اس کے کہ بچہ باہر سے سیکھ کر آئے۔ ایک دوسرے کے ماں باپ بہن بھائی سے پیار و محبت کا تعلق رکھیں۔ ان کے حقوق ادا کریں اور یہ صرف عورتوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ اور اس طرح جو معاشرہ قائم ہوگا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہوگا۔ اس میں لڑ بھڑکر حقوق لینے کا سوال ہی نہیں ہے۔ تو اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہوگی۔ ہر عورت ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی کوشش کر رہا ہوگا۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میری تعلیم ہے ۔ یہ ایک دوسرے کے حقوق ہیں۔ یہ عورت اور مرد کی ذمہ واریاں ہیں۔ یہی ہیں جو فطرت کے عین مطابق ہیں۔ مَیں نے تمہیں چھوڑا نہیں بلکہ مَیں تم پر نگران بھی ہوں۔ مَیں دیکھ رہا ہوں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوںکہ کس حد تک تم اس پر عمل کرتے ہو۔ اگر صحیح رنگ میں عمل کرو گے تو میرے فضلوں کے وارث بنوگے۔ تمہیں قطعًا مغربی معاشرے سے متاثرہونے کی، ان کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ وہ تمہارے سے متاثر ہوںگے اور کچھ سیکھیں گے، اسلام کی خوبیاں اپنائیں گے۔
اور پھر یہ ہے کہ یہ حقوق ادا کرنے کے طریق کیا ہوں گے، کس طرح اپنی ذمہ واریاں ادا کرنی ہوں گی۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتا ہے کہ

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَْجَرَھْم بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ( النحل:98)

جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں مناسبِ حال عمل کرے، مرد ہو یا عورت ،ہم ان کو یقینا ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمالِ صالحہ کا بدلہ دیں گے۔
تو اس آیت سے مزید وضاحت ہوگئی ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو بِلا تخصیص اس کے کہ وہ مرد ہیں یا عورت ،یہ خوشخبری دی ہے کہ اگرتم نیک اعمال بجالا رہے ہو ،میرے حکموں کے مطابق چل رہے ہو ،تمہارے اعمال ایسے ہیں جو ایک مومن کے ہونے چاہئیں تو خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا ،تمہاری زندگیاں خوشیوں سے بھر دے گا۔ ظاہر ہے جب تم نیک اور صالح اعمال بجالارہے ہوگے تو تمہاری اولادیں بھی نیکی کی طرف قدم مارنے والی ہوںگی اور تمہارے لئے خوشی کا باعث بنیں گی، تمہارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوںگی۔
پس ہمارا خدا ایسا خدا نہیں جو ہر وقت اپنی مُٹھی بند رکھے۔ دینے میں بخل سے کام نہیں لیتا، بڑا دیالو ہے۔ لیکن تمہارے بھی کوئی فرائض ہیں،کچھ ذمہ داریاںہیں، ان کو ادا کرو تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بے انتہا بارش تم پر ہوگی۔
اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے؟ اُس سے کیا توقعات وابستہ رکھی ہیں؟ اس سلسلے میں ایک اقتباس حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا پیش کرتا ہوں۔ کہتے ہیں:
’’ اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ صرف گھر کی معلمہ کے طور پر نہیں بلکہ باہر کی معلمہ کے طور پر بھی۔ ایک حدیث میں حضرت اقدس محمد ﷺ کے متعلق یہ آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایات کا تعلق ہے وہ تقریبًا آدھے دین کے علم پر حاوی ہیں۔ بعض اوقات آپؓ نے علوم دین کے تعلق میں اجتماعات کو خطاب فرمایا اور صحابہؓ بکثرت آپؓ کے پاس دین سیکھنے کے لئے آپؓ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے تھے ۔ پردہ کی پابندی کے ساتھ آپؓ تمام سائلین کے تشفی بخش جواب دیا کرتی تھیں‘‘۔ (خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ برموقع جلسہ سالانہ انگلستان 26؍جولائی 1986ء)
تو یہ ہے عورت کے مقام کا وہ حسین تصور جو اسلام نے پیش کیا ہے جس سے ایک سلجھی ہوئی قابلِ احترام شخصیت کا تصور ابھرتا ہے۔ وہ جب بیوی ہے تو اپنے خاوند کے گھر کی حفاظت کرنے والی ہے، جہاں خاوند جب واپس گھر آئے تودونوں اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی جنت کا لُطف اُٹھا رہے ہوں۔ جب ماں ہے تو ایک ایسی ہستی ہے کہ جس کے آغوش میں بچہ اپنے آپ کو محفوظ ترین سمجھ رہا ہے۔ جب بچے کی تربیت کر رہی ہے تو بچے کے ذہن میں ایک ایسی فرشتہ صفت ہستی کا تصور اُبھر رہا ہے جو کبھی غلطی نہیں کر سکتی ،جس کے پائوں کے نیچے جنت ہے ۔اس لئے جو بات کہہ رہی ہے وہ یقینا صحیح ہے، سچ ہے۔اور پھر بچے کے ذہن میں یہی تصور اُبھرتا ہے کہ میں نے اس کی تعمیل کرنی ہے۔ اسی طرح جب وہ بہو ہے تو بیٹیوں سے زیادہ ساس سسر کی خدمت گزار اور جب ساس ہے تو بیٹیوں سے زیادہ بہوئوں سے محبت کرنے والی ہے ۔اس طرح مختلف رشتوں کو گنتے چلے جائیں اور ایک حسین تصور پیدا کرتے چلے جائیں جو اسلام کی تعلیم کے بعد عورت اختیار کرتی ہے۔تو پھر ایسی عورتوں کی باتیں اثر بھی کرتی ہیں اور ماحول میں ان کی چمک بھی نظر آرہی ہوتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:تم میں سے ہر ایک نگران ہے اورتم میں سے ہر ایک کی جو اب دہی ہو گی۔امام نگران ہے اس کی جواب دہی ہو گی ۔ آدمی اپنے گھروالوں پر نگران ہے اور اُس سے جواب طلبی ہوگی۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اُس سے اُس بارے میں بھی جواب طلبی ہوگی۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اُس سے بھی جواب دہی ہوگی۔ سنو! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کی نگرانی کے متعلق جواب طلب کیا جانے والا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ ۔صحیح مسلم کتاب الامارۃ۔)
یہاں کیونکہ میں عورتوں کے متعلق باتیں کر رہا ہوں اس لیے اُن کے بارے میں عرض کرتا ہوں جیسا کہ اس حدیث میں آیا اور میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔ اُس کی دیکھ بھال، صفائی ،سُتھرائی،ٹکائو،گھر کا حساب کتاب چلانا، خاوند جتنی رقم گھر کے خرچ کے لئے دیتاہے اُسی میں گھر چلانے کی کوشش کرنا ،پھر بعض سگھڑ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو تھوڑی رقم میں بھی ایسی عمد گی سے گھر چلارہی ہوتی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی تھوڑی رقم میں اس عمدگی سے گھر چلا رہی ہیں۔ اور اگر معمول سے بڑھ کر رقم ملے تو پس انداز بھی کرلیتی ہیں، بچا بھی لیتی ہیںاور اس سے گھر کے لئے کوئی خوبصورت چیز بھی خرید لیتی ہیں یا پھر بچیوں کے جہیز کے لئے کوئی چیز بنا لی۔ تو ایسی مائیں جب بچوں کی شادی کرتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تھوڑی آمدنی والی نے ایسا اچھا جہیز کس طرح اپنی بچیوں کو دے دیا۔ اس کے مقابل پر بعض ایسی ہیں جن کے ہاتھوں میں لگتا ہے کہ سوراخ ہیں۔ جتنی مرضی رقم ان کے ہاتھوں میںرکھتے چلے جائو، پتہ ہی نہیں چلتا کہ پیسے کہاں گئے۔ اچھی بھلی آمدنی ہوتی ہے اور گھروں میں ویرانی کی حالت نظر آرہی ہوتی ہے۔ بچوں کے حلیے ، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے لگتا ہے کہ جیسے کسی فقیر کے بچے ہیں ۔ایسی مائوں کے بچے پھر احساسِ کمتری کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور پھر بڑھتے بڑھتے ایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جب وہ بالکل ہی ہاتھوں سے نکل جائیں۔ اور اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
پس اللہ کے رسول نے آپ کو متنبہ کردیا ہے، وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم اپنے خاوندوں کے گھروں کی صحیح رنگ میں نگرانی نہیں کرو گی توتمہیں پوچھا جائے گا، تمہاری جواب طلبی ہوگی۔ اور جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے اس کے نتائج پھر اس دنیا میں بھی ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں۔ اس لئے اب تمہارے لئے خوف کا مقام ہے۔ ہر عورت کو اپنے گھر کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور جب آپ اپنے خاوندوں کے گھروں کی نگرانی کے اعلیٰ معیار قائم کریں گی، بچوں کا خیال رکھیں گی، خاوند کی ضروریات کا خیال رکھیں گی اور ان کا کہنا ماننے والی ہوںگی تو ایسی عورتوں کو اللہ کا رسول اتنا ہی ثواب کا حق دار قرار دے رہا ہے جتنا کہ عبادت گزار مرد اور اس کی راہ میں قربانی کرنے والے مرد کو ثواب ملے گا اور پھر ساتھ ہی جنت کی بھی بشارت ہے جیسا کہ یہ حدیث ہے۔ مَیں بیان کرتا ہوں۔
’’ایک دفعہ اسماء بنتِ یزید انصاری آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آئیں اور عرض کیا حضور! میرے ماں باپ آپ پر فِدا ہوں، میں عورتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں سب کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ ہم عورتیں گھروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں اور مردوں کو یہ فضیلت اور موقع حاصل ہے کہ وہ نماز باجماعت، جمعہ اور دوسرے مواقع میں شامل ہوتے ہیں۔ نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں، حج کے بعد حج کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ اور جب آپ میں سے کوئی حج، عمرہ یا جہاد کی غرض سے جاتا ہے تو ہم عورتیں آپ کی اولاد اور آپ کے ا موال کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور سوت کات کرآپ کے کپڑے بُنتی ہیں۔ آپ کے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ کیا ہم مردوں کے ساتھ ثواب میں برابر کی شریک ہوسکتی ہیں۔ جب کہ مرد اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں۔ اسماء کی یہ بات سُن کر حضور صحابہ کی طرف مُڑے اور انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ اس عورت سے زیادہ عمدگی کے ساتھ کوئی عورت اپنے مسئلہ اور کیس کو پیش کرسکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا حضور ہمیں تو گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی عمدگی کے ساتھ اور اتنے اچھے پیرایہ میں اپنا مقدمہ پیش کرسکتی ہے۔ پھر آپ اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے خاتون! اچھی طرح سمجھ لو اور جن کی تم نمائندہ بن کر آئی ہو اُن کو جاکر بتادو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اُسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو اُس کے خاوند کو اپنی
ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے۔‘‘ (تفسیر الدرالمنثور۔ تفسیر سورۃ النساء ۔ زیر آیۃ ا لرّجال قوّامُون عَلَی النّساء)
پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ:’’ جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بُرے کاموں سے بچایا اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہنا مانا، ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ ‘‘(مجمع الزوائد ۔ کتاب النکاح۔ باب فی حق الزوک علی المرأ ۃ)
پھر ایک حدیث ہے موسیٰ بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے ہوئے سُنا کہ:’’ اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سے بہترین عورتیں قریش کی عورتیں ہیں جو چھوٹے بچوں پر دوسروں کی نسبت زیادہ شفیق اورمہربان ہیں اور تنگی اور ترشی میں خاوندوں سے نرمی اور لطف کا سلوک کرنے والی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)
بعض عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ حالات خراب ہوجاتے ہیں، مرد کی ملازمت نہیں رہی یا کاروبار میں نقصان ہوا، وہ حالات نہیں رہے، کشائش نہیں رہی تو ایک شور برپا کر دیتی ہیں کہ حالات کا رونا، خاوندوں سے لڑائی جھگڑے، انہیں برا بھلا کہنا ،مطالبے کرنا۔ تو اس قسم کی حرکتوں کا نتیجہ پھر اچھا نہیں نکلتا۔ خاوند اگر ذرا سا بھی کمزور طبیعت کا مالک ہے تو فوراً قرض لے لیتا ہے کہ بیوی کے شوق کسی طرح پورے ہوجائیں اور پھر قرض کی دلدل ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں پھر انسان دھنستا چلا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کامل وفا کے ساتھ خاوند کا مددگار ہونا چاہئے، گزارا کرناچاہئے۔ پھر چھوٹے بچوں سے شفقت کا سلوک کرنا چاہئے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں عورت کی جو خصوصیات بیان کی گئیں ہیں ان میں آیا ہے کہ بچوں سے شفقت کرتی ہیں اور خاوندوں کی فرمانبردارہیں تاکہ اُن کی تربیت بھی اچھی ہو، اُن کی اُٹھان اچھی ہو اور وہ معاشرے کا مفید وجود بن سکیں۔ تو اسلام صرف تمہارے حقوق نہیں قائم کرتا ،جس طرح یورپ میں ہے کہ عورت کے حقوق، فلاں کے حقوق، بلکہ تمہاری نسلوں کے حقوق بھی قائم کرتا چلا جاتا ہے۔ ذرا سی بات پر شور شرابہ کرنے والی عورتوں کو یہ حدیث بھی ذہن میں رکھ کر استغفار کرتے رہنا چاہئے۔
حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مجھے آگ دکھائی گئی تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا وہ اللہ کا انکار کرتی ہیں؟۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، وہ احسان فراموشی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ اگر تو اُن میں سے کسی سے ساری عمر احسان کرے اور پھر وہ تیری طرف سے کوئی بات خلاف طبیعت دیکھے تو کہتی ہے میں نے تیری طرف سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الایمان باب کفران العشیروکفر دون کفر فیہ)
پس ہر عورت کے لئے مقام خوف ہے، بہت استغفار کرے۔ پھراسلام تمہارے حقوق قائم کرنے کے لئے کس طرح مردوں کو ارشاد فرما رہا ہے۔ مردوں کو تم پر سختی کرنے سے کس طرح روک رہا ہے۔ تھوڑی بہت کمیوں کمزوریوں کو نظرانداز کرنے کے بارے میںمردوں کو کس طرح سمجھا یا جا رہا ہے۔ ایسی مثال دی ہے کہ مغربی معاشرے کے ذہن میں بھی کبھی ایسی مثال نہیں آسکتی۔ جیسا کہ اس حدیث میں آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ:’’ عورتوں کی بھلائی اور خیرخواہی کا خیال رکھو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے زیادہ کج حصہ اُس کا سب سے اعلیٰ حصہ ہوتا ہے۔ اگر تم اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو اُسے توڑڈالوگے اگر تم اُس کو اُسکے حال پر ہی رہنے دوگے تو وہ ٹیڑھا ہی رہے گا ۔پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو۔ ‘‘(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرمادیا ہے

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْھِنَّ (البقرۃ:229)

کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سُنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پائوں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریقے پر برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوندوںکا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ او ر خداتعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھرکس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ

تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ301-300 جدید ایڈیشن)
تو یہ حسین تعلیم ہے جو اسلام نے عورتوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے دی ہے۔ تنبیہ کی بھی صرف اس حد تک اجازت ہے کہ تنبیہ کی حد تک ہی ہو۔ یہ نہیں کہ مار دھاڑا ورظلم زیادتی شروع ہوجائے۔ اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔ آپ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں کہ:
’’ یہ مت سمجھو کہ پھرعورتیں ایسی چیزیںہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے۔ نہیں، نہیں۔ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

خَیْرُ ُکْم خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ

تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں! دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کرسکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔ نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدو کوب کرے ۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پرناراض ہوکر اُس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے۔ اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘۔(النساء:20)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن سے اچھی طرح حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ ’’ہاں اگر وہ بیجا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے۔ انسان کو چاہئے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جمادے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کرسکتا۔ اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اُس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کرسکتا۔ خاوند عورت کے لئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ پس مرد میں جلالی اور جمالی رنگ دونوں موجود ہونے چاہئیں‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ 404-403جدید ایڈیشن)
صرف یہ نہیں کہ ہر وقت جلال ہی دکھاتا رہے۔
عورت کے یہ حقوق ہیں جو اسلام قائم کر رہا ہے۔ اور آج مغرب کے آزادی کے علمبردار عورت کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں جس میں آزادی کم اور بے حیائی زیادہ ہے۔ اور بعض لوگ اِن کے ان کھوکھلے نعروں کے جھانسے میں آکر آزادی کی باتیں کرنی شروع کردیتے ہیں۔ آزادی تو آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت ﷺ نے دلوائی تھی جس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے۔
بخاری کی روایت ہے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارا حال یہ ہوگیا تھا کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی عورتوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈرنے لگے تھے کہ کہیں یہ شکایت نہ کردیں۔(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصاۃ بالنساء)
یعنی اگر زیادتی ہوجائے تو آنحضرت ﷺ کے پاس جاکر ہماری شکایت نہ کردیں۔ اب بتائیں! لاکھ قانون بنانے کے باوجود ، کیا اس معاشرے میں مرد ،عورت پرظلم اور زیادتی نہیں کر رہا؟۔ اس مغربی معاشرے کو دیکھ لیں ۔کیا اب یہ مرد عورتوں پر ظلم و زیادتی کرنے سے باز آگئے ہیں؟۔ آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ تو مغرب کی اندھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر اسلام نے بعض حالات میں عورتوں کو حکم دیا ہے کہ بعض نفلی عبادتیں یا ایسی عبادتیں جو تمہارے پر اس طرح فرض نہیں جس طرح مرد وںپر جیسا کہ پانچ وقت مسجدمیں جاکر نماز پڑھنا وغیرہ۔ تو جب بھی ایسی صورت ہوتی آنحضرتﷺ یہی ارشاد فرماتے تھے کہ وہ اپنے خاوندوں کے حکم کی پابندی کریں۔ لیکن بعض دفعہ بعض صحابہ اللہ کے خوف کی وجہ سے اس طرح سختی سے حکم نہیں دیتے تھے لیکن ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے اور بعض دفعہ بعض صحابیات اپنی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ اگر حکم ہے تو مانوں گی ،ورنہ نہیں۔
اس بارہ میں ایک حدیث ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کا اپنی بیوی سے ایک معاملہ میں اختلاف رائے ہوگیا ۔اُن کی بیگم حضرت عاتکہؓ نماز کی بہت دلدادہ تھیں اور نماز با جماعت کی توان کو عادت پڑچکی تھی۔وہ نماز باجماعت کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھیں۔ پس جب پانچ وقت عورت گھر سے نکلے حالانکہ اس پر نماز اس طرح فرض بھی نہ ہواور پانچ وقت مسجد میں پہنچے تو پیچھے گھر کی ضروریات کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے کچھ عرصہ تو حوصلہ دکھایا پھر آپ نے کہا کہ اچھا بی بی اب کافی ہوگئی ہے، تمہارے پر تو مسجد میں جاکر نمازیں پڑھنا فرض بھی نہیں ہے ،گھر میں نمازیں پڑھنے کی اجازت ہے تم کیوں مسجد جاتی ہو۔ اور پھر یہ کہا کہ خدا کی قسم! تم جانتی ہو کہ تمہارایہ فعل مجھے پسند نہیں ہے۔ تو اُن کی بیوی نے جواب دیا کہ واللہ! جب تک آپ مجھے مسجد جانے سے حکماً نہیں روکیں گے میں نہیں رکوں گی۔ اور حضرت عمرؓ کو یہ جُرأت نہیں ہوئی کہ بیوی کو حکماً مسجد جانے سے روک سکیں۔ چنانچہ آخر وقت تک انہوں نے یہ سلسلہ نہیں چھوڑا اور باقاعدہ مسجد میں جاکر نمازیں پڑھتی رہیں۔
(صحیح بخاری ۔کتاب الجمعۃ ۔باب ھل علیٰ من لا یشھد الجمعۃ غسل ۔۔)
ایک بات تو اس سے یہ پتہ چلی کہ اُس زمانے میں عورتوں میں کس قدر عبادتوں کا شوق تھا۔ دوسرے یہ کہ فرض سے زیادہ کی عبادت ہم نے خاوند کی مرضی کے بغیر نہیں کرنی۔ اگر وہ حکم دے تو رُک جانا ہے۔ کجا یہ کہ دنیا وی معاملات میں بھی خاوند کا کہنا نہ مانا جائے۔ تو دیکھیں یہ کیسی پیاری سموئی ہوئی،اعتدال والی تعلیم ہے جو اسلام کی تعلیم ہے۔
جو عورتیں اپنے خاوندوں کا کہنا ماننے والی ہیں، ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنے والی ہیں، اُن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت اُمِ سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اُس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی۔(سنن الترمذی باب ما جاء فی حق الزو ج علی المرأۃ)
تو دیکھیں عورت کو اِس قربانی کا خداتعالیٰ کتنا بڑا اجر دے رہا ہے۔ ضمانت دے رہا ہے کہ تم اِس دنیا میں اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے کی کوشش کرو اور اگلے جہان میں مَیں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔
پھر بعض عورتوں کو اپنے گھروں اور سسرال کے حالات کی وجہ سے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں ۔بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تکلیف بڑھنے کے ساتھ ردِ عمل بھی اِس قدر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بھی شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو بجائے شکووں کو بڑھانے کے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ٹھیک ہے میرے علم میں بھی ہے بعض دفعہ خاوندوں کی طرف سے اس قدر زیادتیاں ہوجاتی ہیں کہ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہیں۔ تو ایسی صورت میں نظام سے، قانون سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔لیکن اکثر دعا ،صدقات اور رویّوں میں تبدیلی سے شکوے کی بجائے اُس کی مدد مانگنے کے لئے اُس کی طرف مزید جُھکنا چاہئے۔
آنحضرت ﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا:’’ اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کیا کرواورکثرت سے استغفار کیا کرو ‘‘۔
(صحیح مسلم ۔کتاب الایمان ،باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات۔۔)
یہ نسخہ بھی آزما کر دیکھیں۔ جہاں آپ کی روحانی ترقی ہوگی وہاں بہت سی بلائوں سے بھی محفوظ رہیں گی۔
پھر جوان لڑکیوں کے حقوق ہیں۔ اس میں بچیوں کے رشتوں کے معاملے ہوتے ہیں ۔گو ماں باپ اچھاہی سوچتے ہیں سوائے شاذ کے جو بیٹی کو بوجھ سمجھ کر گلے سے اُتارنا چاہتے ہیں۔ بچیوں کو اُن کے رشتوں کے معاملے میں اسلام یہ اجازت دیتا ہے اگر تم پر زبردستی کی جا رہی ہے تو تم نظامِ جماعت سے، خلیفۂ وقت سے مدد لے کر ایسے ناپسندیدہ رشتے سے انکار کردو۔ لیکن یہ اجازت پھر بھی نہیں ہے کہ اپنے رشتے خود ڈھونڈتی پھرو۔ بلکہ رشتوں کی تلاش تمہارے بڑوں کا کام ہے یا نظامِ جماعت کا ۔ ہاں پسند نا پسند کا تمہیں حق ہے۔ جس لڑکے کا رشتہ آیا ہے اس کے حالات اگر جاننا چاہو تو جان سکتی ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دُعا کر کے شرح صدر ہونے پر رشتے طے کرنے چاہئیں۔ رشتوں کے بارے میں آزادی کے نام نہاد دعویدار تو یہ آزادی عورت کو آج دے رہے ہیں، اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت کی یہ آزادی قائم کردی۔
جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مال دار شخص سے کر دیا جس کو لڑکی ناپسند کرتی تھی۔ وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر حاضر ہوئی اورکہا کہ یا رسول اللہ! ایک تو مجھے آدمی پسند نہیں ۔دوسرے میرے باپ کو دیکھیں کہ مال کی خاطر نکاح کر رہا ہے۔ میں بالکل پسند نہیں کرتی۔
اب یہ دیکھیں کہ وہاں وہ لڑکی بجائے اس کے کہ شور شرابہ کرتی، ادھر اُدھر باتیں کرتی یا گھر سے چلی جاتی وہ سیدھی حضورؐکے پاس گئی ہے۔ پتہ تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں میرے حقوق کی حفاظت ہوگی۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ توُ آزاد ہے۔ کوئی تجھ پر جبر نہیں ہوسکتا ۔جو چاہے کر۔ عرض کیاکہ یا رسول اللہ! میں اپنے باپ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی اس سے بھی میرا تعلق ہے۔ مَیں تو اس لئے حاضر ہوئی تھی کہ ہمیشہ کے لئے عورت کا حق قائم کرکے دکھائوںتاکہ دنیا پر یہ ثابت ہو کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو اُس کی مرضی کے خلاف رخصت نہیں کر سکتا۔ صحابیہ کہتی ہیں کہ اب جب آپ نے حق قائم کردیا ہے تو خواہ مجھے تکلیف پہنچے، مَیں باپ کی خاطر اس قربانی کے لئے تیار ہوں۔
(سنن ابن ماجہ ابواب النکاح باب من زوّاج ابنتہ وھی کارھۃ،مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۱۳۶ )
دیکھیں اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت میں ایسی آزادی کا احساس پیدا کردیا تھا جو مادر پدر آزاد ہونے والی آزادی نہیں تھی بلکہ اُن کے حقوق کا تحفظ تھا کہ اپنے حقوق اپنی ذات کے لئے نہیں لینا چاہتی ہوں بلکہ معاشرے کے کمزور ترین وجود کے حقوق محفوظ کروانا چاہتی ہوں۔ اور اپنی ذات کے متعلق بتا دیا کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے کیونکہ مجھے اپنے باپ سے ایک لگائو ہے، ایک تعلق ہے، پیار ہے، محبت ہے۔ اس کی بات باوجودیکہ میری مرضی نہیں پھر بھی مَیں ر دّ نہیں کروں گی اور اس رشتے کو قبول کرتی ہوں۔ تو یہ صحابیہ آپ کے لئے ماڈل ہونی چاہئے نہ کہ مغرب کی مصنوعی آزادی کی دعویدار۔ اس طرز پر چلنے والی بچیاں اپنے خاندانوں کی عزت قائم کرتی ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی ایک مجلس میں مستورات کا ذکر چل پڑا ۔کسی نے ایک سربرآوردہ ممبر کا ذکر سنایا کہ اُس کے مزاج میںاول سختی تھی ۔عورتوں کو ایسا رکھا کرتے تھے جیسے زندان میں رکھا کرتے ہیں۔ یعنی قید میں رکھا ہوتا ہے۔ اور ذرا وہ نیچے اُترتی تو اُن کو مارا کرتے تھے۔ لیکن شریعت میں حکم ہے {عَاشِرُوْھُنّ بِالْمَعْرُوْفِ}۔ نماز وں میں عورتوں کی اصلاح اور تقویٰ کے لئے دُعا کرنی چاہیے ۔قصاب کی طرح برتائو نہ کرے کیونکہ جب تک خدانہ چاہے کچھ نہیں ہو سکتا۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ مجھ پر بھی بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ عورتوں کو پھراتے ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میرے گھر میں ایک ایسی بیماری ہے( یعنی حضرت امّ المومنینؓ کو ایسی بیماری ہے) کہ جس کا علاج پھرانا ہے۔ سیر کروانا ہے۔ جب اُن کی طبیعت زیادہ پریشان ہوتی ہے تو بدیںخیال کہ گناہ نہ ہو۔ کہا کرتا ہوں کہ چلو پھرا لائوں ۔اور بھی عورتیں ہمراہ ہوتی ہیں۔(ملفوظات جلد سوم حاشیہ صفحہ ۱۱۸ ۔جدید ایڈیشن )
پھر بعض مرد بعض دفعہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ اسلام نے ہمیں عورتوں پربعض لحاظ سے فوقیت دی ہے اس لئے ہمیشہ اس کو جوتی کی نوک پر سمجھیں۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’ یہ مت سمجھو کہ عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اورحقیر چیز قرار دیا جائے۔ نہیں نہیں ہمارے ہادی کامل رسول ﷺ نے فرمایا ہے خَیْرُ ُکْم خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو‘‘ ۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۴۰۳۔۴۰۴جدید ایڈیشن )
تو ان باتوں سے واضح ہوگیا کہ عورتوں کا اسلام میں کیا مقام ہے۔
اب مَیں آپ کے سامنے بعض باتیں رکھنا چاہتا ہوں جو اکثر عورتوں میں پائی جاتی ہیں۔ کسی میں کم، کسی میں زیادہ۔ آزادی کی باتیں تو ہوگئیں لیکن اگر یہ ایک حد سے بڑھ جائیں تو معاشرے پر بھی بُرا اثر ڈالتی ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جہاں آپ کو اپنی آزادی پر کچھ پابندیاں لگانی پڑیں گی۔ ہر احمدی عورت کو ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہمیں ان بیماریوں سے جومَیں ذکر کروں گا ،بچنا ہے ۔تاکہ اس حسین معاشرے کو قائم کرنے والی ہوں جس کے قائم کرنے سے اسلام کی خوبیاں دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مدد ملے۔ بعض ذاتی اور گھریلو قسم کی بُرائیاں ایسی ہیں جو ذاتی ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی بُرا اثر ڈالتی ہیں اور جن سے بجائے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے برائیوںمیں آگے بڑھنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً فخر و مباہات وغیرہ، دکھاوا وغیرہ ۔
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں۔ ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے اور ایسے ہیں پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے۔ پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی تو اُس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ کردیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں۔زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ تو یہ بُرائی ایسی ہے جو ذاتی بُرائی تو ہے ہی معاشرے میں بھی بُرائی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ قوم پر فخر ہے کہ ہم سیّد ہیں یا مغل ہیں یا پٹھان ہیں وغیرہ۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود؈ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اول تو تین چارپشتوںکے بعد اکثر یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اصل ذات کیا ہے۔ سیّد ہے بھی کہ نہیں۔ تو اگر اللہ تعالیٰ تمہاری پردہ پوشی کر رہا ہے اور حالات کی وجہ سے ماحول بدلنے سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ اصل میں تم کون ہو تو پردہ رہنے دو۔ بلِا وجہ فخر نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کو یہ دکھاوے پسند نہیں ہیں۔ ایک غلطی کر کے پھر غلطیوں پرغلطیاں نہ کرتے چلے جائو۔
یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک سیّد صاحب کو یہ ضد تھی کہ بچیوں کا رشتہ اگر کروں گا تو سیّد وں میں کروں گا۔ خیر خدا خدا کر کے ایک رشتہ سیّد وں میںملِا ۔ جب بارات آئی تو دُولہا کے باپ کو دیکھ کر دُلہن کے والد صاحب بے ہوش ہو گئے۔ کیونکہ وہ پارٹیشن سے پہلے اُن کے گائوں کا میراثی تھا جو پاکستان بننے کے بعد سیّد بن گیا تھا۔ تو کسی قسم کی شیخی اور فخر نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی پتہ نہیں کون کیا ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ سیّد صاحب جن کی بیٹی تھی یہ خود بھی چار پشتوں پہلے سیّد نہ ہوں تو شایداللہ تعالیٰ نے اُن کا غرور توڑنے کے لئے یہ رشتہ کروایا ہو۔ اس لئے ہر وقت ہر لمحہ استغفار اور خوف کا مقام ہے۔
پھر کپڑوں پر بڑا فخر ہو رہا ہوتا ہے۔ اپنے گزشتہ حالات بھول جاتے ہیں۔ حال یاد رہ جاتا ہے اور مجلسوں میں بیٹھ کر بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ دیکھومَیں نے یہ جوڑا اتنے میں بنایا۔ پھر شادی بیاہ پر لاکھوں روپے کا ایک ایک جوڑابنالیتے ہیںجو ایک یا دو دفعہ پہن کر کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اُس کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا۔ چلیں آپ نے یہ فضول خرچی توکرلی اب اس کو اپنے تک رکھیں۔ پھر اپنے جیسی فضول خرچ عورتوں میں بیٹھ کر دوسروں کا ٹھٹھّا اُڑایا جاتا ہے کہ اُس نے کس قسم کے سستے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اور پھر مالی لحاظ سے بھی اپنے سے کم حتیٰ کہ رشتے دار کو بھی نہیں بخشتے۔ تو یہ فخر، یہ شیخی احمدی عورت میں نہیں ہونی چاہئے۔
اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود؈ قرآنِ کریم کی تعلیم بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ:
’’چوتھی قسم ترک شر کے اخلاق میں سے رِفق اورقولِ حسن ہے اور یہ خُلق جس حالتِ طبعی سے پیدا ہوتا ہے اُس کا نام طلاقت یعنی کشادہ روئی ہے۔ بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا بجائے رفق اور قولِ حسن کے طلاقت دکھلاتا ہے۔ یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے۔طلاقت ایک قوت ہے اوررفق ایک خُلق ہے جو اس قوت کو محل پر استعمال کرنے سے پیدا ہوجاتا ہے۔ اس میں خدائے تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے‘‘۔ اس کا ترجمہ میں پڑھ دیتاہوں کہ’’ یعنی لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک ہوں۔ ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں ۔ بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھانہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا وہی اچھی ہوں۔ اور عیب مت لگائو۔ اپنے لوگوں کے بُرے بُرے نام مت رکھو۔ بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو۔ ایک دوسرے کا گلہ مت کرو۔ کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگاؤ جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔اور یاد رکھو کہ ہر ایک عضو سے مواخذہ ہوگا اور کان، آنکھ، دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا‘‘۔(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰ صفحہ ۳۵۰ )
یہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیات کا ترجمہ ہے۔
پس یہ بڑے استغفار کا مقام ہے کہ اگر پوچھا جانے لگا تو پتہ نہیں اعمال اس قابل ہیں بھی نہیں کہ بخشش ہو۔ اس لئے ہمیشہ استغفا ر کرتے رہنا چاہئے۔ اُس کا فضل مانگنا چاہئے۔
پھرعورتوں میں ایک بیماری زیور کی نمائش کی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ زیور عورت کی زینت ہے اور زینت کی خاطر وہ پہنتی ہے اور اس کی اجازت بھی ہے لیکن اس زینت کی نمائش ہر جگہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اس کی حدود متعین کی ہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت حذیفہؓ کی ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیںخطاب کیا اور فرمایا! اے عورتو !تم چاندی کے زیور کیوں نہیں بنواتیں؟سنو !کوئی بھی ایسی عورت جس نے سونے کے زیور بنائے اور وہ انہیں فخر کی خاطر عورتوں کو یا اجنبی مردوں کو دکھاتی پھرتی ہو تو اس عورت کو اُس کے فعل کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔
(سنن النسائی کتاب الزینۃ من السنن ۔الکراھیۃ للنساء فی اظہار الحلی والذھب)
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مُزَینہ قبیلہ کی ایک عورت بڑے ناز و ادا سے زیب و زینت کئے ہوئے مسجد میں داخل ہوئی۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا! اے لوگو! اپنی عورتوں کوزیب و زینت اختیار کرنے اور مسجد میں نازو ادا سے مٹک مٹک کر چلنے سے منع کرو۔بنی اسرائیل پر صرف اس وجہ سے لعنت کی گئی کہ ان کی عورتوں نے زیب و زینت اختیار کر کے ناز و نخرے کے ساتھ مسجدوں میں اِترا کر آنا شروع کردیا تھا ۔
(سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن ،باب فتنۃ النسائ)
اس حدیث سے یہ پتہ چلا کہ نمائش کی خاطر اپنی بڑا ئی ظاہر کرنے کے لئے تمہیں عورتوں میں بھی زیور اس طرح اظہار کے ساتھ دکھانے کی ضرورت نہیں جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہو جائے۔ ٹھیک ہے تم نے زیور پہن لیا ۔ جب فنکشن ہو رہے ہوں تو عورت کی عورت پرنظر پڑجاتی ہے۔ اس کے زیور کی، اُس کے کپڑوں کی تعریف بھی کردیتی ہیں ۔یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن جس نے نیا زیور بنایا ہو وہ دوسری عورتوں کو بُلا بُلا کر دکھائے کہ دیکھو یہ زیور مَیں نے اتنے میں بنایا ہے تمہیں بھی پسند آیا تم بھی بنائو، اپنے خاوند سے کہو کہ بنوا کر دے۔ تو بہت سی کمزور طبع عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایسی عورتوں کی باتوں میں آجاتی ہیں اور اپنے خاوندوں پر زور دیتی ہیں کہ مجھے بھی بناکر دو۔ اگر اُن کے خاوند میں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ زیور بنا سکے تو پھر دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو گھروں میں فساد پڑجاتے ہیں، میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں یا پھر یہ ہوتا ہے کہ خاوند قرض لے کر بیوی کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔ لیکن پھر ان قرضوں کی وجہ سے اعصاب زدہ ہوجاتا ہے کیونکہ آج کل کے اس دور میں جب ہر جگہ مہنگائی کا دور ہے ہر قسم کی خواہش پوری کرنا ہر خاوند کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ تو نمود ونمائش کرنے والیوں کو بھی خوفِ خدا کرنا چاہئے ۔لوگوں کے گھر نہ اُجاڑیں اور کم طاقت والی عورتیں بھی صرف دنیا داری کی خاطر اپنے گھروں کو جہنم نہ بنائیں۔
پھر اس حدیث میں آگے یہ فرمایا کہ مسجد تو عبادت کی جگہ ہے۔ یہاں ایسی عورتوں کو نہیںآنا چاہئے جن کا مقصد صرف نمودونمائش ہو۔ مسجد ہے، کوئی فیشن ہال نہیں ہے۔ یہاں عبادت کی غرض سے جاتے ہیں۔اس لئے یہاں جب آئو تو خالصتاً اللہ کی خاطر اُس کی عبادت کرنے کی خاطر یا اُس کا دین سیکھنے کی خاطر آئو۔ یہی رویہ، یہی طریق جماعتی فنکشن میں ،اجلاسوں میں اجتماعوں وغیرہ پر بھی ہونا چاہئے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا جماعت پر احسان ہے کہ بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو الحمدللہ جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں اور قربانی کی ایسی اعلیٰ مثالیں قائم کرتی ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی اور اپنے زیور اُتار اتار کر جماعت کے لئے پیش کرتی ہیں۔ مختلف چندوں میں ،تحریکوں میں دیتی ہیں۔ لیکن وہ جو نمودونمائش کی طرف چل پڑی ہیں، دنیاداری میں پڑ گئی ہیں وہ خود اپنے آپ کو دیکھیں اور اپنا محاسبہ کریں۔ پھر یہ ہے کہ بعض عورتوں کو دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کی عادت ہوتی ہے۔ باتیں سُننے کے لئے تجسّس ہوتا ہے۔ اس کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ کسی طرح کوئی بات پتہ لگ جائے۔ لیکن پوری طرح اس بات کا علم تو نہیں پاسکتیں۔ نتیجۃً یہ ہوتا ہے کہ بدظنی پیدا ہوتی ہے۔ پھر ایک نیا فساد شروع ہوجاتا ہے۔ پھر اس بدظنی کے نتیجے میں بغض، کینے، حسد شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر اپنے دلوں سے نکل کراپنے گھر والوں کے دلوں میں یہ حسد اور کینے چلے جاتے ہیں۔ پھر ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا نہ ختم ہونے والا ایک فساد شروع ہوجاتا ہے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے کہ بدظنی سے بچو۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :ظن سے بچو کیونکہ ظن سب سے جھوٹی بات ہے۔ اور تجسس نہ کرواور کسی بات کی ٹوہ میں نہ لگے رہو اور دنیا طلبی میں نہ پڑو اور تم حسد نہ کرو اور تم بُغض نہ رکھو اور باہمی اختلاف میں مبتلا نہ ہو جائو اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جائو۔(مسلم ۔باب تحریم الظن ،بخاری کتاب الادب )
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اس سلسلہ میں عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ غیبت کرنے والے کی نسبت قرآنِ کریم میں ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے‘‘۔
فرمایا کہ: ’’عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے۔ آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اُٹھ کر وہی کام شروع کردیتی ہیں۔ لیکن اس سے بچنا چاہئے۔ عورتوں کی خاص سورۃ قرآنِ شریف میں ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۹ ۔جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ احمدی عورت کو اس سے محفوظ رکھے۔
ایک اور اہم بات جس کی اس زمانے میں خاص طور پر بہت ضرورت ہے، وہ پردہ ہے۔ اور یہ پردہ عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے اور مردوں کے لئے بھی۔ اس لئے غضِّ بصر کا حکم ہے۔غضِّ بصر ہے کیا؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مُراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ اُن نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظراندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیرمحل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچالینا اور دوسری جائزالنظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں‘‘۔یعنی نیم آنکھ سے دیکھنا۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۴۴ ۔ )
پھر حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ’’یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے اگر کسی زمانے میں پردے کی رسم نہ ہوتی تو اس زمانے میں رسم ضرور ہونی چاہئے‘‘۔فرمایا کہ اگر کسی زمانے میں پردے کی ضرورت نہ بھی ہوتی تو اس زمانے میں ضرور ہونی چاہئے۔’’ کیونکہ یہ کل جُگ ہے‘‘۔ یعنی آخری زمانہ ہے ۔’’اور زمین پر بدی اور فسق و فجور اور شراب خوری کا زور ہے اور دلوںمیں دہریہ پن کے خیالات پھیل رہے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے احکام کی عظمت دلوں سے اُٹھ گئی ہے۔ زبانوں پر سب کچھ ہے اور لیکچر بھی منطق اور فلسفہ سے بھرے ہوئے ہیں مگر دل روحانیت سے خالی ہیں۔ ایسے وقت میں کب مناسب ہے کہ اپنی غریب بکریوں کو بھیڑیوں کے بنوں میں چھوڑ دیا جائے‘‘۔
یہاں عورت کو بکریوں سے اور بھیڑیے کو گندہ معاشرے سے تشبیہ دی ہے ۔ دیکھ لیں اب ہم حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی زندگی کے زمانے سے مزید سو سال آگے چلے گئے ہیں تو اب اس کی کس قدر ضرورت ہے۔ نہ مغرب محفوظ ہے اور نہ مشرق محفوظ ہے۔ ذرا گھر سے باہر نکل کر دیکھیں تو جو کچھ حضرت اقدس مسیح موعود؈ ؑ نے فرمایا ہے آپ کو نظر آجائے گا۔ پھر بے احتیاطی کیسی ہے۔ لاپرواہی کیسی ہے۔ سوچیں غور کریں اور اپنے آپ کو سنبھالیں۔ لیکن بعض مرد زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ان کو بھی یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ قید کرنا مقصد نہیں ہے، پردہ کرانا مقصد ہے۔
اس بارے میں حضرت اقد س مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غضِّ بصر کریں۔ جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے۔ یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔ افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے۔ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔ اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں۔ اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوںکے کیسے شرمناک نظارے بیان کئے جاتے ہیں۔
اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مُراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے ۔قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔ وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے۔ وہ بیشک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔ مساوات کے لئے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں۔ اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔ اسلام شہوات کی بِنا کو کاٹتا ہے۔ یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں۔ یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا پردہ داری یا پردہ دری کا۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۹۷۔۲۹۸)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ،حضرت امّ المومنین کو کس حد تک پردہ کرواتے تھے یا کیا طریق تھا۔ اس بارہ میں روایت ہے کہ
:’’ حضرت ام المومنین کی طبیعت کسی قدر ناساز رہا کرتی تھی۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا:
’’ دراصل مَیں تو اس لحاظ سے کہ معصیت نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاًجائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ بہار کی ہوا کھاؤ۔ گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں۔ علاوہ اس کے آنحضرتﷺ حضرت عائشہ ؓ کو لے جایا کرتے تھے ۔جنگوں میں حضرت عائشہ ساتھ ہوتی تھیں۔ پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے۔ یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلیدسے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں ۔حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہادیا ہے۔ اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ غرض ہم دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۵۷۔۵۵۸ )
پس خلاصۃً بعض اہم امور مَیں نے بیان کردئے اور وقت کی رعایت کے ساتھ اتنا ہی بیان ہوسکتا تھا۔ بہت سی باتیں میں نے چھوڑ بھی دی ہیں یا مختصراً بیان کی ہیں۔ ان سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اسلام جو پابندیاں عورتوں پر لگاتا ہے یا بعض احکام کا پابند کرتا ہے وہ ایک تو آپ کی عزت، احترام اور تکریم پیدا کرنا چاہتا ہے ۔دوسرے معاشرہ کو پاک اور جنت نظیر بنانا چاہتا ہے۔ فسادوں کو مٹانا چاہتا ہے۔ آپ جائزہ لے لیں جہاں بھی مردوں اور عورتوں کی، چاہے وہ عزیز رشتہ دار ہی ہوں، بے حیا مجالس ہیںوہاں سوائے فساد کے اور کچھ نہیں۔ اور اگر مغرب اس کو عورت کی آزادی کے سلب کرنے کا نام دیتا ہے تو دیتا رہے۔ آپ یک زبان ہو کر کہیں کہ اگر یہ بے حیائی ہی تمہاری آزادی ہے تو اس آزادی پر ہزار لعنت ہے۔ ہم تو صالحات میں سے ہیں اور صالحات ہی رہنا چاہتی ہیں۔ تم نے بھی اگر اپنی عزتوں کی حفاظت کرنی ہے، اپنا احترام معاشرے میں قائم کرنا ہے تو آئو اوراس حسین تعلیم کو اپنائو۔ خدا کرے کہ یہ نام نہاد آزادی کی چکاچوند چاہے وہ مغرب میں ہو یا مشرق میں کبھی آپ کو متأثر کرنے والی نہ ہو اور جماعت میں صالحات اور عابدات پیدا ہوتی چلی جائیں۔ اے اللہ تو ہمیشہ ہماری مدد فرما۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں