جلسہ سالانہ قادیان 2005ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خواتین سے خطاب

آپ احمدی خواتین اُن خوش قسمت خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق اور غلامِ صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔ یقینا یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے جو آپ کو ملا ہے۔ لیکن اس انعام کا فائدہ تب ہوگا جب آپ اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گی جو ایک مومن عورت میں ہونی چاہئیں اور جن کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دی ہے۔
بعض رپورٹس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس طرح ایک احمدی کو عبادتگزار ہونا چاہیے اور جس طرح ایک احمدی کو خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل اور مکمل توکل ہونا چاہیے وہ معیار کم ہو رہے ہیں۔
جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے بہت سی برائیاں بھی نئے آنے والوں کے ساتھ آجاتی ہیں اس لئے شعبہ تربیت کو بہت زیادہ فعّال ہونے کی ضرورت ہے تاکہ کبھی کسی قسم کا کوئی شرک ہمارے اندر داخل نہ ہو۔ نئے شامل ہونے والوں کی جو اچھائیاں ہیں ،جو خوبیاں ہیں وہ تو لیں لیکن برائیوں کی اصلاح کریں اور ساتھ ساتھ اپنی برائیوں کی بھی اصلاح کریں۔
ہر احمدی عورت یہ عزم کرے کہ اس نے ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمیشہ بھروسہ اور توکّل رکھنا ہے۔ عابدات، قانتات، تائبات بننا ہے۔ تاکہ خدا تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے آپ کو پیدا کیا ہے اس کا حق ادا کر سکیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے احمدیت کی جو نسل آپ کی گود میں بڑھ رہی ہے اس کا شمارذریت طیّبہ میں ہو
جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مورخہ 27؍دسمبر 2005ء کو
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خواتین سے خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَللہُ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (التغابن:14)

آپ احمدی خواتین اُن خوش قسمت خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق اور غلامِ صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔ یقینا یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے جو آپ کو ملا ہے۔ لیکن اس انعام کا فائدہ تب ہوگا جب آپ اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گی جو ایک مومن عورت میں ہونی چاہئیںاور جن کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دی ہے۔ جس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ہمیں لانا چاہتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور ضروری چیز کیا ہے؟ وہ ایک خدا پر یقین اور ہر معاملے میں اس پر توکّل ہے ۔جب آپ کے دل اس یقین سے پُر ہو جائیں گے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی ذات ہے جس کے آگے ہر معاملے میں جھکنا ہے، ہر ضرورت کے وقت اس کے حضور حاضر ہونا ہے۔ نہ بھی ضرورت ہو تو اس کی عبادت اس کے حکموں کے مطابق کرنی ہے۔ اُسی سے مانگنا ہے اور اُسی پر توکّل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ ایسی عورتیں کامیاب ہوںگی۔ اوراس کے ساتھ اس بات کی بھی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ احمدیت کی نئی نسلیں نیکیوں میں سبقت لے جانے والی اور اپنے خدا پر ایمان لانے والی ہوںگی ،ان باتوں پر عمل کرنے والی ہوںگی جن کا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا ہے، اس تعلیم پر چلنے والی ہوںگی جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہمیں بتائی ہے۔ خدا کرے کہ آپ میں سے ہر ایک اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے والی ہو اور یہ خاص دن جو آپ کو میسّر آئے ہیں، ان دنوں میں آپ دعائوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتی رہیں۔ اپنے جائزے لیتی رہیں کہ کس حد تک آپ کو خدا کی وحدانیت پر یقین ہے؟ کہاں تک آپ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات پر عمل کرنے والی ہیں؟ کہاں تک آپ کے ایمان میں، آپ کے دل میں یہ بات راسخ ہے کہ جیسے بھی حالات ہو جائیں ،جو بھی ہم پر گزر جائے ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس پر توکّل کرتے چلے جانا ہے۔
آج کل ہم اپنے ماحول میں ہر طرف دیکھتے ہیں کہ دنیا خدا کو بھلا بیٹھی ہے۔ مذہب کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ اور اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے قدرتی طور پر احمدی بھی کچھ نہ کچھ متأثر ہوجاتے ہیں۔ اس لئے مَیں نے کہا کہ ہر وقت یہ جائزے لیتے رہنے ہوں گے تاکہ اگر کبھی بھی کوئی خدانخواستہ اس ماحول سے متاثر ہو رہا ہو تو اس کو اپنی اصلاح کا موقع مل سکے۔
اپنی ملاقاتوں کے دوران جو لوگ میرے سے ملتے ہیں مَیں جائزے لیتا رہتا ہوں ۔بعض دفعہ ان جائزوں سے اور بعض رپورٹس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس طرح ایک احمدی کو عبادتگزار ہونا چاہیے اور جس طرح ایک احمدی کو خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل اور مکمل توکل ہوناچاہیے وہ معیار کم ہو رہے ہیں۔ ترقی کرنے والی قومیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ نہیں کہا کرتیں کہ شائد بلّی بھی ہمیں نہیں دیکھ رہی بلکہ ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی چاہیے تاکہ اصلاح کا موقع ملے۔ اس سے پہلے کہ معاشرے کی بُرائیاں ہم تک پہنچ سکیں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں۔ فی زمانہ سب سے بڑی بُرائی جو بظاہر نظر نہیں آتی اور بڑی خاموشی سے انسان پر حملہ کرتی ہے وہ شرک ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو، خوا ہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو، منزّہ سمجھنا۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کی جوذات ہے وہ ہر چیز سے بالا ہے۔ یہ جوچھوٹے چھوٹے شرک ہیں یہ حملہ آور نہ ہوں۔ اور فرمایا کہ ’’ اوراس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔کوئی مُعَزّاور مُذِلّ خیال نہ کرنا، کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا۔ اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلّل اُسی سے خاص کرنا۔ اپنی امّیدیں اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا۔‘‘(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 350,349)
جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہے اب اگر جائزہ لیا جائے تو کتنے ہی بت ہیں جو انسان نے اپنے اندر بنائے ہوئے ہیں۔
فرمایا کئی قسم کے شرک ہیں جو تمہیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگ انسان کو اللہ کا شریک بنا لیتے ہیں۔ایک انسان کے آگے اس طرح جھک رہے ہوتے ہیں جیسے نعوذباللہ وہ خدا ہو۔ اس کے آگے پیچھے اس طرح پھرا جا رہا ہوتا ہے جس طرح اس شخص کو خدائی کا درجہ مل گیا ہو۔ ہمارے معاشرے میں کم علمی کی وجہ سے پِیروں فقیروں کے پاس جاکر ان سے مانگنے کی عادت ہے۔ احمدیوں میں تو نہیں ہے لیکن معاشرے میں، مسلمان معاشرے میں بھی اور دوسری جگہ پہ بھی دیکھ لیں بہت زیادہ ہے۔ بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ سے مانگا جائے نام نہاد پِیروں سے مانگا جاتا ہے۔ بعض دفعہ جو بظاہر بڑے عقلمند لوگ ہیں، جوعلم والے لوگ ہیں وہ اس شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
پھربعض عورتیں ہیں جو گھروں میں جاتی ہیں اور اپنی باتوں سے، اپنی نیکی کے نام نہاد قصّوں سے گھر والوں کو خاص طور پر عورتوں کو اپنے فریب میں پھنسا لیتی ہیں۔ ہماری عورتیں عموماً اپنے بچوں کے معاملوں میں بڑی وہمی ہوتی ہیں جو اس قسم کی باتونی عورتوں کی باتوں میں آکر ان کی خوب خدمت خاطر بھی کرتی ہیں، ان سے متاثر بھی ہو رہی ہوتی ہیں، ان سے تعویذ گنڈے بھی لے لیتی ہیں ۔یہ سب لغویات ہیں بلکہ شرک ہے ۔یہ تعویذ گنڈے کرنے والی جو عورتیں ہیں اگر آپ ان کے ساتھ رہ کر جائزہ لیں تو شائد وہ کبھی نماز بھی نہ پڑھتی ہوں۔ تو جو شخص مسلمان کہلانے کے بعد نماز بھی نہیں پڑھتا ، آپ اس سے کیا امید رکھتی ہیں کہ کس طرح اس کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوسکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تو نماز کی اتنی تاکید فرمائی، آپ نے تو اپنی ساری زندگی نماز کی پابندی فرمائی لیکن آج کل کے یہ پِیر فقیر اور اس قسم کی جو عورتیں ہیں وہ اپنے آپ کو کہتی ہیں کہ نہیں جی ہم نے تو خدا کو پالیا ہے اس لئے ہمیں عبادتوں کی ضرورت نہیں۔ یہ سب ڈھکوسلے، دھوکے اور فریب ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ باتوں میں ایسے الجھاتی ہیں کہ اکثر عورتوں کی مت بالکل ماری جاتی ہے ۔یہاں آکے عقل ختم ہوجاتی ہے۔عموماً احمدی عورت ان فضولیات سے آزاد ہے ۔ بعض جگہ سے یہ شکایات آتی ہیں کہ احمدی عورتیں بھی بعض دفعہ ان تعویذ گنڈے کرنے والی عورتوں کے دام میں پھنس جاتی ہیں۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے اپنی والدہ کے بارہ میں لکھاہے کہ ان کے بیٹے پیدا ہوتے تھے اور فوت ہو جاتے تھے ۔ ایک دن ایک بیٹے کو جوچھوٹاسا بچہ تھا نہلارہی تھیں۔ یہ بچہ صحتمند بھی تھا اوریہ ایک بچہ تھا جو اس عمر تک پہنچا تھا۔ انہوں نے نہلاتے ہوئے دیکھا کہ اسی طرح کی ایک عورت جو تعویذ گنڈے کیا کرتی تھی اور لوگوں کو اپنی بددعائوں سے ڈرایا دھمکایا کرتی تھی وہ سامنے کھڑی ہے۔ اس عورت نے حضرت چوہدری صاحب کی والدہ کو کہا کہ اگر اس بچے کی زندگی چاہتی ہو تو جو کچھ میرا مطالبہ ہے مجھے دو۔ اس نے کچھ مانگا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ چاہے یہ بچہ زندہ رہے یا مر جائے مگر مَیں اس قسم کا شرک نہیں کروںگی۔ جو کچھ بھی مانگنا ہے میں تو خدا سے مانگتی ہوں۔ اگر تم نے اور طرح مانگنا ہے، غریب ہو اور مدد چاہتی ہو تو لے لو ،مدد کرنے کو تیار ہوں۔ وہ غریبوں کی بہت مدد کیا کرتی تھیں۔ لیکن یہ کہہ کر کہ اس بچے کی زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے تم مانگو اور میں تمہیں کچھ دوںتو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں شرک کر رہی ہوں۔ یہ مَیں کبھی نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ شاید حضرت چوہدری صاحب کی والدہ کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ بہرحال یہ عورت ابھی ان کے گھر سے باہر نہیں نکلی تھی کہ کسی وجہ سے بچے کو دورہ پڑا یا طبیعت خراب ہوئی یا جو بھی ہؤا اور بچہ نہاتے نہاتے ہی ان کے ہاتھوں میں فوت ہوگیا۔ اگر کوئی اللہ کی عبادت نہ کرنے والی اور اس پر کامل ایمان نہ لانے والی عورت ہوتی تو وہ ڈر جاتی اور شاید اس عورت کو بلا کر معافی بھی مانگتی۔ لیکن اس صابرہ ماں نے اِنَّالِلّٰہ پڑھا اور بچے کے باپ کو بلا کر اس بچے کو دفنانے کے لئے بھیج دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت چوہدری صاحب کی والدہ کو اس صبر کے بعد ایسا نوازا کہ ان کے کئی بیٹے پیدا ہوئے جنہوں نے بڑی عمر پائی اور جو صاحبِ اولاد ہوئے۔ پھر ان کے ہاں حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ جیسا بیٹا پیدا ہوا جنہوں نے لمبی زندگی بھی پائی اور دنیا میں خوب شہرت بھی پائی، بڑا نام کمایا۔ تو اگر ایسے ابتلاء یا امتحان آئیںاور ان سے اس حد تک ڈر یا خوف ہو کہ میری شامتِ اعمال ہے تویہ ابتلاء اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکانے والا ہونا چاہئے، نہ کہ بندوں کے آگے جھکانے والا۔
پھرہمارے معاشرے میں(یعنی) جماعت کے باہر جو معاشرہ ہے اس میںزندہ انسانوں کے علاوہ مردہ پرستی بھی بہت ہے۔ یہاں ہندوستان میں بھی دیکھ لیں اورپاکستان میں بھی دیکھ لیں پِیروں فقیروں کی قبروں پہ جاتے ہیں اور وہاں مرادیں مانگتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو کہیں پتہ نہیں اللہ والے ہوتے بھی ہیں یا نہیں لیکن بعض بزرگ جنہوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے کرتے گزار دی، شرک کے خلاف جہاد کرتے گزار دی ان کی قبروں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر دیتے ہیں۔ اب ان قبروں کو بھی لوگوں نے شرک کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور ان کے مجاوروں نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ کسی بزرگ کے مزار پر آپ چلے جائیں یہ نظارے آپ کو نظر آئیں گے۔ جماعت میں جو نئے آنے والے مرد ہیں یا عورتیں ہیں، جو بیعت کرکے شامل ہورہے ہیں ان میں سے بعض ایسے معاشرے سے بھی آئے ہوںگے جن کی اس قسم کی عادتیں ہوںگی۔ عادتیں پکّی ہوجاتی ہیں اور خدا سے زیادہ ان پیروں فقیروں اور قبروں پر اعتقاد اور اعتماد ہوتا ہے، اس لئے یہ خطرہ رہتا ہے کہ جب اس طرح جماعت میں شمولیت ہو رہی ہو تو ایسے لوگ دوسرے کم علم والوں کو بھی متاثر نہ کردیں۔ اس لئے لجنہ کے نظام کو تربیت کے معاملے میں بہت فعّال ہونا چاہیے۔ معمولی سی بھی کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے شرک کی بُو آتی ہو۔ ان نومبایعات کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں۔ جو پرانی احمدی ہیں ان کے بھی جائزے لیتی رہیں ۔وہ خود بھی اپنے جائزے لیتی رہیں کہ کس حد تک وہ احمدیت میں رہ کرخداکے قریب ہو رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت کا مقصد تو بندے کو خدا کے قریب لانا تھا جس کو دنیا بھول چکی تھی۔ یہ جو نئی شامل ہونے والی ہیں ان میں سے کچھ توبالکل دیہاتی ماحول سے آئی ہوئی ہیں۔ ان کی تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ان میں سے جو پڑھی لکھی ہیں ان کو خود سوچنا چاہیے کہ ایک طرف تو عقل یہ کہتی ہے اور ہم اس کو سمجھتے ہیں کہ خدا ہی ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے ۔خدا ہی ہے جو سب قدرتوں کا مالک ہے۔ خدا ہی ہے جو ربّ العالمین ہے۔ تمام کائنات کی ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ پھر اِن نام نہاد پِیروں فقیروں یا قبروں کے چکّر میں کیوں پڑا جائے۔ خود عقل کرنی چاہیے، سوچنا چاہیے اور اس لحاظ سے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں،مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستان میں ایک نئی بیعت کرنے والی عورت تھی یا شاید احمدیت کے قریب تھی بہر حال اس نے احمدی عورت کو اپنا بچہ دکھایا اور کہا کہ یہ مجھے داتا صاحب نے دیا ہے۔ تو احمدی عورت نے اس سے کہا کہ اولادتو خدا دیتا ہے کسی مرے ہوئے میںبلکہ کسی زندہ میں بھی یہ طاقت کہاں ہے کہ کسی کو اولاد دے سکے۔ تو اس عورت نے جواب دیا کہ نہیں مَیں کئی سال خدا سے مانگتی رہی۔ (اب کس طرح مانگتی رہی یہ تو نہیں پتہ) میری اولاد نہیں ہوئی اور پھر صرف ایک دفعہ میں داتا صاحب کے مزار پر گئی اور میں نے بیٹا مانگا تو میرے یہ بیٹا پیدا ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ بعض دفعہ آزماتا بھی ہے، دیکھتا ہے کہ کسی میں کتنا ایمان ہے۔ اور بعض دفعہ قانونِ قدرت کے تحت ویسے ہی ایک چیز مل جاتی ہے جس کو انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ شاید مجھے فلاں جگہ سے مل گئی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں ہی تمہیں اولاد دیتا ہوں۔ یہ قدرت صرف خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ تو یہ ایسے شرک ہیں جو عورتوں میں ان کی طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
جیساکہ مَیں نے کہا اب جبکہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے بہت سی برائیاں بھی نئے آنے والوں کے ساتھ آجاتی ہیں اس لئے شعبہ تربیت کو بہت زیادہ فعّال ہونے کی ضرورت ہے تاکہ کبھی کسی قسم کا کوئی شرک ہمارے اندر داخل نہ ہو۔ نئے شامل ہونے والوں کی جو اچھائیاں ہیں ،جو خوبیاں ہیں وہ تو لیں لیکن برائیوں کی اصلاح کریں اور ساتھ ساتھ اپنی برائیوں کی بھی اصلاح کریں۔
جو نئے احمدی ہو رہے ہیں ان کے دل میں یقینا کوئی نہ کوئی نیکی ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دیا ہے کہ جماعت میں شامل ہوجائیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ وہ صرف سرتا پا برائیاں ہی ہیں اور ان میں کوئی نیک نہیں اور ہم سب نیک ہیں یہ بھی غلط ہے۔ بہت ساری نیکیاں ان میں ہوںگی جو آپ میںیعنی پرانے احمدیوں میں نہیں ہیں۔ اور بہت بڑی نیکی ان کی یہ ہے کہ آج کل کے حالات کے باوجود انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبّیک کہتے ہوئے اس زمانے کے مسیح و مہدی کی آواز کو سنا اور اس کو مانا۔ مسلمانوں میں سے بہت سارے شامل ہوئے ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس مسیح و مہدی کو مان کر اس کوسلام پہنچایا۔ یقینا یہ ان کی نیک فطرت ہے جس کی وجہ سے ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بعض معاشرے کی برائیاں اثرانداز ہو رہی ہوتی ہیں جن کا بعض دفعہ احساس نہیں ہوتا تو ان کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بیعت کروانے والی ہیں، جو تربیت کرنے والی ہیں ان کو خود بھی اپنی اصلاح کا موقع ملے گا۔ ان کو خود بھی ان کے لئے دعائوں کا موقع ملے گا ۔جب بھی آپ کسی کی تربیت کریں تو اس کے لئے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بہتر رنگ میں اس مقام کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے لئے اس نے جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اور جب آپ دوسرے کے لئے دعا کر رہی ہوں گی تو یقینا آپ کے دل میں بھی خیال آئے گا کہ میں اپنے جائزے بھی لوں کہ آیا میں اس مقام تک پہنچ گئی ہوں جہاں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پھر اپنے نفس کا شرک ہے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے جس سے تکبّر پیدا ہوتا ہے۔ کل میں نے اس بارے میں تفصیل سے بتایا تھا کہ چالاکیاں، ہوشیاریاں، مکر، فریب، دغا،جھوٹ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو شرک کی طرف لے جانے والی ہیں۔
اب جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بتوں کی پلیدی کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے

فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْا َوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 31)

یعنی پس بتوں کی پلیدی سے اعراض کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔ بعض دفعہ انسان جھوٹ کو اپنی جان بچانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ بعض دفعہ کسی مفاد کے اٹھانے کے لئے غلط بات کہہ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ معمولی سی غلط بات ہے، یہ جھوٹ نہیں ہے۔ حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم مٹھی بند کر کے اپنے بچے کے سامنے رکھتے ہو اور کہتے ہو کہ بتائو اس مٹھی میں کیا ہے اور اس میں کچھ نہ ہو، خالی ہاتھ ہو تو یہ بھی ایک جھوٹ ہے۔(حوالہ) بیٹوں بیٹیوں کے رشتوں میں جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جو لڑکے والے ہیں بہت غلط بیانی کرتے ہیں اور پھر باہر بچیوں سے رشتے طے ہوجاتے ہیں یا طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مَیں بتادوں کہ یہ یہاں سے بھی ہوتا ہے اور پاکستان سے بھی۔ اور اب ایسے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہونے لگ گیا ہے۔ بہر حال ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہے تاکہ یہ باتیں نہ بڑھیں۔ جب لڑکے کو شہریت مل جاتی ہے تو پھر لڑکی پر اور لڑکی کے ذریعے اس کے والدین پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان سے کئی مطالبے شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر تعلیم کے بارے میں غلط معلومات لڑکی والوں کو دی جاتی ہیں ۔ رشتے کرنے کے لئے جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ لڑکے کی نوکری کے بارے میں غلط معلومات لڑکی والوں کو دی جاتی ہیں۔ غرض کہ ایسے لوگ ہر قدم پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ اِس معاملے میں مائیں بچوں کی زیادہ طرف داری کر رہی ہوتی ہیں۔ جب ایسے معاملات جماعت کے پاس آتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ مائوں نے ہی غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ ایسی مائیں ہیں جو شادیاں کروانے کے بعد لڑکوں کے گھروں میں فساد پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے صحیح بات کہنے کی بجائے جھوٹ پر انحصار کرتے ہیں جبکہ رشتوں کے وقت تقویٰ اور قولِ سدید یعنی صاف ستھری اور کھری بات جس میں کوئی جھول نہ ہو کہنے کا، بہت زیادہ حکم آیا ہے۔ بہر حال اس طرح جھوٹ پر انحصار کیا جاتا ہے تو یہ بھی ایک شرک ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں جھوٹ سے بچنا چاہیے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بن جاتا ہے اور فسق وفجور سیدھا آگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔اور یہ آگ جو ہے یہ صرف مرنے کے بعدکی آگ نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ پھر اس دنیا میں بھی فسق و فجور کی وجہ سے آگ میں پڑے ہوتے ہیں اور جل رہے ہوتے ہیں۔ایسے گھروں کے سکون برباد ہوجاتے ہیں۔ برکتیں اٹھ جاتی ہیں۔ فسق و فجور کا مطلب ہی یہی ہے کہ بد اعمالی۔ اور دنیا میں دیکھ لیں کہ جھوٹ بولنے والے ایک کے بعد دوسرا گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور بد اعمالیوں کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اس طرح جو ایک جھوٹ ہے وہ کئی بداعمالیوں کے بچے پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ ’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے‘‘۔
پس یہ کتنی خطرناک تنبیہ ہے۔ ایک احمدی برداشت نہیں کرسکتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا کہ خدا اس سے چھوٹ جائے۔ اگر خدا ہی ہمارے ساتھ نہیں تو پھر ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سچائی کا دامن کبھی نہ چھوڑو اور جیسے بھی حالات ہوں ،کتنی بھی منفعتیں حاصل ہونے کا امکان ہو، کسی احمدی کو کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔کوئی چیز بھی اس کے قانونِ قدرت سے بالااور باہر نہیں ہے۔ جب سب کچھ وہی ہے تو پھر کون عقلمند انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے دامن سے علیحدہ ہو کر ہم کوئی مفاد حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ وہی رازق ہے، رزق دینے والا ہے۔ اپنے سچے اور وفا دار کو وہی رزق دیتا ہے۔
عورتوں میں طبعاً ایک یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ ان کے حالات بہتر ہوں، پیسے کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے، ایک دوسرے کو دیکھ کر توجہ پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے پاس ویسی چیز ہو، اُس سے بہتر چیز ہو۔ اگر نیکیوں کی طرف توجہ دیں گی تو اللہ تعالیٰ آپ میں ایک تو قناعت پیدا کرے گا ۔دوسرے آپ کی ضروریات پوری کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو اپنے کامل مومن اور تقویٰ پر چلنے والوں کو ایسی ایسی جگہوں اور طریقوں سے رزق دیتا ہوں کہ جو اس کی سوچ سے بھی باہر ہیں۔ انسان کی سوچ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ جیسا کہ فرمایا:

وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھَُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق: 4)

یعنی وہ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتا اور جو اللہ پر توکّل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے، اس کی عبادت کرنے والے، اس کے حضور جھکنے والے، اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں رکھنے والے ہیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مَیں رزق بھی دوں گا اور دنیاوی اور روحانی فائدے بھی ملیں گے۔ روحانی اور جسمانی ہر طرح کے رزق مہیاہوں گے۔ جب ایک انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو پھر کسی اور کے آگے جھکنا، جھوٹ کا سہارا لینا، کسی کو اپنا رازق سمجھنا، ان باتوں کو جہالت اور بے وقوفی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
پھر ہر وقت یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تمام عزّتوں کا سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر اللہ نہ چاہے توکوئی انسان نہیں جو کسی دوسرے انسان کو عزت دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا (النساء:139)

کہ سب کی سب عزت اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔اس لئے اگر عزت بھی حاصل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والی بنیں۔ اس سے ہمیشہ مدد مانگیں۔جب آپ عابدات بن کے اس سے مدد مانگ رہی ہوںگی، اس پر توکّل کر رہی ہوںگی تو جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے روحانی ترقی کے بھی سامان کر رہی ہوںگی اور دنیا وی ترقی کے بھی سامان کر رہی ہوںگی۔
اللہ تعالیٰ نے بہترین عورت کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں وہ یہ ہیں کہ مسلمات ہوں۔ اسلام قبول کیا ہے تو اس کو سمجھ رہی ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلنے والی ہوں۔ مومنات ہوں۔ ایمان میں یہاں تک کامل ہوں کہ کبھی کوئی ابتلاء یا کوئی امتحان بھی آپ کے پائے ثبات میں لغزش لانے والا نہ ہو۔ آپ کو کبھی خدا تعالیٰ سے دُور کرنے والا نہ ہو بلکہ اور زیادہ خدا کے قریب لانے والا اور اس کے آگے جھکانے والا ہو۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہاجیسے بھی حالات ہو جائیں آپ کے ایمان میں ہلکا سا بھی جھول نہ آئے۔ پھر یہ کہ قانتات ہوں۔ فرمانبردار ی میں بڑھی ہوئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی فرمانبردار ہوں۔ اللہ کے رسول کے حکموں کی اطاعت کرنے والی ہوں۔ نظامِ جماعت کی اطاعت کرنے والی ہوں۔ جب ہم ایک نظام کے تحت چل رہے ہوںگے توتب ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں۔ تائبات ہوں۔ توبہ کرنے والی ہوں۔ اپنے گزشتہ گناہوں اور غلطیوں کی خدا تعالیٰ سے بخشش طلب کر رہی ہوں اور آئندہ اس عزم کا اظہار کر رہی ہوں کہ تمام گزشتہ کوتاہیوں اور غلطیوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں گی۔صحیح توبہ تب ہی ہوتی ہے جب تمام بدعات جو مختلف قسم کی عورتوں میںرائج ہو جاتی ہیں ان سے بچنے کی کوشش کریں گی۔ ہمارے اس مشرقی معاشرے میں ہر علاقے کی، ہر قبیلے کی، ہر خاندان کی مختلف رسومات ہیں جو بعض دفعہ بوجھ بن جاتی ہیں اور یہی بوجھ ہیں جو بدعات ہیں۔ ان کی اس طرح پابندی کی جاتی ہے جس طرح یہ دین کا کوئی حصہ بن چکی ہیں حالانکہ دین تو سادگی سکھاتا ہے۔ اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے ،اس سے مدد مانگنے والی ہوں۔ عابدات ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی ہوں اور سب شرکوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے والی ہوں۔ صالحات ہوں۔ روزے رکھنے والیاں اور اپنے روحانی مقام کو بڑھانے کے لئے عبادتوں کی طرف توجہ دینے والیاں ہوں۔
پس اگر احمدی عورتیں ان خصوصیات کی حامل ہو جائیں۔ ہر لمحہ اور ہر آن صرف خدا تعالیٰ کی ذات ان کے پیشِ نظر ہو۔ ہر قسم کی برائیوں سے بچنے والی ہوں تو انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں احمدیت کی آئندہ نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ملتی رہے گی۔ عورت کو جو مقام دیا گیا ہے کہ اس کے پائوں کے نیچے جنّت ہے صرف اولاد کو حکم نہیں ہے کہ ماں کی عزت کرو اور جنت کمائو بلکہ مائوں کو حکم ہے کہ تم بھی اُن خصوصیات کی حامل بنو جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں اور اپنی اولاد کی ایسی تربیت کرو کہ وہ جنّت میں جانے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو۔ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی ہو۔ نظامِ جماعت کا احترام کرنے والی ہو۔ ہر قسم کی لغویات سے پرہیز کرنے والی ہو۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والی ہو۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا یہ نہیں کہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے اولاد کی شادیاں کرلیں اور مقصد حاصل کرلئے اور پھر فساد پیدا کردیا۔ جب آپ کی تربیت اور آپ کے اپنے عمل کی وجہ سے ایسی اولادیں پیدا ہوں گی جو عبادت گزار بھی ہوں، اللہ کا خوف رکھنے والی بھی ہوں اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والی بھی ہوں تو اس جہان میں بھی ایک جنت نظیر معاشرہ قائم ہوگا اور آئندہ زندگی میں بھی آپ اور آپ کی اولادیں خدا تعالیٰ کی جنت کی وارث ہوں گی۔
پس ہر احمدی عورت یہ عزم کرے کہ اس نے ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمیشہ بھروسہ اور توکّل رکھنا ہے۔ عابدات، قانتات، تائبات بننا ہے۔ تاکہ خدا تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے آپ کو پیدا کیا ہے اس کا حق ادا کر سکیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے احمدیت کی جو نسل آپ کی گود میں بڑھ رہی ہے اس کا شمارذریت طیّبہ میں ہو،نہ کہ ان میں جو شیطان کی گود میں جاپڑتے ہیں۔
بچوں کی طرف خاص توجہ کریں۔ بحیثیت گھر کے نگران کے ہر عورت اپنے بچوں کے بارے میں جوابدہ ہوگی۔ پس اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں نگران بنایا گیا تھا تم نے ان کی اچھی طرح تربیت کیوں نہیں کی ۔ اس کام کو کوئی معمولی کام نہ سمجھیں۔ عورت کا صرف یہ کام نہیں ہے کہ گھر میں کھانا پکا دیا اور خاوند کے کپڑے دھو دیئے اور استری کر دیئے اور بچوں کو سکول بھیج دیا بلکہ آپ نے ان کی تربیت میں بھی مکمل طور پر حصہ لینا ہے۔
آج کل کی برائیوں میں سے ایک برائی ٹی وی کے بعض پروگرام ہیں، انٹرنیٹ پر غلط قسم کے پروگرام ہیں، فلمیں ہیں۔ اگر آپ نے اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کی اور انہیں ان لغویات میں پڑا رہنے دیا تو پھر بڑے ہوکر یہ بچے آپ کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔ پھر وہی مثال صادق آئے گی جب ایک بچے کی ہر غلط حرکت پر ماں اس کی حمایت کیا کرتی تھی۔ ہوتے ہوتے وہ بہت بڑا مجرم بن گیا، قاتل بن گیا۔ آخر پکڑا گیا اور اس کو سزا ملی ۔ سزا کے بعد جب اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا میں اپنی ماں سے علیحدگی میں ملنا چاہتا ہوں۔ اس کا کان میرے قریب کرو۔ زبان میرے قریب کرو میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں۔ اور پیار کرتے ہوئے اس نے اس کی زبان کاٹ لی۔ لوگوں نے کہا اے ظالم، تم ساری عمر ظلم کرتے رہے ہو، آخری وقت میں بھی تم نے یہ نہیں چھوڑا۔ تو اس شخص نے کہا کہ اگر میری یہ ماں بچپن میں میری اصلاح کرتی رہتی تو آج میں یہ حرکت نہ کرتا۔ اور آج پھانسی کا پھندا میرے گلے میں نہ ڈالاجاتا۔ جب بھی میں کوئی غلط حرکت کر کے آتا تھا تو میری ماں میری حمایت کیا کرتی تھی اور اس حمایت کی وجہ سے مجھ میں اور جرأت پیدا ہوتی چلی گئی اور یہاں تک نوبت پہنچی۔ اس لئے کبھی یہ نہ سمجھیں کہ معمولی سی غلطی پر بچے کو کچھ نہیں کہنا، ٹال دینا ہے، اسکی حمایت کرنی ہے۔ ہر غلطی پر اس کو سمجھانا چاہیے۔ آپ کے سپرد صرف آپ کے بچے نہیںہیں، قوم کی امانت آپ کے سپرد ہے۔ احمدیت کے مستقبل کے معمار آپ کے سپرد ہیں۔ ان کی تربیت آپ نے کرنی ہے۔ پس خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عمل سے بھی اور سمجھاتے ہوئے بھی بچوں کی تربیت کر یں۔ اور پھر میں کہتا ہوں اپنی ذمہ داری کو سمجھیںا ور اپنے عہدِ بیعت کو جو آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام سے کیا ہے پورا کریں۔ اپنے آپ کو بھی دنیاوی لغویات سے پاک کریں۔ عابدات بنیں اور اپنے بچوں کے لئے بھی جنت کی ٹھنڈی ہوائوں کے سامان پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں