حضرت امام فخرالدین رازیؒ

مشہور عالم اور مفسر فخرالدین الرازی 1149ء میں بمقام ’’رے‘‘ پیدا ہوئے۔ آپؒ کا نام ابو عبداللہ محمد بن عمر بن الحسین تھا۔ آپ کے والد شہر کے خطیب تھے اور اپنی ابتدائی تعلیم اُنہی سے حاصل کرنے کے بعد آپ نے مشہور اساتذہ سے استفادہ کیا۔ پھر خوارزم چلے گئے اور معتزلہ کے خلاف مناظروں میں مشغول ہوگئے۔ جب مناظروں نے شدت اختیار کرلی اور حالات دگرگوں ہوگئے تو وہاں سے ماوراء النہر چلے گئے۔ لیکن وہاں بھی مخالفت ہوئی تو واپس ’’رے‘‘ آگئے۔ پھر آپؒ کے تعلقات شہاب الدین غوری سے استوار ہوگئے جس نے آپؒ کو مالی فوائد کے علاوہ اعزازات سے بھی نوازا۔
1184ء میں آپؒ بخارا جاتے ہوئے ’’سرخس‘‘ کے مقام پر ٹھہرے تو وہاں ایک طبیب کے پاس قیام کیا اور اس دوران بوعلی سینا کی کلیات کی شرح لکھی۔ پھر بخارا سے ہوتے ہوئے ہرات چلے گئے جہاں غزنی کے غوری سلطان غیاث الدین نے آپکو شاہی محل میں ٹھہرایا اور عوام کیلئے ایک مدرسہ کے اجراء کی اجازت دیدی۔ چنانچہ پھر ہرات میں ہی آپؒ کی عمر عزیز کا بڑا حصہ گزرا اور ’’شیخ الاسلام‘‘ کے لقب سے بھی ملقب ہوئے۔ تین سو سے زائد شاگرد آپؒ کے ساتھ رہتے تھے۔ آپؒ کی ذکاوت، ذہانت، زبردست حافظے، بہترین خطابت اور ضابطہ پسند ذہن نے آپؒ کو ایسا معلم بنادیا تھا جسے سارے وسط ایشیا میں شہرت حاصل تھی۔ آپؒ حد درجہ متدین اور متقی تھے۔ آپؒ نے اپنی وصیت میں لکھا: ’’میں نے علم کلام کے تمام طریقوں اور فلسفے کی تمام راہوں کو آزمایا لیکن ان میں اطمینان نہ پایا ، نہ مجھے ان سے سکون قلب حاصل ہوا۔ یہ دولت مجھے تلاوتِ قرآن میں ملی‘‘۔
آپؒ بہت بڑے فلسفی اور علم کلام کے عالم بے بدل تھے۔ آپؒ نے فارابی اور ابن سینا کے فلسفوں کا غائر مطالعہ کیا، ابن سینا کی کتاب ’’اشارات‘‘ کی شرح بھی لکھی۔ گو آپؒ مسائل فلسفہ اور مسائل دین میں تطبیق کر سکتے تھے لیکن اپنی آزادی رائے کو قائم رکھا۔ تاہم معتزلہ اور کرامیہ کے علماء سے بحثوں کے نتیجہ میں آپ کے بہت سے مخالفین پیدا ہوگئے۔ آپؒ نے متعدد تصانیف لکھیں جو علم کلام، فلسفہ اور تفسیر سے تعلق رکھتی ہیں۔
آپؒ کی شہرت کی ایک بڑی وجہ آپؒ کی تفسیر ’’مفاتیح الغیب‘‘ ہے جو تفسیر کبیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی پہلے آٹھ جلدیں تھیں جبکہ اب چوبیس جلدوں میں ملتی ہے۔
حضرت امام رازی 1209ء میں فوت ہوئے۔ اپنی وصیت میںآپؒ نے شاگردوں کو تاکید کی کہ آپؒ کی تجہیز و تکفین شرعی احکام کے مطابق کی جائے اور ہرات کے نزدیک کوہ مزدا خان پر دفن کیا جائے۔ آپؒ کا مختصر ذکر مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍جنوری 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں