جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول اور ابوجہل کا حشر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19فروری 2011ء میں مکرم جلال الدین شاد صاحب کا مرسلہ ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے جس میں جنگ بدر میں فرشتوں کے نزول اور ابوجہل کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ بنی غفّار میں سے ایک شخص نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے روز مَیں اپنے چچازاد بھائی کے ہمراہ ایک پہاڑ پر چڑھا تاکہ جس کی بھی فتح ہو اُس کے ساتھ شامل ہوکر ہم بھی مال غنیمت لُوٹیں۔ اس پہاڑ پر ہم نے ایک بادل دیکھا جس میں سے ہم کو ہنہنانے کی آواز آئی اور کسی کو یہ کہتے سنا کہ اے خزوم آگے بڑھ۔ یہ آواز سن کر مارے خوف کے میرا بھائی تو اُسی وقت مَر گیا اور مَیں بھی ہلاکت کے قریب پہنچ گیا اور بمشکل خود کو سنبھالا۔
مالک بن ربیعہ جنگ بدر میں شریک تھے۔ بعد میں اُن کی آنکھیں جاتی رہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میری آنکھیں ہوتیں تو مَیں تمہیں وہ گھاٹیاں دکھاتا جن سے فرشتے نکلے تھے۔
ابوداؤد مازنی بھی بدر کی جنگ میں شریک تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ایک مشرک کے پیچھے دوڑا مگر مَیں نے دیکھا کہ اُس کا سر میری تلوار کے پہنچنے سے پہلے ہی کٹ گیا۔ مَیں نے سمجھا کہ اُس کو کسی اَور نے قتل کردیا ہے۔
ابن عباس کا بیان ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں کے عمامے سفید تھے اور شملے پشت پر چھوڑے ہوئے۔ اور جنگ حنین میں سرخ عمامے تھے۔
ابن ہشّام نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں کے عمامے سفید تھے صرف جبرائیلؑ کا عمامہ زرد تھا۔
ابن عباس سے ہی روایت ہے کہ جنگ بدر کے سوا کسی اَور جنگ میں فرشتوں نے حرب و ضرب نہیں کی صرف تعداد بڑھانے کے واسطے ہی آئے۔
سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ جنگ بدر میں ابوجہل کا جس نے سب سے پہلے مقابلہ کیا وہ معاذ بن عمر بن جموح تھے۔ انہوں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ ابوجہل اپنے لوگوں کے درمیان اس طرح کھڑا ہے کہ کوئی اُس تک نہیں پہنچ سکتا۔ تب مَیں نے ارادہ کیا اور مَیں کوشش کرکے اُس تک پہنچ گیا۔ پھر شمشیر کی ضرب سے اُس کی آندھی ٹانگ اُڑادی۔ اس پر اُس کے بیٹے عکرمہ نے تلوار کا وار کیا تو میرا بازو شانہ کے پاس سے کٹ کر لٹک گیا۔ اسی حالت میں مَیں سارا دن لڑتا رہا لیکن میرا بڑا حرج ہوتا تھا اس لئے مَیں نے اپنے لٹکے ہوئے بازو کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھ کر زور سے کھینچا تو وہ الگ جاپڑا۔ (حضرت معاذ بن عمر نے لمبی عمر پائی اور حضرت عثمانؓ کے عہد میں حیات تھے)۔
معاذ کے بعد معوذ بن عفراء ابوجہل کے پاس سے گزرے اور اُس پر کئی وار کئے اور نیم جان حالت تک پہنچادیا۔ معوذ نے اُسی روز بعد میں شہادت پائی۔ لڑائی کے بعد آنحضور صلی اللہ علیم وسلم نے ابوجہل کی لاش کو تلاش کرنے کا ارشاد فرمایا تو فرمایا کہ تم کو اس کا پتہ نہ چلے تو اس طرح پہچاننا کہ اُس کے گھٹنے پر زخم کا نشان ہے کیونکہ میری ابوجہل سے ایک مرتبہ عبداللہ بن جدعان کے ہاں ایک دعوت کے موقعہ پر لڑائی ہو پڑی۔ ہم دونوں کمسن تھے اور مَیں اُس کی نسبت کمزور تھا لیکن مَیں نے اُسے زور کا دھکا دیا کہ وہ گھٹنوں کے بَل گر پڑا اور اُس کے گھٹنے میں زخم ہوگیا جس کا نشان اب تک موجود ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود نے اسی نشان کو دیکھ کر ابوجہل کو پہچانا جس میں زندگی کی رمق ابھی باقی تھی۔ آپؓ نے اُس کی گردن پر پاؤں رکھ کر کہا کہ اے دشمنِ خدا! دیکھا تُو نے کہ خدا نے تجھ کو کیسا ذلیل کیا۔ کہنے لگا مجھ کو کس بات سے ذلیل کیا۔ ایک شخص کو تم نے مار ڈالا۔ کیا ہوا! کیا تم نے آج تک مجھ سے بڑھ کر معزز اور صاحبِ رتبہ کو قتل کیا ہے؟ پھر وہ بولا: اے بکریوں کے چرانے والے ذلیل چرواہے! تُو ایسی جگہ پر چڑھ گیا جہاں تجھے چڑھنا نہیں چاہئے تھا۔ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ پھر مَیں نے اس کا سر کاٹ لیا اور لاکر رسول اللہ کے قدموں میں ڈال کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ دشمنِ خدا ابوجہل کا سر ہے۔ رسول اللہ نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا: اللہ ہی وہ ذات پاک ہے جس کے سوا کوئی بااختیار معبود نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں