جلسہ سالانہ کینیڈا 2005ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا
جماعت احمدیہ کینیڈا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر26؍جون 2005ء بروز اتوار
انٹرنیشنل سینٹر ٹورانٹومیں اختتامی خطاب
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَفِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللہُ عَلَیْھِمْ وَرَسُوْلُہٗ۔ بَلْ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔(النور51:)

کیا ان کے دلوں میں مرض ہے یا وہ شک میں پڑ گئے ہیں یا ڈرتے ہیں کہ اللہ ان پر ظلم کرے گا اور اس کا رسول بھی بلکہ یہی ہیں جو ظالم ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود وہ پاک اور اعلیٰ اخلاق سے پر وجود تھا۔ وہ وجود جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے اور اس کی عبادتوں کی ایسی مثالیں قائم کرنے والا تھا جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور اس کے ساتھ اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی بھی وہ اعلیٰ مثالیں کی بھی اعلیٰ مثالیں اس وجود نے رقم کیں جو تاریخ عالم میں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ جس نے اپنی ذات پر ظلم کئے لیکن لوگوں کے حق ادا کئے۔ جو اس غم میں ہلکان ہونے والی ذات تھی کہ خدا کے بندے اپنے خدا کے حق کو پہچانیں اور اپنے ظلم کی وجہ سے خدا کی پکڑ کے نیچے نہ آ جائیں۔ یہاں تک کہ آپ کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ(الکہف7:)۔

یعنی پس کیا تو شدت غم کی وجہ سے ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا؟ تو ایسا وجود جو اس حد تک خدا کی مخلوق سے ہمدردی رکھتا ہو اس کی فکر اس مخلوق کی فکر اس دل میں ہر وقت ہو۔ یہ فکر ہو ہر وقت کہ لوگ اپنے برے اعمال سے کہیں ہلاک نہ ہو جائیں۔ ایسے وجود کے بارے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ دل کسی پر ظلم کر سکتا ہے یہ تو مجسم رحم اور لوگوں کے لئے ہمدردی کے جذبات پر دل ہے۔ یہ وجود تو ایسا وجود تھا جو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد احسان کرنے کو پسند کرتا تھا اور ایسی ایسی حیرت انگیز احسان کی مثالیں آپ کی سیرت میں ہمیں ملتی ہیں جن کے بارے میں انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن اس وقت میں آپ کی سیرت کا صرف ایک پہلو جس میں آپ کے عدل و انصاف کی کچھ جھلکیاں نظر آئیں گی اور چند مثالیں ہیں لے رہا ہوں بہت ساری مثالوں میں سے جس سے آپ کی سیرت کے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح آپ نے اپنے عمل سے زندگی کے ہر پہلو اور انسانی تعلقات کی ہر سطح پر یہ تقاضے پورے کئے اور یہ ثابت کر کے دکھایا کہ عدل و انصاف کے اگر اعلیٰ معیار دیکھنے ہوں تو اس نبیوں کے سردار میں دیکھو صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور پھر اپنے ماننے والوں کو بھی ہر سطح پر یہ تلقین فرمائی کہ اگر میری صحیح پیروی کرنے والے ہو تو تم بھی اس انصاف کے وہی تقاضے پورے کرو جن کی مثالیں میں تمہارے سامنے قائم کر رہا ہوں۔ آپ کے کسی عمل سے بھی کبھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے۔ آپ پر جو شریعت خدا تعالیٰ نے اتاری وہ تو انصاف کے تقاضے پورے کرنے والی تھی ہی اللہ تعالیٰ کی جو تعلیم تھی جس کے میں سے چند ایک میں ذکر بھی کروں گا بلکہ ایک دو کا ہی صرف وقت کے رعایت سے لیکن اس سے پہلے اس شریعت کے نازل ہونے سے پہلے ہی آپ کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت رکھی ہوئی تھی جسے دیکھ کر اہل مکہ جوانی میں ہی آپ کو سچ پر قائم رہنے والا اور انصاف کرنے والا کہا کرتے تھے چنانچہ وہ واقعہ یاد کریں جب خانہ کعبہ میں حجر اسود رکھنے کا مرحلہ آیا اور تمام قبائل اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے لڑنے مرنے پر تیار ہو گئے لیکن جب آپ کو آتے دیکھا تو یہ مشورہ ہوا کہ یہ شخص ہے جو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مسئلے کا حل کرے گا اور اس بات پر سب خوش تھے کہ آپ سے اس مسئلے کا حل کروایا جائے اور پھر اس خوبی سے آپ نے اس مسئلے کا حل کیا جس پر تمام قبیلوں کے سردار خوش ہو گئے۔ پس وقت کے ساتھ اور شریعت کے جو احکامات آپ پر اترتے گئے قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ساتھ یہ انصاف پسند طبیعت مزید ابھرتی گئی اور نکھرتی گئی اور دنیا کے سامنے مثالیں قائم کر گئی اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرما دیا کہ یہ اسوہ حسنہ اب تمہارے لئے قابل تقلید ہے اور یہ سوچنا اور گمان کرنا بھی غلط ہے کہ اس وجود سے زیادہ انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ اس کے فیصلے اور عدل کے معیار اب خدا تعالیٰ کی رہنمائی کے مطابق ہیں۔ یہ نبی اب اس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے جس طرح خدا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا کہ اب رسول کا فیصلہ خدا کا فیصلہ اور خدا کا فیصلہ رسول کا فیصلہ ہو گا اس لئے یہ ذہنوں میں سے نکال دو کہ ان فیصلوں میں کوئی ظلم ہو گا بلکہ یہ سوچ رکھنے والے خود ظالم ہیں اپنی مرضی کی باتیں ہوں تو ماننے والے ہیں اپنے خلاف فیصلے ہوں تو شور مچاتے ہیں اور ایمان لانے والوں کو بھی یہ فرما دیا کہ اگر تم ایمان کی مضبوطی چاہتے ہو تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو خوشدلی سے تسلیم کرو اور اس تعلیم پر عمل کرو جو تمہارے لئے خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا ذریعہ بننے والی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق عمل کیا اور اپنی امت کو بھی اس کے مطابق نصیحت کی کہ

وَأمرْتُ لِاَعْدَلَ بَیْنَکُمْ۔

اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کروں۔ آپ یہ انصاف کی تعلیم جیسا کہ میں نے کہا اپنی امت کے لئے کو دیتے تھے وہاں خود اس پر عمل کے نظارے بھی آپ نے ہمیں دکھائے۔ ہمیں آپ کی گھریلوں زندگی سے لے کر میدان جنگ اور قوموں سے تعلقات تک یہ انصاف کے نظارے نظر آتے ہیں۔ چند واقعات کو میں یہاں بیان کروں گا ساروں کو تو اس وقت coverبھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ چند واقعات جو ہم تک پہنچے ہیں یہ بھی ان ہزاروں واقعات میں سے چند ایک ہیں جو ہم تک پہنچ سکے ہیں جن سے آپ کے عدل و انصاف کے یہ اعلیٰ معیار قائم ہوتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں اپنی امت کو نصیحت اور بھی اس کی چند مثالیں پہلے میں پیش کرتا ہوں۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ عامر روایت کرتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ میرے والد نے مجھے ایک عطیہ دیا اس پر میری والدہ عمرو بنت رواحہ نے کہا کہ میں اس وقت تک اس پر راضی نہیں ہوں گی جب تک کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنا لو۔ اس پر میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کی کہ میں نے عمرو بنت رواحہ سے پیدا ہونے والے اپنے ایک بیٹے کو عطیہ دیا ہے۔ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو اس کا گواہ بناؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اپنے بچوں کو ویسا ہی عطیہ دیا ہے سارے بچوں کو؟ انہوںنے کہا نہیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَاتَّقُوا اللہَ وَاِعْدِلُوْا بَیْنَ اَوْلَادِکُمْ۔

یعنی اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولاد سے مساوی سلوک کرو۔ ایک روایت میں یہ آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس غلط کام میں مجھے تم گواہ بنانا چاہتے ہو۔ تو دیکھیں کس طرح باریکی سے دوسرے بچوں کے بھی حقوق قائم فرمائے کہ ایک کو ہی سب کچھ نہ دے دو بلکہ دوسرے بھی اسی طرح حقدار ہیں۔ اگر سب کو دینے کی توفیق نہیں تو پھر خاموش رہو۔ پھر دیکھو کہ میرے کے بعد جو جس کے حصے میں آتا ہے جس طرح وراثت تقسیم ہوتی ہے اسی طرح ہو گی۔ پھر اپنی گھریلو زندگی میں اپنی امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایک شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا یعنی یہ ظاہر کرتا ہو گا کہ یہ انصاف پسند نہیں ہے اور جو بھی انصاف نہ کرنے والوں کی سزا ہو وہ اس کو مل سکتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل مانگنے ہیں تو انصاف کے تقاضے بھی پورے کرو۔ جو خاوند بیویوں کے پورے حقوق ادا نہیں کرتے وہ بھی بے انصافی کے زمرے میں آئے ہوتے ہیں چاہے وہ ایک بیوی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں اور پھر انصاف نہیں کرتے اور اپنی ذمہ داریاں نہی نبھاتے اگر ان کو پتا لگ جائے کہ بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ کرنے سے کتنا بڑا گناہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کیا سلوک فرمائے گا اور کس قدر اس گناہ کی سزا ہے تو آپ نے فرمایا کہ شاید مرد شاید خوف سے ایک شادی بھی نہ کریں کہ ہمیں کہیں حق نہ ادا کر کے سزا نہ مل جائے۔ پس یہ بیویاں کرنے کی اسلام نے اجازت نہیں صرف دی بلکہ انصاف کے تقاضوںکو سب سے اہم رکھا ہے۔
پھر معاشرے میں دیکھنے میں آیا ہے خاص طور پر ہمارے ملکوں کے معاشرے میں کہ اگر کوئی بڑا آدمی غلطی کر دے تو اس کو کسی نہ کسی طرح معاف کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی غلطی کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بڑے بلکہ بڑے آدمیوں سے تعلق رکھنے والے جو لوگ ہیں ان کی غلطیوں کو بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر وہ غریب آدمی کر لے تو اس کو پکڑ لیا جاتا ہے لیکن آپ نے اس بارے میں ہمیں کیا مثال قائم کی ایک دفعہ یہ روایت حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ سے عنھا سے کہ قریش کے سامنے مخذوم قبیلے کی ایک عورت کی چوری کا معاملہ پیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کون اس کی سفارش کرے گا پھر خود ہی کہنے لگے کہ یہ کام رسول اللہ کے پیارے اسامہ بن زید ہی کر سکتے ہیں چنانچہ اسامہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرضداشت پیش کی حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اسامہ کیا آپ حدود اللہ کے بارے میں سفارش کررہے ہیں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطاب فرماتے ہوئے فرمایا تم میں سے پہلے لوگ صرف اس لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تھا تو وہ اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب ان میں سے کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حد قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یعنی آپ کی بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کو بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔
تو یہ ہے انصاف کہ میں تو اپنی بیٹی کا بھی قصور معاف نہیں کروں گا اس لئے تم کسی کی سفارش میرے سامنے نہ کرو۔ پھر دیکھیں انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے جو آپ نے اپنی امت کو نصیحت کی اور نا انصافی کے نتائج سے اپنے صحابہ کو آگاہ کیا کہ اس کا کیا ردّعمل ہوتا تھااس کا ناانصافی کی وجہ سے۔ عبد اللہ بن مہب روایت کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو قاضی بنا کر بھیجتے ہوئے کہا۔ یہ میں بتا رہا ہوں کہ صحابہ انصاف کی باتیں سننے کی وجہ سے کس قدر خوفزدہ ہو تے تھے اور کیا ردّعمل ظاہر کرتے تھے۔ جب قاضی بنا کر بھیجا بھیجتے ہوئے کہا کہ جاؤ لوگوں میں ان کے معاملات کے فیصلے کرو۔ تو عبداللہ بن عمر نے کہا کہ اے امیر المؤمنین کیا آپ مجھے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے معاف نہیں رکھ سکتے۔ اس پر حضرت عثمان نے کہاتم قضا کے عہدے کو ناپسند کیوں کرتے ہو جبکہ آپ کے والد فیصلے کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ

مَنْ کَانَ قَاضِیًا فَقَضَی بِالْعَدْلِ۔

یعنی جو قضا کے عہدے پر فائز ہو اور وہ عدل کے ساتھ فیصلے کرے تو مناسب یہ ہے کہ وہ اس عہدے سے اس طرح نکلے کہ اس پر کوئی الزام نہ ہو۔ تو کہنے لگے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سننے کے بعد میں اس عہدے کی خواہش نہیں رکھتا کہ اس طرح نکلوں کہ کوئی الزام نہ ہو۔ تو دیکھیں یہ ہے ہمارے عہدیداروں اور قضا کے فیصلے کرنے والوں کے لئے سبق کہ صرف عہدے کی خواہش نہیں کرنی بلکہ انصاف کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں کیونکہ یہ تقاضے پورے نہ کر کے جو پکڑ ہو سکتی ہے اس کو بھی ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور استغفار کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے فرائض نبھانے چاہئیں۔ پھر آپ نے امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ حضرت ابوہریرۃ سے سے روایت ہے کہ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اس میں ہر عضو کے لئے صدقہ واجب ہے اور جو شخص لوگوں میں عدل سے فیصلے کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ تو یہ صدقے جو ہیں یا جیسا کہ دوسری حدیثوں میں آیا بلاؤں کو ٹالنے کا باعث بنتے ہیں اور مشکلات کو دور کرنے کا باعث بنتے ہیں تو اگر بلاؤں کو اور مشکلات کو دور کرنا ہے تو ہم میں سے بھی ہر ایک کو جو بھی جس جس جگہ کا نگران بنایا گیا ہے یا جو جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ان کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے چاہئیں اور اس لحاظ سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت حسن روایت کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیادہ معقل بن یسار کی مرض الموت میں ان کی عیادت کو گئے تو انہوں نے کہا میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں ابھی زندہ رہوں گا تو میں یہ حدیث تمہیں نہ سناتا۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی بندہ جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کی دیکھ بھال فرض کی ہو اگر وہ اس حال میں مرتا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کی نگہبانی کرنے میں عدل سے کام نہ لیا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا۔ پس یہ ان تمام لوگوں کے لئے خوف کا مقام ہے جو سمجھتے ہیں کہ اب اختیار ہمارے پاس آ گئے ہیں ہم جو چاہیں کریں۔ چاہے وہ دینی عہدیداروں کی بات ہو یا دنیا کے عہدوں کی بات ہو ہر ایک پوچھا جائے گا اور عدل قائم نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا لیکن جس کو ہلکا سا بھی خدا کا خوف ہے اور خاص طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ آج ایسی ہے جس میں سب کی نسبت اللہ تعالیٰ کا خوف سب سے زیادہ ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے استغفار کرتے رہنا چاہئے۔
انصاف سے فیصلوں کی بات ہو رہی ہے۔ اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کا قاضی مقرر فرمایا تو میں نے عرض کی یارسول اللہ آپ مجھے وہاں بھجوا رہے ہیں جبکہ میں نوعمر ہوں اور میں فیصلے کرنے بھی نہیں جانتا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی رہنمائی فرمائے گا اور تمہاری زبان کو ثبات عطا کرے گا۔ پس جب تمہارے سامنے دو فریق بیٹھیں تو تو اس وقت تک اپنا فیصلہ نہ سنانا جب تک کہ تم دوسرے فریق کی بات نہ سن لو۔ دوسرے فریق کی بات سننا تجھے فیصلہ کرنے میں مدد دے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد سے میں ہمیشہ قاضی رہا ہوں یا آپ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد میں فیصلہ کرنے کے بارے میں کبھی شک میں مبتلا نہیں ہوا۔ تو فیصلہ کرنے والوں کو ہمیشہ خالی الذہن ہو کر اپنے فیصلوں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ آپ کی ٹریننگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور انصاف پر زور دینے کا ہی اثر تھا کہ آپ کے صحابہ بھی اس رنگ میں رنگین تھے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے تھے اور یہ تعلیم آگے پھیلاتے تھے تا کہ ہمیشہ انصاف کی فضا قائم رہے۔ عبدالرحمن بن ابی بکرۃ روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد ابو بکر نے لکھا اور میں نے ان کو لکھا کہ یہ مراسلہ عبید اللہ بن ابی بکرۃ کے نام ہے اور سجستان کے قاضی تھے کہ تم اس وقت تک دو فریقوں میں فیصلہ نہ کرو جب تک تم غضب میں ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

لا یحکم احد بین الاثنین وھو غضبان۔

کہ تم میں سے کوئی غصے کی حالت میں دو فریقوں میں فیصلہ نہ کرے۔ تو یہ سنہری اصول ہے جو ہر قاضی کو ہر عہدیدار کو ہر حکومت کے کارندے کو ہر فیصلہ کرنے والے کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ بعض دفعہ فریقین کی بہت زیادہ کی کج بحثی کی وجہ سے بعض چھوٹی چھوٹی مسائل اٹھانے کی وجہ سے فیصلہ کرنے والے چڑ جاتے ہیں اور غصہ میں آ جاتے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ غصے میں فیصلے نہیںکرنے۔ غصہ ٹھنڈا کرو سوچو اور پھر کسی دن کے لئے فیصلے فیصلہ کر دو کسی دوسرے دن پے۔
پھر آپ نے قاضیوں کو فیصلہ کرنے کے بارے میں ایک سنہری اصول یہ بتا دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو ان کے دعووں کے باعث دیا جانے لگے تو کئی افراد کے خون اور ان کے اموال کا دعویٰ تو لوگ کئی افراد کے خون اور ان کے اموال کا دعویٰ کرنے لگیں مگر میں یہ قانون بتاتا ہوں کہ

اَلْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدعَا اِلَیْہ۔

کہ قسم مدعی الیہ کے لئے ہے۔ مدعی جو ہے مدعی کے لئے نہیں ہے اس کے ذمہ ثبوت ہے جو درخواست لے کر آیا ہے وہ ثبوت مہیا کرے کہ فلاں نے میرا دینا ہے۔ قسم اٹھانے والا دوسرا فریق ہے مدعی قسم اٹھاتا رہے گا کہ میں قسم اٹھاتا ہوں کہ فلاں میرا قاتل ہے فلاں میرا چور ہے فلاں میرا مال غصب کرنے والا ہے تو پھر تو فیصلے ایسے ہوتے رہیں گے جو ظلم پہ چلتے رہیں گے۔
پھر ایک روایت ہے حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے یہ سنا کہ امام ڈھال ہوتا ہے جس کے پیچھے ہو کر لڑا جاتا ہے اور جس کی مدد سے اپنے آپ کو دشمن کے وار سے بچایا جاتا ہے۔ پس اگر وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دے اور عدل سے کام لے تو اسے اس کے اس عمل کا اجر ملے گا اور اگر وہ اس کے الٹ کرے گا تو اس کے ایسا کرنے پر اس کو گرفت ہو گی۔ پس جہاں یہ امام کے لئے ہے وہاں امام کے مقرر کردہ سارے عہدیداران کے لئے بھی ہے۔ وہ بھی اپنے فرائض انصاف کے ساتھ ادا نہ کر کے پکڑ میں آ سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی جو نصیحت فرمائی اس کی چند جھلکیاں میں نے دکھائی ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ صرف اپنے ماننے والوں کو اپنی امت کو ہی نصیحت نہیں کرتے رہے بلکہ عمل سے بھی یہ کر کے دکھا دیا کہ ہر معاملے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں اور آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں یہ مثالیں نظر آتی ہیں۔ اس میں گھریلو معاملات سے لے کر قومی معاملات تک سب شامل ہیں۔ اس کی بھی چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ آپ نے اپنی امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر اپنی بیویوں سے انصاف نہیںکرو گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور ایسی حالت میں جاؤ گے جو ایک پہلو جھکا ہو گا۔ تو اس بارے میں آپ کی اپنی مثال کیا تھی اس انصاف کی کہانی آپ کی اپنی ازواج کی زبانی ہی ہم تک پہنچی ہیں۔ یہ نہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں انصاف کرتا ہوں بلکہ آپ کے عمل سے ثابت ہے اور دوسرے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ آپ انصاف کرتے تھے اور اس کی گواہی آپ کی بیویوں نے دی ہے۔
ہشام بن عروۃ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا۔ اے بھانجے باریاں مقرر کرنے کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج میں سے کسی کو دوسری پر فضیلت نہ دیتے تھے۔ حضور قریباً ہر روز ہم میں سے ہر ایک کے پاس چکر لگاتے اور ہر ایک بیوی کے پاس کچھ وقت گزارتے۔ یہاں تک کہ آپ اس بیوی کے پاس چلے جاتے جس کے ہاں اس دن باری ہوتی تھی۔ پھر اس کے پاس آپ رات گزارتے جہاں باری ہوتی۔ آپ پر بہت سارے مغرب نے الزام لگائے ہیں بیویوں کے بارے میں لیکن ان انصاف کے تقاضوں کو جو آپ پورا کیا کرتے تھے وہ کبھی کسی نے نہیں دیکھے۔ حضرت عائشہ جو آپ کی چہیتی بیوی تھیں اور اس مقام کی ایک وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ حضرت عائشہ کے حجرے میں آپ پر سب سے زیادہ وحی نازل ہوئی ہے۔ آپ ہی یہ گواہی دے رہی ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے تھے اور نہ صرف یہ پورے کرتے تھے بلکہ دعا بھی کیا کرتے تھے۔ جس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج میں باری مقرر کرتے وقت عدل و انصاف سے کام لیتے تھے اور دعا فرماتے کہ اے اللہ جن امور پر میں قدرت رکھتا ہوں ان میں میری یہ تقسیم ہے اور جن امور پر تیری قدرت ہے اور میری نہیں ان کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ یعنی ظاہری سلوک بہرحال میں اپنی پوری کوشش کرتا ہوں کہ میں ایک جیسا کروں اور باقی جہاں تک دل کا حال ہے وہ تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ظاہری طور پر ہر بیوی سے ایک جیسا سلوک تھا اور جب سفروں پر جانا ہوتا تھا تو یہ نہیں ہوتا تھا کہ اپنی مرضی سے جس کو ساتھ لے جانا ہو لے جائیں بلکہ قرعہ ڈالتے تھے تا کہ کسی سے بھی کوئی بے انصافی نہ ہو۔ ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عروۃ نے ان کو بتایا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ ڈالتے جس کے حق میں قرعہ نکلتا اس بیوی کو آپ اپنے ساتھ رکھتے اور آپ اپنی ہر بیوی کے لئے دن اور رات کی باری مقرر فرماتے سوائے حضرت سودا بنت امہ کے جنہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ کو ھبہ کر دی تھی۔ بڑی عمر کی وجہ سے انہوں نے خود ہی اپنا حق چھوڑ دیا تھا۔ آپ نے کبھی بے انصافی نہیں کی تھی کسی بیوی کے ساتھ۔
پھر حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے پاس تھے کہ امہات المؤمنین میں سے کسی اور بیوی نے ایک برتن میں کھانا تحفۃً بھیجا تو اس بیوی نے جس کے ہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باری تھی خادم کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ عورتوں میں جیلسی تو ہوتی ہے کہ جب میرے ہاں باری ہے تو میں کھانا کھلاؤں گی دوسری جگہ سے کھانا کیوں آیا جس پر وہ برتن گر کر ٹوٹ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ٹکڑے اکٹھے کئے۔ پھر اس میں وہ کھانا اکٹھا کر کے ڈالنے لگے اور آپ یہ فرماتے جاتے تھے۔ تمہاری ماں تم کو کھوئے (یعنی یہ ناراضگی کا اظہار تھا) مزید یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خادم کو روکے رکھا اور اس گھر والی بیوی سے ٹوٹنے والے برتن کے بدلے میں برتن لے کر دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن اس بیوی کو بھیجا جس کا برتن ٹوٹا تھا اور ٹوٹا ہوا برتن اسی گھر میں رہنے دیا جس میں وہ ٹوٹا تھا۔
تو یہ تھی باتیں جو چھوٹی سے چھوٹی بات میںبھی آپ کو یہ برداشت نہیں تھا کہ بے انصافی ہو۔ پھر دیکھیں اپنی رعایا اور غلاموں کے ساتھ انصاف کے کیا اعلیٰ معیار تھے۔ حضرت اسید بن حضیر انصار کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس شخص نے کہا اس دوران کہ وہ لوگوں سے باتیں کر رہا تھا اور انہیں ہنسا رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پہلو میں ایک چھڑی لگائی۔ بیٹھے تھے بازار میں باتیں ہو رہی تھیں لطیفے بیان ہو رہے تھے کسی بات پر یا زیادہ کوئی ایسا مذاق کر دیا ہو گا جس کو اچھا نہیں لگا ان کو یا مذاق میں چھڑی لگائی اس پر اس شخص نے کہا کہ مجھے بدلہ دیں کہ آپ نے بلا وجہ مجھے چھڑی ماری ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بدلہ لے لو۔ اس شخص نے کہا کہ آپ نے تو قمیض پہن رکھی ہے اور جب آپ نے مجھے چھڑی لگائی تھی تو میں نے قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیض اٹھا دی۔ اس پر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گیا اور آپ کے جسم کو بوسے دینے لگا اور کہا یا رسول اللہ میں تو صرف آپ کے جسد اطہر کو چومنا چاہتا تھا یعنی بدلہ لینے کا تو ایک بہانہ تھا۔ تو یہ تھا آپ کا عمل۔ آپ کو نہیں پتا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے مگر بے دھڑک آپ نے اپنا جسم ننگا کر دیا اور سامنے پیش کر دیا۔
پھر دیکھیں ایک خادم کو تکلیف پہنچنے پر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے فوری طور پر اپنے لئے ایک سزا مقرر کرلی۔ دراصل تو یہ سزا نہیں بلکہ اس فطرت جو آپ کی پاک فطرت تھی اس کا تقاضہ تھا کہ ذرا سی تکلیف کسی کو پہنچائی ہے تو بدلے اس کا بدلہ دیا جائے اور بدلہ بھی احسان کے رنگ میں۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما ایک عربی شخص سے روایت کرتے ہیں جنگ حنین کے روز میں اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میری وجہ سے آپ کا رستہ تنگ ہو گیا۔ اس وقت میں نے ایک موٹے چمڑے کا جوتا پہنا ہوا تھا میرا پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک پر آ گیا تو آپ نے اپنے کوڑے کے ساتھ جو آپ نے پکڑا ہوا تھا ہاتھ میں مجھے جلدی سے پیچھے ہٹایا اور کہا بسم اللہ تم نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے وہ رات اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے گزاری۔ میں اپنے دل میں بار بار یہ سوچتا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دی۔ یہاں یہ حال ہے جس کو تکلیف پہنچی ایک خادم کو وہ ساری رات جاگ رہا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اور دوسری طرف کیا حال ہے جب صبح ہوئی تو کہتے ہیں کہ ایک شخص یہ کہتے پھر رہا تھا کہ فلاں آدمی کہاں ہے۔ چنانچہ میں ڈرتے ڈرتے چل پڑا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تم نے کل اپنی جوتی میرے پاؤں کو لتاڑ ہی دیا تھا جوتی سے میرا پاؤں لتاڑ ہی دیا تھا اور تم نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی اور میں نے تم کو کوڑے کے ساتھ اپنے پاؤں سے پیچھے کیا تھا اس پر وہ بات سن کر اور بھی زیادہ پریشان ہو گئے کہ اب تو سزا ملی کہ ملی لیکن کیا سزا ملی۔ یہ دیکھیں کیا اعلیٰ مثال ہے فرمایا کہ یہ اسّی دنبیاں ہیں یہ بھیڑیں ہیں تم لے لو اس تکلیف کے بدلے میں جو میرا کوڑا لگنے کے باعث تمہیں ہوئی۔ کیا کوئی دنیادار بادشاہ کیا کوئی عام افسر بھی یہ انصاف کر سکتا ہے اس کا عشر عشیر بھی بلکہ ہزارواں لاکھواں حصہ بھی۔ یہ مثالیں ہمیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔
پھر دیکھیں ایک دوسرے مذہب کے آدمی کے ساتھ ایک مسلمان کی لڑائی ہو جاتی ہے اور فیصلے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں وہ شکایت لے کے آپ کی خدمت میں آتا ہے دوسرا جو مسلمان نہیں ہے اور پھر کس طرح آپ فیصلہ فرماتے ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے۔ ایک مسلمان تھا دوسرا یہودی تھا۔ مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر منتخب کر کے فضیلت عطا کی ہے۔ اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی اور چن لیا۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو ایک تھپڑ مار دیا۔ یہودی شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا جس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے تفصیل پوچھی سرزنش فرمائی اور پھر فرمایا

لا تخیرونی علی موسیٰ۔

کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دیا کرو۔ حالانکہ یہ ہر مسلمان کو پتا ہے آپ کو بھی علم تھا کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء پر فضیلت بخشی ہے لیکن اس یہودی کا دل رکھنے کے لئے اور مسلمان کو یہ احساس دلانے کے لئے کہ تم لوگ ایسی باتیں نہ کیا کرو اب مسلمان ہو گئے ہو تو اپنے اندر برداشت بھی پیدا کرو۔ بلا وجہ کی لڑائیوں سے بچو۔ اور یہ سختی جو تم نے کی ہے غلط کی ہے۔ پس آپ نے یہ فرمایا کہ آج تم نے کام کر کے بڑی غلطی کی ہے اور آئندہ یہ نہیں ہونا چاہئے۔
پس آج بھی ہر مسلمان کے لئے ہر اس شخص کے لئے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس اسوہ پر عمل کرنا چاہئے تا کہ بلا وجہ کی لڑائیوں اور جھگڑوں سے بچت ہو۔ پھر ایک لونڈی جو بے طاقت تھی اس کے حق دلانے کی مثال دیکھیں کیسا انصاف فرمایا۔ روایت میں آتا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی ایک لونڈی کے نذر کی بیٹی روبیہ نے دانت توڑ دئیے مار کے چنانچہ اس کے گھر والوں نے دیت کا مطالبہ کیا اور دوسری طرف والوں نے معاف کرنے کی درخواست کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر وہ اپنا معاملہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بدلہ لینے کا حکم دیا چنانچہ انس بن نذر نے کہا یا رسول اللہ کیا روبیہ کے سامنے والے دانت توڑے جائیں گے۔ ہرگز نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اس کے سامنے والے دانت نہیں توڑے جائیں گے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے انس اللہ تعالیٰ کا ایسے معاملہ میں بدلہ لینے کا فیصلہ ہے۔ بعد میں یہ بدلہ کا مطالبہ کرنے والے لوگوں نے معاف کرنے پر راضی ہو گئے اور معاف کر دیا اور اس کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی قسم اٹھا کر کچھ کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ ان کو پورا کر دیتا ہے۔ یعنی وہ ایسے نیک آدمی تھے کہ انہوں نے کسی طرز سے یہ بات کی ہو گی تو اللہ تعالیٰ نے دعا سن لی اور دوسرے فریق میں کے دل میں ڈال دیا کہ معاف کر دو اور اس لونڈی کے رشتہ دار معاف کرنے پر راضی ہو گئے لیکن آپ نے یہی فرما دیا کہ اگر معاف نہیں کریں گے تو ضرور سزا ملے گی چاہے وہ لونڈی ہو اس کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔ چاہے جتنا مرضی آدمی بڑا ہو اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی بھی آدمی باہر نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللہَ۔ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(المائدۃ09:)۔

یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ پس اس حکم کے ماتحت بھی آپ نے تمام دنیا کے مخلوق تو جو ادا کرنے ہی تھے پہلے حکم جو بہت سارے تھے دشمنوں کے حقوق کا خیال بھی رکھا اور ان سے بھی انصاف کرنے کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ چنانچہ ایک مثال میں دیتا ہوں عمومی طور پے جب آپ جنگوں میں جب دشمن کی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی سرکوبی کے لئے جب کوئی فوج بھیجتے تھے تو یہ حکم ہوتا تھا کہ اگر آگے سے کوئی ہتھیار نہیں اٹھاتا تو تم نے صرف دشمنی کی خاطر ہتھیار نہیں اٹھانا اور قتل عام نہیں کرنا جا کے پیغام دینا ہے امن کا اگر کوئی قبول کر لے تو ٹھیک ہے یا اور دوسری شرائط تھیں لیکن اگر ہتھیار کوئی نہیں اٹھاتا تم نے بھی ہتھیار نہیں اٹھانا۔ بوڑھوں کو کچھ نہیں کہنا بچوں کو کچھ نہیں کہنا عورتوں کو کچھ نہیں کہنا۔ تو یہ اسی قرآن کریم کی تعلیم کے حکم کے مطابق تھا کہ جنگیں اگر کرنی ہیں یا کسی وجہ سے جنگیں تم پر ٹھونسی جاتی ہیں یا کہیں لڑائی ہوتی ہے تو یہ کسی ذاتی بدلے اور عناد کے لئے نہیں ہونی چاہئے اس قوموں کی دشمنی کی وجہ سے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مظلوموں کو بھی تم قتل عام کر دو معصوم جانوں کو بھی تم ضائع کر دو اور تقویٰ سے عاری فیصلے کرنے لگو۔ اب بتائے کوئی کہ کیا اس طرح کے حکم جنگوں کے لئے کہیں یا یہ انصاف کے تقاضے ہمیں اور کہیں پورے ہوتے نظر آتے ہیں؟ اگر نظر آتے ہیں تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ یہ انسانیت کے احترام میں انصاف کے نظارے ہمیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں آپ کی پاک سیرت میں نظر آتے ہیں۔ آج ان لوگوں کو بھی جائزہ لینا چاہئے جو آپ کے نام سے منسوب ہو کر خودکش حملے کر رہے ہوتے ہیں۔ معصوم جانوں کو قتل کر رہے ہوتے ہیں۔ بازاروں میں سڑکوں پر خون بکھیر رہے ہوتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو منسوب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں۔ تویہ تو آپ کی تعلیم نہیں تھی یہ تو آپ کا اسوہ نہیں تھا۔ ان لوگوں کو ان منسوب ہونے والوں کو تو ان نمونوں سے اس اسوے سے کچھ بھی واسطہ نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے قائم کر گئے۔ پس اگر کسی نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ہے آپ کی امت کہلانا ہے تو آپ کے اسوہ حسنہ پر بھی چل کے دکھانا ہو گا۔
پھر آپ کا یہ طرز عمل جو تھا ان اعتراض کرنے والوں کا بھی منہ بند کرنے کے لئے کافی ہے جو آپ پر اعتراض تو کرتے ہیں لیکن ہنستی بنستی آبادیوں پر خود کلسٹر بموں کی بارشیں برسا رہے ہوتے ہیں۔ ہوائی حملوں سے بموں کی ایسی چادر بچھاتے ہیں جن سے مجبور بوڑھے بیمار بچے سب کا قتل عام ہو رہا ہوتا ہے۔ عورتیں اور معصوم بچے قتل ہو رہے ہوتے ہیں۔
پھر وہ خوفناک نظر بھی سامنے رکھنی چاہئے جب ایٹم بم چلے اور جس کے اثرات اب تک قائم ہیں۔ تو یہ انصاف کے تقاضے نہیں ہیں جو جنگوں میں کئے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جنگ کرو اس سے جو تم سے جنگ کرتا ہے جو نہیں کرتا اس کو ہاتھ بھی نہیں لگانا اور بچوں اور معصوموں اور عورتوں کو تو بالکل بھی نہیں چھیڑنا۔ تو یہ ہے تعلیم اور یہ اسوہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے قائم کر گئے۔ لیکن آج اس اسوہ پر چلتے ہوئے انصاف کے تقاضے جماعت احمدیہ نے پورے کرنے ہیں اور یہ اسوہ لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے اور اپنے نمونے دکھانے ہیں اور اس کی تبلیغ کرنی ہے۔ لوگوں کو بتانا ہے دنیا کو بتانا ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور زمانے کے امام کو مان لینے کے بعد اس بھولی ہوئی تعلیم کو دنیا پر دوبارہ قائم کرنا ہے اور اس کے لئے آپ کو سخت محنت اور کوشش کرنے کی ضرورت ہے جو ہر احمدی کو کرنی چاہئے تا کہ دنیا میں انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہوئے امن قائم کیا جا سکے۔
اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح کو دو حصوں پر منقسم کر دیا۔ ایک حصہ دکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور دوسرا حصہ فتحیابی کا تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہو جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے۔ سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہوگئے۔ چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا۔ اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اپنے کام میں سست نہ ہونا اور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلا دئیے جو کفار ایسی استقامت دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا۔اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا۔ دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا۔ ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کر دیا اور قابو پاکر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک کوئی خدا کی طرف سے اور حقیقتاً راستباز نہ ہو یہ اخلاق ہرگز دکھلا نہیں سکتا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کے پرانے کینے یکلخت دور ہوگئے۔ آپ کا بڑا بھاری خلق جس کو آپ نے ثابت کر کے دکھلا دیا وہ خلق تھا جو قرآن شریف میں ذکر کر فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے۔

قل ان صلاتی و نسکی ومحیاي ومماتی للہ رب العالمین۔

یعنی ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے یعنی اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے تا میرے مرنے سے ان کو زندگی حاصل ہو۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلی درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔
پس آپ جو آج مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اس زمانے کے امام کو مان کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب سے زیادہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں۔ آپ کو اس اسوہ پر چلتے ہوئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دس دن چل کر وہ مل جاتا ہے جو ہزار برس چلنے سے نہیں مل سکتی جو روشنی وہ روشنی حاصل کریں۔ اپنے اندر وہ روح پیدا کریں۔ اپنے اندر وہ نور پیدا کریں اپنے خدا سے دل لگائیں اور خدا کی مخلوق کی خدمت کی طرف توجہ دیں۔ اس پیغام کو پہنچائیں۔ آپ جو اس ملک میں رہ رہے ہیں یا دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ہیں اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اپنی جگہوں پر اپنے شہروں میں اپنے ملکوں میں اس پیغام کو پہنچائیں دنیا کو خدا کے قریب لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لائیں اور انصاف اور امن اور آشتی اور صلح کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سب کو اس کی توفیق دے اور جلسے کے دوران میں جو آپ نے برکات حاصل کی ہیں اگر اپنے اندر کوئی پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان تبدیلیوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں اور ہمیشہ ایک مثالی احمدی دنیا میں نام پیدا کریں اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔ اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں