جلسہ سالانہ سکنڈے نیویا 2005ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

جلسہ سالانہ سکنڈے نیویا 2005ء (Scandinavia) میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا وادعوہ خوفا و طمعا ان رحمۃاللہ قریب من المحسنین۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری اس تقریر کے ساتھ Scandinavian ممالک کا یہ جلسہ سالانہ اختتام کو پہنچے گا۔ ان دنوں میں آپ نے مختلف موضوعات پر تقاریر سنیں اور وہ یقینا آپ کی روحانی ترقی کا باعث بنی ہوں گی اور یہ دن مجھے امید ہے آپ کو اللہ تعالیٰ کاقرب پانے کی طرف لے جانے والے ثابت ہوئے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ حقیقت میں آپ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور تقویٰ کے حصول کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہو اور یہ توجہ آپ کے دلوں میں دائمی اور ہمیشہ رہنے والی توجہ ہو جس کی وجہ سے آپ سب روحانیت میں ترقی کرتے چلے جانے والے ہوں لیکن روحانیت میں ترقی جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا اور آپس میں صلح صفائی سے رہنا بھی ضروری ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان جلسوں کا ایک مقصد آپس میں محبت و مودت کو بڑھانابھی قرار دیا ہے۔ پس اس میں بڑھنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے برداشت کا مادہ پیدا کرنے ایک دوسرے سے احسان کا سلوک کرنے کی طرف بھی ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے تبھی اللہ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کرنے والے ہوں گے تبھی روحانیت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں گے تبھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان تین دنوں میں کوئی فائدہ اٹھایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ہمیں متعدد جگہ اس بارے میں نصیحت فرمائی ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق تبھی ثابت ہو گا جب اس کی مخلوق سے بھی ہمدردی ثابت ہو گی۔ آپس کے تعلقات بہتر ہوں گے۔ آپ فرماتے ہیں ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف نہ رکھے اور ان دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے بات نہیں بنتی۔ جیسا کہ میں نے کہا آپ نے فرمایا جیسا کہ میں نے کہا حقوق بھی دو قسم کے ہیں حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے خواہ وہ بھائی ہے یا باپ ہے بیٹا ہے مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی ہے۔ تو ایک بنیادی بات تو آپ نے یہ فرما دی کہ بات تبھی بنے گی جب ہر وقت ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف رکھو گے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور یہ سمجھتے ہو کہ اس جلسہ میں اگر ہمارے اندر کوئی روحانی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور اس کو جاری رکھنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معاملہ صاف رکھنا ہو گا اور معاملہ صاف تب ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرو گے اور بندوں کے حقوق میں تمام بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ کسی سے دھوکہ نہیں کرنا کسی کو تکلیف نہیں دینی کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانی اور نہ صرف یہ کہ یہ کام نہیں کرنے بلکہ ان کو اپنے سے فیض پہنچانا ہے ان کے لئے ایسا وجود بننا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں تو جب عمومی طور پر اللہ کی مخلوق سے اس قدر ہمدردی کا حکم ہے تو اپنوں کے ساتھ جو دینی بھائی ہیں جو احمدی ہیں چاہے وہ رشتہ میں رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار ہوں ان سے کس قدر محبت و شفقت کا سلوک ایک احمدی کو کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے رحماء بینھم کہ اللہ کو ماننے والے آپس میں ایک دوسرے سے رحم اور محبت کا سلوک کرنے والے ہیں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر شفقت کرنے والے ہیں تو ایک احمدی کو دوسرے احمدی کے جذبات کا ان کی تکلیفوں کا کس قدر خیال رکھنا چاہئے۔ پس یہ روح ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہماری اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا اور اس عہد کے ساتھ مانا یہ وعدہ کرتے ہوئے مانا کہ ایک دوسرے سے سچی ہمدردی رکھیں گے تو ایک احمدی کو کس قدر آپس میں محبت اور پیار سے رہنا چاہئے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے۔ ایک احمدی کو کس قدر اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں ایک دوسرے کے لئے برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہے اور نہ صرف برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہے بلکہ احسان کا سلوک کرنا ہے۔ جب اس سوچ کے ساتھ آپس کے تعلقات قائم ہوں گے ایک دوسرے سے احسان کا سلوک کرنا ہے اور تمام معاملات میں نہ صرف درگذر اور عفو سے کام لینا ہے بلکہ بڑھ کر شفقت کرنی ہے احسان کا سلوک کرنا ہے تو تبھی آپ اپنے اندر روحانی تبدیلیاں بھی پیدا کر سکتے ہیں اور تبھی آپ جماعتی طور پر بھی بحیثیت مجموعی بھی ترقی کی منازل بھی طے کر سکتے ہیں۔ ہر احمدی کو اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے اسے توفیق دی کہ وہ جماعت میں شامل ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک ہر نبی کو اس نے مانا ہے لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بتائی ہوئی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے آپ کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگیوں کو نہیں ڈھال رہے اور آپس میں محبت و پیار سے زندگیاں نہیں بسر کر رہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ناشکری ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ ایک احمدی پر جو احسان کیا ہے اس پر شکر گزار ہونا چاہئے۔ احمدی کو آپ لوگوں کو تو بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب جبکہ تم سچے اور پکے مسلمان ہو چکے ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کر چکے ہو ایک ایسی جماعت میں شامل ہو گئے ہو جس کے ماننے والوں نے یہ عہد کیا ہے کہ دنیا سے ہر قسم کے فساد کو دور کرنا ہے اور ہر جگہ ہر وقت محبتیں بکھیرنی ہیں تو پھر ہر فرد جماعت کو ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کسی وقت بھی اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے جو زمین میں فساد کا باعث بنے۔ ہر وقت یہ جائزہ لیتے رہیں کہ میں جماعت میں اس لئے شامل ہوا ہوں کہ نہ صرف خود حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا بنوں بلکہ میں نے دنیا کی بھی اصلاح کرنی ہے دنیا کو بھی بتانا ہے کہ جس مسیح موعود کو آنا تھا اور دنیا میںامن قائم کرنا تھا وہ آ چکا ہے اور اب ہم ہیں اس کو ماننے والے جو اس محبتوں کے پیغام کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں لیکن دنیا اگر آپ کا حال دیکھ کر آپ کو یہ کہے کہ میاں جس کو تو نے مانا ہے وہ شاید محبتوں کا پیغام دینے والا ہو لیکن تمہارے عمل ہمیں ایسے نظر نہیں آتے اس لئے پہلے اپنی اصلاح کرو۔ اگر ہمارے گھروں میں بے سکونی ہے میاں بیوی کے جھگڑے عروج پر ہیں اگر احمدی گھروں میں بچے ماں باپ سے بیزار ہیں اگر ایک احمدی کے چرکوں اور نوک جھوک سے یا اس کے ٹانگ کھینچنے کے عمل سے دوسرا احمدی محفوظ نہیں رہتا اگر کسی احمدی کا ہمسایہ چاہے وہ احمدی ہو یا غیر احمدی ہو اس سے تنگ ہے تو ہم اصلاح کرنے والے نہیں کہلا سکتے بلکہ فساد پیدا کرنے والے ہیں۔ پس ہر احمدی کو دنیا سے فساد دور کرنے کے لئے اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔ اپنی رنجشوں کو بھی مٹانا ہو گا اپنی اناؤں کو بھی ختم کرنا ہو گا اور نہ صرف یہ باتیں ختم کرنی ہوں گی بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اس کی جگہ محبتیں بکھیرنی ہوں گی ہر طرف محبتیں پھیلانی ہوں گی اور یہ سب کام کوئی شخص اپنے زور بازو سے نہیں کر سکتا۔ یہ سب کچھ اللہ کے فضلوں سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اس کے آگے جھکنا اور اس کے آگے گڑگڑانا ضروری ہے اور حقیقی گڑگڑانے کی صورت تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب اللہ کا خوف بھی دل میں ہو۔ عاجزی پر قدم مارنے والا بھی ہو۔ اللہ کے سامنے جب عاجزی دکھائے تو ساتھ یہ بھی خیال ہو کہ میں اللہ کے بندوں میں سے بھی سب سے زیادہ عاجز بندہ ہوں۔ اظہار نہیں ہونا چاہئے لیکن دل میں بہرحال یہ خیال ہونا چاہئے۔ جب عاجزی کی یہ شکل بنے گی تو پھر لوگوں سے تعلق میں بھی کسی قسم کی انا اور خود پسندی کی حالت نہیں رہے گی۔ لوگوں کا برا سوچنے کا خیال بھی نہیں آئے گا۔ کسی کو نقصان پہنچانے کا کبھی کوئی خیال نہیں آئے گا کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ جماعت میں ہر موقع پر ہر جگہ صرف میری ہی پروجیکشن ہوتی رہے میرا وجود ہی ظاہر ہوتا سامنے آتا رہے۔ یہ خیال نہیں آئے گا کہ دوسرا شخص میرے سے زیادہ بہتر کام کرنے والا ہے کہیں خلیفہ وقت کی نظر میں نہ آ جائے۔ اس لئے اس کی ٹانگ کھینچو۔ اس کو خلیفہ وقت کی نظروں سے گراؤ اس کو مرکز کی نظروں سے گراؤ۔ اگر یہ سوچ ہوئی تو پھر فساد پیدا کرنے والوں کی سوچ ہو گی یہ۔ یہ اصلاح کرنے والوں کی سوچ نہیں ہو سکتی اور پھر ایسے لوگ جتنی مرضی عاجزی سے لمبے لمبے سجدے کرتے رہیں اللہ تعالیٰ یہی ہمیں بتاتا ہے کہ یہ دکھاوے کے سجدے ہوتے ہیں بظاہر عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے جا رہے ہوتے ہیں لیکن یہ عاجزی کے سجدے نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ منہ پر مارے جانے والے سجدے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا وہ انسان کی کنہ تک سے واقف ہے وہ دلوں کا حال جانتا ہے وہ علیم ہے خبیر ہے اس کو بھی جانتا ہے جو ہمارے دلوں میں ہے چھپا ہوا۔ پس جب وہ سب کچھ جانتا ہے تو اس کے سامنے یہ کہہ کر نہیں جھکا جا سکتا کہ میں عاجز انسان ہوں جب اپنے بھائیوں سے اس کے رویے عاجزی والے نہ ہوں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے تو اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی اپنے رویے درست کرنے ہوں گے اور جب اپنے بھائیوں کے ساتھ رویے درست ہوں گے اور اللہ کا خوف بھی ہو گا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے میرے دل کا حال جانتا ہے میں نے اگر اس کی رضا حاصل کرنی ہے تو آپس کے تعلقات کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھنا ہے ہر قسم کی ذاتی انا سے محفوظ رکھنا ہے تبھی ایک انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ایسی حالت طاری ہو گی تبھی اللہ تعالیٰ میری سنے گا تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں سے میں شفقت و رحمت کا سلوک کرتا ہوں۔ یہ محبتیں بکھیرنے والے لوگ میری رضا سے حصہ پانے والے ہوتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کی غلطیوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے احسان کا سلوک کرنے والے لوگ میری رحمت کی آغوش میں آنے والے لوگ ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں لپٹ گیا ایک دفعہ آ گیا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کس طرح میرا بندہ کوئی نیکی کرے اور میں اسے نوازوں۔ صرف یہی نہیں کہ احسان کرنے والے اللہ کے قریب ہو گئے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ یحب المحسنین۔ کہ اللہ تعالیٰ یقینا احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ پس فساد نہ کرنا اور محبتیں بکھیرنا اور اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا یقینا انسان کو اللہ کا محبوب بنا دیتا ہے۔ دیکھیں کس کس طرح سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازنا چاہتا ہے کس طرح محبوب بناتا ہے یہ بندہ ہی ہے جو ناشکرگزاری کرتے ہوئے اور اپنی اناؤں اور نفس کی خواہشات کے جال میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کی ان رحمتوں اور محبتوں سے محروم ہو رہا ہوتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر احمدی اپنی جھوٹی اناؤں کو ختم کر کے اپنی نفسانی خواہشات کو ختم کرکے اپنے آپ کو عاجز بندہ سمجھتے ہوئے اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو آپس میں بغض کینہ اور اختلاف نہ کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا تمہارے دل پھٹ جائیں گے۔ پس ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ احمدی ہونے کے بعد ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اسلام کی تعلیم کا صحیح فہم اور ادراک حاصل ہوا ہے اور دوسری طرف اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ہمارے دل پھٹ رہے ہوں بغض اور کینے ہمارے دلوں میں پل رہے ہوں تو یہ دعوے جھوٹے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے ترقی کرنی ہے اور یہ ترقی کسی شخص کی چالاکی یا ہوشیاری سے نہیں ہونی بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہونی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وہی وارث بنیں گے جو تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں ہمیں بڑی واضح نصائح فرمائیں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں اور میرے ساتھ ۔ اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہو کر ان باتوں کی ہلکی سی جھلک بھی اگر کسی میں ہے تو اسے اپنے آپ کو اس سے پاک کرنا ہو گا اپنی اصلاح کرنی ہو گی ورنہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے تو بڑھنا ہے اور پھولنا ہے لیکن ان باتوں کو دل میں جگہ دے کر ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کہیں ہم آپ کی جماعت سے دور تو نہیں جا رہے۔ اس مقصد سے ہٹ تو نہیں رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے اور جب ہٹ رہے ہوں گے تو ان کے لئے بڑا انذار ہے۔ آپ فرماتے ہیں اپنے ماننے والوں کے لئے کہ وہ پنجوقت نماز باجماعت کے پابند ہوں وہ جھوٹ نہ بولیں وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں تکلیف نہ دیں وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد کا خیال بھی دل میں نہ لاویں غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم یعنی گناہ اور جرائم جو ہیں اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو۔ یعنی ایسی باتیں جو نہ کرنے والی ہوں نہ کہنے والی ہوں کسی بھی قسم کی بات ان میں موجود نہ ہو۔ کوئی ہلکا سی رمق بھی ان کے دل میں موجود نہ ہو برائی کی فرمایا اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں۔
فرماتے ہیں اتلاف حقوق اور بے جا طرفداری سے باز رہیں۔ اگر گہرائی میں ہم جا کر دیکھیں تو عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو دیکھنے کی بجائے جب یہ باتیں سنتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کے بارے میں کہا گیا۔ اگر گہرائی میں دیکھیں تو اپنے آپ کو سوچیں تو اپنے نفس کی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے اگر ہر کوئی اپنا جائزہ لے تبھی برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ دیکھیں کس درد کے ساتھ ایک ایک برائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گنوائی ہے۔ یہ کافی لمبی تفصیل ہے جن میں سے چند ایک میں نے لی ہیں باتیں تو اگر عہد کریں کہ ان برائیوں کو ختم کرنا ہے تو اپنی روحانی ترقی کے ساتھ آپ دیکھیں گے کہ جماعتی طور پر بھی ترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ نہیں تو جماعت نے تو ترقی کرنی ہے وہ تو بڑھتی چلی جائے گی لیکن آپ لوگ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے ہٹتے بالکل علیحدہ ہو جائیں گے جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ذاتی اناؤں کی بجائے اگر خدا کی خاطر آپ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ رحمت کا سلوک فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ تو اس حد تک اپنے ایسے بندوں سے سلوک کرتا ہے جو دوسروں کا خیال رکھتے ہیں کہ ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو جنت میں پھر رہا تھا اس نے صرف یہ نیکی کی تھی کہ ایک کانٹے دار درخت کو جس سے راہ گزرنے والے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی راستے سے کاٹ دیا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے ایک آدمی نے راستے میں ایک درخت کی ٹہنی لٹکی ہوئی ٹہنی تھی کانٹوں والی جس سے مسلمانوں کو گزرتے ہوئے تکلیف ہوتی تھی اس نے کہا خدا کی قسم میں اس ٹہنی کو کاٹ کر پرے ہٹا دوں گا تاکہ مسلمانوں کو یہ تکلیف نہ دے اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی قدر کی اور اسے بخش دیا۔ پس دیکھیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے پر اللہ تعالیٰ کے بخشش کے نظارے۔ اگر خدا تعالیٰ کی ذاتی پر یقین ہے اور یقینا ہر احمدی کو ہے تو پھر اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بجائے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا دے کہ تم دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی آپ کی اس خواہش کی تکمیل کرنے والا ہو۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے کس طرح معلوم ہو کہ میں اچھا کر رہا ہوں یا برا کر رہا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے اچھے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تمہارا رویہ برا ہے تو سمجھ لو کہ تم برے ہو۔ اب پڑوسیوں سے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ آپ کے گھر سے اگلا گھر دائیں بائیں جو گھر ہیں وہ پڑوسی بن گئے یا ہمسائے بن گئے یہ بڑا وسیع لفظ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دینی بھائیوں اور ہر طرح سے ساتھ رہنے والوں کو پڑوسی قرار دیا ہے ان کو سب کو اس زمرے میں شمار فرمایا ہے۔ پس اس لحاظ سے گھر کے افراد بھی پڑوسی ہیں ان سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔ ہر احمدی بھائی جس کا تمہارے سے واسطہ ہے وہ تمہارا پڑوسی ہے تمہارا ہمسایہ چاہے وہ احمدی ہے یا دوسرا ہے ساتھ کے گھر والا وہ تمہارا پڑوسی ہے۔ تمہارے کام کی جگہ پر جو تمہارے ساتھی ہیں وہ تمہارے پڑوسی ہیں تمہارے ماتحت تمہارے پڑوسی ہیں تمہارے افسر تمہارے پڑوسی ہیں تو اگر اس نظر سے دیکھیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز میں جو ساتھی ہیں کھڑے ہیں وہ بھی پڑوسی بن جاتے ہیں تو اگر اس نظر سے دیکھیں اور اپنے جائزے لیں گے تو نظر آ جائے گا کہ کہاں اور کس حد تک ہم نے اپنے رویے درست کرنے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ ساتھ زندگی بسر کرنے والے کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں نے اپنے سے واسطہ رکھنے والے کو کبھی کوئی چبھتا ہوا فقرہ کہنا ہے چھیڑ خانی کرنی ہے جس سے اس کی دل شکنی ہو۔ ایسے پاک رویے جب ہوتے ہیں جب ہر وقت یہ دل میں خیال ہو کہ میں نے کسی کا دل نہیں دکھانا بلکہ ہر وقت محبتیں بکھیرنی ہیں اور جب اس طرح محبتیں بکھرتی ہیں محبتیں پھیلائی جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی محبت بھی حاصل ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرضِ مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی حقیقی اور سچی محبت قائم کی جائے اور بنی نوع انسان اور اخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جائے۔ جب تک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب ہو کر صرف رسموں پر گزارا نہیں ہوسکتا منہ سے اپنے آپ کو احمدی کہہ دینا کافی نہیں ہو گا صرف اتنا کہہ دینے سے آپ کے کاموں میں برکت نہیں پڑے گی کہ میں احمدی ہوں جب تک ہر ایک اپنا جائزہ نہیں لیتا اور اصلاح کی کوشش نہیں کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں
تم خدا کی پرستش کرو اور اسکے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں جس میں سب قریب دور کے رشتے دار آ جاتے ہیں اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسائے ہوںجو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسائے ہوں جو محض اجنبی ہوں قریبی ہمسائے بھی اجنبی ہمسائے بھی۔ ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں اب سفر میںبھی کوئی ساتھ بن جاتا ہے تو وہ بھی ہمسایہ بن گیا یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں۔ اب نماز میں شریک ہونے کے بعد اگر نمازوں میں آنے والے لوگ ہیں تو پھر تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔ دیکھیں مزید کس وضاحت سے کھول دیا ہے اس تعریف کے لحاظ سے ہر شخص جس سے آپ کا ایک دفعہ واسطہ پڑ چکا ہے آپ کا ہمسایہ بن گیا ہے۔ نماز میں شریک ہے ہمسایہ ہے نماز میں سلام پھیرتے ہیں تو اس وقت اگر کسی سے کوئی ذاتی رنجشیں ہیں تو دائیں بائیں جب آپ نے سلام کر دیا تو رنجشیں دور ہو جانی چاہئیں۔ ذاتی رنجشوں کی وجہ سے بول چال بند نہیں ہونی چاہئے۔ اسی طرح صلح کی بنیاد ڈالیں اور جب اس طرح صلح کی بنیاد پڑ رہی ہوگی تو ہر قسم کے فساد خود بخود ختم ہو رہے ہوں گے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے۔ قرآن شریف فرماتا ہے

من قتل نفس بغیر نفس او فساد۔

یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کر دیتا ہے۔ ایسا ہی فرمایا کہ ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی۔ زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے۔ حقوق اخوت کو کبھی نہ چھوڑو جو بھائیوں کے حق ہیں ان کو کبھی نہ چھوڑو وہ لوگ بھی تو گزرے ہیں جو دین کے لئے شہید ہوئے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات پر راضی ہے کہ وہ بیمار ہو اور کوئی اس سے پانی تک نہ دینے جاوے۔ پس اس انذار سے بچیں۔ ذرا سی انا کی خاطر کسی سے ہمدردی نہ کر کے آپ دین سے بھی دور جا رہے ہوں گے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ میں صلح کو پسند کرتا ہوں اور جب صلح ہو جائے پھر اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس نے کیا کہا یا کیا کیا تھا۔ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے ہزاروں مرتبہ دجال اور کذاب کہاہو اور میری مخالفت میں ہر طرح کوشش کی ہو اور وہ صلح کا طالب ہو تو میرے دل میں خیال بھی نہیں آتا اور نہیں آ سکتا کہ اس نے مجھے کیا کہا تھا اور میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ ہاں خدا تعالیٰ کی عزت کو ہاتھ سے نہ دے۔ یعنی اللہ کی عزت پے اگر حرف آتا ہو تب تو تب تو بہرحال غیرت دکھانی چاہئے ذاتی اناؤں کی وجہ سے نہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ سچی بات ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچے اس کو کینہ ور نہیں ہونا چاہئے۔ اگر وہ کینہ ور ہو تو دوسروں کو اس کے وجود سے کیا فائدہ پہنچے گا۔ جہاں ذرا اس کے نفس اور خیال کے خلاف ایک امر واقعہ ہوا وہ انتقام لینے کو آمادہ ہو گیا۔ اسے تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر ہزاروں نشتر بھی مارا جاوے پھر بھی پرواہ نہ کرے۔ فرمایا کہ میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کو یاد رکھو۔ ایک خدا تعالیٰ سے ڈرو دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو۔ اگر کسی سے کوئی قصور اور غلطی سرزد ہو جاوے تو اسے معاف کرنا چاہئے نہ یہ کہ اس پر زیادہ زور دیا جاوے اور کینہ کشی کی عادت بنا لی جاوے۔ فرمایا کہ نفس انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی امر نہ ہو اور اس طرح پر وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تخت پر بیٹھ جاوے۔ یعنی اپنی مرضی کے خلاف اگر نفس یہ مجبور کرتا ہے کہ میری مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو اور ایسا کرنے والا نفس جو ہے وہ اپنے آپ کو خدا سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پھر اس کا مطلب شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنی بڑی غیرت ہے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے اس لئے اس سے بچتے رہو۔ میں سچ کہتا ہوں کہ بندوں سے پورا خلق کرنا بھی ایک موت ہے۔ اس فقرے پے غور کریں کہ بندوں سے پورا خلق کرنا بھی موت ہے۔ بہت مشکل بات ہے اسی طرح جس طرح اپنے اوپر موت وارد کرنا ہے لیکن تم نے کرنی ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے تو یہ موت وارد کرنی ہو گی اپنی جھوٹی اناؤں اور تکبر کو ختم کرنا ہو گا جلانا ہو گا۔ فرمایا میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی ذرا بھی کسی کو توں تاں کرے تو اس کے پیچھے پڑ جاوے۔ میں تو اس کو پسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی سامنے بھی گالی دے تو صبر کر کے خاموش ہو رہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ اتفاق ایک ایسی چیز ہے اتفاق آپس میں محبت و اتفاق ایسی چیز ہے کہ وہ بلائیں جو کسی طرح دور نہیں ہو سکتیں اور وہ مشکلات جو کسی تدبیر سے حل نہیں ہو سکتیں وہ اتفاق سے حل ہو جاتی ہیں۔ پس ایک عقل مند سے بعید ہے کہ اتفاق کی برکتوں سے اپنے تئیں محروم کرلے۔
اللہ کرے کہ ہر احمدی اپنی ذاتی رنجشوں اور مفادات کو پس پشت ڈال کر بھول کر ایک دوسرے سے سچی ہمدردی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہوئے دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے عیب تلاش کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے والا ہو تا کہ دنیا سے فساد ختم کر کے اصلاح کرنے والا بن سکے۔ ان برکتوں سے حصہ پانے والا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے اس زمانے میں وابستہ ہیں۔ ان فیوض کو حاصل کرنے والا ہو جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ کبھی کوئی احمدی ان لوگوں میں شمار نہ ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہیں۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور ہم ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات پر پورا اترنے والے ہوں تا کہ دنیا کو اس محبت اور صلح اور امن کا پیغام دے سکیں جس کی تلاش میں آج دنیا کا ہر امن پسند شخص ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو خیریت سے اپنے گھروں میں لے جائے مختلف جگہوں سے آئے ہوئے ہیں اس وقت جنہوں نے سفر کرنے ہیں احتیاط سے سفر کریں۔ ہر شر اور ہر فتنہ سے سب کو محفوظ رکھے۔ آپ سب کو محبتوں کا سفیر بنائے اور ان دنوں میں جو کچھ آپ نے سنا ہے اس کو آپ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ کی نسلوں کو بھی احمدیت کی خوبصورت تعلیم کو ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)
اچھا ذرا حاضری ذرا سن لیں۔ ذرا خاموش رہیں ایک منٹ۔ یہ گذشتہ سال کتنی تھی آپ کی حاضری؟ آپ کی اپنی سویڈن کی حاضری کتنی تھی جلسہ کی۔
اچھا یہ انہوں نے حاضری بتائی ہے تینوں ملکوں کی۔ ناروے کی چھ سو بیالیس اور سویڈن کی پانچ سو تہتر اور ڈنمارک دو سو۔ ناروے کی سب سے زیادہ حاضری ہے ماشاء اللہ۔ اور سویڈن کی اپنی حاضری بھی گذشتہ سال کی نسبت تقریباً دوگنی ہے۔ اچھا یہ چھوٹے سے ملک ہیں جماعتی یہاں چھوٹی چھوٹی ہے ہر جگہ پے تو اس لحاظ سے ان کی یہ حاضری بھی ان کے لئے بہت ہے کیونکہ لگ رہا تھا انتظامات دیکھ کے کہ ان کے لئے یہ بھی سنبھالنا مشکل ہو جائے گا مگر سنبھال لیا ہے۔ لندن والے ہنس رہے ہیں وہاں کافی تعداد میں سنبھال لیتے ہیں جرمنی اور لندن والے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں