حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ اور اُن کی نسل پر حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کی شفقتیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23 ستمبر 2010ء میں مکرم ضیاء الدین حمید صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت منشی عبدالرحمن صاحب ؓ کپورتھلوی اور آپ کی نسل پر حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء احمدیت کی شفقتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ آف کپورتھلہ کا تعلق سراوہ ضلع میرٹھ سے تھا۔ آپ کے والد بہت ہی نیک اور ولی اللہ انسان تھے۔ وہ جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو راستہ میں انہوں نے کشف میں دیکھا کہ حضرت امام مہدی پیدا ہوچکے ہیں۔ واپس وطن آکر آپ نے اپنے کشف کا ذکر گھروالوں کے پاس کرتے ہوئے فرمایا کہ کاش مَیں بھی حضرت امام مہدی کا زمانہ پالیتا اور وصیت کی کہ جب حضرت امام مہدی کا ظہور ہو تو آپ لوگ ان کی بیعت کرلینا۔
1857ء کی جنگ کے وقت دہلی اور میرٹھ کے چند خاندان ریاست کپورتھلہ آکر ایک ہی محلہ میں آباد ہوگئے جو ہندوستانیوں کا محلہ کہلاتا تھا۔ اس طرح ان کی آپس میں برادری، لین دین، زبان اور تمدن قائم رہا۔ حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ پہلے تو محکمہ مال میں نائب تحصیلدار تھے پھر جلد ہی آپ کو محکمہ دفاع میں تبدیل کرکے کمانڈر انچیف کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ ان دنوں حضرت محمد خان صاحبؓ ریاست کے ایک بڑے افسر اور سرکاری اصطبل کے انچارج تھے اور تقریباً 400 آدمی ان کے ماتحت تھے۔ سینکڑوں گاڑیاں اور گھوڑے تھے۔ فارغ ہو کر احمدی احباب اُن ہی کے ہاں جمع ہو جاتے اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر ہوتا یا آپؑ کی کوئی کتاب پڑھی جاتی۔ عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں اُن ہی کے ہاں ادا کی جاتیں۔ اور بہت رات گئے احباب اپنے گھروں کو جاتے غرضیکہ یہ تمام لوگ عشق و محبت میں فنا اور آپس میں بے نظیر ہمدردی اور محبت رکھتے تھے۔ اگر کسی دن کوئی شخص نہ آتا تو اس کے گھر پر جا کر خیریت دریافت کرتے۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ کا شمار 313 صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ آپؓ نہایت عبادت گزار ولی اللہ تھے۔ جب لدھیانہ میں حضرت اقدسؑ نے بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے آپ سے لدھیانہ چلنے کو کہا۔ آپ نے فرمایا کہ میں استخارہ کرلوں۔ انہوں نے فرمایا تم استخارہ کرو، ہم توجاتے ہیں۔ چنانچہ دیگر احباب لدھیانہ کو روانہ ہوگئے۔ پہلے حضرت منشی اروڑا صاحبؓ نے بیعت کی۔ پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے بیعت کی۔ حضرت اقدسؑ نے دریافت فرمایا: آپ کے رفیق کہاں ہیں؟ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے عرض کیا: منشی اروڑا صاحب نے بیعت کرلی ہے اور محمد خان صاحب غسل کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نہا کر بیعت کروں گا۔ چنانچہ بعد میں محمد خان صاحب نے بیعت کی۔ جبکہ حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کو استخارہ کرنے پر آواز آئی: ’’عبدالرحمن آجا‘‘۔ چنانچہ دوسرے دن آکر آپؓ نے بھی بیعت کرلی۔ بیعت میں آپؓ کا نمبر 10 واں تھا۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ نے 55 سال ملازمت کی۔ اور اپنی قابلیت کی بِنا پر ایک طویل عرصہ تک ناظر محکمہ جنگی رہے۔ لاکھوں روپے کا حساب کتاب تھا۔ کئی کمانڈر انچیف آئے اور گئے۔ سب آپؓ کی دیانت اور خدمت گزاری کے قدردان تھے۔ آپؓ کی دیانت اور تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ پنشن پانے کے بعد آپؓ نے اپنی ملازمت کا پھر محاسبہ کیا اور پھر ریاست کے وزیراعظم کو لکھا کہ آپؓ سرکاری سٹیشنری سے غریب طلبائ، بچے یا دوست احباب کو وقتاً فوقتاً کوئی کاغذ قلم دوات یا پنسل دیتے رہے ہیں۔ بات یہ تھی کہ محلے کے طلباء بچے یا دوست احباب منشی صاحب سے کوئی چیز مانگ لیتے تھے اور لحاظ کے طور پر آپؓ دے دیتے تھے اور یہ ایک بہت ہی ناقابل ذکر شے ہوتی تھی۔ لیکن آپؓ نے محسوس کیا کہ انہیں ایسا کرنے کا دراصل حق نہیں تھا۔ آپؓ نے وزیراعظم کو لکھا کہ آپ مجھے معاف کردیں تاکہ میں خداتعالیٰ کے رُوبرو جوابدہی سے بچ جاؤں۔ ظاہر ہے وزیراعظم نے ان سے درگزر کیا۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ بوڑھے ہوگئے۔ روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ ایک روز کوئی 40 سال قبل کا ایک واقعہ نظر سے گزرا کہ آپؓ نے کپورتھلہ کے ایک غیراحمدی عجب خان سے مل کر ایک معمولی سی تجارت کی تھی جس کے نفع میں سے بروئے حساب 40 روپے کے قریب آپؓ کے ذمہ نکلتے تھے۔ آپؓ نے یہ رقم بذریعہ منی آرڈر بھجوا دی۔ منی آرڈر وصول ہونے کے بعد وہ اپنی مسجد میں گیا اور لوگوں سے کہا کہ تم احمدیوں کو برا تو کہتے ہو لیکن یہ نمونہ بھی تو کہیں دکھاؤ۔ 40 سال قبل کا واقعہ ہے اور خود مجھے بھی یاد نہیں کہ میری کوئی رقم منشی صاحب کے ذمہ نکلتی ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ صوم و صلوٰۃ اور تہجد کے ہمیشہ پابند تھے۔ بڑھاپے میں بھی پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔سادگی اور خاکساری ان کا طبعی وصف تھا۔ آپؓ نے ایک رسالہ بھی تصنیف کرکے شائع کیا جو ایک مقامی شخص کے اعتراضات کے جواب میں تھا۔ رسالہ کا نام تھا: ’’عبدالرحمن بجواب مسیح قادیان‘‘۔
بعد ازاں حضرت منشی صاحبؓ کپورتھلہ سے ہجرت کرکے قادیان تشریف لے گئے۔ 100 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔
آپؓ کی 4 بیٹیاں اور ایک بیٹا تھے۔ بیٹے (حضرت ڈاکٹر منشی عبدالسمیع صاحبؓ) بھی اپنے والد کے رنگ میں رنگین تھے۔ وہی زہد و تعبد اور فقر و غنا اور سوزوگداز ان میں بھی پایا جاتا تھا۔ جب مسجد احمدیہ کپورتھلہ پر مخالفین نے قبضہ کرلیا اور احمدیوں کو عدالت میں دعویٰ کرنا پڑا تو شہر کے عمائد اور رؤسا مدعا علیہ تھے۔ احمدی چند احباب تھے اور ان کا رسوخ و اثر کوئی نہ تھا۔ مخالفین کو یقین کامل تھا کہ عدالت اُن کے حق میں فیصلہ کرے گی۔ احمدیوں کے راستے تک بند کر دیئے گئے۔ حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ اور آپ کے بیٹے حضرت منشی ڈاکٹر عبدالسمیع صاحبؓ چکر کاٹ کر گھر کو جاتے تھے۔ حضرت حافظ امام الدین صاحبؓ جو مسجد احمدیہ کے امام تھے، کو پیٹا گیا اور گھسیٹا گیا آپ کی پگڑی میں آگ پھینکی گئی۔ گالی گلوچ ایک عام بات تھی۔ بعض آوارہ طبع لوگ راستہ روکے رہتے تھے اور احمدیوں کو ستانا اُن کا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ 7 سال تک یہ مقدمہ جاری رہا۔ اتفاقاً دوران مقدمہ حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ نے لدھیانہ کی ایک محفل میں بڑے عجز کے ساتھ آبدیدہ ہو کر حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ ہم سے مسجد احمدیہ چھن گئی ہے، حضور دعا کریں کہ یہ ہمیں مل جائے۔ حضورؑ نے اس وقت بڑے جلال کے رنگ میں فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں اور میرا سلسلہ سچا ہے تو مسجد احمدیہ تمہیں ضرور ملے گی۔ بالآخر مقدمہ چلا، آخری عدالت کا حاکم بحث سن کر مخالفانہ انداز اختیار کرچکا تھا۔ فیصلہ دینے سے پہلے ہی ایک دن وہ کچہری آنے کی تیاری میں تھا کہ اچانک دل کے دورہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ حضرت ڈاکٹر منشی عبدالسمیع صاحبؓ نے ایک روز پہلے یہ رؤیا دیکھا تھا کہ کسی شخص نے بازار میں آپ سے یہ ذکر کیا ہے کہ اس حاکم کی اچانک موت واقع ہوگئی ہے۔ دوسرے دن من و عن یہ واقعہ ظہور میں آیا۔ پھر جو دوسرا حاکم آیا اُس نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’کپورتھلہ کی مٹی میں خداتعالیٰ نے وہ اثر رکھا ہے کہ یہاں جس قدر لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں کسی دلیل کسی معجزہ کسی نشان کی وجہ سے نہیں ہوئے اور نہ انہیں کسی کشف و کرامت کی ضرورت ہے کہ ان کے ایمان کو قائم رکھے۔ بڑے سے بڑا ابتلا ہو اور کیسا ہی سخت امتحان ہو۔ ان لوگوں پر خدا کا کچھ ایسا فضل ہے کہ ان کا پائے ثبات ذرہ بھی لغزش نہیں کھاتا اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی معجزانہ زندگی کو دیکھ کر آپ کی بیعت ہی نہیں کی بلکہ عشق پیدا کیا‘‘۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ کی روایت ہے کہ جالندھر میں حضرت اقدسؑ خداتعالیٰ کی وحدانیت پر ایک دفعہ تقریر فرمارہے تھے کہ ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس آگیا اور ٹوپی اتار کر حضرت اقدس کو سلام کیا۔ پھر وہ حضرت اقدسؑ کی تقریر سننے کے لئے کھڑا رہا باوجودیکہ اس کے بیٹھنے کے لئے کرسی بھی منگوائی گئی مگر وہ نہ بیٹھا اور یہ عجیب بات تھی کہ وہ تقریر سنتا ہوا سبحان اللہ۔ سبحان اللہ کہتا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ حضورؑ کو سلام کرکے چلا گیا۔ اس کے بعد جب حضورؑ سیر کو تشریف لے جاتے تو وہ راستے میں گھوڑے پر سوار مل جاتا اور گھوڑے کو ٹھہرا کر ٹوپی اتار کر سلام کرتا۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ فرماتے تھے کہ جب طاعون شروع ہوئی تو جماعت کپورتھلہ نے بذریعہ خط حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر حضور اجازت دیں تو ہم قادیان آجائیں۔ حضورؑ نے تحریر فرمایا: نہیں تم اسی جگہ رہو اور کپورتھلہ کو قادیان کا محلہ تصور کرو۔ اس پر حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ نے اپنے ہم وطن حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ کو لکھا کہ وہ سراوہ سے کپورتھلہ آجائیں۔ وہ کپورتھلہ تشریف لے آئے۔ حضرت منشی صاحبؓ نے اُن کو اپنے گھر میں ٹھہرایا اور اپنے بیٹے کی طرح ہی ان کا خیال رکھا اور ملازمت کا انتظام بھی کردیا۔ حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ کا ایک افسر کرنل جوالاسنگھ آپ کو بہت تنگ کرتا تھا۔ اس پر انہوں نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا: عشاء کی نماز کے بعد دو سو مرتبہ لَاحَوْل پڑھا کریں۔ انہوں نے اس پر عمل کیا تو چند ہی دنوں بعد کرنل صاحب کی پنشن ہوگئی اور اُن کی جگہ اُن کا بیٹا آگیا جو حضرت منشی صاحب کی بہت عزت کرتا تھا۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ کے ایک داماد حضرت منشی فضل حق صاحبؓ تھے۔ جب انہیں حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ کے اس واقعہ کا پتہ لگا تو انہوں نے بھی اس پر عمل کیا۔ کیونکہ ان کے خلاف ایک قتل کا مقدمہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی باعزت بری کردیا۔
حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بھی بہت احسانات ہیں۔ آپؓ کی ایک بیٹی آپا امۃاللہ صاحبہ کی شادی کے بعد اُن کے ہاں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ ابھی بچے چھوٹے ہی تھے کہ والد کی محبت سے محروم ہوگئے۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپا امۃاللہ صاحبہ کی شادی دوسری جگہ کروا دی اور بچوں کو حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے سپرد کر دیا کہ آپ اور (حضرت نواب) مبارکہ بیگم صاحبہؓ ان بچوں کی پرورش کریں تو یہ یتیم بچے نوابوں کے گھر پل کر بڑے ہوئے۔
اسی طرح حضرت منشی عبدالرحمن صاحبؓ کی ایک دوسری بیٹی آپا ہاجرہ صاحبہ کے خاوند بھی شادی کے چند سال بعد دو بچیاں بعمر آٹھ سال اور چھ سال چھوڑ کر فوت ہوگئے۔ اُن کی بڑی بیٹی محترمہ سراج بی بی صاحبہ کا بیان ہے کہ میرے والد صاحب کا جب انتقال ہوا تو رشتہ داروں کے ناواجب سلوک سے زندگی سخت تنگ گزرنے لگی تھی۔ آخر ایک نیک دل خاتون میری والدہ اور دونوں بہنوں کو حضرت سیدہ امّ طاہر صاحبہ کے ہاں چھوڑ آئی۔ انہوں نے میری والدہ کو اپنے ہاں کھانا پکانے کے لئے رکھ لیا۔ اس طرح ہم تینوں کو حضرت مصلح موعودؓ اور حضورؓ کے بیوی بچوں کی خدمت کا موقعہ مل گیا اور صرف خدمت کا ہی موقعہ نہیں بلکہ ہمیں ایک مشفق باپ مل گیا جو اپنے سگے باپ سے کہیں زیادہ بہتر باپ تھا۔ جس سے ہم نے روحانی و جسمانی دونوں طرح کی غذائیں حاصل کیں۔ حضورؓ کا سلوک ہمارے ساتھ بالکل اپنے بچوں کا سا تھا۔ آپ کی محبت اور شفقت بے مثال تھی۔ ہم دونوں بہنیں تعلیم حاصل کرنے سکول بھی جاتی رہیں اور جس طرح حضورؓ کے بچوں کو پڑھانے ماسٹر آتے تھے، ہم بھی اُن سے فائدہ اٹھاتیں۔ جس طرح گھر میں صاحبزادیوں کو سلائی کڑھائی سکھائی اُسی طرح ہمیں بھی سکھائی۔ غرضیکہ ہم دونوں بہنوں کو ہر طرح کی سہولت حاصل تھی۔حتیٰ کہ ہمیں اپنا گھر، اپنا باپ اور اپنے رشتہ دار سب کچھ بھول گیا۔
حضرت سیدہ امّ طاہرؓ کی ہدایات کے مطابق میری والدہ حضور کا کھانا پکاتی تھیں اور ہم دونوں بہنیں کھانا پیش کرتی تھیں۔ حضور کھانا بہت ہی کم کھاتے تھے۔ بمشکل دو پھلکے۔ اگر چاول پکے ہوتے تو ساتھ دو چار لقمے چاولوں کے کھالیتے۔ کھانا کھانے کے دوران حضور اخبار بھی پڑھتے رہتے یا ڈاک دیکھتے رہتے تھے۔ کوئی وقت بھی حضور کا ایسا نہ ہوتا کہ حضور جماعتی یا دینی کاموں سے فارغ ہوتے۔ حضور کھانا کھا کر نماز پڑھانے کے لئے تشریف لے جاتے تو بارہا راستہ میں عورتیں اپنے رقعے دیتیں۔ حضور راستہ میں ہی پڑھ کر ان کا جواب عنایت فرما دیتے۔ کسی نے بچے کا نام رکھوانا ہوتا تو وہ بھی اسی وقت تجویز فرما دیتے۔
حضور کا معمول تھا کہ صبح کی نماز کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے اور جب اٹھتے تو اخبار الفضل آپ کے لئے آچکا ہوتا تھا۔ حضور اٹھتے ہی الفضل کامطالعہ فرمانے لگ جاتے۔ بعض خطوط بھی آئے ہوتے ان کے بھی اسی وقت جواب عنایت فرما دیتے۔
ایک مرتبہ جبکہ حضورؓ شملہ میں تشریف فرما تھے۔ اوپر کی منزل میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رہتی تھیں اور نیچے کی منزل میں حضور کی بیگمات و بچگان اور دفتر کا عملہ رہتا تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ دھوبی وقت پر کپڑے نہ لایا تھا اور گھر سے بھی کوئی دھلی ہوئی پگڑی نہ نکلی تو حضورؓ خود اپنی پگڑی دھونے بیٹھ گئے۔ حضرت سیدہ ام طاہر نے بہت اصرار کیا کہ لائیں میں دھودوں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ میں کسی ناراضگی کی وجہ سے یہ کام نہیں کررہا بلکہ اس لئے دھو رہا ہوں کہ ہمارے پیارے آقا حضرت رسول کریمؐ بھی خود اپنے ہاتھ سے اس قسم کے کام کیا کرتے تھے۔
اسی طرح حضورؓ کو متعدد مرتبہ اپنے رومال خود اپنے ہاتھ سے دھوتے اور سردیوں میں کمرے کی بڑی انگیٹھی میں کوئلے اور لکڑی وغیرہ لا کر ڈالتے دیکھا ہے۔ خادمات سامنے کھڑی ہوتی تھیں لیکن حضورؓ ان سے نہ کہتے۔ شملہ میں جس طرح اپنی بچیوں کو تماشہ دیکھنے بھیجا۔ اسی طرح ہم دونوں بہنوں کو بھی ساتھ بھجوایا اور روپے بھی دیئے کہ بازار سے کچھ نہ کچھ خرید لینا۔ قادیان میں حضورؓ اپنے دفتر یعنی قصرخلافت میں ہی دن اور رات گزارتے تھے اور نیچے دفتر کا عملہ ہوتا تھا تاکہ جلد ہر کام سرانجام پائے۔ ہمارے پیارے آقا کی مہربانیاں اپنی جماعت کے لوگوں سے، یتیموں سے، بیواؤں سے، دردمندوں سے یکساں تھیں۔ حضورؓ نے صرف اپنی جماعت کے بے سہارا لوگوں کے ساتھ ہی شفقتیں نہیں فرمائیں بلکہ میرے سامنے ہندو عورتیں اپنا وظیفہ لینے آیا کرتی تھیں جوکہ حضور نے اپنے پاس سے مقرر کیا ہوا تھا۔ حضور نے ہم دونوں بہنوں کے نکاح پڑھائے۔ ہمیں اپنے گھر سے باری باری رخصت کیا۔ ہر قسم کے تحفہ تحائف دے کر خاص طور پر اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے عطروں کی شیشیاں عنایت فرمائیں۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ یہ واقعات لکھتے لکھتے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ یاد آگئے۔ یہ عاجز ایک دن جب حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو سردی بہت تھی اور کمرہ بہت ٹھنڈا تھا۔ حضور انگیٹھی میں خود لکڑیاں رکھ کر آگ لگانے لگے۔ لکڑیاں کچھ گیلی تھیں اس لئے آگ نہیں لگ رہی تھی۔ عاجز نے عرض کیا حضور میں آگ سلگائے دیتا ہوں حضورؒ نے فرمایا تم کرسی پر بیٹھ جاؤ میں خود آگ سلگاؤں گا۔
خاکسار کی والدہ مریم بیگم، جو حضرت منشی ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب کی بڑی بیٹی اور حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کی پوتی تھیں، 1901ء میں پیدا ہوئیں تو آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ انتقال کر گئیں۔ پھر میری والدہ کی پرورش بھی اُن کی پھوپھی آپا ہاجرہ صاحبہ نے کی۔ حضرت مصلح موعودؓ کا یہ بھی احسان تھا کہ آپا ہاجرہ کی لے پالک اِس تیسری بیٹی کا بھی سارا بوجھ برداشت کیا۔ 1917ء میں میرے والد صاحب جو کہ کشمیر میں مربی سلسلہ تھے سے شادی بھی کردی۔ نکاح حضورؓ نے خود پڑھا اور رخصتی بھی آپؓ نے خود کی۔ حضرت والد صاحبؓ بھی کپورتھلہ کے رہنے والے تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ 1902ء میں آپؓ نے حضرت اقدسؑ کی بیعت کی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں