حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے بعض شمائل کا تذکرہ اور آخری علالت

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے بعض نمایاں شمائل کا تذکرہ اور آخری علالت کے حالات آپؓ کے فرزند محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 و 21؍مئی 2001ء کی زینت ہیں اور ایک پرانی اشاعت سے منقول ہیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ اباجان کی آخری بیماری کا آغاز جون 1963ء میں ہوا جب آپؓ نگران بورڈ کے ایک اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے۔ ناسازی طبع کے باوجود آپؓ نے کئی گھنٹے تک اجلاس کو جاری رکھا۔ مَیں نے لاہور سے ڈاکٹروں کو ربوہ بھجوایا جن کی تشخیص کے مطابق دل کی تکلیف، ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے علاوہ پراسٹیٹ کی تکلیف بھی معلوم دیتی تھی اور کمزوری اور دیگر بیماریوں کے باعث آپریشن ہونا بھی ممکن نہ تھا۔ جون کے آخر میں آپؓ لاہور تشریف لے آئے تاکہ علاج کے بارہ میں مزید مشورہ ہوسکے۔
چند ماہ سے آپؓ کو متعدد منذر خوابیں اپنی وفات کے متعلق آرہی تھیں جن کی تفصیل نہیں بتاتے تھے اور ہمیں دریافت کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ ڈاکٹر تسلّی دیتے تھے۔ مَیں نے ڈاکٹروں کی رائے آپؓ کو بتائی تو فرمایا: ’’ڈاکٹروں کی رائے پر نہ جانا‘‘۔ پھر ڈاکٹری مشورہ پر آپؓ مری چلے گئے لیکن منذر خواب دیکھنے کی وجہ سے پروگرام سے پہلے واپس لاہور تشریف لائے۔ 24؍اگست کو فرمایا: ’’اب تو چل چلاؤ ہی ہے‘‘۔ میری بہن نے تفصیل پوچھنا چاہی تو فرمایا کہ تفصیل اس لئے نہیں بتلاتا کہ تم لوگ گھبراجاؤگے۔ پھر ایک بزرگ کے نام خط میں یہ تحریر فرمایا کہ آپؓ کی زبان پر حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر جاری ہوا ہے

بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے
آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا

جون میں جب آپؓ کو ربوہ سے لاہور لے جایا گیا تو آپؓ نے اپنی تجہیز و تکفین کے لئے علیحدہ رقم گھر میں دیدی اور پھر لاہور سے مزید رقم یہ کہہ کر والدہ کو ارسال کی کہ میری وفات پر دوست آئیں گے، گھر کے عام دنوں کے خرچ سے زیادہ اخراجات ہوں گے، اس لئے بھجوارہا ہوں۔
پھر ایک روز کسی کو ایسا خط لکھوایا جو ایک قسم کا الوداعی خط تھا۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والے ایک خط کے جواب میں لکھوایا کہ آپ اکتوبر میں پاکستان آئیں گے لیکن اکتوبر میں تو مَیں یہاں نہیں ہوں گا۔
انگلستان کے ایک ماہر ڈاکٹر پاکستان آئے تو اُن کو بھی دکھایا۔ انہوں نے بھی تسلّی دی کہ چھ ہفتے میں آپؓ اپنا معمول کا کام کرسکیں گے اور کوئی وجہ نہیں کہ مزید کئی سال تک باحیات نہ رہیں۔ اُس ڈاکٹر نے بعد میں مجھے بتایا کہ آپؓ توراۃ میں مذکورہ انبیاء کی مانند معلوم ہوتے ہیں۔
اگرچہ ڈاکٹروں کی رائے سے میری طبیعت کچھ مطمئن ہوگئی لیکن اگلے چند روز میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہی بات درست تھی جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ آپؓ کو خوابوں کے ذریعہ دے چکا تھا۔ چنانچہ ایک ہفتے کے اندر ہی نمونیہ کا حملہ ہوا اور پھر ڈاکٹروں کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ آخری دو تین روز غنودگی میں ہی گزرے۔ میری بیوی بتلاتی ہیں کہ آپؓ کی زبان پر اکثر دعائیہ فقرات جاری تھے۔ ایک وقت میں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی سے عربی میں لمبی گفتگو کررہے ہیں۔
مجھ سے آخری ملاقات 31؍اگست کو غنودگی سے پہلے ہوئی اور آپؓ نے مجھے دیکھ کر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’مظفر تم آگئے‘‘۔ میرا کراچی جانے کا پروگرام بھی تھا۔ آپ ؓ کے دریافت کرنے پر مَیں نے بتایا کہ اب نہیں جارہا۔ اس پر فرمایا: ’’یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے‘‘۔ اور پھر یہ فقرہ دہرایا۔
2؍ستمبر کو مغرب کی نماز کے وقت آپؓ کی وفات ہوگئی۔ اُسی وقت ربوہ اطلاع کردی گئی لیکن حضرت مصلح موعودؓ کو عمداً اگلے روز صبح بتایا گیا۔ حضورؓ کو بے حد صدمہ ہوا اور بہت ضبط فرماتے رہے۔ اپنے بچپن کے واقعات کا ذکر فرماتے رہے کہ جب اباجان چھوٹے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کو ’’تُو‘‘ کہہ کر پکارتے تھے تو ایک احمدی دوست نے انہیں ڈانٹا۔ حضرت اقدسؑ کو علم ہوا تو فرمایا: ’’اسے ’’تُو‘‘ کہنے دو، مجھے اس کے منہ سے اچھا لگتا ہے‘‘۔
تدفین سے قبل حضورؓ سے دریافت کیا گیا کہ چہرہ دیکھنا پسند فرمائیں گے تو فرمایا: ’’مجھے اب برداشت کی طاقت نہیں‘‘۔
اباجان کی زندگی کا جو سب سے گہرا اثر مجھ پر ہے وہ یہ کہ آپؓ گھر کی مجالس میں آنحضورﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے واقعات بیان فرماتے تھے۔ سینکڑوں مرتبہ ایسا ہوا اور مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی اس ذکر پر آپؓ آبدیدہ نہ ہوئے ہوں۔
حضرت مصلح موعودؓ سے بہت محبت اور کمال اطاعت کا تعلق تھا۔ ایک مرتبہ حضورؓ میرے ایک بھائی سے ناراض ہوگئے تو اباجان نے ہم سب کو مشورہ کیلئے اکٹھا کیا۔ مَیں نے آپؓ کو پہلی بار روتے ہوئے اُس مجلس میں دیکھا۔ پھر اگرچہ آپؓ نے خود حضورؓ کی خدمت میں کوئی درخواست نہ دی تاکہ انتظامی اور جماعتی معاملات میں مداخلت نہ تصور ہو۔ البتہ میرے بھائی کو بار بار تلقین کرتے کہ حضورؓ سے معافی کی استدعا کرتے رہو۔ خود بھی دعا کرتے اور بعض بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہے۔
حضورؓ کا اباجان سے بہت شفقت کا سلوک تھا۔ اہم کاغذات اور خصوصاً وہ تحریریں جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں، اُن کے مسوّدات اباجان کو بھی دکھاتے۔ اہم فیصلہ جات اور سکیموں پر عملدرآمد کا کام اکثر آپؓ کے سپرد کرکے مطمئن ہوجاتے۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ (المعروف حضرت اماں جانؓ) کا بھی اباجان بہت احترام کرتے تھے۔ قادیان میں آپؓ کا معمول تھا کہ مغرب کے بعد سیدھے اماں جان کے گھر جاتے اور کھانا وہیں کھاتے تھے۔ برادرم مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الثالثؒ) بھی وہاں ہوتے تھے، مَیں بھی اور بعض دفعہ دیگر عزیز بھی شامل ہوجاتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ بھی گھر جاتے ہوئے راستہ میں ٹھہر جایا کرتے تھے اور بیٹھتے کم تھے بلکہ صحن یا کمرہ میں جہاں کھانے کا انتظام ہو، ٹہلتے رہتے تھے اور گفتگو فرماتے جاتے تھے۔ اماں جان اکثر کھانے کی پلیٹ لے کر آتیں اور اباجان کو آواز دے کر کہتیں کہ تمہارے لئے لائی ہوں۔ کبھی صرف میاں کہہ کر بلاتیں، کبھی میاں بشیر اور کبھی صرف ’’بشریٰ‘‘۔ اسی محبت کی یاد میں اباجان نے ربوہ میں اپنے مکان کا نام ’’البشریٰ‘‘ رکھا۔
اباجان کی الماری میں ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا جسے وصیت کے مطابق آپؓ کی وفات کے بعد مَیں نے کھولا۔ اس میں دیگر کاغذات کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دستی لکھے ہوئے خطوط اور چند لفافوں میں کچھ روپے پڑے تھے جو حضرت اماں جانؓ نے بطور عیدی اباجان کو دیئے تھے اور آپؓ نے تبرکاً اُنہیں محفوظ رکھا ہوا تھا۔ بعض ہندوستانی نوٹ بھی تھے جن کو رکھنے کیلئے آپؓ نے اسٹیٹ بنک سے اجازت نامہ لے رکھا تھا۔
ہجرت کے بعد جب اباجان ابھی قادیان میں تھے تو ان خبروں کے آنے پر کہ حکام کسی نہ کسی بہانے آپؓ کو قید کرنا چاہتے ہیں، حضورؓ نے آپؓ کو پاکستان آنے کا حکم دیا۔ بڑے مخدوش حالات میں جب آپؓ لاہور پہنچے تو حضورؓ نے سجدہ شکر کیا اور ننگے پاؤں شوق سے اباجان کا ہاتھ پکڑکر حضرت اماں جانؓ کے پاس لائے اور فرمایا: لیں اماں جان! آپ کا بیٹا آگیا ہے۔
احمدیت کے مستقبل کے متعلق اباجان کو ایسا یقین کامل تھا کہ اکثر مختلف حوالوں سے اس کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ نظام جماعت کا بہت احترام تھا۔ آپ کے عمر بھر کے ایک دوست سے ایک بار حضرت مصلح موعود ناراض ہوگئے۔ اُس دوست نے جب آپؓ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو آپؓ نے فرمایا کہ پہلے حضرت صاحب سے معافی لو، پھر ملوں گا۔
آپ بہت شفیق انسان تھے۔ ہمدردی سے لوگوں کے مسائل کو حل فرماتے۔ اپنے بچوں کو بھی نصیحت فرماتے کہ نافع الناس وجود بنیں۔ تعزیت کے لئے آنے والوں میں ایک غیرازجماعت بھی تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ مَیں کسی مقدمہ میں ماخوذ تھا اور کسی تعارف کے بغیر آپؓ کے دروازہ پر ربوہ چلا آیا۔ آپؓ نے اندر سے پیغام بھجوایا کہ میری طبیعت اچھی نہیں۔ لیکن مَیں نے ملنے کے لئے اصرار کیا تو تھوڑی دیر بعد آپؓ شدید تکلیف کی حالت میں اس طرح تشریف لائے کہ دونوں ہاتھوں سے دیوار کا سہارا لیا ہوا تھا۔ پھر برآمدہ میں بیٹھ کر میری ساری بات سنی اور تسلّی دی۔ ایک غیرمعروف شخص کی خاطر اس طرح چلے آنا، آپؓ کی ہمدردی اور بنی نوع انسان کی خدمت کی ایک مثال ہے۔
آپؓ مجسم دعا تھے، اپنے بچوں کے دوستوں کے لئے ایسے دعا کرتے جیسے اپنے بچوں کیلئے کرتے۔ ہم بچے جب جلسہ وغیرہ پر جاتے تو بہت اہتمام سے ہمارا خیال رکھتے کہ ہمیں شرم آتی۔ فرمایا کرتے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کا تھا، مَیں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں لیکن اصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے جھک کر دعاگو رہتا ہوں۔
جب بھی نصیحت فرماتے تو یہ بات ملحوظ رکھتے کہ اس میں سبکی کا پہلو نہ ہو اور کسی کی خفت نہ ہو۔ اگر کوئی حرکت پسند نہ آتی تو اکثر تفصیل سے خط لکھتے اور نصیحت فرماتے۔فرمایا کرتے کہ دنیوی زندگی کا حصہ ایک ثانوی حیثیت سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرے۔ ہماری والدہ کی سات سالہ بیماری میں بہت خدمت کی توفیق پائی۔ حضورؓ کی بیماری کا بھی گہرا اثر طبیعت پر تھا، دعائیں بھی کرتے اور اس کے جماعتی لحاظ سے بداثرات سے چوکس رہتے۔
بہت حساس طبیعت کے مالک تھے، نفاست اور باریک بینی بھی بہت تھی۔ ہر چیز ایک سلیقہ سے رکھتے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی سے گھبراتے تھے۔ ہر چیز کو تحریر فرماتے اور اس کے چھوٹے سے چھوٹے معاملہ کی علیحدہ فائل کھول کر متعلقہ کاغذات اہتمام سے رکھتے۔ انتظامی قابلیت خدا نے بہت دے رکھی تھی۔ فرمایا کرتے تھے کہ موٹی موٹی باتیں تو ذہن میں آجاتی ہیں لیکن انتظامی ناکامی چھوٹی باتوں کی طرف سے غفلت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ اس قدر محتاط تھے کہ تحریر کو بڑی احتیاط سے دیکھتے تھے اور زبانی ارشاد کو دوسرے سے دہروالیا کرتے تھے۔ آپؓ معاملہ کے بہت صاف تھے۔ تنگی برداشت کرلیتے لیکن قرض سے حتی الوسع بچتے تھے۔ ہر معاملہ میں سیدھی بات پسند تھی۔ لباس سادہ ہوتا (سفید قمیض، شلوار، کھلا لمبا کوٹ اور پگڑی)۔ رہائش میں بھی سادگی اور مشقّت کو ترجیح دیتے۔ طبیعت میں بلند پایہ مزاح بھی تھا۔
علمی تحقیق کا ذوق رکھتے۔ 24 قیمتی کتب اور رسائل اور ’’الفضل‘‘ کے لئے بے شمار مضامین لکھے۔تحریر سادہ مگر دلکش تھی۔ مرکز سے وابستگی رکھتے۔ مرکز سے باہر جانا طبیعت پر گراں گزرتا۔ آخری بیماری میں بھی مرزا منیر احمد صاحب سے فرمایا کہ میرا جنازہ بغیر کسی توقّف کے ربوہ لے جانا۔ چنانچہ ہم رات کو ہی ربوہ لے آئے۔
دو ذاتی دعاؤں پر بہت زور دیتے تھے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے اور دوم یہ کہ انجام بخیر ہو۔ کسی سے ذکر کیا کہ ایک بار جب اس بارہ میں بہت دعا کی اور خدا سے عرض کیا کہ کوئی تسلّی دیدے تو قرآن شریف کی تلاوت کے دوران یکدم موٹی لکھائی میں دو حروف لکھے ہوئے نظر آئے: ’’بغیر حساب‘‘۔
ایک بار بیماری میں ڈاکٹروں نے اباجان کو مشورہ دیا کہ اپنے کام کو کم کردیں۔ لیکن آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تو یہی چاہتا ہوں کہ دین کی خدمت کرتے کرتے انسان جان دیدے۔ چنانچہ پھر سوچ سمجھ کر یہی مشورہ یوں بدل کر دیا گیا کہ تھوڑے عرصہ کے لئے آرام فرمالیں تاکہ پھر تازہ دم ہوکر خدمت کرسکیں۔ اس پر آپؓ نے کچھ عرصہ کے لئے اپنے کاموں کو ہلکا کرلیا۔
آپؓ کی وفات پر کئی ہزار لوگ بیرون از ربوہ سے آئے۔ سینکڑوں تعزیتی خطوط موصول ہوئے۔ بعض نے لکھا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم آج یتیم ہوگئے ہیں۔ بعض نے لکھا کہ آپؓ کی وفات کا صدمہ ہمیں اپنے والد کی وفات سے بھی زیادہ ہوا ہے۔حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’ہماری بہت قریبی اور گہری اور جہاں تک اُن کا تعلق ہے، اُن کی جانب سے بہت ہی مشفقانہ وابستگی 53 سال سے بھی زائد عرصہ جاری رہی۔ اس تمام عرصہ میں کبھی اختلاف یا غلط فہمی کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوا…حضرت صاحب کی علالت ان کے لئے مسلسل دکھ اور ملال کا موجب رہی۔ اس کی وجہ سے اُن کے کندھوں پر عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ آپڑا اور بسااوقات انہیں پریشان کن اور بہت کٹھن حالات سے دوچار ہونا پڑا۔… ان کی جسمانی وفات اُن کیلئے اِس کمر جھکا دینے والے بوجھ سے جسے انہوں نے شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پر لائے بغیر بطیب خاطر دن رات اٹھائے رکھا، خوش آئند رہائی کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں