جلسہ سالانہ قادیان2005ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا افتتاحی خطاب

اللہ تعالیٰ نے بیشمار دفعہ قرآنِ کریم میں تقویٰ پر چلنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مجھے ہزاروں دفعہ یہ الہام ہوا ہے کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ پس اپنے ایمان کی فصلوں اور باغوں کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے اور اُن کوثمر دار بنانے کے لئے تقویٰ پر ہی چلنا ہو گا۔
آپ لوگ جوآج یہاں مختلف قوموں، مختلف ملکوں سے، مختلف جگہوں سے آئے ہوئے ہیں، مختلف قبیلوں، ذاتوں اور خاندانوں کے ہیں، آپ کی پہچان یہی ہے کہ احمدی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔
اب وہ وقت دُور نہیں ہیں جب ہم یہ نظارے دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حج کے موقع پر بھی اس طرح تمام احمدی ایک جگہ اکٹھے ہوں گے۔
تقویٰ اور تکبر یا فخر یا ذرا سی بات پر غصّہ میں آ جاناایسی باتیں ہیں جو ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔
یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی دعاؤں میں سست نہ کرے۔ یاد رکھیں،یہی ہمارا سرمایہ حیات ہے اور اِس دنیا میں بھی ان دعاؤں نے ہی کام آنا ہے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے عاجزانہ دعاؤں نے ہی کام آنا ہے۔
متقیوں کو اللہ تعالیٰ نے کئی طرح کی تسلّیاں دی ہیں اور انعامات سے نوازنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔
جب نیک نیتی کے ساتھ اس نظام سے وابستہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل آپ کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ پیدا کرائے گا۔ آپ کو بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ ہو گی۔ پس آگے بڑھیں اور اس پاک نظام میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔
تقویٰ پر چلنے کا عزم اور اُس کے لئے دعا ضروری ہے۔ اللہ کے خوف اور آنکھ کے پانی سے تقویٰ کی جڑوں کو مضبوط کریں اور نیکیوں کی لہلہاتی فصلوں سے اپنی خوبصورتی اور حسن میں اضافہ کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہ خوشخبری بھی دی کہ اگر تم تقویٰ پر قائم رہے، اُس کی مضبوط جڑیں تمہارے دلوں میں قائم رہیں تو اُس کے رسیلے اور میٹھے پھلوں میں سے ایک نعمت جو خلافت کی نعمت ہے اس کا بھی جماعت میں قیام رہے گا۔ پس اس نعمت سے بھی اگر فائدہ اُٹھانا ہے تو تقویٰ کی جڑوں کو اپنے دلوں میں مضبوط کرنا ہو گا۔ اے مسیح محمدی کی سرسبز شاخو! خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے روشن، تابناک، چمکدار مستقبل کی ضمانت دی ہے۔ پس تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اُس سے فیض پاتے چلے جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درختِ وجود کی سرسبز اور ثمر دار شاخیں بنتے چلے جاؤ۔
افتتاحی خطاب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 26 دسمبر 2005ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان۔بمقام قادیان دارلامان (انڈیا)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یَایُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہَ اَتْقٰکُمْ ۔ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (سورۃ الحجرات:14)

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے 114ویں جلسہ سالانہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہرلحاظ سے بابرکت فرمائے اور سب شامل ہونے والوں کو اُس مقصد کا حاصل کرنے والا بنائے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ کا آغاز فرمایا تھا اور تمام شاملین کو اُن تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں۔ گزشتہ دو خطبوں میں بھی میں اسی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں۔ وہ مقصد ایسا ہے کہ جس کی طرف بار بار توجہ دلانی بھی ضروری ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں ہی ہماری بچت ہے، زندگی اور بقا ہے۔ اور یہی ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کو اگر ہم نے حاصل کر لیا تو دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گئے۔ اور یہ مقصد ہے تقویٰ کا حصول۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مصرع ترتیب فرمایا کہ :

ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

تو اللہ تعالیٰ نے فوراً اس کی تائید میں الہاماً آپ کو یہ مصرع عطا فرمایا کہ :

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

(الحکم نمبر 45 جلد 5 مورخہ 10 دسمبر 1901ء صفحہ 3 کالم 1)
پس اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا وارث بننا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے پھل کھانے ہیں، اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہے تو اس جڑ کی حفاظت کرنی ہو گی۔ اس کی نشوونما کے لئے تمام ضروری لوازمات پورے کرنے ہوں گے۔ اس کو کھاد کی بھی ضرورت ہے، اس کو پانی کی بھی ضرورت ہے، اس کو جڑی بوٹیوں سے صاف رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ایسی آکاس بیلوں سے محفوظ رکھنا ہے جو بڑے بڑے درختوں سے بھی اگر چمٹ جائیں تو اُن کی رونق کو ختم کر دیتی ہیں۔ یہ کھادیں، یہ خوراک اللہ تعالیٰ کے وہ تمام احکامات ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جو نیکیوں کی فصلوں اور پھلوں کو ہرا بھرا رکھتی ہیں۔ اس کی آبیاری اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے، اُس کے حضور جھکتے ہوئے آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو ہیں۔ ان فصلوں کی نلائی، کٹائی، اُس کو جڑی بوٹیوں سے پاک کرنا اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے تمام نواہی سے بچنا ہے۔ تمام برائیوں کو اپنے دل کی زمین سے نکال باہر پھینکنا ہے۔ تبھی یہ جڑیں زمین میں گہری اور مضبوط ہوں گی اور تبھی ان جڑوں سے خوراک حاصل کرنے والی فصلیں اور باغ ثمردار ہوں گے۔ تبھی اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں ایسے دلوں پر پڑیں گی اور تبھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ان رسیلے اور میٹھے پھلوں سے فائدہ اُٹھا سکے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ :
’’اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل:129 )‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 7 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
یقینا اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ کا طریق اختیار کیاہو اور جو نیکوکار ہوں۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اُن کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو اور مُحْسِنُوْن وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں۔ اور پھر یہ بھی فرمایا۔

لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی (یونس: 27)

یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں‘‘۔
فرمایا کہ:
’’مجھے یہ وحی بار بار ہوئی۔

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ۔(النحل:129 )

اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ مَیں گن نہیں سکتا۔ خدا جانے دوہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پرہی فریفتہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اُسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 652-653 ۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پس اس سچے تقویٰ کو حاصل کرنے کے لئے اور نیکیاں بجا لانے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت کوشش کرنی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے صرف احمدی ہو جانا کافی نہیں ہے۔ صرف بیعت کر لینے سے یا اتنا کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ ہم فلانے احمدی کی اولاد ہیںجس نے جماعت کی خدمت میں ایک نام پیدا کیا تھا۔ یا ہم فلاں صحابی کی اولاد ہیں جس نے جماعت کی خاطر یہ یہ قربانیاں دی تھیں، یا فلاں شہید ہمارا رشتہ دار ہے جو جماعت کی خاطر شہید ہوا۔ یا ہم فلاں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمارے ساتھ معاملہ تقویٰ اور نیکیاں بجا لانے کی کوشش کو دیکھ کر کرنا ہے۔
اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی بیٹی تھیں، اُن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا کہ فاطمہ یہ نہ سمجھنا کہ تم اللہ کے نبی کی بیٹی ہو۔ اس لئے تمہارے ساتھ نرمی کا معاملہ ہو گا، بخشش کا معاملہ ہوگا۔ نہیں، بلکہ تمہارے اعمال ہی تمہارے کام آئیں گے۔
(صحیح بخاری کتاب الوصایا باب ھل یدخل النساء و الولد فی الاقارب۔ حدیث 2753)
یہ ٹھیک ہے کہ کوئی صرف اور صرف کُلّی طور پر اپنے عملوں کی وجہ سے نہیں بخشا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہونا بھی ضروری ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تقویٰ پر چلنا اور نیکیاں بجا لانے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بیشمار دفعہ قرآنِ کریم میں تقویٰ پر چلنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اور اسی لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مجھے ہزاروں دفعہ یہ الہام ہوا ہے کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں تمام اوامر و نواہی کی تفصیل کھول کر بیان فرما دی ہے۔
پس اپنے ایمان کی فصلوں اور باغوں کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے اور اُن کو ثمر دار بنانے کے لئے تقویٰ پر ہی چلنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرنا ہو گا۔ تمام نیکیاں اختیار کرنے کی کوشش کرنی ہو گی اور تمام برائیوں کو بیزار ہو کر ترک کرنا ہو گا۔ کیونکہ اس کے بغیر ،جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے، نہ آباؤ اجداد کی بزرگی کام آئے گی، نہ کوئی خاندان کام آئے گا، نہ کوئی قبیلہ کام آئے گا اور نہ کسی ملک کا باشندہ ہونا کام آئے گا۔
آج یہاں ہم مختلف قوموں اور قبیلوں کے لوگ جمع ہیں۔ہمارے ہاں اس ملک سے بھی مختلف جگہوں سے ، مختلف معاشرے کے، مختلف قومیتوں کے، مختلف طبقات کے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں برصغیر میں ذات پات برادری وغیرہ کا ابھی تک بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے، بلکہ شادیوں وغیرہ کے موقع پر بھی،خاص طورپر رشتوں کے موقع پر بھی بعض خاندان بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔رشتوں میں اس لئے روکیں ڈالی جاتی ہیں کہ فلاں ہماری ذات برادری کا نہیں ہے۔ بعض غلط کاموںمیں ملوث لوگوں کی صرف اس بات پر حمایت کی جاتی ہے کہ وہ ہماری برادری یا قبیلے کا ہے۔ پھر ملکوں کی سطح پر چلے جائیں تو مغربی ممالک میں بھی یہ چیز ہے۔ گووہاں ذات برادری کے لحاظ سے تو نہیں۔ وہ لوگ اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ان لوگوںمیں بھی بڑائی، برتری کا احساس اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کا احساس ہے۔ ایشین سے، افریقن سے ان کے مختلف سلوک ہوتے ہیں۔ اور مختلف مواقع پر یہ احساسِ برتری اُن کا ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ سیاسی طور پر بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس کا اظہار کریں نہ کریں لیکن کسی نہ کسی طرح یہ برتری اور کمتری کے رویے ظاہر ہو ہی جاتے ہیں۔ بہر حال یہ بڑے اور چھوٹے کا احساس کسی نہ کسی سطح پر ہر جگہ پایا جاتاہے لیکن ہمارے ملکوں میں ہر سطح پر یہ بہت زیادہ ہے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف ہی توجہ دلائی ہے کہ اے لوگو! یقینا ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو بلکہ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ تو اصل چیز جو اس میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ کا قرب پانے کے لئے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تمہارا متقی ہونا ہی اصل چیز ہے اور کسی قسم کی اَور انفرادیت تمہارے کسی کام نہیں آئے گی۔ فرمایا کہ یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے۔ تمہارا معزز ہونا تمہارے قبیلے کے لحاظ سے نہیں ہو گا۔ یہ خاندان، یہ برادریاں، یہ قبیلے تو ایک پہچان ہیں۔ کم ذات کا یا اچھی ذات کا ہونا معیار نہیں ہے۔ گورا ہونا یا کالا ہونا کوئی بڑائی کا ذریعہ نہیں۔ بلکہ بڑائی اسی میں ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ آپ لوگ جو آج یہاں مختلف قوموں، مختلف ملکوں سے، مختلف جگہوں سے آئے ہوئے ہیں، مختلف قبیلوں، ذاتوں اور خاندانوں کے ہیں، آپ کی پہچان یہی ہے کہ احمدی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ پس ہر احمدی کو یہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لائے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے نیکیاں کرے۔ بلا تفریق مذہب ایک دوسرے کے کام آئیں تبھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ٹھہریں گے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ٹھہرتا ہے وہی ہے جو دنیا و آخرت کے انعامات کا وارث ہوتا ہے۔ پس ان خاندانوں اورقبیلوں کو تم اپنی پہچان کی خاطر تو رکھو کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہیں، لیکن یہ پہچان تمہارے معزز ہونے کی پہچان نہیں ہو سکتی، اگر اعمال اُس کے مطابق نہیں ہیں۔ پس یہی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ معزز وہی ہے جو تقویٰ میں بڑھا ہوا ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو اعلیٰ خاندان کا سمجھنے والا برائیوں میں مبتلا ہے اور اُس کی نظر میں کمتر خاندان والا ہے لیکن وہ تقویٰ میں زیادہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک معززوہی ہے جس کو وہ کمتر سمجھتا ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور یہی بات جماعت احمدیہ کے جلسوں کا مقصد ٹھہرائی ہے۔
آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے اور تقویٰ دلوں میں قائم کرتے ہوئے، نیکیاں بجا لاتے ہوئے محبت، پیار اور بھائی چارے کی فضا ہر جگہ قائم کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس بارے میں کیسا خوبصورت پیغام اپنی اُمّت کو دیا تھا۔ فرمایا اے لوگو! تمہارا خدا ایک ہے۔ تمہارا باپ ایک ہے۔ یاد رکھو کسی عربی کو عجمی پر اور کسی سرخ و سفید رنگ والے کو کسی سیاہ رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو کسی سرخ و سفید رنگ والے پر کسی طرح کی کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں تقویٰ اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ کی نظر میں تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو تقویٰ میں سب سے بڑھ کر ہے۔ (الجامع لشعب الایمان جلد 7 صفحہ 132۔ فصل و مما یجب حفظ اللسان منہ الفخر بالآباء … الخ۔ حدیث 4774۔ مکتبۃ الرشد۔ ریاض 2004ء)
پس معزز ہونے کے لئے یہ معیار ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور نیکیوں میں آگے بڑھو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں:۔
’’مکرّم و معظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔… یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ کوئی وجۂِ شرافت نہیں۔ خدا تعالیٰ نے محض عُرف کے لئے یہ ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چار پُشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی مشکل ہے۔ متّقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ میرے نزدیک ذات کوئی سند نہیں، حقیقی مکرمَت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 23 ۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
آج حج کے علاوہ جماعت احمدیہ کے جلسہ میں ہمیں یہ چیز نظر آتی ہے۔ لیکن یہ چیز میرے خیال میں ہمارے میں زائد ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے پہچان کی کوشش کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کوجب کھل کر اس فریضہ کی ادائیگی کا موقع مل جائے گاتو انشاء اللہ تعالیٰ حج میں بھی پہلے سے بڑھ کر یہ چیز نظر آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ راستے کی تمام روکیں دور ہو جائیں گی اور اب وہ وقت دُور نہیں ہیں جب ہم یہ نظارے دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حج کے موقع پر بھی اس طرح تمام احمدی ایک جگہ اکٹھے ہوں گے۔ بہر حال آج یہ بات فی الحال ہمیں یہاںجماعت احمدیہ کے جلسہ میں نظر آتی ہے جہاں مختلف خاندانوں، برادریوں بلکہ قوموں اور ملکوں کے لوگ بھی ایک جگہ جمع ہیں۔ مالی لحاظ سے انتہائی کمزور بھی ہیں اور آسودہ حال بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد پر عمل کرنے والے ہیں کہ:
’’ دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ مال و دولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کرکے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو۔ خدا کے نزدیک مکرّم وہی ہے جو متقی ہے‘‘۔
پس ہمیشہ اس اہم مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں کیونکہ یہی راہِ نجات ہے اور یہی چیز ہے جس سے جماعت نے ترقی کرنی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ ہمارے سے ہمیشہ وہ اعمال سرزد ہوں جو ہمیں اللہ تعالیٰ سے قریب تر کرنے والے ہوں۔ ہمیشہ اُن راستوں پر چلنے والے ہوں جن سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا ہوتے ہوں اور نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی چلی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’اب جو جماعتِ اتقیاء ہے خدا اُس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 177 ۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
بڑے خوف کا مقام ہے۔ کبھی کوئی احمدی ایسا نہ ہو کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کرنے کے بعدپھرہلاک ہونے والوں کی جماعت میں شامل ہو جائے۔ اس لئے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بتائی ہے جس کو ہمیشہ ہر احمدی کو مدّنظر رکھنا چاہئے، پیشِ نظر رکھنا چاہئے جس کا ایک حدیث میں یوں ذکر آتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا کیا کرتے تھے۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْھُدَی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی۔

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت،تقویٰ ، پاکدامنی اور غناء مانگتا ہوں۔ (صحیح مسلم ۔کتاب الذکر و الدعاء و التوبۃ و الاستغفار۔ باب التعوذ من شر ما عمل … الخ۔ حدیث 6904)
پھر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،آپ نے کسی کے سامنے ذکر کیاکہ مَیں آپ کو وہ دعا بتاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ آپ ان الفاظ میں دعا مانگا کرتے تھے۔

اَللّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوٰھَا وَ زَکِّھَا وَاَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰھَا۔

کہ اے اللہ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اس کو خوب پاک صاف کر دے، اور تو ہی سب سے بہتر ہے جو اس کو پاک کر سکے۔
(صحیح مسلم ۔کتاب الذکر و الدعاء … باب التعوذ من شر ما عمل … الخ۔ حدیث 6906)
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی جن کی خاطر یہ کائنات پیدا کی گئی تو ہمیں کس قدر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ موقع میسر آیا ہے، یہ تین دن اس بستی میں ملے ہیں، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس سے بھر پور فائدہ اُٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ،دعائیں کرتے ہوئے، اپنے دل میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں۔ اُس سے تقویٰ مانگیں۔ نیکیاں بجا لانے کی طرف توجہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اُن پر قائم رہنے کی اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش بھی کریں تا کہ ہمارا شمار ہمیشہ اتقیاء کی جماعت میں ہو اور کبھی ہلاک ہونے والوں میں نہ ہوں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے ہوں۔ نفس کی خواہشات ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی نہ ہوں ۔
جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ پس جہاں اس تقویٰ کے حصول کے لئے ہر احمدی نے اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں پیدا کرنی ہے اُس کی عبادت کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں، نمازوں میں پابندی اختیار کرنی ہے، ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھنا ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں کرنی ہیں، اُس کے دین کی اشاعت کے لئے کوشش کرنی ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی حقوق ادا کرنے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ہی ہیں جن میں حقوق اللہ شامل ہیں، حقوق العباد جن میں شامل ہیں، جو تقویٰ کی جڑ کو مضبوط کرنے والے ہیں، ایمان کے درخت کو ثمر دار بنانے والے ہیں۔ یہ نیک اعمال ہی ہیں، اگر ہم ان پر کاربند ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کی رضا کوپاتے ہوئے اُس کے مقرب ہو جائیں گے۔ اس طرح بعض برائیاں ہیں جنہوں نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہوا ہے۔ ایک احمدی بھی کیونکہ اس معاشرے میں رہ رہا ہے، اُس کا حصہ ہے ،جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اس لئے وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
متقی کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان میں عاجزی، انکساری، حلیمی اور مسکینی ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،

وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان :64)۔

اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں:سلام ۔ایسے جاہل جن کا کام ہی صرف لڑنا جھگڑنا ہے اور آجکل ہمارے ان ملکوں میں جو مسلمان کہلانے والے ہیںان میں تو احمدیت کے خلاف زیادہ ہی جہالت کا اظہار ہوتا ہے۔ پھر بعض دفعہ اپنوں میں سے بھی بعض جاہل پیدا ہو جاتے ہیں جن کو سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو ایسے موقعوں پر فرمایا کہ ایسے لوگوں کے منہ لگنے کے بجائے ایسی مجلس سے اُٹھ جایا کرو اور ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے سوائے اس کے کہ ہم اپنے اخلاق خراب کریں، کچھ نہیں ہو گا۔ بعض دفعہ مقابلے اور غصہ میں آ کر انسان خود بھی ایسی بات کر جاتا ہے جس سے تکبر کے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جب ایک دفعہ انسان متکبر ہو جائے تو پھر ایک کے بعد دوسرا گناہ سرزد ہوتا چلا جاتا ہے۔ دوسرے نے تو جہالت سے بات کی تھی لیکن جواب دے کر آپ بھی جہالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ متکبر کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَا تُصَعِّرْخَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْا َرْضِ مَرَحًا۔اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ(لقمان:19)۔

اور اپنے گال لوگوں کے سامنے غصہ سے مت پھلا اور زمین میں تکبر سے مت چل، اللہ یقینا ہر شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
پس تقویٰ اور تکبر یا فخر یا ذرا سی بات پر غصہ میں آ جاناایسی باتیں ہیں جو ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ مخالف سمتیں ہیںاور تقویٰ کے ساتھ کبھی اس قسم کی برائیاں جمع نہیں ہو سکتیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو تکبر کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ آپ فر ماتے ہیں کہ:
’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 598)
پھر آپ نے فرمایا:
’’مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے؟ پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں‘‘۔
فرمایا ’’ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے، وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔ کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کر دے اور اُس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے، اُس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دیدے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے، وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اُس پر ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میںجا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے ، اُس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے، وہ بھی متکبر ہے اور وہ اُس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دَ م میں اُس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اُس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اُس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں۔ کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے، وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیاہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے، اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک غریب بھائی جو اُس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتاہے، اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے، اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصّہ لیا ہے… سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے، تم اُس سے کرو۔ اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے، تُم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو‘‘۔ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 402-403)
پھر آپ نے فرمایا:
’’ تکبّر کئی قسم کا ہوتا ہے۔ کبھی یہ آنکھ سے نکلتا ہے جبکہ دوسرے کو گھور کر دیکھتا ہے تو اُس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے۔ کبھی زبان سے نکلتا ہے اور کبھی اس کا اظہارسَر سے ہوتا ہے اور کبھی ہاتھ اور پاؤں سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ غرضیکہ تکبّرکے کئی چشمے ہیں اور مومن کو چاہئے کہ ان تمام چشموں سے بچتا رہے اور اُس کا کوئی عضو ایسا نہ ہو جس سے تکبّر کی بُو آوے اور وہ تکبّر ظاہر کرنے والا ہو‘‘۔ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 613 ۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
دیکھیں اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ کتنی گہرائی میں جا کر آپ نے ہماری اصلاح کرنے اور تقویٰ میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اب دیکھ لیں دنیا میں بہت کم ہیں جو پڑھ لکھ جائیں یا کسی خاص مضمون میں اُن کا علم بڑھ جائے تو اُن میں بڑائی پیدا نہ ہو۔ بلکہ ہمارے ملکوں میں تو سکولوں کے اساتذہ بھی اکثر اوقات بچوں کو پڑھاتے ہوئے ان کی غلطی پر اُن کا اچھا خاصّہ مذاق اڑا دیتے ہیں اور پھر بچوں کو پڑھائی کرنے کے شوق کے بجائے پڑھائی سے نفرت ہو جاتی ہے۔ پھر آجکل یہ بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جس کے پاس کچھ پیسہ آ جائے اُس کا دماغ ہی نیچے نہیں آتا۔ بعض دفعہ غریب آدمی سے نہایت حقارت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو جو دعاؤں میں سست ہیں اُن میں بھی تکبر ہے۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آجکل اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی موقع دیا ہے تو ان دنوں میں اس ماحول میں خاص طور پر دعاؤں پہ زور دیں۔ اس ماحول سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی دعاؤں میں سست نہ کرے۔ یاد رکھیںکہ یہی ہمارا سرمایہ حیات ہے اور اس دنیا میں بھی ان دعاؤں نے ہی کام آنا ہے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے عاجزانہ دعاؤں نے ہی کام آنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس درد سے ہمیں نصائح فرمائی ہیں اگر ہم نے ان پر عمل نہ کیا تو کہیں یہ نہ ہو کہ ہم بھی اُس زُمرہ میں شمار ہو جائیں جو خدا کے مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتے۔ پھر دیکھیں کس باریکی سے بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ فرمایا حقارت سے کسی کو نہیں دیکھنا، یا کسی بات پر اس طرح دیکھنا کہ اپنے آپ کو یہ سمجھنا کہ جس طرح کل کائنات کامیں ہی مالک ہوں۔پھر کبھی زبان سے کسی کی دل آزاری نہیں کرنی۔ بعض لوگ مذاق مذاق میں دوسروں کی دل آزاری کر جاتے ہیں اور یہ مذاق ہو رہا ہوتا ہے۔ تو اس بات سے بھی منع فرمایا ہے۔ کسی کا استہزاء اور ٹھٹھّا کرنا جس سے دوسرے کی سبکی ہو، یہ سب تکبر کی قسمیں ہیں۔ تو ایک تکبر جو ہے یہ بہت سی نیکیوں سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اور بہت سی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تکبر ہی ہے جس سے انسان عفو اور درگزر سے دور چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ غصّہ کو دبانے والے ہوتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ایک متکبر انسان جو ہے اُس کو تو دوسروں کو معاف کرنا ہی نہیں آتا۔ جس کے اختیارات ہوںاس کا کسی کو سزا کے طور پر سرزنش کرنا یا سزا دینا ،اگر اصلاح کے لئے کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن جس میں تکبر ہو گا وہ ان معاملات کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لے گا۔ (بعض احباب اس موقع پر نعرے لگا رہے تھے ۔اس پرحضور نے فرمایا کہ جہاں نعرے کی ضرورت نہ ہو وہاں اس طرح آخر میں بیٹھ کر بلاوجہ نعرے نہ لگائیں ۔ خاموشی سے کچھ تھوڑی دیر سن بھی لیں) اَنا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ حالانکہ ذاتی معاملات میں متقی کی یہ نشانی ہے کہ وہ نہ صرف معاف کرتے ہیں بلکہ احسان کا سلوک کرتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ کسی دوسرے کی طرف سے کوئی زیادتی بھی کبھی ہوئی ہے۔ اور ایسے احسان کرنے والوں اور تقویٰ پر قدم مارنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

کہ اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کرتا ہے۔ جبکہ تکبر کرنے والوں کے لئے فرمایا جیساکہ مَیں نے پہلے کہا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے انتہائی ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سی نیکیاں ہیں، اعمال ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے ، جن کی تفصیل میں اس وقت جانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ ایسی نیکیاں ہیں جو انسان کے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے والی اور اس کی جڑوں کو مضبوط کرنے والی ہیں۔ مثلاً رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ہے۔ اُن کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ اس میں اپنے والدین ہیں، بیوی کے والدین ہیں، بھائی بہن ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ غریبوں کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اس میں بھی جہاں تک غریبوں کے حقوق کا سوال ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمدیہ اپنے وسائل کے لحاظ سے بحیثیت جماعت بھی بھر پور حصہ لینے کی کوشش کرتی ہے اور جو افرادِ جماعت ہیں، جن کو توفیق ہے وہ اپنی ذاتی حیثیت کے لحاظ سے بھی اس میں حصہ لیتے ہیں۔
پھر بحیثیت انسان ہر دوسرے انسان کے کام آنے کا سوال ہے۔ پھر عدل و انصاف کا قیام ہے۔ وعدوں کی پابندی ہے۔ اس طرح کے بہت سارے اعمال ہیں جو کرنے سے تقویٰ کی جڑیں مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ غرض کہ جو کام بھی اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے کیا جائے وہ نیکی ہے اور تقویٰ کی طرف لے جانے والی ہے۔ اور جو کام بھی ان حقوق کی تلفی کا باعث بن رہا ہے، اپنے خدا سے دور لے جانے والا ہے وہ برائی اور بدی میں شامل ہے۔ اور اس کی بیخ کنی کرنا دل کی زمین کو صاف کرنے کے لئے اور تقویٰ کی جڑوں کو تقویت دینے کے لئے ضروری ہے۔
متقیوں کو اللہ تعالیٰ نے کئی طرح کی تسلیاں بھی دی ہیں اور انعامات سے نوازنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔ مثلاً فرمایا: متقیوں کا میں خود کفیل ہو جاتا ہوں، اُن کی ضروریات کو پورا کرتا ہوں(الجاثیہ: 20)، ان کو تنگ حالات سے نکالتا ہوں۔ (الطلاق:4) ۔پھر اللہ تعالیٰ متقیوں کے لئے رزق کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ اُنہیں بہت ساری برائیوں سے اپنے فضل سے آزاد کرتا ہے۔ اُن کو ایک نور دیا جاتا ہے (التحریم: 9) نورِ فراست اُن کو عطا ہوتا ہے۔ غرض ایک متقی جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ قرآنِ شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے۔ ایک متّقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں‘‘۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14صفحہ 342)
پس فرمایا یہ جو تقویٰ ہے یہ حصنِ حصین ہے۔ ایک محفوظ قلعہ ہے۔ اس میں آ جائیں گے تو ہر لحاظ سے محفوظ ہو جائیں گے۔
’’جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اوراپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 342)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلّی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذّتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جداکرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو۔ وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذّت سے بہترہے جس سے خدا ناراض ہو جائے۔ اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہواُس فتح سے بہتر ہے جو موجبِ غضبِ الٰہی ہو‘‘۔ فرمایا’’ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے کہ جس کو دل میں لگانا چاہئے۔ وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے، تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے۔ اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے‘‘۔ فرمایا’’ پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو مَیں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہو جاؤ گے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤاور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو‘‘۔ فرمایا’’اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ کینہ وری سے پرہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307-308)
یہ آخری اقتباسات جو مَیں نے پڑھے ہیں، یہ رسالہ الوصیت سے ہیں جو ٹھیک آج سے سو سال پہلے 20؍دسمبر 1905ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا اور پھر 24؍دسمبر کو میرا خیال ہے یہ رسالہ شائع ہوا تھا۔ تو تقویٰ کی طرف توجہ دلانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری وفات کی اطلاع دے کر’’ مجھے ایک جگہ دکھلا دی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی۔ اور ایک فرشتہ مَیں نے دیکھا کہ وہ اس زمین کو ناپ رہا ہے۔ تب ایک مقام پر پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے۔ پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اُس کی تمام مٹی چاندی کی تھی ۔تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے۔ اور ایک جگہ مجھے دکھائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا۔ اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 316)
اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے لوگوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت دعائیں بھی کی ہیں۔ اب مَیں وہ دعائیں پڑھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’ مَیں دُعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدّم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی۔ اور خداکے لئے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ اٰمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ‘‘۔
پھر دوسری دفعہ آپ نے یہی دعا کی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’پھر مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا! اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہوچکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔ اٰمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
پھر مَیں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور و رحیم! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچّا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنّی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں۔ اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تُو راضی ہے۔ اور جن کو تُو جانتا ہے کہ وہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے۔ اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ اٰمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘َ۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316تا 318)
گزشتہ سال یوکے کے جلسہ سالانہ پر مَیں نے تحریک کی تھی کہ اس مبارک تحریک میں حصہ لیں اور اس پاک نظام میں اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی پاک کرنے کے لئے شامل ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنیں۔ میں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ سو سال پورے ہونے پر کم از کم پچاس ہزار موصیان ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اُس وقت جو تعداد تھی، اُس میں تقریباً پندرہ ہزار اَور شامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے کے جلسہ تک یہ تعداد درخواست دہندگان کی پوری ہو گئی تھی، منظوریاں تو بعد میں ہوئیں لیکن بہر حال تعداد پوری ہوگئی تھی۔ لیکن آج سو سال پورے ہونے پر (سو سال تو آج دسمبر میں پورے ہو رہے ہیں ناں) جو درخواستیں مجلسِ کارپرداز پاکستان کو پہنچی ہیں، یہاںبھارت کی شاید علیحدہ بھی ہوں ۔ وہ تقریباً ساڑھے سترہ ہزار ہیں جبکہ میں نے پندرہ ہزار کہا تھا۔ ابھی بہت سے وصیت فارم جو ہیں وہ جماعتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی جو یہ رپورٹ ہے وہ میرے نزدیک اس لحاظ سے نامکمل ہے کہ بہت ساری ابھی پراسس (Process)میں ہیں۔ میرے خیال میں اس سے کہیں زیادہ درخواستیں آ چکی ہیں جتنا کارپرداز کا خیال ہے۔ بہر حال جماعت نے اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے توجہ دی۔ اب جو اگلا ٹارگٹ تھا کہ کُل چندہ دہندگان کا یعنی اس وقت جو کمانے والے ہیں یا 2008ء تک جو بھی کمانے والے ہوں گے اُس کا پچاس فیصد انشاء اللہ تعالیٰ نظامِ وصیت میں شامل کرنا ہے۔ جو نہ کمانے والے ہوتے ہیںوہ گھریلو خواتین، خانہ دار خواتین اور بچے ہوتے ہیں، اُن کو اگر شامل کر لیں تو یہ تعداد پچاس فیصد سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بعض چھوٹی جماعتوں نے یہ ٹارگٹ حاصل بھی کر لیا ہے۔ بہرحال یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نظام کو اب جماعت کے افراد سمجھنے لگ گئے ہیں اور اب تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ آج سے سو سال پہلے جس نظام کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شہر میں فرمایا تھا آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اُس کی تقدیر کے تحت اس شہر سے ہی مَیں آپ کو اگلا ٹارگٹ جس کی گزشتہ سال تحریک کی گئی تھی، اُس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔
بہت سارے لوگ یہ لکھتے ہیں کہ ہم اس فکر میں تو ہیں کہ وصیت کریں لیکن اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے۔ تو یاد رکھیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو یہ دعائیں پڑھی ہیں تو یہ اسی لئے پڑھ کر سنائی ہیںکہ جب نیک نیتی کے ساتھ اس نظام سے وابستہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل آپ کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ پیدا کرائے گااور آپ کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ بھی ہوگی۔ پس آگے بڑھیں اور اس پاک نظام میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔ خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہیں اور اُن حقوق کی ادائیگی کے معیار حاصل کرتے چلے جائیں جن کی طرف تقویٰ کی راہوں پرچلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے۔
بہرحال تقویٰ پر چلنے کا عزم اور اُس کے لئے دعا ضروری ہے۔ اللہ کے خوف اور آنکھ کے پانی سے تقویٰ کی جڑوں کو مضبوط کریں اور نیکیوں کی لہلہاتی فصلوں سے اپنی خوبصورتی اور حسن میں اضافہ کریں۔
اس رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہ خوشخبری بھی دی کہ اگر تم تقویٰ پر قائم رہے، اُس کی مضبوط جڑیں تمہارے دلوں میں قائم رہیں تو اُس کے رسیلے اور میٹھے پھلوں میں سے ایک نعمت جو خلافت کی نعمت ہے اس کابھی جماعت میں قیام رہے گا۔ پس اس نعمت سے بھی اگر فائدہ اُٹھانا ہے تو تقویٰ کی جڑوں کو اپنے دلوں میں مضبوط کرنا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ خدا کا وعدہ ہے اور وہ سچے وعدوں والا خدا آج تک اپنے وعدے پورے کرتا چلا آیا ہے۔ اس انعام سے فیض اُٹھانے والے انشاء اللہ تعالیٰ پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ لیکن ساتھ ہی ہر ایک کو یہ فکر بھی ہونی چاہئے کہ تقویٰ سے خالی ہو کر ہم کہیں جڑی بوٹیوں کی طرح جماعت کے اس حسین باغ سے باہر نہ نکال دئیے جائیں۔ ہم کہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں نہ آجائیں۔ اس لئے اللہ نہ کرے کہ کبھی ایسا دن آئے جب کسی احمدی کے دل میں ہدایت کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی کجی پیدا ہو۔ اس لئے اپنے ایمانوں کی مضبوطی کی دعائیں بھی مانگتے رہنا چاہئے۔
مجھے گزشتہ سال کسی نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہجری قمری کے لحاظ سے 2005ء میں خلافت کو بھی سو سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد اب تو بہت سارے لوگوں نے اس طرف توجہ کی ہے، ہر ایک کو پتہ ہے۔ لیکن بہر حال اس لحاظ سے آج وصیت کے نظام کو سو سال پورا ہونے کے علاوہ قمری سال کے لحاظ سے خلافت احمدیہ کو بھی سو سال پورے ہو گئے ہیں۔اورمَیں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید کایہ بھی ایک نشان ہے کہ باوجود اس کے کہ پہلے اس لحاظ سے سوچ کر یہاں آنے کا پروگرام نہیں بنا تھا اور باوجود ایسے حالات کے جن کو اتنے موافق نہیں کہہ سکتے، اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ دونوں لحاظ سے اس صدیوں کے پورا ہونے پر خلیفۂ وقت وہاں موجود ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ادنیٰ غلام وہاں موجود ہے جہاں سے یہ پیغام دنیا کو دیا گیا تھا۔ آج وہاں موجود ہے جہاں سے خلافتِ احمدیہ کا آغاز ہوا تھا۔ اللہ کرے جہاں نظامِ وصیت سے دنیا کے مالی نظام فائدہ اُٹھانے والے ہوں، جہاں غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کے حقوق قائم ہوں، جہاں محض اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے حقوق العباد کی ادائیگی ہو، جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کے اعلیٰ معیار قائم ہوں، وہاں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خوشخبری کا بھی مصداق ٹھہرے کہ:
’’ مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ براہینِ احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا‘‘۔
(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305۔306)
پس اے مسیح محمدی کی سرسبز شاخو! خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے روشن، تابناک، چمکدار مستقبل کی ضمانت دی ہے۔ پس تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اُس سے فیض پاتے چلے جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درختِ وجود کی سرسبز اور ثمر دار شاخیں بنتے چلے جاؤ۔ آج تمام دنیا میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اس مسیح محمدی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تم نے لہرانا ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار تم نے قائم کرنے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے تقویٰ کی جڑ کو اپنے دلوں میں مضبوط کرتے ہوئے یہ سب کچھ حاصل کیا اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم نے بھی کرنا ہے تا کہ نسلاً بعد نسل اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے حصہ پاتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر مَیں دوبارہ توجہ دلاتا ہوں کہ ان دنوں کو خاص طور پر بہت دعاؤں میں گزاریں، بہت دعاؤں میں گزاریں، بہت دعاؤں میں گزاریں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو، اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کرلیں۔ دعا کر لیں۔ نعرے بند کریں اور دعا کرلیں۔ (دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں