حضرت مصلح موعودؓ اورحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22ستمبر 2010ء میں مکرم منظور احمد خان صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی بعض چشمدید روایات بیان کی ہیں۔
مکرم منظور احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری پیدائش 2؍جون 1924ء کو قصر خلافت قادیان سے ملحقہ ایک گھر میں ہوئی۔ میرے والد حضرت محمد ظہور خان صاحب پٹیالویؓ نے 1905ء میں لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ میرے تایا تھے۔
مَیں اُس خطبہ جمعہ میں موجود تھا جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اپنے مصلح موعود ہونے کا تفصیلی ذکر فرمایا اور پہلی صف میں بیٹھے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بڑے جوش اور رقّت آمیز لہجہ میں کھڑے ہوکر آمنّا و صَدَقْنَا کہا۔ بعد میں پہلا جلسہ مصلح موعودہوشیارپور میں منعقد ہوا جس میں خاکسار شامل نہ ہوسکا۔ پھر لدھیانہ میں دوسرا جلسہ ہوا جس میں مَیں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا۔ اس میں مخالفین نے بہت ہنگامہ کیا اور گالیاں نکالتے رہے۔ جونہی حضورؓ نے اپنی تقریر کا آغاز فرمایا تو شدّت کے ساتھ بارش شروع ہوگئی۔ احباب جماعت تو سائبان سے پانی گرنے کے باوجود اطمینان سے بیٹھے رہے لیکن مخالفین تتّربتّر ہوگئے۔ پھر دہلی میں جلسہ کی تاریخ مقرر ہوئی۔ اس میں شمولیت کا شوق بڑھتا جا رہا تھا لیکن وسائل کی کمی اور چھٹیاں حاصل نہ ہونے کا احساس حائل تھا کیونکہ خاکسار کی ملازمت کو ابھی بہت تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا۔ ایک دن میری ہمشیرہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میری طرف سے دہلی کے جلسہ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرکے کہا کہ جانے کا کرایہ نہیں ہے اور چھٹیوں کا حق بھی نہیں ہے۔ اس پر حضورؓ نے جیب سے ایک روپیہ کے دس سکّے میری ہمشیرہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ بھائی کو دے دینا ، وہ ضرور جلسہ میں جائے۔ (اُس زمانہ میں دہلی کا ایک طرف کا کرایہ پانچ روپیہ تھا)۔ جب مَیں اگلے روز دفتر پہنچا تو ایک سرکلر آیا ہوا تھا کہ جو کارکن دہلی کے جلسہ میں جانا چاہتے ہیں اُنہیں جانے کی اجازت ہے۔
دہلی کے جلسہ کے پنڈال کے باہر مخالفین ڈنڈے اور پتھر لئے کھڑے تھے۔ جونہی حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے تلاوت شروع کی تو ہنگامہ شروع ہوگیا۔ ہمارے اردگرد پتھر گرنے لگے۔ حضورؓ نے خدام کو مقابلہ کرنے سے منع فرمادیا تھا۔ لیکن جب غنڈوں نے عورتوں کی طرف حملہ کرنے کی کوشش کی تو اُس وقت حضورؓ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ خدام کہاں ہیں؟ تب فوری طور پر خدام نے عورتوں کے پنڈال کو گھیرے میں لے لیا اور مستورات کو بحفاظت جائے رہائش پر پہنچادیا گیا۔ بعد ازاں خاکسار لاہور کے جلسہ مصلح موعودؓ میں بھی شامل ہوا۔
1961ء میں مجھے اپنڈکس کی تکلیف ہوئی تو محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے لاہور جاکر آپریشن کروانے کا مشورہ دیا۔ مَیں نے دو بار لاہور جاکر کوشش کی لیکن ہسپتال میں داخلہ ہی نہ ہوسکا۔ ایک روز اسی تکلیف اور پریشانی میں سڑک پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ملاقات ہوگئی۔ احوال عرض کرکے دعا کی درخواست کی۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ میرے کوارٹر کے دروازہ پر آپؓ کے خادم بشیر احمد صاحب نے دستک دی اور مجھے اطلاع کی کہ کل میرے ساتھ لاہور جانے کی تیاری کرلیں۔ چنانچہ اگلے روز مَیں اُن کے ساتھ لاہور میوہسپتال پہنچا۔ وہاں بشیر صاحب سرجیکل ہیڈ کے کمرہ میں پہنچے اور انہیں حضرت میاں صاحبؓ کا خط دیا۔ پھر مجھے لے کر وارڈ میں آئے اور ایک بیڈ پر بٹھادیا۔ کچھ دیر بعد سرجن صاحب نے معائنہ کیا اور عملہ کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اِنہیں ایم ایم احمد کے والد صاحب نے بھیجا ہے اس لئے ان کا خاص خیال رکھنا ہے اور ان کا آپریشن بھی مَیں کروں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بہت آرام سے سارے امور طے کروادیئے اور مَیں خیریت سے واپس ربوہ آگیا۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں