حضرت مصلح موعودؓ کی یادیں

محترم مولوی سیّد فضل عمر صاحب مرحوم بہت دعاگو، تہجدگزار اور خلافت سے محبت رکھنے والے بزرگ تھے۔ آپ کو بطور درویش بھی خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ کی شادی محترمہ سیّدہ رضیہ بیگم صاحبہ سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 9؍فروری 2012ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی یادوں کے حوالے سے مولوی صاحب مرحوم کا محرّرہ ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ:
1944ء میں خاکسار نے اپنے والد محترم سیّد عبدالمنعم صاحب مرحوم (سابق امیر جماعت سونگڑہ) کی خواہش پر زندگی وقف کردی۔ 1945ء میں محترم عبدالرحمن انور صاحب نے خط لکھا کہ انٹرویو کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے پاس حاضر ہوجاؤں۔ مَیں حاضر ہوا۔ دست مبارک کو بوسہ دیا۔ حضورؓ نے سر سے پیر تک دیکھا اور خدمت دین کے لیے قبول فرمالیا۔ یہ تھا انٹرویو۔ تربیت کا آغاز ہوا۔ چند مہینوں بعد مجھے پھوڑے پھنسیاں ہوگئے اور کئی روز تک بخار رہا۔ اس پر ہمارے نائب انچارج نے مجھے گھر چلے جانے کو کہا تو مجھے بہت دُکھ ہوا۔ اورمَیں حضورؓ سے ملاقات کی غرض سے قصرخلافت گیا اور اپنی بیماری حضورؓ سے بیان کی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ آب و ہوا اور خوراک کی تبدیلی کی وجہ سے یہ مرض ہوگیا ہے، انشاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا۔ چنانچہ مَیں نے واپس آکر اپنے نائب انچارج کو حضورؓ کا ارشاد بتادیا تو وہ خاموش ہوگئے۔ خدا تعالیٰ نے حضورؓ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور مجھے شفا دی۔
صوبہ اڑیسہ میں زندگی وقف کرنے والا مَیں پہلا احمدی تھا۔ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے 36سال خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی۔ خاکسار کے والد صاحب صالح پور ہائی سکول کے ہیڈماسٹر رہے ہیں۔ 1941ء میں انہوں نے ایک کتاب ’’Popular History of India‘‘ کے نام سے لکھی تھی جو مَیں نے ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کی۔ حضورؓ نے مطالعہ کرکے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور پوچھا کہ آپ کے والد صاحب نے یہ کتاب قبولِ احمدیت سے قبل لکھی ہے یا بعد میں؟ خاکسار نے عرض کیا کہ وہ پیدائشی احمدی ہیں۔ اسی طرح خاکسار نے اپنے والد صاحب کی کتاب ’’Ahmad of Qadian‘‘ بھی پیش کی۔
ایک ملاقات میں دورانِ گفتگو جب حضرت مصلح موعودؓ نے اڑیسہ کی جماعتوں کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا تو مَیں نے تفصیلی جواب عرض کرتے ہوئے کہا کہ اگر اڑیسہ میں اس طریق سے تبلیغ کی جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے آپ اپنے افسر سے بات کرلیں۔
یہ تھا حضورؓ کا نظام جماعت کی پابندی کا خیال۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں