حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ بلجیم 2004ء سے اختتامی خطاب

وہ تقویٰ حاصل کرو جس سے تم خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کے فضل سے فیضیاب ہو۔
ہر احمدی کو یہ مقام حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھاتے چلے جانا چاہئے۔
(تقویٰ کی حقیقت، فضیلت اور برکات کا قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے پرمعارف بیان)
اختتامی خطاب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ بلجیم۔ 12؍ ستمبر 2004ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوْا اللہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ۔ وَاللہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (سورۃ الانفال:30)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہارے لئے ایک امتیازی نشان بنا دے گا۔ اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا۔ اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔
کسی بھی سچے دین کی نشانی یہ ہے کہ وہ کس قدر انسان کو اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کا خوف اور اس کی خشیت اپنے ماننے والوں کے دل میں پیدا کرتا ہے اور اس کی کیا تعلیم دیتاہے؟ اگر جائزہ لیں تو صرف اسلام ہی اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم خداتعالیٰ تک پہنچنا چاہتے ہو تو اس کا خوف، ایسا خوف جو ایک محبت کا اظہار بھی رکھتا ہو، اپنے دلوں میں پیدا کرو تو خداتعالیٰ کو راضی کرنے والے ہو گے۔ اس کی محبت اور پیار حاصل کرنے والے ہو گے، اور اس کے بے شمار فضلوں کے وارث بنو گے۔ لیکن یہ خوف،یہ خشیت صرف منہ سے بولنے یا باتوں کے اظہار سے ہی نہ ہو بلکہ اپنے عمل سے، اپنے ہر فعل سے، اپنے ہر قول سے اس بات کی تصدیق کر رہے ہو کہ ہمیں اپنے پیدا کرنے والے خدا سے حقیقی پیار ہے اور اس پیار کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں میں اس کا خوف رکھتے ہیں۔
تو جب اللہ تعالیٰ کو ماننے والا، اس کی عبادت کرنے والا ایک شخص ہر طرح اس کے خوف کو اپنے سامنے رکھے گا اور اس کی عبادت بجا لائے گا کہ کوئی دوسرا دنیاوی لالچ یا دنیاوی چیزوں کی محبت اس کے ایمان میں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی خشیت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھے گی تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دیکھو گے کہ کس طرح مَیں تمہارے لئے امتیازی نشان ظاہر کروں گا۔ تم سوئے ہوئے ہو گے میں تمہاری حفاظت کے لئے جاگوں گا۔ تم دشمن سے غافل ہو گے مَیں اس کے حملے سے تمہیں بچاؤں گا۔ تم تکلیف میں ہو گے تو مَیں تمہاری تکلیف دور کرنے کے سامان پیدا کروں گا۔ جیسا کہ فرمایا

وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا (الطلاق:3)

یعنی جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو تکلیف سے نکالنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا۔ اور جب اللہ تعالیٰ تکلیف سے نکالنے کے راستے نکالتا ہے تو ایسے ایسے راستے ہوتے ہیں کہ انسان کی عقل بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ بھی وعدہ فرماتا ہے کہ مَیں اپنے سے ڈرنے والے بندوں کے لئے اپنے عبادت گزار بندوں کے لئے غیب سے رزق کے بھی ایسے سامان پیدا کرتا ہوں کہ جس کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب انسان کو آج کل کی مادی دنیامیں یہ خیال آ سکتا ہے کہ میں اپنے بیوی بچوں کے لئے اپنے لئے رزق کے کوئی سامان پیدا کروں۔ تو جب انسان رزق کے لئے کوشش کر رہا ہوتا ہے تو اگر اللہ نہ چاہے تو اس کی جتنی چاہے کوشش ہو وہ رزق جس کے حاصل کرنے کے لئے وہ کوشش کر رہا ہوتا ہے وہ اس کو نہیں ملتا۔ یا جتنا اس کی خواہش ہوتی ہے اُس حد تک نہیں ملتا۔ روز دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کاروبار ہوتے ہیں، اچھے بھلے کاروبار چل رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے مالک راتوں رات دیوالیہ ہو جاتے ہیں،پیسے پیسے کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ یہاں ریسٹورینٹس میں غلط قسم کے کام نہیں چھوڑتے کہ بھوکوں مر جائیں گے۔ یا پہلے کر رہے تھے تو جب مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تو اکثریت نے یہ کام چھوڑ دئیے اور اللہ تعالیٰ نے ان چھوڑنے والوں میں سے اکثریت کو پہلے سے بہتر کام مہیا کر دئیے۔ کیونکہ انہوں نے خدا کی خاطر یہ کام چھوڑے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنا یہ وعدہ پورا کیا کہ

وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (الطلاق:4)

اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اس کو خیال بھی نہیں ہوگا۔ یا اتنا دے گا جتنا اس کو خیال بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ رزق دینا تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر کسی کو کام چھوڑ کر بہتر کام نہیں ملا اور تو اس کو چاہئے کہ اَور بھی زیادہ اللہ تعالیٰ سے لَو لگائے۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاوَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (الطلاق:4-3)

یعنی جو خدا کا متقی اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے اس کو خداتعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ کہاں سے اور کیونکر آتا ہے۔ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا اور بڑا رحیم کریم ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہ اسے ہر ذلت سے نجات دیتا اور خود اس کا حافظ و ناصر بن جاتا ہے۔ مگر وہ جو ایک طرف دعویٰ اتقا کرتے ہیں اور دوسری طرف شاکی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے، ان دونوں میں سے ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا؟۔ خداتعالیٰ پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے۔

اِنَّ اللہَ لَایُخْلِفُ الْمِیْعَاد (آل عمران:10)

خداتعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔ ہم اس مدعی کو جھوٹا کہیں گے۔ اصل یہ ہے کہ ان کا تقویٰ یا ان کی اصلاح اس حد تک نہیں ہوتی کہ خداتعالیٰ کی نظر میں قابل وقعت ہو یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے۔ لوگوں کے متقی اور ریاکار انسان ہوتے ہیں۔ سو ان پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی مار ہوتی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلات دنیا میں مبتلا رہتے ہیں۔ خداتعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا ہے اور پورا ہے۔
فرمایا:’’رزق بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ بھی تو ایک رزق ہے کہ بعض لوگ صبح سے شام تک ٹوکری ڈھوتے ہیں اور برے حال سے شام کو دو تین آنے ان کے ہاتھ میں آتے ہیں۔ یہ بھی تو رزق ہے مگر لعنتی رزق ہے۔ نہ

رزقِ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ۔

حضرت داؤدؑ زبور میں فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا، جوان ہوا، جوانی سے اب بڑھاپا آ یا مگر مَیں نے کبھی کسی متقی اور خدا ترس کو بھیک مانگتے نہ دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو دربدردھکے کھاتے اور ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ یہ بالکل سچ ہے اور راست ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسرے کے آگے ہاتھ پسارنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ بھلا اتنے جو انبیاء ہوئے ہیں، اولیاء گزرے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھیک مانگا کرتے تھے یا ان کی اولاد پر مصیبت پڑی ہو کہ وہ دربدر خاک بسر ٹکڑے کے واسطے پھرتے ہوں ؟ ہرگز نہیں’‘۔ فرمایا: میرا تو اعتقاد ہے کہ ایک آدمی باخدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 182-181)
تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے واضح کر دیا کہ اگر کہیں کسی وجہ سے کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے ہے اس لئے استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ عبادات کی طرف توجہ دیں تو اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے انشاء اللہ جلد بہتری کے سامان بھی پیدا فرمائے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بھی امتیازی نشان دکھاؤں گا کہ تمہارے کاموں میں آسانیاں پیدا کروں گا `جیسا کہ فرمایا

وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا (الطلاق: 5)

اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اللہ ضرور اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ تو یہاں پھر وعدے کو دہرا دیا کہ اگر تمہارے رزق میں تنگی ہے، تمہارے کاموں میں روک ہے تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، اس کے آگے جھکو، اس سے فریاد کرو۔ ،اپنے آپ کو پاک کرو، نمازوں کی ادائیگی کرو،اس سے ڈرتے ہوئے اس کے تمام حکموں پر عمل کرو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسا نہیں جو پھر بھی تمہیں مشکل میں گرفتار رکھے۔ وہ ضرور تمہارے لئے آسانیاں پیدا کر دے گا،آسانیوں کے سامان پیدا کر دے گا۔ بعض دفعہ آزمائش بھی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ آزماتا بھی ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہے۔ اس لئے جب کسی پر ایسی آزمائش آتی ہے تو اپنے وعدوں کے مطابق ہی ان کے لئے آسانیوں کے سامان بھی پیدا فرما دیتا ہے۔
پھر فرمایا کہ تمہاری برائیاں بھی اس تقویٰ کی وجہ سے دور ہو جائیں گی۔ جب برائیاں بھی دور ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتوں کی وجہ سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرما رہا ہے اور یہاں اس دنیامیں بھی سامان پیدا فرما رہا ہے کہ دنیا بھی جنت نظیرنظر آ رہی ہے تو پھر ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں پر اور بھی پختہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ نیک اعمال کرنے کی وجہ سے، اس وجہ سے کہ بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر او رخوف اور تقویٰ ہے ایک مومن بندہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف مزید ترقی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ اس طرف ترقی کرے گا تو دائمی جنتوں کا وارث بھی ٹھہرے گا۔
پس ہر احمدی کو ہمیشہ یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو فضل عظیم کا مالک ہے، صرف مالک ہی نہیں ہے بلکہ وہ فضل اپنے بندوں میں بانٹنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ لیکن اس نے فرمایا ہے کہ میرے فضل حاصل کرنے کے لئے تقویٰ پر قدم مارو، مجھ سے ڈرو، میری عبادت کرو، میرے بندوں کے حقوق ادا کرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کئے رکھوتو تب ان فضلوں کے وارث بن جاؤ گے۔
اسی آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور اللہ جل شانہ سے ڈرتے رہو تو خداتعالیٰ تمہیں وہ چیز عطا کرے گا(یعنی روح القدس) جس کے ساتھ تم غیروں سے امتیاز کلّی پید اکر لو گے۔ اور تمہارے لئے ایک نور مقرر کر دے گا(یعنی روح القدس) جو تمہارے سا تھ ساتھ چلے گا۔ قرآن کریم میں روح القدس کا نام نور ہے‘‘۔
(آئینہ ٔکمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 98-97)
فرمایا کہ تقویٰ کی وجہ سے تم اللہ کی تائیدات حاصل کرنے والے ہو گے اور ان تائیدات اور نور کی وجہ سے وہ تمہیں ہر اس چیز سے نوازے گا جو متقی کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہے۔ جن کا متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر بھی فرمایا ہے اور جن میں چند ایک کا میں ذکر کر آیا ہوں۔ تمہارے اور غیر میں ہر لحاظ سے ایک فرق ہوگا۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’اے ایمان لانے والو اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو توخداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 177)
یعنی اس کی اس تقویٰ پر اگر قائم رہو اور مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ مستقل مزاجی ہو شیطان سے بچنے کے لئے استغفار کرتے رہو۔ تو پھر دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تمہارے اور غیرمیں فرق ظاہر کرتا ہے۔ اور کس طرح تمہاری غیرت رکھتا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’اے مومنو اگر تم متقی بن جاؤ توتم میں اور تمہارے غیر میں خداتعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق کیا ہے؟ کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گاجو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا۔ یعنی نور الہام اور نور اجابت دعا اور نور کرامات اصطفاء‘‘۔ (آئینہ ٔکمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 296) اور فرق کس طرح ظاہر کرے گا۔ تمہاری غیرت کس طرح رکھے گا اور وہ اس طرح کہ تمہیں ایک ایسا نور عطا کرے گا جس سے تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کے فضل سے بھی نوازے جاؤ گے، اس سے تم قبولیت دعا کے بھی معجزات دیکھو گے۔ اس لئے وہ تقویٰ حاصل کرو جس سے تم خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کے فضل سے فیض یاب ہو۔ غیر جس میں تقویٰ نہیں اور صحیح ادراک نہیں اللہ تعالیٰ کا صحیح عرفان نہیں، اس کی طرح پیروں کی گدیوں پر چکر نہیں لگاتے رہو۔ پیروں اور فقیروں کی قبروں پر سجدے کرکے شرک اور گناہ میں گرفتار نہ ہو۔ بلکہ تقویٰ اور روح القدس کے نور کی وجہ سے تم یہ کرو گے تو براہ راست خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرکے قبولیت دعا کے نظارے دیکھو گے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ یہی امتیازی نشان ہے جو تم میں اور تمہارے غیر میں ہے۔
پس ہر احمدی کو یہ مقام حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھاتے چلے جانا چاہئے۔ نیکیوں میں سبقت لے جاتے چلے جانا چاہئے اور اس سے پھر تمہارے اندر خداتعالیٰ وہ طاقتیں پیدا کرے گا جس سے تم خداتعالیٰ کے برگزیدہ اور چنیدہ بندوں کی طرح قبولیت دعا کے معجزات دکھاؤ گے۔
پس یہ تقویٰ کے معیار ہیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓ میں پیدا کئے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غلامی کے صدقے اپنے صحابہ میں پیدا کئے اور یہی آئندہ ہمیشہ اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی خواہش اور کوشش کی اور توقع رکھی۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔ حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے۔ جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوْا اللہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ (الانفال:30)
وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ(الحدید:29)

یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہواور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حو اس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اورتمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا‘‘۔ تمہاری بات میں نور ہو گا۔ ’’اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا۔ اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا۔ اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہیں نو رانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 178-177)
اللہ کرے کہ ہر احمدی اس نور سے بھر جائے۔ اور ہر احمدی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ یہ تقویٰ حاصل کرنے کے لئے اپنے اندر پاک تبدیلی پید اکرنے کی کوشش کرے،]اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل میں پیدا ہواور اس کے لئے کوشش بھی کرے۔ اور سب سے بڑھ کر کوشش اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ہے جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا۔ پس ہر احمدی کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ عبادتوں کی طرف بھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ اس طرف ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح توجہ دلائی ہے اس بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو قطرے ایسے ہیں کہ جن سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز پیاری نہیں۔ ایک خوف خدا کے نتیجہ میں آنسوؤں کا قطرہ اور دوسرے راہ خدا میں بہنے والا خون کا قطرہ۔ اسی طرح دو نشان ایسے ہیں جو خدا کو سب سے بڑھ کر پیارے ہیں ایک وہ نشان جو راہ خدا میں جسم پر لگے اور دوسرا ایسا نشان جو کسی الٰہی فریضہ کی ادائیگی میں لگے۔
(سنن الترمذی ابواب فضائل الجہاد)
تو دیکھیں عبادت کرنے والے کا ایک مومن کے تقویٰ کی وجہ سے اللہ کی خشیت کی وجہ سے نکلا ہوا آنسوکا ایک قطرہ بھی جو ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کو اسی طرح پیارا ہے جس طرح خدا کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ۔ اب آج کل کی جہادی تنظیمیں جو دلیل دے کر شور مچاتی ہیں کہ خداتعالیٰ کی راہ میں بہنے والا خون خداتعالیٰ کو بہت پیارا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جس جہاد کا نام لیتے ہیں وہ تقویٰ سے عاری ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں تو اس کو بھی جہاد کہہ دیتے ہیں۔ پھر جس طرح ظالمانہ طور پر بلا تخصیص عورتوں بچوں بوڑھوں کو مارا جاتا ہے،قتل کیا جاتا ہے، اس کی کہیں اسلام میں اجازت نہیں،۔ یہ کوئی جہاد نہیں ہے۔ پھر خود کش حملے کئے جاتے ہیں اور خود کشی اسلام میں حرام ہے۔ یہ کون سا جہاد ہو گیا۔ ان ساری حرکات کے باوجود کہیں بھی ان نام نہاد لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جہاد کرنے والوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔ ان لوگوں کی تو ایک جگہ بھی کامیابی نظر نہیں آ رہی اور سب سے بڑھ کر آجکل کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کر رہے ہیں اس لئے یہ جہاد ہے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو،مہدی موعود کو مبعوث فرمایا اس کے بعد ان احکامات پر ہی عمل کرنا ہے اور ان میں ہی برکت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی۔ کیونکہ یہ لوگ عمل نہیں کر رہے اس لئے ان عام مسلمانوں سے یہ برکتیں بھی ساری اٹھ چکی ہیں۔ یہ اس جہاد کی طرف کیوں نہیں آتے جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو بہا کر کیا جائے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے کیا جائے۔ یہ کیوں نہیں دعائیں کرتے اور دعائیں کرکے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرتے۔ اگر اس طرح کرلیں تو پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تائیدات سے نوازتا ہے۔ لیکن یہ لوگ بدقسمت ہیں۔ آج اگر یہ چیزیں نظر آ سکتی ہیں تو صرف اور صرف احمدیوں میں ہی نظر آئیں گی۔ اور اس احمدی میں نظر آئیں گی جس نے صحیح طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر تقویٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کی،تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کی۔ اور اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔
ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خداتعالیٰ کی خشیت سے روتا ہے وہ کبھی آگ میں نہ جائے گا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس چلاجائے گا۔ (یعنی ناممکن بات ہے) اور خدا کی راہ میں انسان کے جسم پر لگا ہوا غبار اور جہنم کا دھواں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ (سنن الترمذی ابواب فضل الجہاد)
تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے والے کا مقام کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر دوزخ حرام کر دی، جہنم حرام کر دی۔ پس یہ فرقان ہے جو ایک احمدی کو غیروں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس روح کو اپنے اندر پیدا کریں اور اپنے بیوی بچوں کے اندر بھی پیدا کریں۔
ایک روایت میں آتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ خشیت کس طرح پیدا ہو گی؟ اللہ تعالیٰ کا خوف بھی تبھی دل میں پیدا ہو گا جب ہر وقت یہ خیال رہے گا کہ میں خداتعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں، خداتعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اور خاص طور پر نمازوں کے اوقات میں یہ ضرور احساس ہونا چاہئے۔ ایک دفعہ ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ احسان کیا ہے؟۔ فرمایا کہ تو اللہ کی خشیت اختیار کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے ضرور دیکھ رہا ہے۔ (مسلم کتاب الایمان با ب الاسلام ماھو وبیان خصالہ) یہ احساس دل میں رہنا چاہئے۔
پھر ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا اس دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا۔ اول امام عادل۔ دوسرے وہ نوجوان جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے جوانی بسر کی۔ تیسرے وہ آدمی جس کا دل مسجدوں کے ساتھ لگا ہو اہے۔ چوتھے وہ دو آدمی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اسی پر وہ متحد ہوئے اور اسی کی خاطر ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔ پانچویں وہ پاکباز مرد جس کو خوبصورت اور بااقتدار عورت نے بدی کے لئے بلایا لیکن اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ سخی جس نے اس طرح پوشیدہ طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور ساتویں وہ مخلص جس نے خلوت میں اللہ تعالیٰ کویاد کیا اور اس کی محبت اور خشیت سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب من جلس فی المسجد ینتظرالصلوٰۃ وفضل المساجد)
تو تین باتیں تو ایسی ہیں جن کا تقویٰ سے تعلق ہے جن کا براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت سے تعلق ہے اور باقی بھی سب اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی وجہ سے ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیونکہ میری خشیت کی وجہ سے ساری باتیں ہو رہی ہیں اس لئے تمام ایسے عمل کرنے والے میرے سایہ رحمت میں ہوں گے۔
ایک روایت میں آتا ہے ابو نضرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتایا جس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ
حجتہ الوداع سنا جو آپ نے ایام منیٰ میں دیا تھاٗ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا: اے لوگو! تمہارا خدا ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے یاد رکھو کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی سرخ و سفید رنگ والے کو کسی سیاہ رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو کسی سرخ و سفید رنگ والے پر کسی طرح کی کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں تقویٰ و جہ ترجیح اور فضیلت ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیامَیں نے یہ اہم پیغام پہنچا دیا ہے ؟لوگوں نے بلند آواز میں عرض کیا ہاں یارسول اللہ! آپ نے یہ پیغام حق پہنچا دیاہے۔ (مسند احمد کتاب باقی مسند الانصار)۔ تو جو آخری نصیحت آپ نے فرمائی اس میں بھی تقویٰ کی طر ف توجہ دلائی۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ جنت میں داخل کرنے والی ہوگی۔ فرمایا تقویٰ اور حسن خلق۔ نیز پوچھا گیا کہ کونسی چیز سب سے زیادہ آگ میں داخل کرنے والی ہو گی۔ فرمایا اَلْاَجْوَفَانِ یعنی منہ اور شرم گاہ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد)۔ اس سے ایک چیز یہ بھی پتہ لگ رہی ہے گویاکہ جتنا زیادہ تقویٰ پیدا ہو گا اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں ہو گا اتنا ہی بندوں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ متقی وہی ہے جو اعلیٰ اخلاق کا بھی مالک ہے۔ نہیں تو اس کی عبادات میں بات بات پر رونا اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ بعض لوگ عادتاًبھی روتے ہیں۔ ذرا سی بات ہو جائے اور پہلے نام اللہ کا لیتے ہیں۔ بعض لوگ ظلم کرنے کے بعد اللہ کا نام لے کر اس طرح رو رہے ہوتے ہیں جس طرح ان سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا کوئی نہیں ور ان سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اس کی خشیت کا غلبہ دل پر ہو اور اس میں ایک رقت اورگدازش پیدا ہو کر خدا کے لئے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکلے تو وہ یقینا دوزخ کو حرام کر دیتا ہے۔ پس انسان اس سے دھوکہ نہ کھائے کہ مَیں بہت روتا ہوں اس کا فائدہ بجز اس کے اورکچھ نہیں کہ آنکھ دکھنے آ جائے گی اور یوں امراض چشم میں مبتلا ہو جائے گا‘‘۔ یعنی زیادہ رونا کوئی کام نہیں ہے اگر اللہ کے خوف کے بغیر رویا جا رہا ہے۔ اس کا سوائے اس کے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ آنکھ دکھنے آ جائیں۔
فرمایا: ’’مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے حضور اس کی خشیت سے متاثر ہوکر رونا دوزخ کو حرام کر دیتاہے۔ لیکن یہ گریہ و بکا نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ خدا کو خدا اور اس کے رسول کو رسول نہ سمجھے اور اس کی سچی کتاب پر اطلاع نہ ہو۔ اور نہ صرف اطلاع بلکہ ایمان‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ273-272جدید ایڈیشن)۔ یعنی قرآن کریم پڑھا بھی ہو، اس کا علم بھی ہو، اس کے سمجھنے کی کوشش بھی ہو اور اس پر ایمان بھی ہو کہ اس کے ہر حکم پر عمل کرناضروری ہے اور نہ عمل کرنے سے اللہ کی ناراضگی ہے۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ عادتاً رونے والوں کے بارے میں واضح ہو گیا۔ کیونکہ بہت سارے لوگ ہیں جب ان کے معاملات آئیں تو کیونکہ رونا جلدی آ جاتا ہے اس لئے اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر دیتے ہیں۔ اور پھر بظاہر وہ جماعت میں ایکٹو (Active)بھی نظر آ رہے ہوتے ہیں اس لئے ان کی باتوں پر یقین بھی کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے حقو ق غصب کرنے والے یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیزکا علم ہے وہ دلوں کا حال جانتا ہے ایسے آنسو بھی ان کے منہ پر مارے جائیں گے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے ایام میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا رب ہے اور پانچ نمازیں ادا کرو ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اور اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے امراء کی اطاعت کرو پھر اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ (ترمذی ابواب الصلوٰ ۃ۔ باب ما ذکر فی فضل الصلوٰۃ)
تو یہاں مومن کی پانچ نشانیاں بتائی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہو، اس کا خوف ہو، نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو، رمضان میں روزے رکھنے والے ہوں، زکوٰۃ یا مالی قربانی کرنے والے ہوں، پھراطاعت گزار ہوں،نظام کی، امیر کی، عہدیداران کی اطاعت کرنے والے ہوں گویا تقویٰ پر وہی قائم سمجھا جائے گا جو ان چار باتوں کا بھی اہتمام کرتا ہو گا۔ یعنی نمازیں پڑھنے والا، روزے رکھنے والا، مالی قربانیاں کرنے والا اور اطاعت کرنے والا۔
حضرت زید بن ارقم ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں آپ کو وہ دعا بتاتا ہوں کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ آپ ان الفاظ میں دعا مانگا کرتے تھے

’’اَللّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوٰھَا وَزَکِّھَا وَاَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰھَا‘‘

اے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اس کو خوب پاک صاف کر دے اور تو ہی سب سے بہتر ہے جو اس کو صاف کر سکے۔ (مسلم کتاب الذکر والدعاء باب 73)
ایک روایت میں یوں دعا آئی ہے

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتَّقٰی وَالْعَفَافِ وَالْغِنٰی۔

کہ اے اللہ میں تجھ سے ہدایت تقویٰ پاک دامنی اور غنیٰ مانگتا ہوں۔ (مسلم کتاب الذکر والدعا)
پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے، خشیت کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ سے اس طرح مانگتے تھے تو ہمیں اس بارے میں کس قدر کوشش کرنی چاہئے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا بلکہ آپؐ فرماتے تھے(دعا کسی نے سنی، آگے بیان کی) کہ ’’اے اللہ میں عاجز آ جانے اور سستی سے بزدلی سے بخل سے اور انتہائی بڑھاپے اور قبرکے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اس کو پاک کر کیونکہ تو ہی اس کابہترین تزکیہ کرنے والا ہے۔ تو ہی اس کا ولی ہے توہی اس کا آقا ہے۔ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جو فائدہ نہ دے اور ایسے دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور ایسے نفس سے جو اس پر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو مقبول نہ ہو۔ بعض باتیں اس میں مزید کھول کر بیان فرما دی ہیں۔ تو ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کس حد تک اس کے دل میں اللہ کی خشیت ہے۔ کیونکہ وہ معیار تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب ہر ایک دوسرے کو دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کا جائزہ لے، اپنے آپ کو دیکھے۔ بہت ساری باتیں کی جاتی ہیں واضح رپورٹیں ملتی ہیں۔ آپس میں اگر جھگڑے ہیں تو ایک جھگڑنے والا دوسرے کو کہہ رہاہوتا ہے کہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا تھا۔ میاں بیوی کے جھگڑے ہیں تو بیوی میاں کو کہہ رہی ہوتی ہے، میاں بیوی کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ تمہارے بارے میں خطبہ تھا،اپنا جائزہ کوئی نہیں لیتا۔ اگر اپنے گریبان میں جھانکیں تو تقویٰ پہ قائم ہو جائیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے‘‘۔ ایک مضبوط قلعہ ہے۔ ’’ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسااوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں’‘۔
(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 342)
پھر آپ نے فرمایا :’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریا،عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کرکے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ یہ تمام برائیاں گنائی گئی ہیں لوگوں کے حق کے مارنا، بناوٹ،تصنع، فخر، ذلیل کسی کو سمجھنا، کنجوسی کرنا، ان کو چھوڑکے پھر ان سے پرہیز کر کے فرمایا کہ’’ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ لوگوں سے مروت،خوش خلقی،ہمدردی سے پیش آوے۔ خداتعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلا وے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں۔ (یعنی اگر ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے)‘‘۔ اگر کوئی ایک خلق بھی ہے اور باقی نہیں تو وہ متقی نہیں کہلائے گا ’’جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں۔)اور ایسے ہی شخصوں کے لئے

لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:62)

ہے اوراس کے بعد ان کو کیا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے

وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف: 197)۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے مَیں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خداتعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 681-680جدید ایڈیشن)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر۔ اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو،نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو،نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو۔ اور اپنے مولا کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دلبرداشتہ رہو۔ اور اسی کے ہوجاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو۔ اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے۔ چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی۔ اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔ دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے‘‘۔
(کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12)
اللہ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق پر عمل کرنے والے ہوں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر تقویٰ اور خشیت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کے مطابق آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں انقلاب پید ا کرنے والے ہوں۔ اور ہم میں سے ہر ایک دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنے والا ہو اور جلسہ کی جو برکات آپ نے حاصل کی ہیں ہمیشہ آپ کی زندگیوں کا حصہ رہیں۔
اللہ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی حفظ و امان میں رکھے، خیریت سے اپنے اپنے گھروں میں لے جائے۔ اس وقت کی حاضری ہے 1589گزشتہ سال 766اور اس وقت 13ملکوں کی نمائندگی بھی یہاں ہے اللہ کے فضل سے۔ اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں