حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ 2004ء کے موقع پر خطاب

عام طورپر معاشرہ کے بہت سے جھگڑے دنیاداری کی طرف حد سے زیادہ بڑھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
سچ بولنے کی عادت پر ہی اگر لجنہ کا شعبہ تربیت توجہ دے اور سو فیصد لجنہ کو سچ بولنے کی عادت پڑ جائے تو میں کہتا ہوں آدھی سے زیادہ کمزوریاں ہماری دُور ہو جائیں گی۔
اپنی نسلوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ ان کا اپنے پیدا کرنے والے خدا سےایک زندہ اور سچا تعلق پیدا ہوجائے اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک آپ خود اپنے عملی نمونے دکھانے والی نہیں ہوں گی۔
(سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے موقع پر 10؍ اکتوبر2004ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اس دنیا میں جہاں ہر طرف دنیاداری اور اس کی چکا چوند ہے اور کیا مرد اور کیا عورت اور کیا بچہ اور کیا بوڑھا سب اس مادی دنیا کو حا صل کر نے کے لئے اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اور عورت چونکہ ا پنی فطر ت کے باعث دنیا دا ر ی کی طر ف ز یا دہ مائل ہوتی ہے اس لیے عام طور پر ہر معاشرے کے بہت سے جھگڑے اس کے اس دنیا داری کی طرف حد سے زیا دہ بڑھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ گھریلو جھگڑے یا فساد ہوں یا معا شرے کے جھگڑے عورت کا ہا تھ اس میں ضرور نظر آئے گا۔ بیٹے کی دولت پر، اس کے پیسے پر قبضہ کر نے کے لئے سا س بھی خود بہو پرظلم کر تی ہے اوربیٹے سے بھی کر واتی ہے۔ خا و ند کو اپنے ہا تھ میں رکھنے کے لئے بعض دفعہ بیوی (جوبہو ہے) خود بھی سا س پر ظلم کر تی ہے اور اپنے خا و ند سے بھی کر وا تی ہے۔ نندیں ہیں وہ اپنے دائرے میں ظلم کرتی بھی ہیں، ظلم کرواتی بھی ہیں۔ اور آج کل کے آزاد معاشرے میں ایک عورت دوسری عورت کے خاوند کو دوستی اور آزادی کے نام دے کر چھیننے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ اور اس کی بہت ساری مثالیں آپ کو مل جاتی ہیں۔ پھرراز حاصل کرنے کے لئے مردوں نے مردوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومتی سطح پر ایجنسیوں میں عورتوں کو رکھا ہوتاہے،عورتیں بھرتی کی جاتی ہیں تاکہ وہ مردوں کو، دنیادار مردوں کو، جن کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا،اللہ کا خوف ان کے پاس سے بھی نہیں گزرا ہوتا،اپنے جال میں پھنسا کر دوستی کرکے اہم اور ملکی رازنکلوائیں، راز حاصل کریں۔ اور ایسی عورتیں بھی دنیا کے لالچ میں، ایسے کاموں میں بڑی بے حیائی سے ملوث ہو رہی ہوتی ہیں۔ غرض عورت اور مرد کے دنیا کے پیچھے دوڑنے اوراللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے۔ اگر کوئی نیکی کی طرف مائل ہے اور بہت بڑی تعداد دنیا میں ایسی ہے جو سوائے چھوٹی موٹی ناجائز باتوں کے بڑی غلطیاں کرنے والی نہیں ہے۔ ان میں ایسی بھی ہیں جو نیکی کے کاموں میں، خدمت خلق کے کاموں کے لئے کوشش میں آگے بڑھی ہوئی ہیں ان کے لئے کوشش بھی کرتی ہیں،بڑی تکلیف اٹھا کر بعض دفعہ چندے بھی اکٹھے کرتی ہیں۔ لیکن اِلَّا مَا شَآء اللہ سوائے چند ایک کے یہ سب کام ایک وقتی جذبہ کے تحت ہو رہا ہو تا ہے۔ ایک وقتی رحم کا جذبہ اس وقت ابھرتاہے اور ایسے کام کرنے والیاں پھر دنیا داری میں کھو جاتی ہیں۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا جو فہم ایک مومن میں ہونا چاہئے وہ اُن میں نہیں ہوتا۔ ایک مقصد ِحیات، ایک زندگی کا مقصد،ایک مطمح نظر، ایک ٹارگٹ (Target) انہوں نے نہیں بنایا ہو تا۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت وہ یہ سب کچھ نہیں کر رہی ہوتیں کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔

فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَاتِ

کا ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔

فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَاتِ

یا نیکیوں میں آگے بڑھنا ان کا مقصدنہیں ہوتا۔ اس لئے انسانی ہمدردی کے تحت کوئی نیکی کرتی بھی ہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا ایک وقتی جذبہ کے تحت کررہی ہوتی ہیں۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اب ان نیکیوں میں انہوں نے آگے بڑھنا ہے۔ اور اپنی دوسری بہنوں کو بھی اپنے ساتھ ان نیکیوں میں آگے لے کرنکلنا ہے، اُن میں بھی یہ جذبہ ابھارنا ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔ اور بندوں کے حقوق اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے لئے ادا کرنے ہیں۔ اورا للہ تعالیٰ کے حقوق اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے،عبدِ رحمن بننے کے لئے یا رحمن کی بندیاں بننے کے لئے ادا کرنے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار بندی بننا ہے۔ دینی علوم سے بھی واقفیت حاصل کرنی ہے، روحانی اور اخلاقی اقدار کو بھی حاصل کرنا ہے۔ اپنی نسلوں کے مستقبل اور آخرت کی بھی فکر کرنی ہے اور اُس معاشرہ کی بھی فکر کرنی ہے، اُس معاشرے کے لئے بھی درد پیدا کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے سے دورہٹتا جارہا ہے۔ بالکل آزادی کی طرف دوڑ رہا ہے اس معاشرہ کی دنیاوی ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے،مادی ضروریات کا بھی خیا ل رکھنا ہے، اس معاشرے کے ہر فرد کی روحانی ترقی کی طرف بھی اور اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ دینی ہے۔ اس معاشرے کو بھی اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کروانی ہے۔ اِن فکروں سے جن کی مَیں مثالیں اوپر دے آیا ہوں دنیا دار عورت کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ فکر اگر آج ہے اور ہونی چاہئے تو ایک احمدی عورت کو ہے۔ اِس فکر کو سینے میں رکھتے ہوئے آج اگر کوئی اپنے مذہب قوم اور وطن کی خاطر قربانی کا عہد کرنے والی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے احمدی عورت کو یہ توفیق عطا فرمائی۔ آج اگر سچائی پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد کرنے والی کوئی عورت اور کوئی بچی ہے تو وہ احمدی عورت اوراحمدی بچی ہے۔ آج اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، اس کے دین کی خاطر، اپنی قوم کی خاطر،اپنا جان، مال، وقت قربان کرنے کا عہد کرتی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ آج اگر تمام دنیا کی عورتوں کو اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ دعوت مقابلہ دے رہی ہے اور یہ چیلنج دے رہی ہے کہ تم نے اگر ان نیکیوں پرعمل کرنا اور ان نیکیوں کو پھیلانا ہے تو اس کام میں اے دنیا والو! تم اس احمدی عورت کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ آج ان نیکیوں کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی پھیلانے کا دعویٰ کرسکتاہے تو وہ احمدی عورت ہے۔
تو دیکھیں یہ کتنے بڑے عہد ہیں اور یہ کتنے بڑے دعوے ہیں جو آپ خدا اور رسول سے کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے دنیا کو چیلنج دے رہے ہیں۔ اور یہ عہد، یہ وعدہ اور یہ دعویٰ آپ اپنے ہر اجلاس اور ہر اجتماع میں کرتی ہیں اور آج بھی اس وقت بھی آپ نے یہ عہد دہرایا ہے۔ کچھ کمزور شاید اس عہد کو پوری طرح نہ سمجھ سکتی ہوں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی عہد دہرا دیتی ہوں لیکن ان میں بھی پاک فطرت ہے۔ ان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے اس فطرت کو چمکانے کی صلاحیت رکھی ہوئی ہے۔ تبھی تو ان میں سے بہت ساری تکلیف اٹھا کر، خرچ کرکے، اپنے بچوں کو تکلیف میں ڈال کر، دور درازشہروں سے اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے کے لئے حاضر ہوئی ہیں تاکہ اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ دے سکیں، اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ دے سکیں اور پھر ان علمی اور روحانی باتوں کو اپنے عمل کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں میں بھی رائج کر سکیں، ان کو بھی یہ تعلیم دے سکیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا آج اگر دنیا کے رائج نظام سے ہٹ کر اللہ اور اس کے رسول کی خاطر اکٹھی ہو کر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی سکیمیں سوچنے والی عورتیں ہیں تو صرف احمدی عورتیں ہیں اور ہونی چاہئیں۔ اگر کوئی اپنے آپ کو احمدی کہتی ہے اور اس میں یہ بات نہیں ہے تو اس کو اپنے بارہ میں سوچنا چاہئے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نصیحت کی بات کو دہراتے رہنا چاہئے اس لئے میں چند باتیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جو عورت کی فطرت میں ہیں اور باوجو د اِس کے کہ آپ میں اکثریت نیکیوں پر قائم ہے اور بری باتوں سے بچنے والی ہے اور ایمان، یقین اور فراست اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ میں سے بہتوں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن شیطان اپنے کام کے مطابق اپنی فطرت کے مطابق موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ اور موقع پا کر جب بھی حملہ کر سکے شیطان حملہ کرتا ہے۔ اس لئے مومن کو نیک باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے، ان کو دہراتے رہنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس وجہ سے چند باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا جو کہ بطور یاددہانی کے ہیں تاکہ یاد دہانی ہو جائے اور شیطان سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیعت لیتے وقت ایمان لانے والی عورتوں کو جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔ فرمایا :

’’لَایُشْرِکْنَ بِاللہِ شَیْئًا۔

بعض عورتیں بعض دفعہ اپنی کمزور طبیعت کی وجہ سے یا پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے یا وہمی طبیعت کی وجہ سے کیونکہ عورتوں میں وہم بھی بڑا پایا جاتاہے، شرک کے بہت قریب ہو جاتی ہیں۔ غیروں میں دیکھیں تو یہ مثالیں بہت زیادہ نظر آتی ہیں۔ مزاروں پر چڑھاوے چڑھائے جارہے ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک بہت بڑ ی تعدا د عورتوں کی ہوتی ہے۔ پھر گھروں میں تعویذ کرنے والی عورتوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ آپ جس معاشرے سے آئی ہیں وہاں آپ کو اکثر ایسی مثالیں نظر آئیں گی کہ پیروں فقیروں کے پاس جا کر تعویذ وغیرہ لئے جاتے ہیں۔ کسی نے بہوکے خلاف تعویذ لینا ہے، کسی نے ساس کے خلاف تعویذ لینا ہے، کسی نے ہمسائی کے خلاف تعویذ لینا ہے،کسی نے خاوند کے حق میں تعویذ لینا ہے۔ بے تحاشا بد رسمیں پیدا ہو چکی ہیں۔ یہ سب عورتوں کی بیماریاں ہیں کہ یہ شرک کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتی ہیں۔ اور یہ بھی کہ خدا تعالیٰ کو کچھ نہ سمجھنا۔ نماز، دعا کی طرف توجہ نہ ہونا۔ اگر فکر ہے تو پیروں فقیروں کے ہاں حاضریاں دینے کی ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس جنجال سے نکالا ہوا ہے۔ پھر بعضوں نے اپنی اولاد کو بت بنایا ہوا ہے۔ کوئی کم پیسے والی ہے تو اس نے زیادہ پیسے والی کو اس حد تک چڑھایا ہو ا ہے کہ بت بنا کر رکھا ہوا ہے۔ غرض اس طرح کی بے انتہا لغویات ہیں جن کا اظہار ہو رہا ہو تا ہے اور جن میں خدا تعالیٰ پر پوراایمان نہ لانے والے ملوّث ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جیسا کہ مَیں نے کہا عموماً احمدیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ چیزیں نہیں ہیں، یہ باتیں نہیں ہیں۔ لیکن جب بعض دفعہ ایسی باتیں پتہ لگتی ہیں کہ بعض گھروں میں یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں تو فکر پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ کمی ہے ایمان کی، یہ کمی ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کو نہ سمجھنے کی۔ ہر احمدی عورت کا خاص طورپر کیونکہ اس کی گودسے اگلی احمدی نسل نے پل کر نکلنا ہے،یہ معیار ہونا چاہئے کہ اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہو۔ جب یہ تعلق پیدا ہو جائے گا تو ہر چھوٹے شرک سے لے کر ہر بڑے شرک تک ہر چیز سے ہرشرک سے بچنے والی ہوں گی۔ اورشیطان کا حملہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا انشاء اللہ۔ اورانشاء اللہ تعالیٰ اگلی نسلیں بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے والی اٹھیں گی۔ پھر نیک اور ایمان لانے والی عورت کی یہ بھی نشانی بتائی کہ وہ مکمل طور پر اللہ کے احکام کی پیروی کرنے والی مکمل فرمانبردار اور اطاعت دکھانے والی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے جو حکم دئے ہیں ان پر عمل کرنے والی ہوتی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا شرک سے بچنے والی ہوں گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی بھی ہوں۔ اپنے دن اور رات اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھرنے والی ہوں۔ اپنی اولادوں کو نمازوں کی عادت ڈالنے والی ہوں۔ ان کو نمازوں کی تلقین کرنے والی ہوں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ سے آپ کی اولاد کا تعلق تبھی پیدا ہو گا جب وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی اولاد ہوگی۔ اس لئے جب آپ اپنی اولاد کی نیک تربیت کرنے والی ہوں گی تبھی آپ حَافِظَات میں شمار ہوں گی۔ اپنے آپ کی بھی حفاظت کرنے والی ہوں گی اور اپنی نسلوں کی بھی حفاظت کرنے والی ہوں گی۔ کیونکہ آپ کی نسلوں کی بقا اس میں ہے کہ اپنی نسلوں کو اس معاشرے کی رنگینیوں سے بچا کر رکھیں۔ ان کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ ان کا اپنے پیدا کرنے والے خدا سے ایک زندہ اور سچا تعلق پید ا ہو جائے۔ یہ ایک انتہائی اہم چیز ہے اور اس پر جتنا بھی زور دیا جائے وہ کم ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ خود اپنے عملی نمونے دکھانے والی نہیں ہوں گی۔ اور یہ عملی نمونہ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا یہ معیار خود بھی قائم کرناہے اور اپنی اولادوں کے اندر بھی پیدا کرنا ہے۔ تبھی یہ وہ قربانی ہو گی جس کا آپ عہد کرتی ہیں کہ مَیں مذہب کی خاطر جان قربان کرنے والی بنوں گی۔ آج اللہ کے دین کی خاطر قربانی اسی بات کا نام ہے۔ اس کے احکامات پر عمل کر کے خود بھی اعلیٰ معیار قائم کریں۔ اپنی اولادوں کو بھی اعلیٰ معیار حاصل کروائیں اورمعاشرے کو بھی اس کے عملی نمونے دکھائیں۔ اپنی سوسائٹی میں، اپنے ماحول میں جہاں آپ رہتی ہیں وہاں بھی آپ کے عملی نمونے نظر آنے چاہئیں۔ جب آپ یہ عملی نمونے قائم کریں گی تو اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کی وارث ٹھہریں گی اور ان کو حاصل کرنے والی ہوں گی۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتی ہے تو جس طرح سوکھی گھاس ہری ہو جاتی ہے اس طرح آپ نہ صرف دینی اور روحانی لحاظ سے سر سبز ہو رہی ہوں گی، خود بھی اور اپنی نسلوں کوبڑھا رہی ہوں گی بلکہ اس وجہ سے دنیاوی تعلق بھی آپ کے قائم ہو رہے ہوں گے جو پہلے کسی وجہ سے ختم ہو چکے تھے۔ اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خود آپ کا کفیل ہو جائے گا،وہ خود آپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھے گا،آپ کی ضروریات کو پورا کرے گا۔
پھر ایک بہت بڑا عہد جو آپ نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ معروف امور میں اطاعت کرنا۔ وہ تمام کام جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کو بتائے اور جن کو کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ وقتاًفوقتاً خلیفۂ وقت کی طرف سے جو باتیں کی جاتی ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ صرف سن لینا اور کہہ دینا کہ اللہ نے اس کی تو فیق دی تو اس پر عمل کریں گے یہ کافی نہیں ہے۔ جب تک ایک لگن کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گی کوئی فائدہ نہیں۔ اور جب آپ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی اور اپنی اولادوں کو بھی اس کی نصیحت کریں گی کہ ان پر عمل کرو، اپنے خاوندوں کو بھی اس طرف توجہ دلائیں گی کہ اس پر عمل کرو تو یہ نیکیاں جاری رکھنے کی وجہ سے آپ خلافت احمدیہ کی مضبوطی کا باعث بھی بن رہی ہوں گی جس کا آپ نے عہد کیا ہے۔
مَیں نے آج کل تربیت کے مختلف موضوعات پر خطبات کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے،کافی ہو چکے ہیں۔ اور یہ تمام وہ موضوع ہیں جو قرآن کریم نے ہمیں بتائے ہیں۔ یعنی امانت کا حق ادا کر و، ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی عادت ڈالو،سچ بولنے کی عادت ڈالو۔ اب یہ جو سچ بولنے کی عادت ہے اس پر ہی اگر لجنہ کا شعبہ تربیت توجہ دے اور سو فیصد لجنہ کو سچ بولنے کی عادت پڑجائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ آدھی سے زیادہ کمزوریاں ہماری دُور ہو جائیں گی۔ بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ اس طرح توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں کہ اصل جو بات ہوتی ہے اس کا کچھ سے کچھ بن جا تاہے۔
پھر غیبت نہیں کرنی۔ اب یہ ایک ایسی عادت ہے جو معاشرے میں بہت رواج پکڑ رہی ہے۔ کسی کے پیچھے کسی کی برائی نہیں کرنی، کسی کی بات نہیں کرنی۔ اور احمدی معاشرہ بھی اس کی لپیٹ سے باہر نہیں رہا، اس کے اثر سے باہر نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب تم غیبت کرتے ہو تو اپنے مردہ کا بھائی کا گوشت کھارہے ہوتے ہو۔ اور کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ وہ مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ اب جہاں چار لوگ بیٹھے ہوں فوراًکسی پانچویں کے خلاف باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ بہت ساری مجالس میں دیکھا گیا ہے۔ پھر لو گو ں کا ہنسی ٹھٹھااُڑانا ہے۔ مختلف نا م رکھ کر پیچھے سے ان کا مذاق اڑایا جا تا ہے۔
حسد ہے۔ اب حسد کی آگ بھی ایسی آگ ہے جس میں حسد کر نے والا خو د جل رہا ہو تا ہے۔ اپنا نقصان اٹھا رہا ہو تا ہے۔ دوسرے کو کوئی نقصان شاید اتنا نہ پہنچے۔ اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچ رہا ہوتاہے۔ غرض اس طرح کے بے شمار احکام قرآن کریم نے ہمیں دئیے ہیں۔ اس لئے مَیں نے گزشتہ خطبوں میں اس پر خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ یہ بھی کہ قرآن پڑھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں۔ جب سمجھیں گی اور عمل کرنے کی کوشش کریں گی تو پھرآپ دسروں سے مزید ممتاز ہو کر مزید علیحدہو کر نکھر کر اُبھریں گی۔ اور اس معاشرے میں بھی آپ کی ایک پہچا ن ہو گی۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے اندر، آپ کے احمدیت میں شامل ہونے کی وجہ سے،جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہے اور آپ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اور آپ نے اس کو قائم رکھنے کا عہد کیا ہو ا ہے اور یہ عہد اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر کیا ہے۔ اس لئے اگر اس عہد پر پور ا نہیں اتریں گی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْؤلًا

کہ مَیں سوال کروں گا۔ عَہدوں کے بارے میں جواب طلبی ہو گی۔ تم نے ایک وعدہ کیا تھا اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ جب تم نے عہد کیا تھا کہ مَیں ہر بات مانوں گی، عمل کروں گی تو جو باتیں کہی گئیں ان پر عمل کیوں نہیں کیا۔ جب تک آپ کا جماعت سے تعلق ہے، اور خدا کرے کہ ہمیشہ خلافت کے ساتھ وفا رہے، آپ کو خلیفۂ وقت کی طرف سے کہی گئی باتوں پر عمل کرنا ہو گا،ان کی طرف توجہ دینی ہو گی جو اصل میں تو خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں۔ خلیفۂ وقت تو ان کو آگے پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اصل اطاعت تو خدا تعالیٰ کی ہے اور اس کے رسول کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ

اَطِیْعُوااللہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ

اور یہی چیز ہمیشہ قائم رہنی چاہئے۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی وجہ سے ہی اللہ اور رسول سے محبت قائم ہونی ہے اور ہوتی ہے۔ باقی محبتیں تو ضمنی ہیں،باقی محبتیں تو اس وجہ سے ہیں کہ اللہ اور رسول سے محبت کرنی ہے۔ اور پھر اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی شریعت کو دنیا میں پھیلانے کے لئے معبوث فرمایا ہے۔ ان کی محبت دل میں ہونی چاہئے۔ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت دل میں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو یہ محبت دلوں میں قائم کرنے اور ہمیشہ رکھنے اور اپنی نسلوں میں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور آپ میں سے ہر ایک عابدات اور صالحات کے معیار حاصل کرنے والی ہو۔ کیونکہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پرعمل کروانے والی اگلی نسل کو پروان چڑھانا ہے، اگلی نسل کی تربیت کرنی ہے۔ اس کے رسول سے محبت کرنے والی نسل کر پروان چڑھانا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافت احمدیہ سے وفا کرنے والی نسل کو پروان چڑھانا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’تم خوش ہواور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔ اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دئیے جاؤ گے۔ اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہو گا‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ68مطبوعہ لندن)
خدا کرے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہو۔ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو۔ ہمیشہ ہر احمدی کے ساتھ ہو۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اب دعاکر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں