حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے مختصر حالات مکرمہ سلطانہ صابرہ رفیق صاحبہ کے قلم سے شائع ہوئے ہیں ۔
حضرت حلیمہؓ سعدیہ کا تعلق قبیلہ بنی سعد اور ہوازنؔ قوم سے تھا۔ آپؓ کے والد ابی ذویب عبداللہ بن حرث تھے۔ آپؓ کے خاوند کا نام بھی حرث تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی والد تھے۔ آپ کی اولاد میں ایک بیٹے عبداللہ اور دو بیٹیاں انیسہ اور خزامہ (شیما) شامل تھیں۔
مکّہ کے دستور کے مطابق بچوں کو عموماً مائیں دودھ نہیں پلاتی تھیں بلکہ شہر سے باہر کے بدوی لوگوں میں دایوں کے سپرد کردیتی تھیں تاکہ بچے کھلی ہوا میں پل کر طاقتور ہوجائیں نیز زبان بھی عمدہ اور صاف سیکھ لیں۔ حضرت حلیمہ بھی کسی بچے کی تلاش میں دیگر عورتوں کے ساتھ مکّہ آئی تھیں لیکن دیگر عورتوں کی طرح آپ کی بھی خواہش تھی کہ کسی امیر باپ کے بیٹے کو ساتھ لے جائیں تاکہ زیادہ پیسے مل سکیں۔ لیکن جب سارا دن پھرنے کے باوجود اُنہیں کوئی بچہ نہ مل سکا تو مجبوراً اُنہیں یتیم محمد ؐ کے گھر پر دستک دینا پڑی تاکہ بغیر کسی بچہ کے واپس نہ جانا پڑے۔ دوسری طرف حضرت آمنہ سارا دن کسی مناسب دایہ کے انتظار میں رہیں۔ آخر شام گئے معصوم بچے محمدؐ کو حلیمہ کی گود میں ڈال دیا گیا۔
حضرت حلیمہ ابتدا میں تو زیادہ خوش نہ تھیں لیکن جلد ہی اُنہیں معلوم ہوگیا کہ جو بچہ وہ لائی ہیں وہ غیرمعمولی برکتوں والا ہے۔ چنانچہ اُن کا اپنا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے ہم پر بہت تنگی کا وقت تھا مگر آپؐ کے آنے سے یہ تنگی فراخی میں بدل گئی اور ہماری ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی۔ چنانچہ مقرّرہ مدّت کے بعد آپ نے حضرت آمنہ سے درخواست کی کہ بچے محمدؐ کو مزید کچھ عرصہ اُن کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ یہ درخواست قبول ہوئی اور آپؐ قریباً چار برس کی عمر تک اُن کے پاس رہے۔ علامہ السبیلیؒ کے نزدیک یہ عمر پانچ سال ایک ماہ تھی۔
حضرت حلیمہؓ نے ایک بار عکاظ کے سالانہ میلے میں شرکت کی تو ننھے محمدؐ بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ وہاں ایک ’’فال گو‘‘ یہودی نے آپؐ کو دیکھا تو شور مچادیا کہ لوگو! آؤ اور اس بچے کو قتل کردو ورنہ وہ تمہیں قتل کرے گا۔ اس پر اُس یہودی کے ساتھیوں نے پوچھا کہ کیا یہ بچہ یتیم ہے؟ حضرت حلیمہؓ نے کہا کہ نہیں ، مَیں اس کی ماں ہوں اور حارث (اُن کے خاوند) اس کے والد ہیں ۔ اس پر یہودیوں نے کہا کہ اگر یہ یتیم ہوتا تو ہم اسے قتل کردیتے۔
تاریخ میں شقِ صدر کا واقعہ بھی درج ہے جب آپؐ کی عمر چار سال تھی اور آپؐ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے میں مصروف تھے کہ اچانک دو سفید پوش آدمی آئے اور انہوں نے آپؐ کو زمین پر لٹاکر آپؐ کا سینہ چاک کیا۔ آپؐ کے رضاعی بھائی نے اپنے ماں باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو وہ دونوں بھاگتے ہوئے آئے۔ دیکھا کہ آپؐ خوفزدہ حالت میں کھڑے ہیں۔ حضرت حلیمہؓ نے بڑھ کر آپؐ کو گلے سے لگالیا۔
اگرچہ حضرت حلیمہ سعدیہ کے ایمان لانے کے بارہ میں اختلاف ہے۔ تاہم امام السیوطیؒ کا بیان ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ اسلام لے آئی تھیں۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے بھی کئی حوالوں سے اس دعویٰ کی توثیق کی ہے۔

علامہ شبلی نعمانی

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہؓ اور اُن کی اولاد سے بڑی موانست تھی اور آپؐ نے رشتہ رضاعت کو ہمیشہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد ایک بار حضرت حلیمہ جب آنحضورؐ کو ملنے مکّہ آئیں اور آپؐ سے خشک سالی کی وجہ سے قحط کی شکایت کی تو آپؐ کی سفارش پر حضرت خدیجہؓ نے اُنہیں بیس بکریاں اور سواری کے لئے ایک اونٹ دے کر رخصت کیا۔
فتح مکّہ کے بعد ایک بار جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جفَّرانہ کے مقام پر گوشت تقسیم فرمارہے تھے تو صحابہ نے دیکھا کہ ایک بدوی عورت آئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے لئے اپنی چادر بچھادی۔
اسی طرح جنگ حنینؔ میں حضرت حلیمہؓ کے قبیلہ ہوازن کے ہزارہا قیدی پکڑے گئے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رضاعی رشتہ کی خاطر اُن سب کو بغیر کوئی فدیہ لئے رہا فرمادیا بلکہ اُن قیدیوں میں شامل اپنی رضاعی بہن کو انعام سے مالامال بھی فرمادیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں