حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی شفقتوں کے بیان میں مکرم میجر (ر) منیر احمد فرخ صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 و 15 دسمبر 2010ء میں شائع ہوا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میٹرک کے بعد ٹی آئی کالج ربوہ میں داخلہ ملا اور حضرت پرنسپل صاحب کو پہلی نظر دیکھا تو یہ احساس دل میں گھر کر گیا کہ یہ وجود بھی اُن نوروں میں سے ایک ہے جو خداتعالیٰ کی قدرت کامظہر ہیں۔

انتہائی مقدس چہرہ۔ گفتگو میں ٹھہراؤ کہ ہر بات واضح ہو جائے اور سننے والے کو کوئی ابہام نہ رہے۔ ملنے والوں کی صلاحیت کو پہچان کر اسی لہجے میں ان سے گفتگو کرتے۔ جس قسم کا موضوع ہوتا اسی طرز پر اس کو بیان کرتے۔ انتہائی رعب دار شخصیت جس میں شفقت اور انسیت جھلکتی تھی۔ اپنے ہمعصروں میں خواہ وہ جماعتی عہدیدار ہوں یا دیگر تعلیمی اداروں کے سربراہ یا قومی اور بین الاقوامی شخصیات، آپ ان میں نمایاں نظر آتے۔ صرف دیکھنے ہی میں نہیں گفتگو میں بھی۔ میری غریبانہ رائے کی کیا وقعت پر یہی دیکھا گیا کہ آپ کو اپنے تئیں نمایاں کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہ آئی۔ آپ کا بابرکت وجود اور پُرحکمت گفتگو لوگوں کو مجبور کرتی کہ وہ آپ کی اس حیثیت کو اپنے اوپر وارد کریں۔
آپ نے کالج کو تراش کر ایسے گہوارۂ علم کی بنیاد رکھی جس کے معمار بھی آپ تھے، زیب و زینت کی ہنرمندی بھی آپ ہی کے نام لکھی گئی اور ضابطۂ اخلاق کے راستے ہموار کرکے اس کے دروازے ہر خاص و عام کے لئے کھول دیئے۔ یہ جہان دانش خطے کی مثالی درسگاہ بن گئی جہاں طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کے لئے آپ نے طلباء کے لئے ایک ایسا لباس متعارف کرایا جو کم قیمت تو تھا ہی مگر تعلیمی اور مذہبی اقدار کی نمائندگی بھی کرتا تھا۔ اساتذہ کا مقام روحانی باپ کا سا تھا کہ یہ جنس گراں مایہ یہاں اسی ترازو میں تلتی تھی۔جب کبھی اپنے کالج کو ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں کے روبرو کیا تو ہمیشہ ایک ہی جواب سامنے آیا کہ کسی کے پاس ایسا پرنسپل ہو تو سامنے لائے۔
آ پؒ کی رہائش کالج کی چار دیواری کے اندر واقع تھی۔ جونہی آپ کا قدم مبارک رہائشگاہ سے باہر نکلتا طلباء آپ کی محبت و احترام میں اپنے آپ کو یوں چھپا لیتے جیسے چھوٹے بچے توجہ چاہنے کے لئے اپنے والدین کی آمد پر گھر کے کونوں میں چھپ جاتے ہیں۔ طلباء کی ان اداؤں سے آپ بخوبی واقف تھے کہ وہ کہاں کہاں آپ کے منتظر ہوں گے۔ ان سے ملنے کے لئے ان جگہوں پر جاتے۔ آپ کو اپنے درمیان پاکر لڑکے خوشی سے کھل اٹھتے اور ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ آپؒ سے بات کرنے کا شرف حاصل کرے۔
٭ ایک صبح مَیں لائبریری کے کونہ میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ محو گفتگو تھا کہ حضرت پرنسپل صاحب وہاں سے ہمیں دیکھ کر خاموشی سے گزر گئے۔ مگر دفتر پہنچ کر اس عاجز کو بلایا۔ مَیں حاضر ہوا۔ سلام عرض کیا تو جواب کے بعد فرمایا کیا باتیں ہورہی تھیں؟ جواب میں میری گزارش کو آپ نے سچ گردانا اور فرمایا کہ آجکل پنجاب کے کالجوں میں ہڑتال اور کلاسوں کے بائیکاٹ کی وبا پھیلی ہوئی ہے مگر ہماری تعلیم اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایسے کسی کام میں حصہ لیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ ہمارے کالج میں اشارۃً بھی کسی ایسے عمل کا ذکر تک نہ ہو۔ اگر تمہارے علم میں ایسی کوئی اطلاع آئے تو فوراً مجھے خبر کرنا۔
٭ کشتی رانی ہمارے کالج کا مقبول ترین کھیل تھا۔ آپؒ کی خصوصی توجہ اسے حاصل تھی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کالج میں دوسری کھیلیں قابل توجہ نہ تھیں۔ آپؒ کو یقین تھا اور کئی مرتبہ اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ کھیلیں صحت مند جسم کے لئے ازبس ضروری ہیں کیونکہ ایک اچھا دماغ صحت مند جسم کے بغیر نشوونما نہیں پاسکتا۔ نومبر دسمبر کی سخت سردی میں کشتی رانی کی مشقیں سحری سے پہلے شروع ہوتیں پھر عصر کے بعد دوبارہ یہ مشقّت طلب ورزش کی جاتی۔ آپ پوری طرح آگاہ تھے کہ ایسی جانفشانی اضافی خوراک کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے آپ کی ذاتی نگرانی میں انواع و اقسام کی نعمتیں ہمیں ملتیں۔ یہ عاجز کشتی رانی کی ٹیم کا کپتان بھی رہا۔ ایک سال ٹریننگ کے دوران یہ عاجز اچانک بیمار ہوگیا۔ آپؒ نے کمال شفقت سے محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو ٹیلیفون پر میری حالت سے آگاہ کیا اور پھر مجھے ہسپتال بھیجا۔ جہاں علاج کی تمام سہولتیں میسر آگئیں اور یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ بہت جلد صحت یاب ہو کر واپس ٹیم میں شامل ہوگیا۔
لاہور میں چیمپئن شپ کے سالانہ مقابلے منعقد ہوتے۔ آپؒ ہمیشہ ہی اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لئے لاہور آنا کبھی نہ بھولتے۔ پھر جیت کی خوشی میں تمام طلباء آپؒ کے گرد گھیرا ڈال کر چھٹی چھٹی کے نعرے مارتے۔ حد ادب ہمیشہ ملحوظ رہتا۔ بالآخر ایک انگلی اٹھتی کہ اتنی ہی گنجائش ہے اور وہ نظارہ تو خوشی کو دوبالا کر دیتا جب آپ دائیں ہاتھ کی دو انگلی V کی شکل میں اٹھا کر اشارہ کرتے تو ہر دُوربین آنکھ سمجھ جاتی کہ چھٹی دو دن کی ہے۔ کشتی رانی کامقابلہ چونکہ لاہور میں ہوتا اس لئے چھٹی کا فیصلہ بھی اسی زمین پر ہو جاتا۔ دوسرے کالجوں کے اساتذہ ہمارے کالج کو عجوبہ سمجھتے جب وہ اپنے پیمانوں سے ان رشتوں کو ناپتے جو آپؒ اور طلباء کے درمیان قائم تھا۔ یہ انوکھا پیار ان کے ذہنوں کو عجیب سرور سے آشنا کرتا۔ دیگر کالجوں کے طلباء برملا کہتے ہم نے تو کبھی اپنے مطالبات اس طرح پیش نہیں کئے۔ ہم تو جبر سے اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں اور رعب ڈال کر انہیں منواتے ہیں۔
1962-63 ء میں کھیلوں کے حوالے سے کالج میں انقلابی تبدیلیاں آئیں جب کشتی رانی کی جگہ باسکٹ بال نے لے لی۔ پھر اس ٹیم کے جوہر بھی کھل کر سامنے آئے جب ہمارے اکثر کھلاڑیوں نے ملکی سطح پر نام پیدا کیا۔ ملک کی نامور ٹیمیں ربوہ آنے پر فخر محسوس کرتیں۔ آپؒ کی سرپرستی میں آل پاکستان سالانہ باسکٹ بال ٹورنامنٹ باقاعدگی سے منعقد ہونے لگا۔
اُنہی دنوں ہندوستان کی ٹیم پاکستان آئی اور اسے ربوہ میں بھی میچ کھیلنے کے لئے منظوری مل گئی۔ اس پر آپؒ نے مجھے دفتر بلایا اور فرمایا کہ تم کالج کے سفیر بن کر اس میچ کے لئے مہمان خصوصی کو دعوت دے کر آؤ۔ محترم کمشنر صاحب سرگودھا ڈویژن کے پاس جاؤ، مَیں نے ان کے نام تعارفی خط لکھ دیا ہے۔ (بصیرت اور دور اندیشی تو آپ کی میراث تھی چنانچہ فرمایا) وہ اگر کسی وجہ سے نہ مل سکیں یا کوئی مصروفیت ان کے آڑے آئے تو دوسرا تعارفی خط DIG کے نام ہے۔ اس سفارتکاری کے اخراجات کے لئے دعوت ناموں کے ساتھ تیسرا لفافہ بھی ہے، اس میں تمہارے خرچ کے لئے رقم ہے۔
چنانچہ مَیں حضورؒ کی دعاؤں کے سائے میں ایک دوست کے ہمراہ روانہ ہو۔ اخراجات کی رقم کھول کر دیکھی تو حیرانی سے کبھی اس رقم کو اور کبھی اپنے آپ کو دیکھتا کہ اتنی ساری دولت کا کیا کروں گا جو 25 روپے پر مشتمل تھی۔ ہم عام لباس پہنے ہوئے کالج کے غریب الدیار طلباء تھے مگر کمشنر صاحب کے دفتر میں ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ وہ چھٹی پر ہونے کی وجہ سے ہمیں نہ مل سکے۔ DIG صاحب کے دفتر پہنچتے پہنچتے چھٹی ہوچکی تھی اس لئے ان کو گھر پر جاملے۔ بہت عزت سے انہوں نے استقبال کیا۔ مہمان نوازی کی اور بہت خوشی سے ہماری دعوت قبول کی اور باہر تک چھوڑنے آئے۔
واپس ربوہ آکر آپؒ کے گھر جاکر رپورٹ دی۔ آپؒ بہت خوش ہوئے۔ تمام اخراجات کا تخمینہ باوجود تمام فضول خرچی کے شاید ایک روپیہ پچاس پیسے بنا۔ آپ کی خدمت میں بقایا رقم واپس کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو فرمایا گو بہت کم ہیں مگر یہ تمہارا نعام ہے۔
٭ میری تعلیم قریب قریب اختتام پذیر تھی، سالانہ امتحانات کا آخری پرچہ تھا کہ حضورؒ نے اپنے دفتر طلب کیا اور پوچھا: اب کیا ارادہ ہے؟ عرض کی نتائج کے اعلان تک فارغ ہوں۔ فرمایا تمہیں پتہ ہے کالج کی مسجد ابھی تک تعمیر نہیں ہوئی، تم اس سلسلہ میں کیا کرسکتے ہو؟ عرض کی جب تک فارغ ہوں ہر خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ یہ سن کر آپ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور بتایا کہ آپ کو دفتر، متعلقہ سٹیشنری اور ایک مددگار کارکن مہیا کردیتے ہیں، کل سے کام شروع کر دو۔ ایک کاغذ مجھے دیا جس پر کالج کے پرانے طلباء کو تحریک کی گئی تھی کہ جس طرح آکسفورڈ یونیورسٹی میں Balial کالج کے پرانے طلباء نے اپنے کالج کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک عظیم ہال تعمیر کر دیا تھا۔ اسی طرح آپ بھی آگے آئیں تو کالج کی تعمیرِ مسجد کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ یہ خط مجھے دے کر فرمایا کہ اس مضمون کو مجوزہ پیڈ پر خوش خط نقل کرکے آپ کے دستخطوں سے ان تمام پرانے طلباء کو بھجواؤں۔ یہ کام پوری لگن اور دلجمعی سے خالص آپ کی نگرانی میں تقریباً دو ماہ جاری رہا۔ قریباً ایک ہزار طلباء کو یہ خطوط ارسال کئے گئے اور اکثریت نے اس کام میں دل کھول کر حصہ لیا۔ کام تقریباً ختم ہو چکا تھا کہ میرا انتخاب بطور کمیشنڈ آفیسر پاکستان آرمی میں ہوگیا اور مَیں آپ کی اجازت سے کاکول روانہ ہو گیا۔ آپ نے اس کام کے لئے انتہائی معقول رقم بطور تنخواہ مقرر کی مگر میری درخواست پر کہ مَیں یہ کام بطور ثواب، اعزازی طور پر انجام دوں گا۔ آپؒ نے درخواست قبول فرمائی اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا۔
٭ آپؒ پولیٹیکل سائنس کا مضمون بذات خود پڑھاتے بھی تھے۔ تدریس کا یہ سلسلہ سب کے لئے نہیں تھا مگر جب آپ کی مصروفیت آپ کو اجازت دیتی تو آپ اس خوش قسمت کلاس کی ذمہ داری اپنے سر لے کر اس مضمون کی مکمل تیاری کرواتے، نوٹس لکھواتے جو آپ نے آکسفورڈ میں زمانہ طالب علمی میں وہاں تیار کئے تھے۔ چنانچہ خوش قسمتی سے ہماری کلاس بھی دو سال تک آپ سے یہ فیض پاتی رہی۔
٭ محترم کرامت حسین جعفری صاحب (پرنسپل گورنمنٹ کالج فیصل آباد) ماہر تعلیم اور فلسفہ و نفسیات پر بہت سی کتب کے مصنف بھی تھے۔ اُن کی کچھ کتب بی اے کی کلاسز میں بطور نصاب بھی شامل تھیں۔ حضرت پرنسپل صاحبؒ نے اس عاجز کو بھیجا کہ انہیں اپنے کالج میں لیکچر کے لئے مدعو کروں۔ چنانچہ یہ عاجز جب اُن کے دفتر میں پہنچا تو اچانک اُس کالج کے دو اساتذہ لڑتے جھگڑتے پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوئے۔ اس ماحول کو دیکھ کر اپنا کالج بہت یاد آیا جہاں ایسی حالتوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ بہرحال جعفری صاحب نے اُن دونوں کا جھگڑا ختم کروا دیا۔ وہاں سے واپس آکر مَیں نے رپورٹ پیش کی اور آپؒ کو مذکورہ جھگڑے کی خبر سے بھی اطلاع کی۔ اس پر آپؒ نے فرمایا کہ ہماری زندگی اور ہماری درسگاہ بھی ایسی ہی ہوتی اگر حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں زندہ نہ کر دیا ہوتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں