حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء پر خواتین سے خطاب

جن خاندانوں میں مائیں نیک ہوں،نمازیں پڑھنے میں باقاعدہ ہوں ،نظام جماعت کی پوری طرح اطاعت گزار ہوں اور اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں تو ایسے گھروں کے بچے عموماً دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔
صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ خود اپنی زندگی متقیانہ ہو ۔
کوئی احمدی عورت معاشرہ کی تمام عورتوں کی طرح نہیں ہے ۔
ایک نئے عزم کے ساتھ ہمت اور دعا سے کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کی طر ف توجہ دیں۔
(سیدنا حضرت امیرالمومنین مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۳ء کے موقع پر مستورات سے خطاب)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ۔ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(سورۃ الاحقاف:۱۶)

دنیا میں ہر شخص چاہے مرد ہو یا عورت جب وہ شادی شدہ ہو جاتاہے تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اولاد ہو اور صحتمند اولاد ہو جو ان کا نام روشن کرے ،بڑے ہو کر ان کے کام آئے، اگر امیر ہے تو چاہے گا کہ بچہ بڑا ہو کر اس کے کاروبار کو سنبھالے، اس کی جائیداد کی نگرانی کرے، اس کو مزید وسیع کرے، وسعت دے۔ اوراگر غریب ہے تو خواہش ہوگی، خاص طورپر غرباء کو بیٹوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا ہواور بڑا ہوکر اس کا سہارا بنے۔ لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جس میں غریب بھی شامل ہیں، امیر بھی شامل ہیں جو ایسے لوگوں کا گروہ ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں۔ اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا دین ہمیشہ دنیا پر مقدم رہے ،اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں ۔ اور یہی گروہ کامیاب ہونے والوں کا گروہ ہے جنہوں نے خود بھی کوشش کی کہ وہ نیکیوں کا راستہ اپنائیں اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بھی توجہ دیں، اور دیتے بھی ہیں۔ وہ راستہ اپنائیں جو خداتعالیٰ کی رضا کا راستہ ہے اور دعائوں سے اس کی مدد چاہتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں ۔
یہ جو آیت مَیں نے پڑھی ہے یہ ایسے لوگوں ہی کے بارہ میں ہے۔ اس کا ترجمہ ہے : اس نے کہا اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی۔ اورایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تُو راضی ہو ۔اور میرے لئے میری ذرّیّت کی بھی اصلاح کردے۔ یقینا میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
جن خاندانوں میں مائیں نیک ہوں ، نمازیں پڑھنے میں باقاعدہ ہوں، نظام جماعت کی اطاعت کرنے والی ہوں ، اجلاسوں اجتماعوں وغیرہ میں باقاعدہ شامل ہونے والی ہوں، ہر قسم کے تربیتی پروگراموں میں اپنے کاموں کاحر ج کرکے حصہ لینے والی ہوں ، نظام جماعت کی پوری طرح اطاعت گزار ہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں تو ایسے گھروں کے بچے پھرعموماً دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں اور ماں باپ کے بھی اطاعت گزار ہوتے ہیں اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیزہے کہ ماں باپ خود اپنے بچوں کے لئے نمونہ بنیں ۔پھر اس کی کچھ تفصیل ہے کہ کس طرح اس تربیت کے طریقہ کو آگے بڑھایاجائے ، وہ مَیں آگے بیان کروں گا ۔ لیکن ہر کام سے پہلے جو ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ’ میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کردے،یقینا مَیں تیری طرف ہی رجوع کرتاہوں اور یقینا مَیں فرمانبراروں میں سے ہوں‘ کو ہر وقت پیش نظر رکھیں۔
اولاد کی خواہش کس غرض سے ہو
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جس درد کے ساتھ بچوں کی تربیت کے لئے ارشادات فرمائے ہیں ان میں سے چند اقتباسات مَیں آپ کے سامنے رکھتاہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس زمانے میں دنیا سے ٹکر لے کر جب ہم نے وقت کے امام کو مانا ہے تو اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور اپنی اولاد وں کی اصلاح کے لئے اس کے درد میں شامل ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’انسان کو سوچنا چاہئے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کردینا چاہئے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے لیکن جب یہ ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے توضرور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے ۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے جیساکہ فرمایا ہے

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن

اب اگر انسان خود مومن ا ور عبد نہیں بنتاہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتاہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتاہے اور گناہ پر گناہ کرتاہے توایسے آدمی کی اولاد کی خواہش کیا نتیجہ رکھے گی ۔ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑنا چاہتاہے ۔خود کون سی کمی کی ہے جو اولاد کی خواہش کرتاہے۔
پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہوکہ وہ دیندار اورمتقی ہو اور خداتعالیٰ کی فرمانبردار ہوکرا س کے دین کی خادم بنے۔ بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیاتِ صالحات کی بجائے اس کانام باقیات ِسَیِّئَات رکھنا جائز ہوگا ۔
صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ خود اپنی اصلاح کرے
لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مَیں صالح اور خداتر س اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتاہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہوگا جب تک کہ خود وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے ۔ اگر خود فسق وفجورکی زندگی بسرکرتاہے اور منہ سے کہتاہے کہ مَیں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتاہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذاب ہے۔ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بنادے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں ۔لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہوکہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یاوہ بڑا نامور اور مشہور آدمی ہو،اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے۔
تو غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر مبنی ہونی چاہئے ۔اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کاخلیفہ باقی رہے ۔خداتعالیٰ بہتر جانتاہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی حالانکہ خداتعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی ۔یہ سلطان ا حمد اور فضل احمد اسی عمر میں پیدا ہوگئے اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیادار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامورہوں۔ غرض جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو اس کی نسبت تو سعدی ؒ کا یہ فتویٰ ہی صحیح معلوم ہوتاہے کہ

پیش اَزپِدَر مُردہِ بہ ناخَلَف۔

پھر ا یک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اوراولاد ہوتی بھی ہے مگریہ کبھی نہیں دیکھاگیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اورنیک چلن بنانے اور خد اتعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکرکریں۔ نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظررکھتے ہیں۔ ‘‘
(الحکم جلد۵ نمبر ۳۵ مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۱ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:-
’’اولاد تو نیکوکاروں اور ماموروں کی بھی ہوتی ہے۔ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد بھی دیکھو کس قدر کثرت سے ہوئی کہ کوئی گِن نہیں سکتا مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اُن کا خیال اَور طرف تھا؟ بلکہ ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع تھا۔ اصل اسلام اسی کا نام ہے جو ابراہیم کو بھی کہا کہ اَسْلِمْ۔ جب ایسے رنگ میں ہوجاوے تو وہ شیطان اور جذباتِ نفس سے الگ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا کی راہ میں جان تک کے دینے میں بھی دریغ نہ کرے۔ اگر جان نثاری سے دریغ کرتا ہے تو خوب جان لے کہ وہ سچا مسلم نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ بے حد اطاعت ہو اور پوری عبودیت کا نمونہ دکھاوے یہاں تک کہ آخری امانت جان بھی دیدے۔ اگر بخل کرتا ہے تو پھر سچا مومن اور مسلم کیسے ٹھہر سکتا ہے؟‘‘(ملفوظات جلد سوم۔ صفحہ ۶۰۱۔ جدید ایڈیشن)
اولاد کی تربیت کی فکرکریں
پھرآپ فرماتے ہیں کہ:’’ پھر ا یک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اوراولاد ہوتی بھی ہے مگریہ کبھی نہیں دیکھاگیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اورنیک چلن بنانے اور خد اتعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکرکریں۔ نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظررکھتے ہیں۔ ‘‘
حضور فرماتے ہیں:-
’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا ۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ دن بدن دلیراور بے باک ہوتے جاتے ہیں … یا درکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اَقْرَب تعلقات کو نہیں سمجھتا، جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیاہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پرقرآن میں بیا ن فرمایا ہے۔

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا

یعنی خدا تعالیٰ تو ہم کو ہماری بیویوں اوربچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما دے ۔ اوریہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسرنہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمن کی زندگی بسرکرنے والے ہوں اورخدا کو ہر شے پرمقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔

اولاد اگرنیک اورمتقی ہو تویہ ان کاامام ہی ہوگا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے ‘‘۔( ملفوظات جلداول صفحہ ۵۶۰ تا ۵۶۳ جدید ایڈیشن)
بچپن میں نماز کی عادت ڈالیں اور دین سکھائیں
جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عبادالرحمن بنائیں۔بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں۔جب ذرا بات سمجھنے لگ جائیں توجب بھی کوئی چیز دیں ابھی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں تو یہ کہہ کردیں کہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے دی ہے ، اللہ میاں نے دی ہے۔ شکر کی عادت ڈالیں ۔پھر آہستہ آہستہ سمجھائیں کہ جو چیز مانگنی ہے اللہ میاں سے مانگو۔پھر نمازوں کی عادت بچپن سے ہی ڈالنی ضروری ہے ۔آج کل بعض محنتی مائیں اپنے بچوں کو پانچ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کروا لیتی ہیں ۔اکثریت ایسی مائوں کی ہے کہ سکول تو بچے کو ساڑھے تین چار سال کی عمر میں بھیجنے کی خواہش کرتی ہیں اور بھیج بھی دیتی ہیں اور بچے اس عمر میں فقرے بنا بھی لیتے ہیں اور لکھ بھی لیتے ہیں لیکن نماز اور قرآن سکھانے اور پڑھانے کے متعلق کہو تو کہتے ہیں کہ ابھی چھوٹاہے ۔ حدیث میں آیاہے کہ کس عمر میں آپ بچے کو نماز پڑھنے کے لئے کہیں اورسکھائیں ۔
ہشام بن سعد سے روایت ہے کہ حماد بن عبداللہ بن خبیر جہنی کے گھر گئے ۔انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ بچہ کب نماز پڑھنی شروع کرے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک آدمی نے بتایا تھاکہ حضور ﷺسے یہ امر دریافت کیاگیا تو حضور ؐنے فرمایاکہ بچہ جب اپنے دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں تمیزکرنا جان لے تو اسے نمازکا حکم دو۔(سنن ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب متی یؤمر الغلام بالصلوٰۃ)
تو آج کل تو چار پانچ سال کی عمر میں تمیز اور فرق بچہ کر لیتاہے۔
پھر ایک حدیث ہے ۔ حضرت عمرو ابن شعیب سے مروی ہے کہ اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو ۔ پھر دس سال کی عمر تک انہیں اس پرسختی سے کاربند کرو نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاؤ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰ ۃ باب متی یؤمر الغلام بالصلوٰۃ)
اب یہاں اس حدیث میں ایک اوراہم نکتہ بھی تربیت کا بتا دیا کہ نماز کی ادائیگی کا جو حکم دو تو بچے اب ایسی عمر میں پہنچ رہے ہیں جہاں بچپن سے نکل کر آگے جوانی میں قدم رکھنے والے ہیں تو ان کے بستر بھی علیحدہ کردو۔ چاہے جومرضی مجبوری ہو بہرحال بچوں کو اس عمر میں علیحدہ سونا چاہئے۔اب ان کو علیحدہ سلاؤ۔ بہت ساری بیماریوںسے،بہت سی قباحتوں سے بچوں کو محفوظ کرلوگے۔ ایک حیا، ایک حجاب کا شعور ان میں پیدا ہوگا۔ اور یہ بات پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے ۔ تو نماز کی اہمیت کے بارہ میں ذکر ہورہاہے کہ کب بچوں کو عادت ڈالنی چاہئے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا حدیثوں سے ۔اب اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک اقتباس سناتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:-
’’ایک خرابی تو یہ ہے کہ اَور تو ساری باتیں بچپن میں سکھانے کی خواہش کی جاتی ہے مگر دین کے متعلق کہتے ہیں کہ بچہ بڑا ہوکر سیکھ لے گا، ابھی کیا ضرورت ہے۔ بچے نے ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالی ہوتی اور ڈاکٹر منع کرتا ہے کہ ابھی اسے پڑھنے نہ بھیجو مگر ماں باپ اسے سکول بھیج دیتے ہیں۔ ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ سال جو اس کے ہوش میں آنے کے ہیں اُن میں بھی کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لے۔ مگر نماز کے لئے جب وہ بلوغت کے قریب پہنچ جاتا ہے، تب بھی یہی کہتے ہیں ابھی بچہ ہے بڑا ہوکر سیکھ لے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ بچے کو نماز کے لئے جگائو تو کہتے ہیں نہ جگائو، اس کی نیند خراب ہوگی۔ لیکن اگر صبح امتحان کے لئے انسپکٹر نے آنا ہو تو ساری رات جگائے رکھیں گے۔ گویا انسپکٹر کے سامنے جانے کا تو اتنا فکر ہوتا ہے مگر یہ فکر نہیں ہوتا کہ خدا کے حضور جانے کے لئے بھی جگا دیں۔ تو بچے کو بچپن ہی میں دین سکھانا چاہئے۔ جو لوگ بچوں کو بچپن میں دین نہیں سکھاتے تو ان کے بچے بڑے ہوکر بھی دین نہیں سیکھتے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ دنیا کے کاموں کے لئے جو عمر بلوغت کی سمجھی جاتی ہے، دین کے متعلق نہیں سمجھی جاتی۔ بچپن میں بچہ اگر چیزیں خراب کرے تو اسے ڈانٹا جاتا ہے لیکن اگر خدا کے دین کو خراب کرے تو کچھ نہیں کہا جاتا۔ پس جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں گے کہ دین سکھانے کا زمانہ بچپن ہے اور جب تک والدین نہ سمجھیں کہ ہمارا اثر بچپن ہی میں بچوں پر پڑ سکتا ہے، تب تک بچے دیندار نہیں بن سکیں گے۔ اور پھر جب تک عورتیں بھی مردوں کی ہم خیال نہ بن جائیں گی، بچے دیندار نہیں ہوسکیں گے۔ کیونکہ مرد ہر وقت بچوں کے ساتھ نہیں ہوتے۔ بچے زیادہ تر مائوں ہی کے پاس ہوتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ دین دار مائیں بھی بچوں کو دین سکھانے میں سستی کرجاتی ہیں۔ نماز کا وقت ہوجائے اور بچہ سو رہا ہوتو کہتی ہیں ابھی اور سولے۔ پس جب تک مائوں کے ذہن نشین نہ کریں کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن ہی میں ہوسکتی ہے، اس وقت تک ہرگز کامیابی نہیں ہوسکتی۔ پس پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن ہی میں کرو اور بچپن ہی میں ان کو دین سکھائو تا کہ وہ حقیقی دیندار بنیں۔‘‘
(الازھار لذوات الخمارصفحہ۱۲۷)
انتہائی بچپن میں نماز کے طریق سکھانے کے بارہ میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔
حضر ت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنی خالہ کے گھر رات گزاری۔ رات کو آنحضرت ﷺ نماز کے لئیـ کھڑے ہوئے ۔مَیں بھی حضور کے ساتھ حضور کی بائیں جانب کھڑا ہوا۔ حضور نے مجھے سر سے پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا۔(صحیح بخاری کتاب الأذان)۔
اب یہ نہیں کہا کہ کیوں میرے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ ساتھ یہ بھی تاکید کردی کہ اگر دو آدمی ہوں تو امام کے ساتھ دوسرا دائیں طرف کھڑا ہو۔
پھر ایک روایت ہے۔ ابویعقوب روایت کرتے ہیں کہ میں نے مصعب بن سعد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مَیں نے اپنے باپ کے پہلو میں نماز پڑھی تو رکوع کے جاتے ہوئے مَیں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر اپنے رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ اس پر میرے والد نے ایسا کرنے سے منع کیا اور انہوں نے بتایا کہ ہم ایسا کرتے تھے تو ہمیں ایسا کرنے سے منع کردیا گیا تھا اور ہمیں حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھیں۔
(صحیح بخار ی کتاب الأذان باب وضع الکف علی الرکب فی الرکوع)
اب یہ بھی انتہائی بچپن میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں سکھانے والی جو بچوں کو سکھانی چاہئیں ۔
پھر بچوں کی تربیت کے لئے ،ان کی دنیاوی تعلیم ہے جس میں آج کل بہت کوشش کی جاتی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے ہوں کہ ’’میرے ماننے والے علم ومعرفت میں کمال حاصل کریں گے‘‘۔اس میں دینی اور دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں ۔لیکن یہاں بھی بعض مائیں،یہ ساری باتیں مَیں وہ بیان کر رہاہوں جو تجربے میں آتی ہیں، سامنے آتی ہیں،یہاں بھی بعض مائیں اکلوتے بچے یا اکلوتے بیٹے کو جو اچھا بھلا ذہین بھی ہوتاہے شروع میں پڑھائی میں ٹھیک بھی ہوتاہے بے جا لاڈپیارکی وجہ سے کہ اکیلا بیٹا ہے، اس کے نازنخرے اٹھائے جائیں ، بگاڑ دیتی ہیں ۔اور وہ پڑھائی اور ہر کام سے بالکل بیزار ہوجاتاہے اور آہستہ آہستہ گھروالوں پر اور معاشرے پر بوجھ بن جاتاہے ۔ پھر فکر ہوتی ہے ماں باپ کو کہ ایک ہمار ا بچہ ہے وہ بھی بگڑ گیاہے ،دعا کریں ٹھیک ہوجائے ،اس کی اصلاح ہوجائے۔ تواگر شروع میں اس طرف توجہ ہوتی تو یہ صورت پیدا نہ ہوتی ۔ بہرحال خداتعالیٰ ایسے بچوں کی بھی اصلاح کرے، انہیں سیدھے راستے پرچلائے اور ماں باپ کو بھی ان کی طرف سے سکون حاصل ہو۔ لیکن جو بات مَیں کہہ رہاہوں وہ یہ ہے کہ دینی تعلیم وتربیت کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور خاص طورپر آج کل جبکہ ساری دنیا میں ہرملک کا معاشرہ مادیت میں گھرا ہواہے توبچے کو اپنے گھر کے ماحول میں زیادہ قریب لانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ ماں باپ کا اپنے بچے کے ساتھ سلوک ایسا ہو کہ بچہ ایک ذاتی تعلق سمجھے ماں باپ کے ساتھ اور ماں باپ کو خود بھی ایک ذاتی تعلق ہو بچے کے ساتھ جو دوستی والا تعلق ہوتا ہے۔ بچہ زیادہ سے زیادہ ان کی تربیت کے زیر اثر رہے۔
بچوں کو جماعتی نظام سے وابستہ کریں
پھر اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بھی احسان ہے کہ جماعت کی برکت سے ،ایک نظام کی برکت سے ہمیں جماعتی اور ذیلی تنظیموں کا نظام میسّر ہے ۔ تربیتی کلاسیں ہیں، اجتماع ہیں، جلسے وغیرہ ہوتے ہیں جہاں بچوں کی تربیت کا انتظام بھی ہے ۔ لیکن یہاں بھی وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو بچوں کو اجلاسوں وغیرہ میں بھیجیں اور جن کا نظام کے ساتھ مکمل تعاون ہو اورجو اپنے بچوں کو نظام کے ساتھ ،مسجد کے ساتھ ،مشن کے ساتھ مکمل طورپر جوڑکے رکھتے ہیں۔ بعض مائیں اپنے بچوں کو اجلاسوں وغیرہ میں اس لئے نہیں بھیجتیں کہ وہاں جا کردوسرے بچوں سے غلط باتیں اور بدتمیزیاں سیکھتے ہیں ۔ بہرحال یہ تو پتہ نہیں کہ وہ بدتمیزیاں یا غلط باتیں سیکھتے ہیں کہنہیں لیکن ایسے بچے، بہرحال تجربے کی بات ہے ،کہ ایسے بچے بڑے ہوکر دین سے بھی پرے ہٹتے دیکھے ہیں اور پھر وہ ماںبا پ کے بھی کسی کام کے نہیں رہتے۔اس لئے غلط ماحول سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو نظام کے ماحول سے باندھ کررکھیں ۔
یہ حدیث سامنے رکھیں ۔مسلم کی حدیث ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :’’ہربچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتاہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یامجوسی بناتے ہیں۔(یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتاہے)۔ جیسے جانور کا بچہ صحیح و سالم پیدا ہوتاہے کیا تمہیں ان میں کوئی کان کٹا نظر آتاہے؟۔ (کیونکہ بعد میں پھر جانور کے بچوں کو عیب دار بناتے ہیں )۔
(صحیح مسلم کتاب القدر باب معنی کل مولاد یولد علی الفطر)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’ یہ بات بالکل سچی بات ہے کہ انسان پاکیزہ فطرت لے کر آتا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ماں باپ کے اثر کے ماتحت بعض بدیوں کے میلان کو بھی لے کر آتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ فطرت اور میلان میں فرق ہے۔ فطرت تو وہ مادہ ہے جسے ضمیر کہتے ہیں۔ یہ ہمیشہ پاک ہوتی ہے۔ کبھی بد نہیں ہوتی۔ خواہ ڈاکو یا قاتل کے ہاں بھی کوئی بچہ کیوں پیدا نہ ہو، اس کی فطرت صحیح ہوگی مگر یہ کمزوری اس کے اندر رہے گی کہ اگر اس کے والدین کے خیالات گندے تھے تو ان خیالات کا اثر اگر کسی وقت اس پر پڑے تو یہ ان کو جلد قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے گا۔ جیسا کہ مرضوں کا حال ہے کہ جو بیماریاں پختہ ہوتی ہیں اور جزوبدن ہوجاتی ہیں، ان کا اثر بچوں پر اس رنگ میں آجاتا ہے کہ ان بیماریوں کے بڑھانے والے سامان اگر پیدا ہوجائیں تو وہ اس اثر کو نسبتاً جلدی قبول کرلیتے ہیں۔ یہ اثر جو ایک بچہ اپنے ماں باپ سے قبول کر لیتا ہے، ان خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے جو ماں باپ کے ذہنوں میں اس وقت جوش مار رہے ہوتے ہیں جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، گو یہ اثر نہایت ہی خفیف ہوتا ہے اور بیرونی اثرات بھی اس کو بالکل مٹادیتے ہیں مگر اسلام نے اس باریک اثر کو نیک بنانے کا بھی انتظام کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ ماں باپ کو نصیحت کی ہے کہ جس وقت وہ علیحدگی میں آپس میں ملیں تو یہ دعا کرلیا کریں۔

اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا۔ (مشکوۃ مجتبائی صفحہ۲۱۴)

اے خدا! ہمیں بد وساوس اور گندے ارادوں سے اور ان کے محرک لوگوں سے محفوظ رکھ اور جو ہماری اولاد ہو اس کو بھی ان سے محفوظ رکھ۔‘‘
(احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ۱۶۳۔۱۶۴)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب ہے( یعنی بچپن کا زمانہ بہت مناسب ہے اورموزوں ہے) جب ڈاڑھی نکل آئے تب ضَرَبَ یَضْرِبُ یاد کرنے بیٹھے تو کیاخاک ہوگا۔ طفولیت کاحافظہ تیز ہوتاہے ۔انسانی عمر کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا حافظہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔فرمایا : مجھے خوب یاد ہے کہ طفولیت کی بعض باتیں تو اب تک یاد ہیں لیکن پندرہ برس پہلے کی باتیں اکثر یاد نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی عمر میں علم کے نقوش ایسے طورپر اپنی جگہ کر لیتے ہیں اور قویٰ کے نشوونما ہونے کے باعث ایسے دلنشین ہو جاتے ہیں کہ پھر ضائع نہیں ہو سکتے۔ بہرحال یہ ایک طویل امر ہے مختصر یہ کہ تعلیمی طریق میں اس عمر کا لحاظ اور خاص توجہ چاہئے کہ دینی تعلیم ابتدا سے ہی ہو اور میری ابتدا سے یہی خواہش رہی ہے اور اب بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے ۔ دیکھو تمہاری ہمسایہ قوموں یعنی آریہ نے کس قدر حیثیت تعلیم کے لئے بنائی۔ کئی لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع کر لیا۔ کالج کی عالیشان عمار ت اور سامان بھی پیدا کیا۔ اگر مسلمان پورے طورپر اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ کریں گے تو میری با ت سن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے ‘‘۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۴۴۔۴۵)
بچوں کو نیک ماحول دیں
تو جیسے کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں کہ بچوں کا علاوہ دنیاوی تعلیم کے مسجد کے ساتھ ، نظام کے ساتھ بھی تعلق پیدا کریں تاکہ ان کو اچھا ماحول میسر ہو۔ ایسا ماحول جو خدا اور خدا کے رسول کی محبت دلوں میں پیدا کرنے والا ماحول ہو۔ اعلیٰ اخلاق مہیا کرنے والا ماحول ہو۔ اب آپ یہ تو تجربہ کر چکے ہیں جو یہاں انگلستان میں رہنے والے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے بعد جو بچے مسجد میں آنا شروع ہوئے، نظام سے، حضور کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ، ان کی کایا پلٹ گئی۔اور دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے وہ کامیاب ہوئے۔ اور تمام والدین کو اس کا تجربہ ہے اور برملا اس کا اظہار کرتے ہیں ۔تو جو بچے باہر کے ماحول میں جائیں، آپ کے علم میں ہوکہ کہاں گئے ہیں ۔کھیل کی گرائونڈ میںگئے ہیں تو اس کے بعد سیدھے گھر واپس آئیں۔ سکول گئے ہیں تو مغرب کے ماحول کا ان پر اثر تو نہیں ہو رہا۔ اب تو خیر مشرق کا بھی یہی حال ہے مغرب والا ۔بہرحال جوں جوں یہ نام نہاد نئی روشنی آ رہی ہے ماں باپ کے لئے زیادہ لمحہ ٔ فکریہ ہے ۔بہت دعائوں کی ضرورت ہے ۔
حضرت مصلح موعود ؓ احمدی ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’میں احمدی ماؤں کو خصوصیت کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں میں خدا پرستی کا جذبہ پیدا کریں اور اس کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں۔ ان کے سامنے ہرگز کوئی ایسی بات چیت نہ کریں جس سے کسی بدخُلق کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اگر بچہ نادانی سے کوئی بات خلاف مذہب اسلام کرتا ہو، اسے فوراً روکا جائے۔ اور ہر وقت اس بات کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے قلب میں جاگزیں ہو۔
اپنے بچوں کو کبھی آوارہ نہ پھرنے دو۔ ان کو آزاد نہ ہونے دو کہ وہ حدود اللہ کو توڑنے لگیں۔ ان کے کاموں کو انضباط کے اندر رکھو اور ہر وقت نگرانی رکھو۔ اپنے ننھے بچوں کو اپنی نوکرانیوں کے سپرد کرکے بالکل بے پرواہ نہ ہوجاؤ‘‘۔اب بعض دفعہ بعض ملکوں میں گھروں میں مسلمان بھی نہیں ہوتے میں کام کرنے والے، ان کے سپرد کردیتے ہیں لڑکیوں کو جو بگاڑ پیدا کر رہے ہوتے ہیں ، یا ایسا ہوتے ہیں ملازمین جن کو دین کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا۔ تو فرمایا:’’ کہ ملازموں کے سپرد کر کے بالکل بے پرواہ نہ ہوجاؤ کہ بہت سی خرابیاں صرف اسی ابتدائی غفلت سے پیدا ہوتی ہیں۔ ماں اپنے بچے کو باہر بھیج کر خوش ہوتی ہے کہ مجھے کچھ فرصت مل گئی ہے لیکن اسے کیا معلوم کہ میرا بچہ کن کن صحبتوں میں گیا اور مختلف نظاروں نے اس کے اندر کیا کیا برے نقش پیدا کئے جو اس کی آئندہ زندگی کے لئے نہایت ضرررساں ہوسکتے ہیں۔ پس احتیاط کرو کہ اس وقت کی تھوڑی سی احتیاط بہت سے آنے والے خطروں سے بچانے والی ہے۔ خود نیک اور خدا پرست بنو کہ تمہارے بچے بھی بڑے ہوکر نیک اور خداپرست ہوں۔‘‘(الازھار لذوات الخمارصفحہ ۲)
پھر بچوں کی تربیت کا ایک اہم پہلوجیساکہ کہا گیا ہے ان کے ماحول کو نظر ر کھنے کی ضرورت ہے ۔ اس بارہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بچوں کو گھر میں ایسا ماحول دیں کہ وہ زیادہ تر ماں باپ کی صحبت میں گزاریں ۔لیکن بہرحا ل بچوں نے سکول بھی جاناہے ،کھیلنا بھی ہے، دوستوں سے بھی اٹھنا بیٹھنا ہے۔تو دوست اور ماحول بھی بچے کے کردار پر بہت زیادہ اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔اب یہ واقعہ عموما ً بیان کیا جاتاہے اکثر ہمارے لٹریچر میں ہے ، سنا ہوگاکہ ایک کالج کے لڑکے نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے خیالات میں دہریت کا اثر پیدا ہوتا جا رہاہے تو حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اس کا ذکر کیا تو آپ ؑ نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ وہ جس جگہ بیٹھتاہے اپنے کالج میں، جس سیٹ پر ، وہ جگہ بدل لے ۔ تو جگہ بدلنے سے خیالات میں بھی تبدیلی آ گئی ۔بعد میں پتہ چلا کہ جس لڑکے کے ساتھ اس کی سیٹ تھی کالج میں، وہ دہریہ خیالات کا لڑکا تھا۔ اور بغیر بات چیت کے بھی اس کے دہریہ خیالات کا اثر اس مسلمان لڑکے پر ہو رہا تھا۔تو ماحول جو اثر ظاہراً ڈال رہا ہوتاہے وہ خاموشی سے ذہن پر بھی اثر انداز ہورہا ہوتاہے ۔
ایک حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا آدمی اپنے دوست کے زیر اثر ہوتاہے ۔ پس تم میں سے ہر ایک خیال رکھے کہ کسے دوست بنا رہاہے ۔
(جامع ترمذی ۔ابواب الزھد ۔باب ما جاء فی اخذالمال بحقہ)
بچوں کو بے جا لاڈپیار سے احترازکریں
پھر ایک ضروری بات یہ ہے جو بچوں کی تربیت میں مدنظر رہنی چاہئے، خاص طور پر لڑکوں کی تربیت میں ۔اکثر والدین لڑکوں کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ بعض تو لباس اور کھانے پینے وغیرہ میں بھی لڑکوں کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں اور لڑکے لڑکی کے درمیان امتیازی سلوک ہو رہا ہوتا ہے۔ تو لڑکا اگر اپنی بہن پرہاتھ اٹھاتا ہے اس صورت میں یا تو اس کو کچھ نہیں کہا جاتا ، کوئی بات نہیں ،لڑ لیا ،پرواہ نہ کی۔ اگر بہن نے مارا لڑکے کو تو اس کو سزا مل جاتی ہے۔یا پھر ایسے والدین اگر بچیکو روکتے بھی ہیں تو اس طریق پر روکتے ہیں کہ کہنا ، نہ کہنا یا روکنا نہ روکنا برابر ہوتاہے۔پھر ایسے لڑکے لاڈ پیار میں بگڑتے چلے جاتے ہیں اور اکثر دیکھاگیاہے کہ ایسے لڑکے پھر نکھٹو ،نکمے بن کربیٹھے رہتے ہیں یا باہر پھر آئے ۔ پانی کا گلاس بھی اگر پیناہے تو دو فٹ چل کر پی نہیں سکتے۔ بہن سے کہیں گے، ماں سے کہیں گے کہ پانی پلا دو۔ اور ماں باپ آرام سے بیٹھے دیکھ رہے ہوتے ہیں ،کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہوتا۔ اور یہ کوئی چھوٹی برائی نہیں ہے، بڑے ہو کر اس کے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ ماں باپ کے لئے درد سر بن جاتاہے ایسا بچہ ۔ ان کو فکر ہوتی ہے کہ ہمارے بعد اس کا کیا ہوگا۔ اگر صاحب جائیداد والدین ہیں تو پھر یہ فکر کہ ہمارے بعد یہ ساری جائیداد اُڑا دے گا۔ معاشرے پربھی بوجھ ہے، نظام کے لئے بھی ہروقت مشکل کھڑ ی کرنے والا ہوتاہے ۔اور پھر کیونکہ بچپن سے ہی بہنوں کو دباکر رکھنے اور ان کے حقوق کا خیال نہ رکھنے کی عادت ہوتی ہے تو پھر بہنوں کے جائیداد کے حصے بھی کھا جاتے ہیں ۔ اور پھر علاوہ معاشی تنگی کے بعض لڑکیاں سسرال سے اور خاوندوں سے کچھ نہ لانے کے طعنے سنتی ہیں ۔ تو یہ ایک ایسا خوفناک شیطانی چکرہے جو ماں باپ کی ذرا سی غلطی سے دُور تک بدنتائج کا حامل ہوتاہے۔ اور عموماً دیکھا گیاہے کہ مائیں ہی ایسے لاڈ پیار کر کے بچوں کو بگاڑ رہی ہوتی ہیں اور الا ماشاء اللہ باپ بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی ایک بہت ہی پیار ے انداز میں نصیحت ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
’’اولاد کے لئے ایسی تربیت کی کوشش کرو کہ ان میں باہم اخوت،اتحاد، جرأت،شجاعت ،
خود داری ،شریفانہ آزادی پیدا ہو ۔ایک طرف انسان بنائو، دوسری طرف مسلمان ‘‘۔(خطبات نور صفحہ۷۵)
بچوں سے عزت سے پیش آئیں۔
ایک حدیث میں آتاہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺنے فرمایا :اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آئو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔
(سنن ابن ماجہ ابواب الادب باب برالوالد)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے فرمایا تھا کہ جو اپنے بچوں کے ساتھ شروع سے ہی عزت سے پیش آتے ہیں ان کے بچے بھی بڑے ہو کر ان کی عزت کرتے ہیں اور باہر دوسروں کی بھی عزت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے نسلاً بعد نسلٍ چلتا رہتاہے ۔اس لئے بچوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر بے وجہ جھڑکنا نہیں چاہئے ۔ اور جہاں تک ممکن ہو ان سے عزت کا سلوک کیا کرو۔
لیکن اس کے بھی غلط معنے لے لئے جاتے ہیں ۔ عزت سے پیش آنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں جو بعض لوگ غلط طورپر سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ کچھ نہیں کہنا ۔ تو جہاں عزت سے پیش آئو کا ارشاد ہے وہاں اچھی تربیت کا ارشاد بھی ساتھ ہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات میں سختی نہ کرو لیکن غلط کام پر بچوں کو سمجھائو بھی کیونکہ یہ تربیت کا حصہ ہے ۔اگر کسی بات پر لوگوں کے سامنے ڈانٹنا بچے کی نفسیات پر برا اثر ڈالتاہے تو وہاں اس کو پیار سے سمجھا دینا ،کسی غلط کام سے روکنا اس کی اصلاح کا باعث بنتاہے ۔تو بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن کی طرف مائیں نظر ہی نہیں کرتیں، توجہ ہی نہیں دیتیں اور یوں نظر اندا زکر دیتی ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ مثلاً کسی کے گھر گئے ہیں ، بچہ چیزیں چھیڑ رہاہے یا چاکلیٹ یااور کوئی کھانے کی چیز کھا کر پردوں یا صوفوں پر مل رہا ہے ، کرسیوں سے ہاتھ پونچھ رہاہے۔ گھروالے دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے ہوتے ہیں ایسی صورت میں کہ ماں کسی طرح اپنے بچے کو اس حرکت سے روکے۔ لیکن ماں اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہی ، دیکھنے کی روادار ہی نہیں ہوتی،یا دیکھ کر نظریں پھیر لیتی ہے کہ اس وقت اگر مَیں نے اس کوکچھ کہا تو بچے کی عزت نفس کچلی جائے گی اور شرمندہ ہوگا۔ یہ طریق بالکل غلط ہے۔ پھر بعض دفعہ یوں ہوتاہے کہ بچے نے کوئی شرارت کی ، بلاوجہ کسی دوسرے بچے کو مارا، یا کسی کی کوئی چیز توڑ دی توماں باپ بچے کو کہہ تو رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیوں کیا لیکن ان کے چہرے پر جو تأثرات ہوتے ہیں اور ماں باپ کے ہونٹوں پر جو دبی دبی مسکراہٹ ہوتی ہے وہ بتا رہی ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں ۔ بچہ بہت ہوشیار ہوتاہے ،یہ یاد رکھیں بچہ بڑا ہوشیار ہوتاہے ، وہ سب تأثرات دیکھ رہا ہوتاہے اوراپنے ماں باپ کی ہر ادا سے واقف ہوتاہے ۔ تو اس طرح اس کی تربیت ہونے کی بجائے بگاڑ پیدا ہوتاہے۔ٹھیک ہے ایسی باتوں پر مار دھاڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن چہرے پر ذرا سنجیدگی سی پیدا کر لینی چاہئے تا کہ بچے کو یہ احساس ہو کہ مَیں نے غلط کام کیاہے ۔
پھر دین کے معاملے میں بچپن سے ہی بچے کے دل میں اس کی اہمیت اور پیار اور عزت پیدا کریں۔ بعض دفعہ بچے ضد میں آ کر بڑی ناگوار بات کر جاتے ہیں ۔جہاں بہرحال بچے کو سمجھانے کے لئے ماں باپ کو سختی بھی کرنی پڑتی ہے ۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م جہاں ہروقت یہ نصیحت فرمارہے ہیں کہ بچے سے نرمی کا سلوک کرووہا ں یہ مثال بھی ہے۔
حضرت اماں جانؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ قرآن شریف ریل پر رکھ کر پڑھ رہی تھیں۔ میاں مبارک صاحب، جو چھوٹے بچے تھے، ان سے کسی کام کے لئے کہہ رہے تھے اور ضد کرکے ہاتھ سے ریل کو دھکا دیا کہ پہلے میرا کام کردیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بے ادبی دیکھی تو انہیں تھپڑ دے مارا۔
اب یہاں دین کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں۔حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف تھے ۔ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے بچے کو عادتاً مارا تو آ پ نے اسے بلا کر بڑے درد سے فرمایا :
’’میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے۔ گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص خوددار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو دینے والا اور پورا متحمل اور بردباد راور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقتِ مناسب پر کسی حد تک بچے کو سزا دے یا چشم نمائی کرے … جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک فرض ٹھہرا لیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ۳۰۸۔۳۰۹)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہدایت اور تربیت حقیقی خدا تعالیٰ کا فعل ہے ۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتاہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اورہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے ۔ یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے ۔ اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہئے۔ ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعاکرتے ہیں اور سرسری طورپر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کرواتے ہیں ۔ بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پررکھتے ہیں ۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہو جائے گا‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵)
اخلاقی تعلیم وتربیت کا طریق
اعلیٰ اخلاق کس طرح سکھائے جائیں اس بارہ میںحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک بڑی دلچسپ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’بعض لوگ بچوں کو چڑانے کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ ماروں؟۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک دو دفعہ کے بعد بچہ وہی شکل بناکر اسی طرح ہاتھ اٹھا کر کہنے لگ جاتا ہے: ماروں؟۔اسی طرح بعض احمق اپنے بچوں کو گالیاں دیتے ہیں، اسی طرح بچے آگے سے گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ بعض عورتیں اپنے بچوں سے ہمیشہ منہ بنا کر اور تیوری چڑھا کر بات کرتی ہیں تو ان کے بچے بھی ہمیشہ منہ پھلا کر بات کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو عورتیں ہنس مکھ ہوں، بچوں سے نیک سلوک کی عادی ہوں، ان کی اولاد بھی ویسی ہی ہنس مکھ ہوتی ہے۔ مائوں کو چاہئے کہ وہ بچوں سے ایسا سلوک کریں جس کو نقل کرنے پروہ ساری عمر ذلیل و خوار نہ ہوں اور ہمیشہ کے لئے ان کے اخلاق درست ہو جائیں۔
تو بچوں کو خوش اخلاق بنانا چاہئے،خوش مزاج بنانا چاہئے ۔ پھراچھے اخلاق میں تحمل مزاجی بھی ہے، توبچپن سے ہی ماں باپ کو اس طرف توجہ کی ضرورت ہے ۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن کو اگر نہ کیا جائے تو بچوں کو جو رونے کی اور ہر وقت بلا وجہ رِیں رِیں کرنے کی عادت جو پڑ جاتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً بچے کے دودھ یا کھانے کا وقت ہے، ماں کام کر رہی ہے، بچہ دودھ یا کھانا مانگتاہے ماں کہتی ہے ٹھہرو مَیں یہ کام ختم کرلوں تمہیں دیتی ہوں۔ اب بچہ شاید دو منٹ تو صبر کرلے پھر وہ رونا شروع ہو جائے گا ۔ بعض دفعہ اتنی چیخم دوڑ ہوتی ہے کہ لگتاہے کہ آفت آ گئی ہے ۔ تو پھر جب دو تین دفعہ اس طرح ہو تو بچہ سمجھ جاتاہے کہ اب مَیں نے جو چیز بھی مانگنی ہے، جو کام بھی کرنا ہے اور جو کام کروانا ہے بغیر روئے کے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح بچے کے اخلاق پر آہستہ آہستہ اثر ہو رہاہوتاہے اور وہ غیر محسوس طریقہ سے غصہ اور ضد کے اثر میں پروان چڑھ رہا ہوتا ہے۔
پھر بعض ماں باپ کسی بچے کو زیادہ لاڈ کررہے ہوتے ہیں اور بعض کو کم ۔ اور یہ فر ق بعض دفعہ اتنا زیادہ ہو جاتاہے کہ اردگر د کے ماحول کو بھی پتہ چل رہا ہوتاہے۔ اس سے بھی بچے میں ضد اور اپنے بھائی یا بہنا کے خلاف اندر ہی اندر ایک اُبال پیدا ہوتارہتاہے جو بعض اوقات بڑے ہو کر نفرت پر منتج ہو جاتاہے۔اگر یہ احسا س کمتری لڑکی میں پیدا ہو جائے توپھر علاوہ سسرال میں جا کر اپنی زندگی اجیرن کرنے کے بچوں کی تربیت پر بھی بعض اوقات اثر اندازہوتاہے ۔آگے اس سے نسل چلنی ہے۔یہ احساس کمتری اس کی اولاد پر بھی اثرانداز ہوگا ۔اور یہ یادرکھیں کہ احمدی ماں کا بچہ صرف اس کا بچہ نہیں بلکہ جماعت کا بچہ ہے اور صرف جماعت کا بچہ ہی نہیں بلکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کا بچہ بھی ہے ۔جس نے آپ ﷺکی تعلیم کو، اعلیٰ اخلاق کو دنیا کے سامنے پیش کرکے ان کے دل جیتنے ہیں ،ان کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرناہے ۔ پس ذرا سی غلطی سے نسل کو برباد نہ کریں۔
ایک حدیث ہے ۔حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے غلام ہبہ کیا اور چاہا کہ اس پر حضور ﷺکی شہادت ہو۔انہوں نے حضور ﷺسے اس خواہش کاا ظہار کیا ۔ آپ نے فرمایا :کیاتمہارا کو ئی اور بھی بیٹاہے؟۔انہوں نے کہا :ہاں۔ فرمایا :کیاتو نے اسے بھی غلام ہبہ کیاہے ؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ تو آ پﷺ نے فرمایا :مَیں ایسے ظالمانہ عطیہ پر گواہ نہ بنوں گا۔ (سنن ابوداؤد کتاب البیوع)
پھر ایک اور چھوٹی سے عادت ہے۔ کھانے کے آداب ہیں۔جیساکہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیاہے کہ بچے کھانا کھاتے ہوئے اتنا گند کررہے ہوتے ہیں کہ جہاں مہمان جائیں وہ گھر والے جو فرنیچر اور پردوں وغیرہ کا ایسا حا ل ہو رہا ہوتاہے کہ گھروالا کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتاہے کہ میری توبہ جو آئندہ اس خاندان کو اپنے گھر دعوت پر بلائوں ،بلکہ شاید باقی دعوتوں سے بھی توبہ کرلے۔ اور پھر اگر گھر والے کے اپنے بچے سلجھے ہوئے ہوں تو دوسرے بچوں کو دیکھ کروہ بھی دھما چوکڑی شروع کردیتے ہیں ، اس میں شامل ہو جاتے ہیں جو میزبان کی تلملاہٹ کا اور بھی زیادہ باعث بن جاتاہے۔ تو یہ کوئی چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے متعلق کہا جائے کہ کوئی بات نہیں ،بڑے ہو کر خود ہی آداب آ جائیں گے ۔بڑے ہو کر یہ آداب نہیں آیا کرتے ۔ مَیںنے توایسے لوگوں کو دیکھا ہے کہ بڑے ہو کرکھانے کی عادتیں ایسی پختہ ہوجاتی ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانابھی مشکل ہو جاتا ہے ۔تو آنحضرتﷺ نے ان کو چھوٹی بات نہیں سمجھااور ہمیں اپنے عمل سے یہ آداب سکھائے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ تم میں سے کوئی بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔
(مسلم۔ کتاب الاشربۃ باب آداب الطعام وا لشراب)
پھرحضرت عمروؓ بن ابی سلمہ جو آنحضرتﷺ کے ربیب تھے، بیان کرتے ہیںکہ بچپن میں مَیں آنحضرتﷺ کے گھر میں رہتا تھا، کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ تھالی میں پھرتی سے ادھر ادھر گھومتا تھا۔ حضورﷺ نے میری اس عادت کو دیکھ کر فرمایا:
’’اے بچے! کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ ۔ اس وقت سے لے کر مَیں ہمیشہ حضورؐ کی اس نصیحت کے مطابق کھانا کھاتا ہوں۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الاطعمہ باب التسمیۃ علی الطعام والأکل بالیمین)
حضرت عکراشؓ بیان کرتے ہیں کہ بنو مرہ نے اپنے اموال صدقہ دے کر مجھے آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب مَیں مدینہ میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت حضورؐ مہاجرین اور انصار کے درمیان رونق افروز تھے۔ حضورؐ نے میرا ہاتھ پکڑا اور امّ سلمہؓ کے گھر لے گئے اور ان سے دریافت کیا: کوئی کھانے کی چیز ہے؟ انہوں نے ثرید کا پیالہ پیش کیا جس میں ثرید اور بوٹیاں کافی تھیں۔ ہم اس میں سے کھانے لگے۔ مَیں کبھی ادھر سے اور کبھی اُدھر سے کھاتا اور حضورؐ اپنے سامنے سے کھا رہے تھے۔ حضورؐ نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا دایاں ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے عکراش! کھانا ایک جگہ سے کھاؤ، تمام کھانا ایک ہی طرح کا ہے۔ پھر ہمارے سامنے ایک طشت لایا گیا جس میں مختلف قسم کے کھجور یا ڈوکے تھے۔ مَیں تو سامنے سے کھانے لگا اور حضورؐ اپنی پسند کے مطابق کبھی اِدھر سے اور کبھی اُدھر سے چُن چُن کر کھاتے اور فرمایا: اے عکراش! اپنی پسند کی چُن چُن کر کھاؤ کہ مختلف اقسام کی ہیں۔ پھر پانی لایا گیا۔ حضورؐ نے اپنا ہاتھ دھویا اور اپنا گیلا ہاتھ اپنے چہرے، سر اور بازوؤں پر پھیرا اور فرمایا: اے عکراش! یہ آگ پر پکی ہوئی چیز کا وضو ہے یعنی کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرلئے جائیں۔(ترمذی۔ ابواب الاطعمۃ۔ باب ما جاء فی التسمیۃ علی الطعام)
اب دیکھیں یہاں صرف کھانے کے آداب ہی نہیں سکھائے بلکہ یہ بھی سکھایاہے کہ کھانا کھا کر ہاتھ دھو لیاکرو۔ خاص طورپرسالن وغیرہ قسم کا کھانا یا ایسا کھانا جس سے تمہارے ہاتھوں میںچکنائی ، چپچپاہٹ یا بو آ جائے ۔بعض لوگ جو ہاتھ نہیں دھوتے ان کے ہاتھوں سے یاان کے پاس بیٹھ کر ایسی بو آرہی ہوتی ہے کہ کھانا خواہ وہ خوشبو ہی کہلائے اور کھانا کھاتے ہوئے چاہے وہ خوشبو اچھی لگ رہی ہو لیکن ان کے ہاتھوں سے اٹھتی ہوئی بہرحال اچھی نہیں لگ رہی ہوتی ۔تو یہ ہیں وہ آداب جو آنحضور ﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں ۔ اور یہ بچے کا حق ہے ماں باپ پر کہ وہ یہ تمام باتیں اپنے ماں باپ سے سیکھے ۔
ایک حدیث میں آتاہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی کے بیٹے حسنؓ نے صدقہ کی ایک کھجورمنہ میں ڈال لی تو حضور ؐنے فرمایا کہ:’ چھی چھی، تم جانتے نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے‘۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب من تکلم بالفارسۃ والرطانۃ)۔ اب اس کا عام طور پر یہ مطلب لیا جاتاہے اوروہ ٹھیک ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھ پر اور میری اولاد پر صدقہ حرام ہے۔ اور برصغیرمیں ظاہراً سید اس کی بڑی پابندی کرتے ہیں۔ لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک اور تشریح بھی فرمائی ہے ۔ فرمایا اس کا مطلب یہ تھاکہ تمہاراکام خود کام کرکے کھانا ہے نہ کہ دوسروں کے لئے بوجھ بننا۔ اب دیکھیں بچپن سے ہی کتنے سبق آپﷺ نے اپنے نواسے کو دے دئے۔ اگربچپن سے ہی یہ سوچ مائیں اپنے بچوں میں پیدا کریں تو آپ دیکھیں گے کہ احمدی معاشرے میں کچھ عرصہ بعد بھی کوئی ہاتھ مانگ کرکھانے والا نہیں ہوگا بلکہ کچھ کرکے کھانے والااور کھلانے والا بن جائے گا۔
آنحضرت ﷺ کی بچوں سے شفقت اور کس طرح آ پ سبق دیتے تھے ،نصیحت کرتے تھے ، اس بارہ میں ایک حدیث ہے کہ خالد بن سعید کی بیٹی ام خالد روایت کرتی ہیں کہ مَیں رسول اللہ ﷺکے پاس اپنے باپ کے ساتھ زرد رنگ کی قمیص پہنے ہوئے گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سَنَہْ ،سَنَہْ ، واہ واہ کیا کہنے۔ (سَنَہْ حبشی زبان کا لفظ ہے اوراس کے معنی حَسَنَۃٌ کے ہیں) یعنی یہ کپڑے تمہیں بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ راویہ کہتی ہیں میں آگے بڑھی اور خاتم نبوت سے کھیلنے لگی ۔اس پر میرے والد نے مجھے ڈانٹا ۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اسے کھیلنے دو۔ پھررسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا ان کپڑوں کو خوب پہن کر پرانے کرکے پھاڑنا۔ (صحیح بخاری کتاب الأدب ۔باب من ترک صبیۃ غیرہ حتی تعلب بہ اوقبلہا اومازحھا)
اکثر دیکھا گیاہے کہ جب بچے بلکہ ایسی چھوٹی عمر کے بچے جن کو ابھی بولنا بھی نہیں آتا جب کوئی نئے کپڑے پہنتے ہیں تو جن سے بے تکلف ہوں ضرور ان کو اشارے سے دکھاتے ہیں ۔ اور اگر بڑا خود دیکھ کر بچے کے کپڑوں کی تعریف کرے، اس کی چیزکی تعریف کردے تو بچے خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔ آنحضرت ﷺجو سراپا شفقت تھے ، ہر ایک کے جذبات کا خیال رکھنے والے تھے، دنیا میں سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے تھے جب آپ کے سامنے بچی جاتی ہے تو کمال شفقت سے اس کے کپڑوں کی تعریف کرتے ہیں تا کہ بچہ خوش ہو جائے۔ اکثر دیکھا گیاہے کہ جب آپ بچے کی تعریف کریں ، اس سے محبت وشفقت کا سلوک کریں توبچہ بے تکلف ہو کر کھیلتاہے اور مختلف حرکات کرتاہے اور راویہ کہتی ہیں کہ مَیں نے بھی بے تکلفی کا مظاہرہ کیا تو میرا باپ آنحضرتﷺ کے مقام کو سمجھتاتھا اس کو برا لگا ۔ باپ نے ڈانٹا کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے ادب سے رہو اور یہ وہ مقام نہیں ہے جہاں تم بے تکلف ہو کر کھیلنے کی کوشش کرو لیکن سراپا شفقت و محبت نے کمال شفقت سے فرمایا: نہیں کھیلنے دو۔ اور پھر اس کھیل ہی کھیل میں یہ نصیحت بھی فرما دی کہ اپنے ماں باپ سے روزروز نئے کپڑوں کا مطالبہ نہ کرنا ۔ بلکہ ان کو خوب پہنو اور پرانے کرو۔ پیار ہی پیار میں یہ نصیحت بھی فرما دی کہ دنیاوی چیز وں کے بارہ میں حرص کواپنے قریب نہ آنے دینا ۔تو یہ ہے وہ اسوہ جو ہرماں باپ کو اپنے بچوں کی تربیت میں اپنانا چاہئے۔ اپنا دوست بھی بناؤ، اپنے قریب بھی کرو، اس قربت میں پیار سے بچوں کو نصیحت بھی کرو۔ یہ نہیں کہ ذرابچے نے ضد کی تونئے کپڑے لینے بازاردوڑے گئے یاکسی چیز کامطالبہ کیا توفوراً پورا کرنے کی کوشش کی۔ اپنے پر بوجھ لاد لیا ۔ مقروض ہو گئے کہ بچوں کے جذبات ہیں ان کا خیال رکھناہے۔ بچوں کی تو بچپن سے جس رنگ میں تربیت کریں گے ان کو ویسی ہی عادت پڑ جائے گی۔
اسی طرح پیار سے نصیحت کرنے کے بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں ایک نصیحت کی تھی۔ فرماتے ہیں کہ بچپن میں مَیں ایک طوطا شکار کرکے لایا۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے دیکھ کر فرمایا: ’’محمود اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا۔ بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں ۔ بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سن کر کان لذت حاصل کریں۔
(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۱۵۔ جدید ایڈیشن)
حضر ت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اپنـے بچوں کی کس طرح تربیت کیا کرتی تھیں ۔ اس بارہ میں ان کی بیٹی سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ اصولی تربیت میں مَیں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کا کر کے بھی حضرت والدہ صاحبہ سے بہتر کسی کو نہیں پایا ۔ آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی بجز معمولی اردو خواندگی کے۔ مگر آپ کے جو اصول اخلاق وتربیت ہیں ان کو دیکھ کر مَیں نے یہی سمجھاہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیح کی تربیت کے سو ا اور کچھ نہیں کہا جا سکتاکہ یہ سب کہاں سے سیکھا۔ فرماتی ہیں کہ بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کرکے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آ پ کا بہت بڑا اصول تربیت ہے۔ پھرجھوٹ سے نفرت اور غیرت وغناء آپ کا اول سبق ہوتا تھا۔ہم لوگوں سے بھی آ پ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچے کو عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے ۔پھر بے شک بچوں کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں ۔ جس وقت بھی روکا جائے گا بازآ جائے گا اور اصلاح ہو جائے گی۔ فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے۔ یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھااور کبھی ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتاتھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی میں بھی ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں۔ حضرت ام المومنین ؓ ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا۔ کہتی ہیں کہ مجھے آ پؓ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں ۔پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا اورہم بنسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے۔ یعنی ماں کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ بے تکلفی تھی۔فرماتی ہیںکہمجھے یاد ہے کہ حضور اقدس سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت و قدر کرنے کی وجہ سے آپ کی محبت میرے دل میں اور بھی بڑھ جایا کرتی تھی۔
بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگائو ، دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خودہی ٹھیک ہو جائیں گے ۔ تو یہ کیسے زریں اصول ہیں جن پر عمل کر نے سے واقعی بچوں کی کایا پلٹ سکتی ہے ۔
چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار اوکاڑہ ۱۹۰۹ء میں دہلی سیکنڈ کلرک تھے اور حضرت میرقاسم علی صاحب مرحوم بھی نائب ناظر تھے اور یہ دونوں صاحب دریاگنج کے مکان میں اکٹھے رہا کرتے تھے ۔ یہیں خاندان مسیح موعودعلیہ السلام ان ایام میں قیام پذیر ہوا تو حضرت میر صاحب کی زبانی یہ امر معلوم ہوا کہ حضرت ام المومنین ؓ اپنے بچوں ، بہو ، بیٹیوں کی عبادات کے متعلق پوری توجہ سے نگرانی فرماتیں۔ اور نمازتہجد کا خاص اہتمام فرماتی ہیں اور ہمیشہ خاندان کے افراد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید فرماتی رہتی تھیں۔
(سیرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ صفحہ ۳۹۳ تا ۳۹۶)
تو اب یہ پوری جماعت جو ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ہی ہے ۔ہرماں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں ۔
پس اے احمدی مائوں، وہ خوش نصیب مائوں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اس زمانے کے امام کو پہچانا ،اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھا ،دنیا کی مخالفت مول لی اور یہ عہد کیا کہ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اپنااپناجائز ہ لیں اوردیکھیں کہیں ہم اس عہد سے دور تو نہیں جا رہے ۔ ہمارا دین کو دنیا پرمقدم رکھناصرف اپنی ذات تک ہی محدود ہوکر تو نہیں رہ گیا۔ کیا ہم اس کو آگے بھی بڑھا رہے ہیں ، کیا ہم نے اس عہد کو آگے اپنی نسلوں میںمنتقل کر دیاہے ۔کیا ہماری گودوں میں پلنے والے عبادالرحمن اور صالحین کے گروہ میں شامل ہونے والے کہلانے کے حقدار ہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو امانت ہمارے سپر د کی تھی ، وہ امانت جو اللہ تعالیٰ نے ہماری کوکھوں سے اس لئے جنم دلوائی تھی کہ ہم آنحضرت ﷺ کی امت میں شامل کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور تحفہ کے طورپر پیش کرسکیں ، ان کی تربیت کی ہے ۔ کیاہم اور ہمارے بچے خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں ۔ اگر ہاں میں جواب ہے تو مبارک ہو۔ اگر نہیں تو یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لئے آپ کو اپنی بھی اصلاح کرنی ہوگی ۔جہاں ضرورت ہو وہاں اپنے خاوندوں کو بھی دین کی طرف مائل کرنے کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔اپنے گھروں کے ماحول کو بھی ایسا پاکیزہ بنانا ہوگا جہاں میاں بیوی کا ماحو ل ایک نیک اور پاکیزہ ماحول کو جنم دے۔ اور یوں ہر احمدی گھرانہ ایک نیک اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے والا بن جائے جس سے جو بچہ پیدا ہو ، جو بچہ پروان چڑھے ، وہ صالحین میں سے ہو ۔ پس اپنی قدرومنزلت پہچانیں ۔ کوئی احمدی عور ت معاشرہ کی عام عورت کی طرح نہیں ہے ۔ آپ تو و ہ عورت ہیں جس کے بارہ میں خدا کے رسول نے یہ بشارت دی ہے کہ جنت تمہارے پائوں کے نیچے ہے۔ اور کون ماں چاہتی ہے کہ اس کی اولاد دنیا و آخرت کی جنتوں کی وارث نہ بنے ۔ پس ایک نئے عزم کے ساتھ ہمت اوردعا سے کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ آپ توخوش قسمت ہیں کہ خدا کے مقدس رسول اور مسیح پاک علیہ السلام کی دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں ۔ اے اللہ تو ہماری مدد کراور ہماری نسلوں کو بھی اسلام پر قائم رکھ ۔ اللہ کرے کہ آپ سب اپنی اولاد وں کی صحیح تربیت کرنے والی اور ان کے حقوق ادا کرنے والی ہوں۔ اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں