حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی وفات

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوتے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فرزند (ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان) حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مورخہ 29؍اپریل 2007ء امرتسر ہسپتال میں بعمر 80 سال وفات پاگئے۔
محترم میاں صاحب نے 21 سال کی عمر میں درویشانہ زندگی کا آغاز کیا اور 5؍مارچ 1948ء کی شام پاکستان سے روانہ ہوکر 14 افراد کے ساتھ قادیان پہنچے۔ درویشان قادیان کے لئے وہ زمانہ انتہائی صبرآزما اور غایت درجہ ابتلاء کا زمانہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک جگہ آپ کے بارے میں فرمایا کہ میں نے اپنا ایک بیٹا اس وادی غیر زرعٍ میں بسادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو کام کی توفیق دے۔ چنانچہ آپ نے تاوفات اپنے اس فرض کو خوش اسلوبی اور اولوالعزمی سے نبھایا۔
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جٹؓ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان کی وفات (21 جنوری 1977ء) کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان مقرر کئے گئے۔ اور (12 فروری 1986ء تا 28 جولائی 1986ء کے علاوہ جب محترم ملک صلاح الدین صاحب ناظر اعلیٰ تھے) آپ تا وفات اسی عہدہ پر خدمات سلسلہ بجالاتے رہے۔
آپ یکم اگست 1927ء کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آپ نے بزرگ اساتذہ سے خاص انتظام کے ماتحت دینی علوم حاصل کئے۔ آپ کو صدر انجمن احمدیہ قادیان میں متعدد خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ آپ ناظر دعوت الی اللہ، ناظر تعلیم و تربیت اور صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ(1948ء تا 1981ء) رہے۔ نیز یکم مارچ 1958ء کو قادیان میں وقف جدید کے قیام پر آپ پہلے انچارج وقف جدید بھی مقرر ہوئے۔
آپ نے درویشان قادیان کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کے بہت سے کام کئے، درویشوں سے ذاتی تعلق رکھا۔ بھارت کی جماعتوں کے قیام و استحکام کے لئے متعدد دورے کئے، ان کی تنظیم سازی کی اور جماعتی جلسوں میں شمولیت فرمائی۔ آپ کی قیادت میں دعوت الی اللہ کے ذریعہ بڑی تعداد میں افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ آپ بلند پایہ عالم دین، باکمال مقرر، حلیم الطبع، نرم اور مدبرانہ شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ آپ کو غیروں کی طرف سے بھی بے انتہا عزت اور احترام حاصل تھا، وہ آپ کی بزرگی اور حسن خلق کے مداح تھے۔
زمانہ درویشی میں آپ کی شادی محترمہ سیدہ امۃالقدوس بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ سے ہوئی۔ نکاح 26 دسمبر 1951ء کو ہوا۔ محترمہ بیگم صاحبہ کے علاوہ لواحقین میں آپ نے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا یادگار چھوڑے ہیں۔
آپ کی وفات کے سوگ میں مورخہ 30؍اپریل کو میونسپل کارپوریشن قادیان نے عام تعطیل کا اعلان کیا اور پرائیویٹ سکولز اور کالجز میں بھی چھٹی ہو گئی اور ہندو اور سکھ احباب نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے صدمہ کا اظہار کیا۔ مورخہ یکم مئی کو جنازہ والے دن سارے شہر کی دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے اور انہوں نے دلی رنج اور افسوس کے ساتھ ساتھ اس کا عملی اظہار بھی کیا۔ آپ کی وفات پر پنجاب بھارت کے چیف منسٹر جناب پرکاش سنگھ بادل اور ان کے بیٹے جناب سکھبیر سنگھ بادل اور ایڈیٹر روزنامہ ہند سماچار نے اپنے خصوصی پیغامات ارسال کئے۔ جنازہ اور تدفین کی کارروائی میں جناب پرتاپ سنگھ باجوہ اور دیگر سرکاری عمائدین تشریف لائے۔ ہندوستان کے تمام اخبارات اور نیوز چینلز پر مسلسل خبریں شائع اور نشر کی گئیں۔ مورخہ 2مئی کو ڈی ڈی پنجابی چینل نے حضرت میاں صاحب کے جنازہ اور تدفین کی خبر نشر کی اور ساتھ ویڈیو کلپس بھی دکھائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں