جلسہ سالانہ جرمنی2005ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

سیدنا حضورانور خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب
برموقع جلسہ سالانہ جرمنی27 ؍ اگست 2005ء بروز ہفتہ بمقام مئی مارکیٹ ۔ منہائیم ( جرمنی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓے اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَانِسَآء مِنْ نِّسَآء عَسٰٓے اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ۔ وَلَا تَلْمِزُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۔ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ۔ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۔ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ ۔ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْم ۔ یٰٓایُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہَ اَتْقٰکُمْ ۔ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (سورۃ الحجرات 14-12)

ان آیات کا ترجمہ ہے : ’’کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم میں سے کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے ۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور نہ عورتیں، عورتوں سے تمسخر کریں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔ اے لوگو !جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسّس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ا ور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اے لوگو !یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے۔
یہ ہے وہ بنیادی تعلیم جو اگر معاشرے میں رائج ہو جائے تو یہ دنیا بھی انسان کے لئے جنت بن جائے۔ عورتوں کی آبادی عموماً دنیا کے ہر ملک میں مردوں سے زیادہ ہے۔ اگر عورت کی اصلاح ہوجائے اور تقوی پر قائم ہو جائے، معاشرہ میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے لگ جائے تو بہت سے فساد جنہوں نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہوا ہے ختم ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں بعض برائیوں سے رکنے اور تقویٰ پر قائم ہونے کی تلقین فرمائی ہے۔ ان میں خاص طور پر عورتوں کا نام لے کر انہیں مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اے عورتو! یہ برائیاں نہ کرو۔یہ عورت کی فطرت میں زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ انسان کی فطرت کو کون جان سکتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیونکہ یہ عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ عموماًاپنی بڑائی بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے،دوسرے کو اپنے سے کمتر سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لئے اس عمومی نصیحت کے ساتھ جو مومنوں کو کی گئی ہے کہ کسی قوم کو حقیر نہ سمجھو کیونکہ اللہ کے نزدیک کوئی قوم بری نہیں۔ تم جس کو بُرا سمجھ رہے ہو، ہوسکتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بہتر ہو۔ہاں بعض لوگوں کے بعض فعل ہیں جو اللہ کی راہ سے بغاوت کرنے والوں کے فعل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان افعال کی وجہ سے ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن یاد رکھو کہ یہ صرف خدا تعالیٰ کو پتہ ہے وہی ہے جو غیب کا علم رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون برا ہے، کون اچھا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کن کے دلوں میںکیا بھرا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آئندہ کس نے کس حالت میں ہونا ہے۔ تم جو اپنے آپ کو بہتر سمجھ رہی ہو، ہو سکتا ہے کہ تمہارے میں برائیاں پیدا ہو جائیں اور جو برائیاں کرنے والا ہے ہو سکتا ہے اسے نیکیاں کرنے کی تو فیق مل جائے۔ اس لئے بلاوجہ کسی کو تحقیر سے نہ دیکھو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ (النمل:66)

(ترجمہ) پھر تو کہہ دے کہ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق بھی ہے خدا کے سوا ان میں سے کوئی غیب کو نہیں جانتا۔
پس جب تم کسی کے بارے میں علم نہیں رکھتے تو پھر بلاوجہ اس کے بارے میں رائے زنی کرنے کا، اس کے بارے میں تبصرے کرنے کا بھی تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔ تم جو دوسرے کو حقیر سمجھ کر ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی کوشش کرتی ہو بعض دفعہ پبلک میں بیٹھ کر، لوگوں میں بیٹھ کر، مجلس میں بیٹھ کر دوسروں کے مذاق اڑائے جاتے ہیں ۔یا بعض دفعہ بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے طنز کر دیتی ہیں۔ ایسی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتی ہیں جو اگلے کی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اس سے جہاں معاشرہ میں فساد پیدا ہوتا ہے وہاں خود اس لحاظ سے بھی وہ عورت گناہگار بن رہی ہوتی ہے یہ کہہ کر کہ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں، یہ تو ہے ہی ایسی اور ویسی، اس نے تو ایسی حرکتیں کرنی تھیں۔ اس کا تو سارا خاندان ہی ایسا ہے۔ تو یہ دعوے بھی اگر ایک باریک نظر سے دیکھا جائے تو خدائی کے دعوے ہیں۔ گویا یہ اظہار ہے کہ میں غیب کا علم رکھتی ہوں۔ پس ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ نیکی اس میں ہے کہ ان برائیوں کو چھوڑ دو۔ ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسانے چھوڑ دو۔ ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے چھوڑ دو۔ ایک دوسرے کی برائیاں کرنی چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو ورنہ یاد رکھو کہ یہ باتیں تمہیں خدا سے دور کردیں گی۔ ان باتوں میں مبتلا ہوکر تم مزید گند میں پڑتی چلی جاؤگی اور ان حرکتوں کی وجہ سے تم فاسق کہلاؤگی۔
پھر بعض نام رکھ دیتی ہیں۔ اس میں یہ بھی فرمایا گیا کہ ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے نہ پکارو۔ ایسے نام جو دوسرے کے نام کو بگاڑ کے رکھ دیئے جائیں۔ یہ چیزیں بھی ایسی ہیں جو ایمان میں کمزوری کا باعث بنتی ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا ایسی حرکتیں کرنے کے بعد تمہاری ایمانی حالت جاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں موقع دیا کہ تم دوہرے انعاموں اور فضلوں کی وارث بنو۔ ایک انعام آنحضرتﷺ کو مان کر تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اور ایک انعام حضرت مسیح موعودؑ کو مان کر تمہیں اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوا۔ پس اس انعام کی قدر کرو۔ نیکیوں میں آگے بڑھو اور ان بیہودہ اور دنیا داری کی باتوں میں اپنے آپ کو غرق نہ کرو۔ تمہارا مقام اب اللہ کی نظر میں بلند ہوا ہے، اس کو بلند کرتی چلی جاؤ۔ یہ اعزاز جو تمہیں زمانے کے امام کو مان کر ملا ہے اس اعزاز کو برقرار رکھنے کی کوشش کرو۔ اس تعلیم پر عمل کرو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے۔ اپنے اخلاق اعلیٰ کرو کہ اسی میں بڑائی ہے۔ اور یہ اللہ کے فضلوں کے ساتھ بلند ہوگا۔ اور اللہ کے فضلوں کے ساتھ اس صورت میں بلند ہوگا جب تم عاجزی دکھاؤگی۔ جب تم ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھو گی جب تم اپنی جھوٹی اَناؤں اور جھوٹی عزّتوں کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستہ پر چلنے کی کوشش کرو گی۔
پھر آگے اللہ تعالیٰ نے مزید چند باتوں کی وضاحت فرمائی کہ ایک دوسرے کی عزت قائم کرنے کے لئے یہ باتیں بھی ضروری ہیں۔ معاشرے کو فساد سے پاک کرنے کے لئے یہ باتیں بھی ضروری ہیں۔ ان میں سے ایک ہے بد ظنی۔ اور بد ظنی ایسی چیز ہے جس سے نہ صرف تم دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہو بلکہ اپنی روحانی ابتری کے سامان بھی پیدا کررہی ہو۔ اور بد ظنی پیدا ہوتی ہے تو دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کی بھی عادت پڑتی ہے، تجسس پیدا ہوتا ہے۔ ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں رہنے اور اس خیال میں رہنے کی وجہ سے کہ دوسری عورت میرے بارے میں کیا خیال رکھتی ہے یا فلاں شخص میرے بارے میں کیا خیال رکھتا ہے۔ یاں فلاں عزیز میرے بارے میں کیا خیال رکھتا ہے۔ یا فلاں دو عورتیں اکٹھی بیٹھی ہوئی ہیں یہ ضرور میرے خلاف، میرے متعلق فلاں بات کر رہی ہوں گی۔ تبصرہ کر رہی ہوں گی۔ اور ایک ایسی بات جس کا کوئی وجود ہی نہ ہو اس کو پکڑ کر ان دو باتیں کرنے والی عورتوں کے یا دو اکیلی بیٹھی عورتوں کے خلاف دل میں وبال اٹھتا ہے، دل میں بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور یہ غصہ اور یہ وبال جو ہے پھر دوسرے کو نقصان پہنچانے سے پہلے اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں اللہ کے حکم کی نافرمانی کرکے جو گناہ سر لے رہی ہوتی ہیں وہ تو ہے ہی، لیکن اس بد ظنی کی وجہ سے ، غصہ کی وجہ سے، دلوں میں بے چینی کی وجہ سے بلاوجہ کی اپنی صحت بھی برباد کررہی ہوتی ہیں۔ اس فکر میں اپنے بلڈ پریشر بھی ہائی (High) کررہی ہوتی ہیں۔ اس زمانے میں دنیا کے اَور تھوڑے جھمیلے ہیں، اورمسائل ہیں جو ان بد ظنیوں کی وجہ سے زبردستی کے مسائل اپنے اوپر سہیڑ ے جائیں اور اپنی صحت برباد کی جائے۔
اور پھر ایک عورت کیونکہ ایک بیوی بھی ہے، ایک ماں بھی ہے۔ اس وجہ سے اپنے خاوند کے لئے بھی مسائل کھڑے کررہی ہوتی ہے، اپنے بچوں کی تربیت بھی خراب کررہی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان بدظنیوں کا پھر گھر میں ذکر چلتا رہتا ہے۔ بچوں کے کان میں یہ باتیں پڑتی رہتی ہیں وہ بھی ان باتوں سے متأثر ہوتے ہیں، اثر لیتے ہیں۔ ان کی اٹھان بھی اس بدظنی کے ماحول میں ہوتی ہے اور یوں بڑے ہو کر وہ بھی اس وجہ سے اس برائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تو ایسی مائیں اس قسم کی باتیں بچوں کے سامنے کرکے جس میں فساد کا خطرہ ہو جو ایک دوسرے کے متعلق دلوں میں رنجشیں پیدا کرنے والی ہو، جو بدظنیوں میں مبتلا کرنے والی ہو، جن سے کدورتیں پیدا ہونے کا خطرہ ہو، جہاں اپنے بچوں کو برباد کررہی ہوتی ہیں وہاں جماعت کی امانتوں کے ساتھ بھی خیانت کررہی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان بد ظنیوں اور پھر ان کی وجہ سے دوسرے فریق کے بارے میں جو اس کے پیچھے باتیں ہوتی ہیں اپنے گروپ میں بیٹھ کر یا اپنی مجلس میں بیٹھ کر جو تبصرے ہوتے ہیں اس کو غیبت کہا ہے۔ اور فرمایا یہ غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔ اور کون پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پھر فرمایا تم پسند نہیں کرتے کہ تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ، تم اس سے کراہت کرتے ہو۔ پس ان باتوں سے پرہیز کرو،ان سے بچو۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر جو انعام کیا ہے، تمہیں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں شامل ہونے کی توفیق دی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا شکر یہ ہے کہ تم اس کا تقویٰ اختیار کرو، اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کرو۔ اللہ تعالیٰ تو بار بار رحم کرتے ہوئے اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ پس بدظنی، تجسّس اور غیبت کی بیماریوں کو ترک کرتے ہوئے ہر ایک کو اللہ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مغفرت کا طالب ہونا چاہئے، اس سے رحم مانگنا چاہئے، تاکہ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ تقویٰ پر چل سکیں اور تقوی پر چلنے والوں کی اللہ کے نزدیک بہت قدر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نزدیک تو وہی لوگ معزز ہیں جو ان برائیوں سے بچنے والے اور تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ باقی رہے تمہارے قبیلے یا تمہارے خاندان یا تمہاری قومیتیں یہ توصرف ایک پہچان ہے۔ جب ہم نے اس زمانے کے مسیح و مہدی کو مان لیا۔ حَکَم وعدل کو مان لیا۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کو مان لیا۔ جب ہم اس دعویٰ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں کہ ہم نے دنیا کو امت واحدہ بنانا ہے، ایک ہاتھ پر اکٹھے کرنا ہے، ایک امت بنانا ہے۔ تو پھر یہ قومیتیں اور یہ قبیلے اور یہ خاندان کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ پہچان تو ہے کہ ہم کہیں کہ فلاں جرمن ہے، فلاں پاکستانی ہے اور فلاں انڈونیشین ہے، اور فلاں افریقن ہے، گھانین ہے، نائیجیرین ہے۔ لیکن ایک احمدی میں کسی قوم کا ہونے کی وجہ سے بڑائی نہیں آنی چاہئے۔یا کسی احمدی کو ،کسی بھی قوم کے احمدی کو، کسی دوسری قوم کے احمدی کو دیکھ کر یہ احساس نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ یہ ہم سے کمتر ہے۔ ایک پاکستانی احمدی کا کام ہے کہ ایک افریقن احمدی کو بھی اسی طرح عزت دے جس طرح ایک جرمن احمدی کی وہ عزت کرتا ہے یا کسی دوسرے یورپین ملک کے باشندے کی عزت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک احمدی جو یورپین ہے، اسی طرح افریقن کی یا ایشین کی عزت کرے جس طرح وہ یورپین کی کرتا ہے۔ جب یہ معاشرہ قائم ہوگا تو خدا کی رضا حاصل کرنے والا معاشرہ ہوگا۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ خود انصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے۔ وہ خود عدل ہے، عدل کو دوست رکھتا ہے۔ اس لئے ظاہری رشتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ جو تقویٰ کی رعایت کرتا ہے اسے وہ اپنے فضل سے بچاتا ہے۔ اور اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اسی لئے اس نے فرمایا ہے کہ

’’ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُم‘‘ ۔

(الحکم جلد 6نمبر 37مورخہ7؍اکتوبر1902ء صفحہ 7)
پس آج ہر عورت اور مرد کو تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو، اس زمانے کے امام کو ماننے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور انصاف اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہی چیز ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کا دوست بنائے گی۔ اور جس کا اللہ دوست بن جائے اس کو دین و دنیا کی نعمتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔
عورتوں کو، احمدی عورتوں کو خاص طور پرمَیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جیسا کہ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ آپ کی گودوں میں مستقبل کی مائیں اور مستقبل کے باپوں نے پرورش پانی ہے اور پارہے ہیں ۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق آج کی مائیں تقویٰ پر قدم ماریں گی تو احمدیت کی آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ کررہی ہوں گی۔ پس اس طرف ہر احمدی عورت کو غور کرنا چاہئے۔ یہ چند مثالیں جو ان آیات میں دی گئی ہیں اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف برائیوں کا ذکر ہے جن کو چھوڑنے کی ہدائت فرمائی گئی ہے۔ مختلف نیکیوں کا ذکر ہے جن کو اختیار کرنے کی ہدائت فرمائی گئی ہے۔ پس ان سب نیکیوں کو اپنانا اور ان سب برائیوںکو چھوڑنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ اور آج میں آپ عورتوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے اوپریہ فرض کرلیں کہ آپ نے ہر برائی کو ترک کرنا ہے اور ہر نیکی کو اپنانا ہے تو آپ مردوں کی بھی اصلاح کا باعث بن رہی ہوںگی۔ بچوں کی اصلاح کا بھی باعث بن رہی ہوں گی۔ آئندہ نسلوں کی اصلاح کا بھی باعث بن رہی ہوں گی۔
ایک دو برائیوں کا اور بھی میں ذکر کردیتا ہوں جو قرآن کریم میں درج ہیں، زیادہ تو نہیں کرسکتا۔مختلف برائیوں کا ذکر ہے جو تقویٰ سے دور لے جانے والی ہیں۔ مثلاً جیسے فرمایا

فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 31)

کہ پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔کیونکہ جھوٹ شرک کی طرف لے جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا خیال کرتا ہے کہ جھوٹ بول کر یا غلط بیانی کر کے اپنی چالا کی سے میں نے اپنی جان بچالی ہے یا اپنی جان بچا لوں گا۔ یا فلاں شخص سے اپنے مفاد حاصل کرلوں گا۔ لوگوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس اپنی اولاد کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہر ماں اپنے سچ کے معیار کو بھی بلند سے بلند تر کرے۔ ہلکی سی بھی ایسی بات اس سے نہیں ہونی چاہئے، کوئی ایسی غلط بیانی بھی نہیں ہونی چاہئے جس سے بچے کے سچ کا معیار متأثر ہو۔
ایک دفعہ ایک عورت نے جو آنحضرتﷺ کی صحابیہ تھیں اپنے چھوٹے بچہ کو جو کھیلتا ہواباہر جا رہا تھا آواز دے کر کہا، آنحضرتﷺ بھی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ادھر آؤ مَیں تمہیں ایک چیز دوں ۔ بچہ واپس مڑا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اسے کیا دینے کے لئے تم نے بلایا ہے۔ تو ماں نے کہا کہ اسے مَیں کھجور دینا چاہتی ہوں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم جھوٹ بولتیں۔ (الدر المنثور ۔ زیر سورۃ التوبۃ) تو اس حد تک احتیاط کا حکم ہے۔
ہم اکثر یہ حدیث سنتے ہیں کئی دفعہ مَیں بیان بھی کرچکا ہوںاور بچوں کو بھی سناتے ہیں۔ لیکن جب اپنے پر موقع آتا ہے تو غلط بیانی سے کام لے لیتے ہیں۔ بعض کی تو یہ عادت بن جاتی ہے اور بن گئی ہے کہ وہ غلط اور جھوٹی بات کہہ جاتے ہیں اور احساس نہیں ہوتا کہ جھوٹ کہا ہے۔ بات کردیتے ہیں اور بات کر کے پھر اگر اس سے پوچھو کہ فلاں بات کی ہے؟تو کہتے ہیں نہیں، مَیں نے تو نہیں کی۔ فوراً مُکر بھی جاتے ہیں یا یاد نہیں رہتا یا یہ احساس ہی نہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ تو یہ جو عادت ہے اس کو بھی ترک کرنا چاہئے۔ جو بات کہیں جیسے مرضی حالات ہو جائیں، جیسی مرضی آفت آجائے، مشکل آجائے اور سزا کا خطرہ ہو ہمیشہ سچ کا دامن پکڑے رہنا چاہئے۔ تو جب اس حد تک آپ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں گی اور اس بیماری کو دور کرنے کی کوشش کریںگی، جب اس حد تک آپ کے عمل میں سچائی پیدا ہوجائے گی تو جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، جومَیں نے حدیث میں بیان کیا ہے یہ سچائی کا معیار ہونا چاہئے تو غیرمحسوس طریق پر آپ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کررہی ہوں گی جہاں بچے تقویٰ اور سچائی کے ماحول میں پرورش پارہے ہوں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:’’ قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے‘‘۔ گند قرار دیا ہے۔ ’’جیسا کہ فرمایا ہے

فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 31)

دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے۔ اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے۔ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اَور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگرجھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جاوے تو جلدی سے دور نہیں ہو تا ۔ مدت تک ریاضت کریں تب جاکر سچ بولنے کی عادت ان کو ہوگی۔‘‘ (الحکم جلد 6نمبر31مورخہ 31؍اگست1902ء صفحہ2)
پس ہر احمدی عورت کو جھوٹ کے خلاف بھی جہاد کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو اتنا سچا بنالیں کہ آپ کا ماحول آپ پرکبھی یہ کہہ کر انگلی نہ اٹھاسکے کہ اس نے فلاں وقت میں فلاں بات جو کہی تھی اس میں یہ چیز غلط تھی۔ آپ کا ہر ہر لفظ اور ہر فقرہ اور ہر لفظ سچائی سے بھرا ہوا ہونا چاہئے۔ سچائی کی ایک مثال ایک احمدی عورت کو ہونا چاہئے۔ آپ کی سچائی کی دھاک اس قدر ہر ایک پر بیٹھنی چاہئے کہ ہر ایک آنکھ بند کر کے، بغیر سوچے سمجھے آپ کی ہر بات کا اعتبار کرنے والا ہو۔ اس کو یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو کہ اس نے کبھی غلط بیانی کرنی ہے۔ اس حد تک آپ کے سچائی کے معیار ہونے چاہئیں۔ جب یہ معیار آپ حاصل کرلیں گی تو جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ جماعت احمدیہ کی اگلی نسلوں کے معیارِ سچائی جو ہیں وہ بھی اس قدر بلند ہو جائیں گے جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اور جب سچائی اتنی پھیل جائے کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تو وہی دور ہوگا جب کو ئی روک آپ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ آپ پھیلتے چلے جائیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے۔ اور کوئی نہیں جو آپ کے پیغام کو روک سکے۔ کوئی نہیں جو احمدیت کی ترقی کو روک سکے۔ اور یہی سچائی کے معیار ہیں جو اتنے بلند ہو جائیں تو اس کے سامنے جیسا کہ میں نے کہا کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ اس کے سامنے دنیا کا ہر بت پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ اور جب آپ اپنی سچائی کے اس قدر معیار بلند کرلیں گی تو خدا کے ہاں بھی صدّیقہ لکھی جائیں گی۔
ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرتﷺنے فرمایا: تمہیں سچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان سچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاںتک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدّیق لکھا جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا جھوٹ بولنے والا کذّاب لکھا جاتا ہے۔ (ابوداؤد کتاب ا لأدب باب التشدید فی الکذب)
اللہ تعالیٰ آپ سب کو یہ صدق کے معیار حاصل کرنے کی توفیق دے ۔اور کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ اللہ کے ہاں کو ئی احمدی عورت کذاب لکھی جانے والوں میں ہو۔
ایک بیماری جس نے معاشرہ میں فساد پیدا کیا ہوا ہے، خیانت بھی ہے۔ خیانتوں کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ جس حد تک امانتوں کے معیار بلند ہونے چاہئیں وہ معیار بلند نہیں ہوتا۔ تو ہر احمدی کو اپنی امانت کے معیار بھی اتنے بلند کرنے چاہئیں کہ کبھی اس سے خیانت کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔ اول تو جھوٹ چھوڑنے سے ہی معیار اتنے بلند ہو جاتے ہیں کہ ہر دوسری برائی خودبخود چھوٹتی چلی جاتی ہے۔ لیکن قرآن کریم میں اس کا بھی ذکر اس طرح آیا ہوا ہے اس لئے مَیں ذکر کررہا ہوں۔
تو اللہ تعالیٰ نے خیانت کرنے والے سے ناپسندیدگی کا اظہار یوں فرمایا ہے کہ

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا (النسآء:108)

یقیناً اللہ تعالیٰ خیانت میں بڑھے ہوئے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔ پس اللہ کا محبوب اور اس کا پسندیدہ بننے کے لئے اور اس کا دوست بننے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہر قسم کی خیانت سے پاک کریں ۔ اپنے نفسوں کو بھی خیانت سے پاک کریں۔ اپنے آپ کو بھی دھوکہ نہ دیں۔ اپنے خاوند اور بچوں کو بھی دھوکہ نہ دیں۔ اپنے دوستوں کواور اپنے ماحول میں بھی کبھی دھوکہ نہ دیں۔ کسی بھی معاملہ میں کبھی کسی کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل فرما کر جو احسان کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک احمدی کے لئے جو شرائط بیعت رکھی ہیں ان پر عمل کریں۔ ان کو پڑھیں اور غور کریں اور دیکھیں کہ کس حد تک آپ نے وہ معیار حاصل کرنے ہیں اور اپنے آپ کوپاک کرنا ہے۔ اپنی بہنوں کے حقوق ادا کریں۔ اپنے ماحول کے حقوق ادا کریں۔ اپنے خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔ اپنے بچوں کے حقوق ادا کریں۔ جن پر جماعتی ذمہ داریاں ہیں وہ اپنی جماعتی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ جو ملک کے قوانین ہیں ان کی پابندی کریں اور ان سب نیکیوں پر نہ صرف خود قائم رہنا ہے بلکہ اپنی اولادوں کوبھی ان پر قائم کرنا ہے۔ ان کی بھی نیک تربیت کرنی ہے۔ ان کی بھی جماعت کی امانت سمجھ کر پاک تربیت کرنی ہے۔ تبھی آپ اُن لوگوں میں شامل کہلا سکیں گی جو خیانت کرنے والے نہیں بلکہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ اور یہ سب باتیں نیک اعمال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حاصل ہوں گی۔
پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کریں ۔جب آپ کی عبادتوں کے معیار بلند ہوںگے تو تقویٰ کے معیار بھی بلند ہوںگے۔ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف مزید توجہ پیدا ہو گی۔ آپ کی نسلیں نیکیوں پر قدم مارنے والی ہوںگی۔ اور یوں وہ بھی آپ کے لئے مستقل دعاؤں کا ذریعہ بن رہی ہوںگی۔ اللہ تعالیٰ سب کو تقویٰ کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ لوگوں کو وہ فہم و ادراک عطا فرمائے جس سے آپ یہ سمجھ سکیں کہ احمدی ہونے کے بعد ایک احمدی عورت پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں