حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اپریل 2003ء میں حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت اماں جانؓ کی نیکی کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بہت پابند تھیں اور اس ذوق سے نماز اد اکرتیں کہ دیکھنے والے کے دل میں بھی خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی۔ دعاؤں میں بھی بہت شغف تھا۔
حضرت میاں صاحبؓ فرماتے ہیں کہ صدقہ و خیرات بھی آپؓ کا نمایاں خلق تھا۔ خفیہ اور اعلانیہ لوگوں کی مدد کرتیں۔ کبھی یتیم بچوں کو اپنے مکان پر بلاکر کھانا کھلاتیں اور کبھی اُن کے گھروں پر کھانا بھجوادیتیں۔ ایک بار ایک واقف کار شخص سے پوچھا کہ کیا اُسے کسی ایسے شخص کا علم ہے جو قرض کی وجہ سے قید بھگت رہا ہو تاکہ اُس کی مدد کی جاسکے۔ آپؓ قرض مانگنے والوں کو فراخ دلی کے ساتھ قرض دیتی تھیں لیکن عادی مانگنے والوں کی بُری عادت روکنے کے لئے اُن کو قرض دینے سے پرہیز کرتی تھیں۔ ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے آپؓ سے قرض مانگا۔ آپؓ کے پاس گنجائش نہیں تھی۔ مجھ سے فرمایا: ’’میاں! تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اِسے قرض دیدو، یہ عورت لین دین میں صاف ہے‘‘۔ چنانچہ مَیں نے اُسے مطلوبہ رقم دیدی جو اُس نے عین وقت پر واپس کردی۔
آپؓ کو بے حد محنت کی عادت تھی۔ مَیں نے بارہا آپؓ کو کھانا پکاتے، چرخا کاتتے، نواڑ بنتے بلکہ بھینسوں کو چارہ ڈالتے دیکھا ہے۔ بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہوکر صفائی کرواتیں اور خود لوٹے سے پانی ڈالتی جاتیں۔
کسی احمدی عورت کے متعلق سنتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلاامتیاز غریب و امیر خود جاکر عیادت فرماتیں اور تسلّی دیتیں۔ ان اخلاق فاضلہ کا نتیجہ تھا کہ عورتیں بھی آپؓ سے اپنی حقیقی ماؤں سے بڑھ کر محبت کرتیں اور مشورہ لینے کے لئے چلی آتیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں