حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اکتوبر 2009ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے بعض واقعات اور فرمودات کا انتخاب حضورؓ کی سوانح عمری ’’مرقات الیقین‘‘ کے حصہ ’’عطر مجموعہ‘‘ سے ہدیۂ قارئین کیا گیا ہے۔ (مرسلہ: مکرم راجا نصراللہ خان صاحب)
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
٭ بچوں کو مارنا اچھا نہیں۔

اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ

بھی آیا ہے۔ جب شریعت نے ان کو مکلّف نہیں کیا تو ہم کون جو مکلّف کریں۔ اولاد کے نیک بنانے کے لئے دعائیں کرو۔ میری اور میرے بھائی بہنوں کی تربیت زدوکوب کے ذریعہ سے نہیں ہوئی۔ میرے والدین ہم سب پر اور بالخصوص مجھ پر بہت ہی زیادہ شفقت فرماتے تھے۔ ہماری تعلیم کے لئے وہ کبھی بڑے سے بڑے خرچ کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔ مَیں نے اپنے والد یا والدہ سے بھی کوئی گالی نہیں سنی۔ والدہ صاحبہ جن سے ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں نے قرآن شریف پڑھا ہے، وہ اگر کسی کو گالی دیتی تھیں تو یہ گالی دیتی تھیں: ’’محروم نہ جاویں‘‘۔
٭ میری ماں نے تیرہ برس کی عمر سے قرآن شریف پڑھانا شروع کیا تھا۔ چنانچہ یہ ان کا اثر ہے کہ ہم سب بھائیوں کو قرآن شریف سے بہت ہی شوق رہا ہے۔
٭ مَیں نے دنیا کی جملہ مذاہب کی کتابیں پڑھیں اور سنی ہیں۔ ژندؔ، پاژندؔ، سفرنگؔ، دساتیر، بائبل، ویدؔ گیتاؔ وغیرہ کتابوں پر بہت بہت غور کیا ہے۔ دنیا کی تمام کتابوں کی اچھی باتوں کا خلاصہ اور بہتر سے بہتر خلاصہ قرآن کریم ہے۔
٭ مَیں اپنے ماں باپ کے لئے دعا مانگنے سے تھکتا نہیں۔ مَیں نے اب تک کوئی جنازہ ایسا نہیں پڑھا جس میں اُن کے لئے دعا نہ مانگی ہو۔
٭ ہم مکتب میں پڑھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہمارے استاد نے ہم کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے بھیجا۔ ہم میں سے ایک لڑکے نے وضو کرلینے کے بعد سب کو مخاطب کرکے کہا کہ یارو کیسی نماز؟ کون نماز پڑھتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی پیشانی ایک کچی دیوار سے رگڑی۔ مٹی کا نشان ماتھے پر نظر آنے لگا جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ مسجد میں نماز پڑھ کر آیا ہے۔ اس نے ہم سب کو نماز نہ پڑھنے اور جھوٹ بولنے کی اٹکل سکھائی۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بڑا نامی گرامی چور ہوا۔ ایک مرتبہ وہ ایک قلعہ کی دیوار سے کودا اور اس کو قید کی سخت تکلیف اٹھانی پڑی۔ میری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ نماز دل سے پڑھو۔
٭ مَیں نے دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے والے مباحثات میں کبھی عاجز نہیں ہوتے۔
٭ میری بیوی کو جب میرے لڑکے محمود احمد کا حمل ہوا تو مَیں نے اس سے کہا کہ تم لکھا بہت کرو۔ مدّعا اس سے یہ تھا کہ تجربہ کروں کہ یہ بچہ لکھنے کا شوقین ہوگا یا نہیں۔ چنانچہ جس وقت محمود احمد کے انتقال کا زمانہ قریب تھا، مَیں نے ایک قلم لیا اور ایک روپیہ لیا۔ دونوں اس کے سامنے کئے ۔ اُس نے ہر مرتبہ قلم ہی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
٭ مَیں نے جب سے شادیاں کی ہیں آج تک اپنی کسی بیوی کا کوئی صندوق کبھی ایک مرتبہ بھی کھول کر نہیں دیکھا۔
٭ میرے بچے جب مرے تو میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ اگر تم مرتے تب بھی یہ تم سے جدا ہوجاتے۔
٭ مَیں نے حج میں دو مرتبہ سات سات دفعہ طواف کرکے دو دو رکعتیں پڑھیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ یہ موقع کسی کو بڑی ہی مشکل سے مل سکتا ہے بلکہ نہیں ملتا۔ مطاف میں دن رات خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی جگہ نہیں جہاں اس کثرت سے ہر وقت خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو۔ پس نزول رحمت جس قدر وہاں ہوتا ہے دوسری جگہ ہو ہی نہیں سکتا۔
٭ مَیں نے بہت روپیہ، محنت، وقت خرچ کرکے احادیث کو پڑھا ہے اور اس قدر پڑھا ہے کہ اگر بیان کروں تو تم کو حیرت ہو۔ ابھی میرے سامنے کوئی کلمے حدیث کا، ایک قرآن کریم کا، ایک کسی اور شخص کا پیش کرو مَیں بتادوں گا کہ یہ قرآن کا ہے یہ حدیث کا اور یہ کسی معمولی انسان کا۔
٭ مَیں نے بڑی تحقیقات کی ہے۔ رسول اللہؐ کے اصحاب میں سے کوئی ایک بھی بہرا نہ تھا۔ یہ بڑا ہی معرفت کا نکتہ ہے۔
٭ مَیں نے اپنے ایک دوست کو دیکھا کہ ان کا کام نہیں چلتا۔ مَیں نے ان کو تجارت کی ترغیب دی اور تین ہزار روپے اپنے پاس سے ان کو دیئے۔ انہوں نے وہ تین ہزار روپے لے کر کہا کہ بھلا ان میں کیا ہوسکتا ہے؟ کچھ بھی نہ ہوگا۔ مَیں نے کہا کہ تم کو شکر ادا کرنا چاہئے تھا لیکن چونکہ تم نے شکر ادا نہیں کیا لہٰذا تم کو ہرگز نفع نہ ہوگا اور واقعی کچھ نہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
٭ مَیں نے اس وقت تک ہزارہا روپیہ لوگوں کو قرض دیا لیکن سوائے ایک شخص کے کہ اُس نے نو روپیہ قرض لئے تھے اور جس آنکھ سے لئے تھے اُسی آنکھ سے ادا کئے تھے اور کسی نے اسی آنکھ سے ادا نہیں کئے۔
٭ بھیرہ میں میرے ایک دوست تھے مَیں نے ان سے ایک کتاب چند مرتبہ مستعار مانگی۔ انہوں نے دینے کا وعدہ کیا۔ پھر ایک روز مَیں نے ان سے بازار میں کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ان کی زبان سے جواب سن کر مَیں نے بلند آواز سے اِنَّالِلہ پڑھا۔ چند ہی روز کے بعد پشاور سے ایک بڑا پلندہ بذریعہ ڈاک آیا جس میں بھیجنے والے کا نام نہ تھا۔ اس میں وہی کتاب، اُس کتاب کی شرح اور اس فن کی اَور کتابیں بھی تھیں۔ مَیں نے اس قسم کے سب آدمیوں سے اس کا تذکرہ کیا لیکن کچھ پتہ نہ چلا کہ یہ کتابیں کس نے بھجوائیں اور کیوں بھجوائیں۔ مَیں نے ایک مرتبہ ایک امیر آدمی کے سامنے بھی تذکرہ کیا۔ وہ میرا ہم خیال نہ تھا۔ اس نے کہا گو مَیں آپ کا ہم خیال نہیں ہوں لیکن آپ کی وہ اِنَّا لِلہ مجھ کو کھاگئی۔ اس کتاب کے پشاور ہونے کا مجھ کو علم تھا۔ مَیں نے اپنے آدمی کو لکھا کہ خرید کر آپ کے نام روانہ کردے۔
٭ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لڑائیوں میں اپنی بیوی عائشہ صدیقہؓ اور اپنی بیٹی فاطمہؓ کو بھی لے جاتے تھے۔
کسی تاریخ میں نہیں لکھا کہ یہ دونوں پکڑی گئی ہوں۔ مَیں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی شکست نہیں کھائی۔ مَیں کسی رسول کے قتل کا قائل نہیں۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے:

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسَلَنَا

غرض کہ میرا اعتقاد نہیں کہ کسی رسول کو شکست ہوئی ہو۔ چونکہ مجھ کو رسولوں سے بہت محبت ہے اس لئے مَیں نے اپنی عمر میں کبھی شکست نہیں کھائی۔ بہت آدمیوں نے میرے قتل کے منصوبے کئے مگر ہمیشہ ناکام رہے۔
٭ ایک رؤیا میں مَیں نے پنڈدادنخاں میں دیکھا۔ وہاں ایک سررشتہ دار تھا جو اپنی فضولیوں میں بڑا مشہور تھا۔ مَیں نے اس کو دیکھا کہ وہ بہشت میں ایک بڑی اونچی اٹاری پر ہے۔ جب مَیں نے اس کو اور اُس نے مجھ کو دیکھا تو مَیں نے اس سے کہا کہ تم بڑے سیہ کار تھے تم کو بہشت میں اور پھر عرفات میں کیونکر موقع ملا۔ اُس نے جواب میں کہا کہ ’’میری غریب الوطنی پر جناب الٰہی نے رحم فرمایا‘‘۔ مَیں نے بیداری کے بعد بڑی جستجو کی مگر کہیں پتہ نہ لگا یہی معلوم ہوا کہ ایک عرصہ سے مفقودالخبر ہے۔ دو برس کے بعد ایک رشتہ دار نے مجھ کو بتایا کہ فلاں آدمی بمبئی کے قریب ایک مقام کلیانی میں مرگیا ہے، وہ مکہ معظمہ کو پیادہ پا جاتا تھا۔
٭ میرے ایک محسن مولوی عبدالرشید تھے۔ وہ مرادآباد میں ایک مسجد کے حجرہ میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مہمان عشاء کے بعد آگیا۔ حیران ہوئے کہ اب اس مہمان کا کیا بندوبست کروں۔ انہوں نے مہمان سے کہا کہ آپ کھانا پکنے تک آرام کریں۔ وہ مہمان لیٹ گیا اور سوگیا۔ انہوں نے وضو کرکے قبلہ رُخ بیٹھ کر یہ دعا پڑھنی شروع کی:

اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌ بِالْعِباد ۔

جب اتنی دیر گزری کہ جتنی دیر میں کھانا پک سکتا ہے اور یہ برابر دعا پڑھنے میں مصروف تھے۔ کہ ایک آدمی نے باہر سے آواز دی کہ حضرت میرا ہاتھ جلتا ہے جلدی آؤ۔ یہ اٹھے ایک شخص تانبے کی رکابی میں گرم گرم پلاؤ لئے ہوئے آیا۔ انہوں نے لیا اور مہمان کو اٹھاکر کھلایا۔ بعد میں اس رکابی کا کوئی مالک نہ ملا۔
٭ مَیں کشمیر میں دربار کو جارہا تھا۔ یار محمد خاں ایک شخص میری اردلی میں تھا۔ اس نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ آپ کے پاس جو یہ پشمینہ کی چادر ہے یہ ایسی ہے کہ مَیں اس کو اوڑھ کر آپ کی اردلی میں بھی نہیں چل سکتا۔ مَیں نے اس سے کہا کہ تجھ کو اگر بُری معلوم ہوتی ہے تو میرے خدا کو تجھ سے بھی زیادہ میرا خیال ہے۔ جب مَیں دربار میں گیا تو مہاراجہ نے کہا کہ آپ نے ہیضہ کی وبا میں بڑی کوشش کی ہے آپ کو تو خلعت ملنا چاہئے۔ چنانچہ ایک قیمتی خلعت دیا۔ اس میں جو چادر تھی وہ نہایت ہی قیمتی تھی۔ مَیں نے یار محمد خاں سے کہا کہ دیکھو ہمارے خدا کو ہمارا کیسا خیال ہے۔
٭ ریاست کشمیر کے دربار میں بعض طبیب مجھ سے اوّل بیٹھنے کی کوشش کرتے اور مَیں ان کو آگے بیٹھنے دیتا اور بہت خوش ہوتا۔ وہاں ایک بوڑھے آدمی تھے۔ انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی ابتدائی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں۔ بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے اور وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے۔ اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے۔ ایک دن سرِدربار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے۔ وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ مَیں نے دہلی کے ایک حکیم سے جو حافظ بھی تھے اور میرے پاس بیٹھے تھے کہا کہ ’حکیم صاحب! ان کو سورۃ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سنادو‘۔
٭ مولوی عبدالکریم صاحب جب پہلے پہل مجھ سے ملے تو اُن کی بہت چھوٹی عمر تھی۔ پتلے دبلے اور بہت صاف دل تھے۔ مَیں نے ان سے جموں میں کہا کہ تم میرے پاس آیا کرو۔ مولوی عبدالکریم چار زبانیں جانتے تھے انگریزی، عربی، فارسی، اردو۔ مَیں نے تو اس وقت تک اپنی جماعت میں کوئی شخص دیکھا نہیں جو ان کی طرح چار زبانیں اچھی طرح جانتا ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں