حضرت امام مالک بن انسؒ

حضرت مالک بن انس الاصبحی کا تعلق یمن کے شاہی خاندان حمیر کی شاخ ’اصبح‘ سے تھا۔ آپ کا گھرانہ نسلاً قریشی تھا۔ آپؒ کے دادا مالک بن ابی عامر کی علمیت اور دینی خدمات مسلمہ ہیں۔ انہوں نے والی یمن کے ظلم سے تنگ آکر اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہا اور حجاز میں سکونت اختیار کرلی۔ ان کا شمار ابتدائی تابعین میں ہوتا ہے، انہیں حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں قرآن مجید لکھنے کی سعادت عطا ہوئی اورجب حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا گیا تو ان کی تجہیز و تکفین کرنے والوں میں ابو انس مالک بھی تھے۔
حضرت امام مالکؒ کی ولادت 93ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؒ کے والد انس اپاہج تھے اور ان کا ذریعہ معاش تیرسازی تھا۔ حضرت امام مالکؒ نے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قرآن مجید حفظ کیا اور تجوید میں کمال حاصل کیا اوراپنے لئے فقہ کی شاخ منتخب کی، قراء ت بھی سیکھی۔ آپؒ کے اساتذہ میں حضرت امام جعفر صادقؒ بھی شامل ہیں۔ حضرت امام مالکؒ فطرتاً قوی الحافظہ تھے اور فرماتے تھے کہ ’’کوئی چیز میرے خزانہ دماغ میں آکر پھر نہ نکلی‘‘۔ آپؒ قریباً بارہ برس حضرت نافع مولیٰ ابن عمر ؓ کے درس میں شریک رہے اور ان کی وفات کے بعد انکے جانشین ہوئے۔ آپؒ کے تلامذہ کی تعداد تیرہ سو سے زائد بیان کی جاتی ہے جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔
حضرت امام مالکؒ اپنے اوقات زیادہ تر عبادت اور تلاوت میں صرف فرماتے تھے۔ مدینہ سے ایسی محبت تھی کہ سوائے سفرِ حج کے کبھی مدینہ سے باہر نہ گئے۔ خلیفہ منصور اور محمد کی طرف سے بغداد آنے کی درخواست یہ کہہ کر رد فرمادی کہ ’مالک سے مدینہ چھوٹ نہیں سکتا‘۔ آپؒ مہمان نواز، مستقل مزاج، فیاض، نفیس الطبع اور حق گو تھے۔ نفیس پوشاک زیب تن فرماتے اور خوشبو کا استعمال کرتے۔ انکساری ایسی تھی کہ جس بات کا علم نہ ہوتا تو نہایت متانت سے اظہارکردیتے۔ آپؒ ایک جلیل القدر راوی اور محدث ہیں اور مسلّمہ طور پر امام فی الحدیث اور امام فی السنۃ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ آپؒ کو امیرالمومنین فی الحدیث بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت امام بخاریؒ کا قول ہے کہ ہر طالب حدیث کا انحصار امام مالکؒ پر ہے۔ آپؒ درایت کے بھی امام مانے گئے ہیں۔ فقہاء مدینہ میں آپ پہلے تھے جنہوں نے غیرثقہ راویوں سے اعراض کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ آپؒ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’امام مالک کس شان اور مرتبہ کا امام اور خیرالقرون کے زمانہ کا اور کروڑہا آدمی ان کے پیرو ہیں … ایسا عظیم الشان امام جو تمام آئمہ حدیث سے پہلے ظہور پذیر ہوا اور تمام احادیث نبویہ پر گویا ایک دائرہ کی طرح محیط تھا۔‘‘
جب عباسی خلیفہ منصور نے فاطمی و علوی سادات کی بیخ کنی شروع کی تو 135ھ میں نفس ذکیہ نے علم بغاوت بلند کیا لیکن وہ میدان جنگ میں مارے گئے۔ پھر ان کے بھائی ابراہیم نکلے لیکن شہید کردیئے گئے اور منصور نے 147ھ میں اپنے عم زاد بھائی جعفر کو مدینہ کا والی مقرر کردیا جس نے نئے سرے سے لوگوں کی بیعت لی اور امام مالکؒ کو کہلا بھیجا کہ آئندہ طلاق جبری کے عدم اعتبار کا فتویٰ نہ دیں تاکہ اس کی جبری حکومت کے خلاف بھی فتوے کی راہ نہ نکل سکے۔
جب امام نے جعفر کی بات ماننے سے انکار کیا تو اس نے غضبناک ہوکر آپؒ پر ستر کوڑے برسائے جس سے تمام پیٹھ خون آلود ہوگئی اور دونوں بازو مونڈھے سے اتر گئے۔ پھر آپ کو اونٹ پر بٹھاکر تشہیر کی گئی۔ امام مالکؒ بایں حال زار بازاروں اور گلیوں سے گزرتے ہوئے با آواز بلند کہہ رہے تھے ’’جو مجھ کو جانتا ہے وہ جانتا ہے۔ جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ فتویٰ دیتا ہوں کہ طلاق جبری درست نہیں‘‘۔ اس کے بعد آپؒ نے مسجد نبوی جاکر پشت مبارک سے خون صاف کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔
حضرت امام مالکؒ کی وفات 11؍ربیع الاول 179ھ کو ہوئی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ آپؒ کا ایک فتویٰ یہ بھی تھا کہ حضرت عیسیٰؑ وفات پاچکے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس عقیدہ کو اپنی متعدد کتب میں بیان کیا ہے۔ آپؒ نے فقہی طرز پر احادیث نبویہ کا جو مجموعہ تیار فرمایا وہ مؤطا امام مالک کے نام سے معروف ہے۔ ابتداء اس میں دس ھزار احادیث و روایات تھیں لیکن پھر آپؒ کی احتیاط پسندی نے تقریباً آٹھ ھزار قلم زد کردیں۔ اب صرف 1720 ہیں۔ آپؒ کے فتاویٰ پر مشتمل ایک کتاب المدوّنۃالکبریٰ ہے جس میں چھتیس ہزار مسائل جمع ہیں۔ حضرت امام مالکؒ کے مقلدین کو مالکیہ کہا جاتا ہے۔ فقہ کے چار مشہور مکاتب فکر میں سے ایک مالکیہ بھی ہے۔
… یہ معلوماتی مضمون مکرم چودھری ظفراللہ خان طاہر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں