حضرت سعد بن ابی وقاصؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6 دسمبر 2013ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 اپریل 2010ء میں ایک مضمون حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارہ میں شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 24 جنوری 1996ء کے ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے اسی کالم میں آپؓ کی سیرۃ پر ایک مختصر مضمون شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔
حضرت سعد ؓ کے والد مالک بن وھیب کا تعلق قریش کی شاخ بنو زہرہ سے تھا۔ اس لحاظ سے آپ رشتہ میں رسول اللہ کے ماموں تھے۔ کیونکہ حضرت آمنہ بھی بنو زہرہ قبیلہ سے اور حضرت سعدؓ کی چچا زاد تھیں۔ ایک دفعہ حضرت سعدؓ کے تشریف لانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میرے ماموں ہیں کوئی اور شخص مجھے اپنا ایسا ماموں تو دکھائے۔ والدہ حمنہ بنت سفیان بن امیہ بھی قریش سے تھیں۔ کنیت ابو اسحاق تھی۔
حضرت سعدؓ نے چوتھے اور چھٹے سال نبوت کے درمیان اسلام قبول کیا۔ اس وقت آپ سترہ برس کے نوجوان تھے۔ خود بیان کرتے تھے کہ میں نے نماز فرض ہونے سے بھی پہلے اسلام قبول کیا تھا۔
آپ کا اسلام قبول کرنا بھی الٰہی تحریک کے نتیجہ میں تھا۔ آپؓ بیان کرتے تھے کہ اسلام سے قبل ’’میں نے رؤیا میں دیکھا کہ گھپ اندھیرا ہے اور مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اچانک ایک چاند روشن ہوتا ہے اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہوں۔کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ مجھ سے پہلے اس چاند تک پہنچے ہوئے ہیں۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ وہ زید بن حارثہؓ ، علی بن ابی طالبؓ اور ابوبکرؓ تھے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگ کب یہاں پہنچے؟ وہ کہتے ہیں بس ابھی پہنچے ہی ہیں‘‘۔ اس خواب کے کچھ عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخفی طور پر اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک روز میری آپؐ سے اجیاد گھاٹی میں ملاقات ہوئی۔ آپؐ نے اسی وقت نماز عصر ادا کی اور میں نے اسلام قبول کیا۔ مجھ سے پہلے سوائے ان تین مَردوں کے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت سعدؓ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے تیسرے نمبر پر اسلام قبول کیا اور سات دن تک مجھ پر ایسا وقت رہا کہ میں اسلام کا تیسرا حصہ تھا۔
حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ سے نہایت نیکی اور احسان کا سلوک کرتا تھا۔ جب میں نے اسلام قبول کیا تو وہ کہنے لگی کہ تم نے یہ نیا دین کیوں اختیار کرلیا ہے، تجھے بہرحال یہ دین چھوڑنا پڑے گا ورنہ میں نہ کچھ کھاؤ ں گی نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مرجاؤں گی او رلوگ تمہیں ماں کے قتل کا طعنہ دیں گے۔ میں نے کہا: اے میر ی ماں ایسا ہر گز نہ کرنا کیونکہ میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتا۔مگر وہ نہ مانی حتیٰ کہ تین دن اور رات گزر گئے اور والدہ نے کچھ کھایا نہ پیا۔ صبح ہوئی تو وہ بھوک سے نڈھال تھیں۔ تب میں نے کہہ دیا کہ خدا کی قسم! اگر آپ کی ہزار جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کرکے نکلیں تو بھی میں اپنا دین کسی چیزکی خاطر نہیں چھوڑوں گا۔ جب انہوں نے بیٹے کایہ عز م دیکھا تو کھانا پینا شروع کر دیا۔ اس موقع کی مناسبت سے سورۃ لقمان کی آیت 16 اتری کہ اگر وہ (والدین) تجھ سے جھگڑا کریں کہ تُو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی بات نہ مان اور دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھ۔
ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز ادا کرنے کے لئے مختلف گھاٹیوں میں چلے جاتے اور یوں اپنی قوم سے مخفی نماز باجماعت ادا کرتے۔ ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی کسی گھاٹی میں نماز ادا کررہے تھے کہ اچانک مشرک ان پر چڑھ دوڑے اور پہلے تو انہیں نماز پڑھتے پاکر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے بُرا بھلا کہنے لگے۔ پھر ان پر حملہ آور ہوئے ۔ حضرت سعدؓ وہ شجاع اور بہادر مرد تھے جو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے دفاع کے لئے بڑی جرأت سے آگے بڑھے اور ہاتھ میں آنے والی اونٹ کی ہڈی سے مدمقابل شخص کا سر پھاڑ دیا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجبوراً اپنے دفاع میں ایک مسلمان کے ہاتھوںکسی کافر کا خون بہا۔ ورنہ مسلمان ہمیشہ فساد سے بچتے اور امن کی راہیں تلاش کرتے رہے تھے۔
مکی دَور کے ابتدائی زمانہ میں اور خصوصاً شعب ابی طالب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت سعدؓ کو بھی سخت تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ کے ساتھ پیشاب کرنے نکلا تو پائوں کے نیچے کوئی سخت چیز آئی۔ وہ اونٹ کی کھال کا ٹکڑا تھا۔ مَیں نے اسے اٹھا کر دھویا پھر اسے جلا کر دو پتھروں سے باریک کرکے کھالیااور اوپر سے پانی پی لیا اور تین دن تک کے لئے اس سے قوّت حاصل کی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے بعد حضرت سعدؓ بھی مدینہ آگئے اور بنی عمر وبن عوف کے محلہ میں اپنے بھائی عتبہ کے گھر میں ٹھہرے جو اپنی ذاتی دشمنی کی وجہ سے پہلے سے مکہ سے مدینہ آچکے تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات قائم فرمائی تو حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو پہلے مبلغ اسلام حضرت مصعب ؓ بن عمیر اور اوس کے سردار حضرت سعدؓ بن معاذکا بھائی بنایا۔
مدینہ آتے ہی حضرت سعدؓ کی خدمات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ شروع میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو مخدوش حالات کی وجہ سے رات آرام کی نیند نہ سو سکے تھے ۔ ایک رات آپؐ نے فرمایا کہ آج خدا کا کوئی نیک بندہ پہرہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ تب اچانک ہمیں ہتھیاروں کی آواز سنائی دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون ہے؟ آواز آئی: مَیں سعد ہوں۔ فرمایا: کیسے آئے؟ عرض کیامجھے آپ کی حفاظت کے بارہ میں خطرہ ہوا اس لئے پہرہ دینے آیا ہوں۔چنانچہ انہوںنے پہرہ دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے اس رات سوئے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطراف مدینہ میں کچھ مہمات بھجوانے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت سعدؓ کو پہلے حضرت حمزہؓ کے ساتھ ایک مہم میں شرکت کی سعادت عطا ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عبیدہؓ بن حارث کے ساتھ بھجوائی گئی ساٹھ افراد پر مشتمل مہم میں بھی آپؓ شریک ہوئے۔ اس مہم میں ایک موقع پر دشمن نے تیر برسائے تو حضرت سعدؓ کو بھی اپنی تیراندازی کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا۔
غزوہ بدر سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو بیس سواروں پر مشتمل ایک دستہ پر نگران مقرر کرکے خرار کے مقام پر بھجوایا۔ آ پؐ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا ۔اس تجارتی قافلہ کا سارامنافع مسلمانوں کے خلاف خرچ کرنے کے عہد و پیمان تھے۔ پھر معرکہ بدر میں بھی حضرت سعدؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی توفیق ملی۔ وہ بیان کرتے تھے کہ مَیں بدر میں شامل ہوا تو میرے چہرے میں ایک بال کے سواکچھ نہ تھا (یعنی اس وقت حضرت سعدؓ کی صرف ایک بیٹی تھی) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے گھنی داڑھی جیسے بال عطا کئے(یعنی کثرت سے اولاد سے نوازا)۔
حضرت سعدؓ کو بجا طور پر بد رمیں شرکت پر فخر تھا۔ ان کے بیٹے عامر کہا کرتے تھے کہ حضرت سعدؓ مہاجرین میں سے فوت ہونے والے آخری صحابی تھے۔ وفات کے وقت انہوں نے اپنا نہایت بوسیدہ اونی جبہ منگوایا اور فرمایا: مجھے اس میں کفن دینا کہ بدر کے دن مشرکوں سے مٹھ بھیڑ کے وقت میں نے یہی جبہ پہن رکھا تھا اور اس مقصد کے لئے آج تک سنبھال کے رکھا ہوا تھا۔
حضرت سعدؓ نے غزوۂ بدر میں شجاعت و بہادری کے شاندار جوہر دکھائے۔ سردار قریش سعید بن العاص آپؓ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا، اس کی تلوار ذوالکتفہ آپؓ کو بہت پسند آئی۔ ابھی تقسیم غنیمت کا کوئی حکم نہ اترا تھا اس لئے رسول اللہ نے وہ تلوار آپؓ سے واپس لے لی۔ پھر جب سورۃ انفال کی آیات نازل ہوئیں تو آپؐ نے حضرت سعدؓ کو بلا کر وہ تلوار عطا فرمائی۔
حضرت سعدؓ نے اُحد کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں آپؐ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے کی سعادت پائی۔ آپؓ ان معدودے چند صحابہ میں سے تھے جو کفار کے درّہ سے حملہ کے وقت ثابت قدم رہے۔ آپؓ تیر اندازی کے ماہر تھے۔ جب کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدف بنا کر ہجوم کرکے حملہ آور ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ترکش سے حضرت سعدؓ کو تیر عطا فرماتے اور کہتے

اِرمِ َیا سَعدُ فِدَاکَ اَبِی وَ اُمِّی!

یعنی اے سعدؓ تیر چلاؤ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ حضرت علیؓ فرمایاکرتے تھے کہ حضرت سعدؓ ہی وہ سعادت مند ہیں جن کے سوااَور کسی کے لئے میں نے آنحضرتؐ سے اس طرح فِدَاکَ اَبِی وَ اُمِّی کا جملہ نہیں سنا۔ (حضرت علیؓ کی مراد غالباً غزوہ احد سے تھی ورنہ حضرت طلحہ ؓ و زبیرؓ کے بارہ میں بھی نبی کریمؐ نے بعض اور مواقع پر یہ کلمات استعمال فرمائے)۔
غزوہ اُحد میں جب ایک مشرک حملہ آور ناپسندیدہ نعرے لگاتا اور تعلّی کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نبٹنے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت سعدؓ کا ترکش تیروں سے خالی تھا۔ آپؓ نے تعمیل ارشاد کی خاطر زمین پر سے ایک بے پھل کا تیر اٹھایااور تاک کر اس مشرک کا نشانہ لیا۔ تیر عین اس کی پیشانی میں اس زور سے لگا کہ وہ بدحواسی میں برہنہ ہو کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کا یہ انجام دیکھ کر اور اس کے شر سے محفوظ ہوکر نبی کریمؐ خوش ہو کر مسکرانے لگے ۔ غزوۂ اُحد میں دشمنِ اسلام طلحہ بن ابی طلحہ بھی حضرت سعدؓ کے تیر کا نشانہ بنا۔
ابوعثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض جنگوں میں بعض مواقع پر آپؐ کے ساتھ حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ کے سوا کوئی بھی موجود نہیں رہ سکا تھا۔
حضرت سعدؓ فتح مکہ ، حنین اور تبوک کے غزوات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو دشمن کی خبر لانے کے لئے بھجوایا۔ وہ دوڑتے ہوئے گئے اور واپس آہستہ چلتے ہوئے آئے۔ رسول کریمؐ نے وجہ دریافت کی تو حضرت سعدؓ نے عرض کیا کہ واپسی پر مَیں اس لئے نہیں بھاگا کہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ میں ڈر گیا ہوں اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بڑا تجربہ کار آدمی ہے۔
حضرت سعدؓ بجا طور پر اپنی ان خدمات کو ایک سعادت جانتے تھے ۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے اشعار میں بھی کیا ہے۔ ان اشعار کا ترجمہ ہے:
سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا میں نے اپنے تیروں کی نوک سے اپنے ساتھیوں کا دفاع کیا۔ ان تیروں سے میں نے خوب خوب ان کے دشمن کو میدانوں اور پہاڑوں میں پسپا کیا۔ معدّقبیلہ کے کسی قابل ذکر تیر انداز کو مجھ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کی ایسی سعادت عطا نہیں ہوئی۔
فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعدؓ شدید بیمار ہوگئے کہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔آپ مالدار انسان تھے اور اولاد صرف ایک بیٹی تھی، آ پؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنا پورا مال خدا کی راہ میں وقف کرنے کی اجازت چاہی ۔ آپؐ نے فرمایاکہ یہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت سعدؓ نے کہا نصف مال ہی قبول کرلیں۔
رسول اللہ نے وہ بھی قبول نہ فرمایا تو حضرت سعدؓ نے ایک تہائی کی وصیت کی اجازت طلب کی۔ رسول اللہ نے فرمایا: ٹھیک ہے ایک تہائی مال کی وصیت کر دیں اگرچہ یہ بھی بہت ہے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔
اس موقع پر نبی کریمؐ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ نے حضرت سعدؓ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے نتیجہ میں عجب رحمت و برکت کے سامان پیدا فرما دئیے۔ انہوں نے نہایت حسرت بھری اشکبار آنکھوں کے ساتھ عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنے وطن کی جس سرزمین کو خدا کی خاطر ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا تھا اب میں اسی میں خاک ہوجاؤں گا۔ کیا میری ہجرت ضائع ہوجائے گی؟ حضرت سعدؓ کے اس انداز نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دعا کی بے اختیار تڑپ پیدا کردی۔ آپؐ نے ا ُسی وقت بڑے اضطراب سے تکرار کے ساتھ یہ دعا کی

اَللّٰھُمَّ اشْفِ سَعْداً۔

اے اللہ! سعدکو شفا عطا فرما۔ یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ اس کی قبولیت کا علم پا کر نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اے سعد! خدا تجھے لمبی عمر عطا کرے گا اور تجھ سے بڑے بڑے کام لے گا اور تجھ پر موت نہیں آئے گی جب تک کہ کچھ قومیں تجھ سے نقصان اور کچھ فائدہ نہ اٹھالیں‘‘۔ پھر آپ نے یہ دعا کی کہ ’’اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت ان کے لئے جاری کردے‘‘۔ رسول اللہ کی دعا اور پیشگوئی کی برکت سے حضرت سعدؓ نے لمبی عمر پائی اور عراق و ایران کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔
حضر ت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں آپ ہوازن کے عامل رہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایرانیوں سے جنگیں لڑیں اور ان کے اکثر علاقے فتح کئے۔ قادسیہ کے میدان میں ایرانیوں سے تاریخی جنگ میں سپہ سالار رستمؔ اور ہاتھیوں کی زبردست فوج کا مقابلہ کیا۔ حضرت سعدؓ اس وقت عرق النساء کی تکلیف سے بیمار تھے مگر آپ میدان جنگ کے قریب ایک بالاخانے پر رونق افروز ہو کر جنگ میں اپنے قائمقام خالد بن عرطفہ کی رہنمائی فرماتے رہے اور کاغذ پر ضروری ہدایات لکھ کر بھجواتے۔ ایک دفعہ ایرانی ہاتھیوں کا ریلہ حملہ آور ہوا تو قریب تھا کہ بجیلہ قبیلہ کے سواروں کے پائوں اکھڑ جائیں۔ حضرت سعدؓ نے قبیلہ اسد کو پیغام بھجوایا کہ ان کی مدد کرو۔ جب قبیلہ اسدپر حملہ ہوا تو قبیلہ تمیم کوجونیزہ بازی میں کمال رکھتے تھے کہلا بھیجا کہ تمہاری موجودگی میں ہاتھی آگے نہ بڑھنے پائیں۔ وہ اپنے لئے امیر لشکر کا یہ پیغام سن کر اس جوش سے لڑے کہ جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ جنگ کے دوسرے روز شام سے امدادی فوجوں کے پہنچنے سے مسلمانوں کا جوش و جذبہ اَور بڑھ گیا۔ جنگ کے تیسرے روز حضرت سعدؓ نے اپنے چند بہادروں کو حکم دیاکہ اگر تم دشمن کے ہاتھیوں کو ختم کردو تو یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے چند بڑے بڑے ہاتھیوں کو مار ڈالا جس کے نتیجے میں باقی ہاتھی بھاگ نکلے اور یوں بالآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ رستمؔ میدان سے بھاگتا ہوا مارا گیا۔
جنگ قادسیہ کے بعد حضرت سعدؓ نے تما م عراق عرب کو زیر نگین کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس جنگ کے بعد ایرانیوں پر آپؓ کا اتنا رعب طار ی تھا کہ جس علاقہ سے گزرے بڑے بڑے سرداروں نے خود آکر صلح کرلی۔ حضرت سعدؓ نے بابل کو ایک ہی حملہ میں فتح کر لیا۔ پایۂ تخت مدائن کے قریب بہرہ شیر مقام پر کسریٰ کا شکاری شیر مقابلہ پر چھوڑا گیا جسے حضرت سعدؓ کے بھائی ہاشم نے تلوار سے کاٹ کر رکھ دیا۔ یہ قلعہ دوماہ کے محاصرہ کے بعد فتح ہوا۔ اب مدائن پہنچنے میں صرف دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے سب پُل توڑ دیئے تھے۔ تب حضرت سعدؓاپنی فوج کو مخاطب ہوئے کہ اے برادران اسلام! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے، آئو اسے بھی عبور کرجائیں تو فتح ہماری ہے۔ یہ کہا اوراپنا گھوڑا دریائے دجلہ میں ڈال دیا۔ فوج نے اپنے سپہ سالار کی بہادری دیکھی تو سب نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے اور دوسرے کنارے پرجاپہنچے۔ ایرانی یہ غیر متوقع حملہ کو دیکھ کر بھاگے اور معمولی مقابلے کے بعد مسلمانوں نے مدائن فتح کر لیا۔ مدائن کے ویران محلات دیکھ کر حضرت سعدؓ کی زبان پر سورۃ الدخان کی آیات 26 و 27 جاری ہو گئیں۔
فتح مدائن عراق عرب پر تسلط قائم ہونے کی آخری کڑی تھی۔ بڑے سرداروں سے صلح کے بعد تمام ملک میں امن و امان کی منادی کروا دی گئی۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے جلولاء اور تکریت پر اسلامی جھنڈا لہرایا۔ اس سے آگے بڑھنے سے حضرت عمرؓ نے آپؓ کو رو ک دیا اور حکم دیا کہ پہلے مفتوح علاقوں کا نظم و نسق درست کیا جائے۔ حضر ت سعد ؓ نے اس کی تعمیل کی اور نہایت عمدگی سے انتظام سلطنت چلایا ۔ایرانیوں سے اس قدر محبت و الفت اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا کہ ان کے دلوں میں گھر کر لیا۔ بڑے بڑے امراء اس وجہ سے مسلمان ہوئے ۔ دیلمؔ کی چار ہزار فوج جو شاہی رسالہ کے نام سے مشہور تھی حلقۂ بگوش اسلام ہوگئی۔
مدائن میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کے حکم پر فاتح فوج کے لئے سرحدی علاقہ میں ایک نئے شہر کوفہ کی بنیاد رکھی ۔ جہاں مختلف قبائل کو الگ الگ محلوں میں آباد کیا۔ شہر کے وسط میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی۔ کوفہ ایک لاکھ مسلمان سپاہیوں والی ایک فوجی چھاؤنی بن چکا تھا۔ پھر حضرت سعدؓ کے بارہ میں کچھ انتظامی شکایات پیدا ہونے لگیں تو حضرت عمرؓ نے تحقیق کروائی۔ حضرت جریرؓ بن عبداللہ نے حضرت عمرؓ کو تحقیق کے بعد آکر بتایا کہ حضرت سعدؓ اپنی رعایا سے شفیق ماں کی طرح سلوک کرتے ہیں اور عوام کو قریش میں سے سب سے زیادہ محبوب شخصیت ہیں‘‘۔
حضر ت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کے بارہ میں عمرو بن معدی کرب سے (جو ان کے علاقہ سے آئے تھے) رائے لی تو انہوں نے بتایا کہ ’’سعد اپنے خیمہ میں متواضع ہیں۔ اپنے لباس میں عربی ہیں، اپنی کھال میں شیر ہیں۔اپنے معاملات میں عدل کرتے ہیں ،تقسیم برابر کرتے ہیں اورلشکر میں دُور رہتے ہیں،ہم پر مہربان والدہ کی طرح شفقت کرتے ہیں اور ہمارا حق ہم تک چیونٹی کی طرح (محنت سے) پہنچاتے ہیں‘‘۔
حضرت عمرؓ نے الزام کے بے بنیاد ہونے کے باوجود بھی کوفہ کی امارت میں تبدیلی کرنا ہی مناسب سمجھی اور حضرت سعدؓ مدینہ آکر آباد ہوگئے۔ بعد میں حضرت عمرؓ نے دوبارہ ان کووالیٔ کوفہ مقرر کرنا چاہا تو انہوں نے اہل کوفہ کی ناروا شکایات کی وجہ سے معذوری ظاہرکی جو حضرت عمرؓ نے قبول کی اورفرمایا کہ مَیں نے سعد کو ان کی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا تھا اور آئندہ ان کو والی مقرر کرنے میں کوئی روک نہیں۔
حضرت عمرؓ کو آخر عمر تک آپ کی خاطر ملحوظ رہی۔ چنانچہ آپؓ نے جب چھ افراد پر مشتمل انتخابِ خلافت کمیٹی مقرر کی تو اس میں حضرت سعدؓ کو بھی نامزد کیا اور فرمایاکہ اگر سعدؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو ٹھیک ورنہ جو بھی خلیفہ ہوگا وہ بیشک ان سے خدمت لے۔
حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو حضرت سعدؓ دوبارہ کوفہ کے والی مقرر ہوئے اور تین سال یہ خدمت انجام دی۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے مدینہ میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی ۔ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی مگر امور مملکت سے بے تعلق رہے۔ اس زمانہ کی شورش اور جنگوں میں حصہ نہ لیا۔ اسی زمانے میں ایک دفعہ اونٹ چرا رہے تھے۔ بیٹے نے کہا کیا یہ مناسب ہے کہ لوگ حکومت کے لئے زورآزمائی کریںاور آپ جنگل میں اونٹ چرائیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ ’خدا مستغنی اورمتقی انسان سے محبت کرتا ہے‘۔
زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک آزمودہ کار جرنیل ہونے کے باوجود فتنے کے زمانہ میں کنج تنہائی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ کوئی پوچھتا تو فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا جس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا‘۔
امارت کی خواہش نہ تھی۔ حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد آپؓکے بیٹے عمرؓ اور بھائی نے کہاکہ اپنے لئے بیعت لیں اِس وقت ایک لاکھ تلوار یں آپ کی منتظر اور ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’مجھے ان میں سے صرف ایک ایسی تلوا رچاہیے جو مومن پر کوئی اثر نہ کرے صرف کافر کوکاٹے‘۔
آپؓ اس فتنہ کے زمانہ میں گھر بیٹھ رہے اور فرمایا: ’مجھے اس وقت کوئی خبر بتانا جب امّت ایک امام پر اکٹھی ہوجائے‘۔ امیر معاویہ نے بھی آپؓ کو مدد کو بلایا لیکن آپؓ نے انکار کر دیا۔
حضرت سعدؓ بیان کرتے تھے کہ ایک زمانہ تھا جب عسرت اور تنگی سے مجبور ہوکر ہمیں درختوں کے پتے بھی کھانے پڑے اور کوئی چیز کھانے کو میسر نہ ہوتی تھی۔ اور ہم بکری کی طرح مینگنیاں کرتے تھے۔
فتوحات کے بعد پھر آپؓ حکومتوں کے مالک ہوئے اور خدا تعالیٰ نے بھی ان مخلص خدام دین کو خوب نوازا۔ مختلف وقتوں میں نو بیویاں کیں سترہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں ہوئیں۔ غذا اور لباس کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ کبھی تکبر یا غرور پیدا نہیں ہوا بلکہ سپہ سالاری اورگورنری کے اہم مناصب سے سبکدوش ہو نے کے بعد بھی بکریاں چرانے میں تأمل نہیں کیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے حق میں ایک اور دعا مستجاب الدعوات ہونے کے لئے کی تھی کہ ’’اے اللہ سعد جب دعا کرے اس کی دعا کو قبول کرنا‘‘۔ یہ دعا مقبول ٹھہری اور حضرت سعدؓ کی دعائیں بہت قبول ہوتی تھیں۔ لوگ آپؓ سے قبولیت دعا کی امید رکھتے اور بددعا سے ڈرتے تھے۔ عامربن سعد سے روایت ہے ایک دفعہ حضرت سعدؓ نے ایک شخص کو دیکھا جو حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ آپؓ نے اسے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو برابھلا کہہ رہے ہو جن کے ساتھ اللہ کا معاملہ گزرچکا۔ خدا کی قسم تم ان کی گالی گلوچ سے باز آؤ ورنہ میں تمہارے خلاف بددعا کروں گا۔ وہ کہنے لگا یہ مجھے ایسے ڈراتا ہے جیسے نبی ہو۔ حضرت سعدؓ نے کہا: ’اے اللہ! اگریہ ایسے لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے جن کے ساتھ تیرا معاملہ گزر چکا تو اسے آج عبرتناک سزا دے۔‘ اچانک ایک بِدکی ہوئی اونٹنی آئی جس نے اس شخص کوروند ڈالا اور لوگوں نے آپؓ سے کہا کہ اے ابواسحاق! اللہ نے تیری دعا قبول کرلی۔
امارتِ کوفہ کے زمانہ میں جس شخص نے آپ پر جھوٹے الزام لگائے تھے اس کے بارہ میں بھی آپ کی دعا قبول ہوئی اوروہ خدائی گرفت میں آیا۔
آپ مدینہ سے دس میل دُور عقیق مقام پر 70 سال کی عمر میں 55ھ میں فوت ہوئے۔جنازہ مدینہ لایا گیا۔ ازواج مطہرات کی خواہش پر اس بزرگ صحابی کاجنازہ کندھوں پرمسجد نبوی میں لایا گیا اور نماز جنازہ میں امہات المومنین بھی شریک ہوئیں۔ مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔آپؓ جنت البقیع میں دفن ہوئے ۔ آپؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے لمبی عمر پائی اور عشرہ مبشرہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے۔
آپؓ کا علمی پایہ بہت بلند تھا حضرت عمر ؓ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ’جب سعدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کریں تو پھر اس بارہ میں کسی اور سے مت پوچھو‘۔
حضرت سعدؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ خوف خدا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ رات کے آخری حصے میں مسجد نبوی میں آکر نمازیں ادا کرتے تھے۔ طبیعت رہبانیت کی طرف مائل تھی مگر فرماتے تھے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس سے نہ روکا ہوتا تو مَیں اسے ضرور اختیار کر لیتا‘‘۔ نظر بہت تیز تھی ایک دفعہ دُور سے کچھ ہیولا سا نظر آیا تو ہمراہیوں سے پوچھا کیا ہے؟ انہوں نے کہا پرندے جیسی کوئی چیز۔ حضرت سعدؓ نے کہامجھے تو اونٹ پر سوار نظر آتا ہے، کچھ دیر بعدواقعی سعدؓ کے چچا اونٹ پر آئے۔
آ پ بہت نڈر اور جری انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کا اظہار فرماتے۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں میں مال تقسیم کیا اور ایک ایسے شخص کو کچھ عطا نہ فرمایا جو سعدؓ کے نزدیک مخلص مومن تھا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے ٹال دیا جب دوسری یا تیسری مرتبہ سعدؓ نے باصرار اپنا سوال دہرایا کہ یہ شخص میرے نزدیک مخلص مومن ہے اور عطیہ کا حقدار ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ اے سعد! بسااوقات مَیں اُن کو عطا کرتا ہوں جن سے تالیف قلبی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ تب حضرت سعدؓ کی تسلی ہوئی۔
حضرت سعدؓ ان بزرگ صحابہ میں سے تھے جن سے بوقت وفات رسول اللہ راضی تھے۔ رسول کریمؐ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر مدینہ میں ایک خطبہ میں عشرہ مبشرہ کے نام لے کر یہ فرمایا تھا کہ مَیں ان سے راضی ہوں، ان کا مقام پہچانو اور ان سے حسن سلوک کرو۔ ان صحابہ میں حضرت سعدؓ کا نام بھی شامل تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں