حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ اور سر سید احمد خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27 جولائی 2009ء میں مکرم احمد طاہر مرزا صاحب کا تاریخی حقائق پر مبنی ایک طویل مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی اور سر سید احمد خان کے باہمی روابط کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
برصغیر کی سرکردہ شخصیات میں سر سیّد احمد خان کا نام و کام نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ سیالکوٹ کے ایک جوشیلے نوجوان مولوی عبدالکریم صاحب بھی اپنی جوانی کی عمر (قریباً 1875ء) میں اُن کے مرید ہوگئے۔یہ سلسلہ 13 سال تک یوں جاری رہا کہ انہوں نے سرسیّد احمد خان صاحب کی کوئی تحریر پڑھے بغیر اور کوئی لیکچر سُنے بغیر نہیں چھوڑا۔ اگرچہ سیّد صاحب موصوف کے مقالات و مضامین کی تعداد سینکڑوں میںہے۔
حضرت مولاناعبدالکریم صاحب شروع میں سرسیّد احمد خان صاحب کے ہم خیال یعنی نیچری تھے اور انہی کے زیر اثر آپ کی طبیعت میں کچھ نیچریت پائی جاتی تھی مگر حضرت اقدس مسیح موعود کی غلامی میں آنے کے بعد آپ سے نیچریت کا رنگ دُھل گیا اور آپ
فنا فی اللہ ہوگئے۔ اگرچہ آپؓ سر سیّداحمد خان صاحب کی قومی خدمات کی بدولت بعد میں بھی ان کی مالی تحریکات میں حصہ لیتے رہے۔ چنانچہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی روئیدادوں میں چوتھے سالانہ اجلاس منعقدہ 1889ء اور آٹھویں سالانہ اجلاس 1893ء میں علی الترتیب یہ اندراج موجود ہیں کہ: مولوی عبدالکریم صاحب مدرس بورڈ سکول سیالکوٹ نے 5 روپے اور 2 روپے دئیے۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ سے حضرت مولوی صاحبؓ کی پہلی ملاقات کسی ایسی ہی کانفرنس میں ہوئی تھی۔
حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ’’20 فروری 1886ء میں ابتدائََ اور 12 مارچ 1897ء میں ثانیاً یعنی بذریعہ اشتہار ایک پیشگوئی شائع کی تھی۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سید احمد خان کے۔سی۔ایس۔آئی کو کئی قسم کی بلائیں اور مصائب پیش آئیں گی۔چنانچہ ایسا ہی ظہور میںآیا کہ اول تو اخیر عمر میں سید صاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا اور پھر قوم مسلمان کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ جو ان کی امانت میں تھا اُن کا ایک معتمد علیہ شریر ہندو خیانت سے غبن کرکے ان کو ایسا صدمہ اور ہمّ و غم پہنچاگیا جس سے اُن کی تمام اندرونی طاقتیں اور قوتیں یک دفعہ سلب ہوگئیں اور جلد انہوں نے راہِ عدم دیکھا۔‘‘ (نزول المسیح)
25 مارچ 1898ء کو سرسید احمد خاں صاحب نے انتقال کیا۔ اس موقعہ پر اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان نے اپنے ایک تفصیلی مضمون میں یہ بھی لکھا:
’’سید صاحب کے کان میں ایک آسمانی معلم کی صدا متواتر اور متعدد مرتبہ خاص طورپر پہنچی۔مگر افسوس ہے کہ وہ اس سے استفادہ نہ کرسکے اور وہی مغربی فلسفہ اور یورپی تہذیب ان کیلئے ٹھوکر کاباعث ہوگئی۔گو یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ انہوں نے اس ایمان کے منادی کرنے والے(حضرت مسیح موعود۔ مرتب)پر تکفیر اور سبّ و شتم کی بوچھاڑ نہیں کی۔جیسی نام کے علماء نے کی۔مگر ہمیں اس میں بھی کلام نہیں کہ ناصح مشفق کی باتوں کی طرح اُس نے اُس کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ اور باوجود اس کے انہوں نے وہ مبارک زمانہ پایا جس کی آرزو ہزارہا ابرار کرتے چلے گئے تھے۔مگر اس فلسفہ بے معنی کی تقلید انگریزیت کی ہوا نے ان کو محروم ہی رکھا۔جس کے لئے سید صاحب کی حالت پر رہ رہ کر افسوس آتا ہے۔ اور سب سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ متعدد مرتبہ امام الوقت نے اس کو آسمانی منادی سنائی مگر وہ کان رکھتے ہوئے بھی نہ سن سکے۔
…بالآخر سید صاحب کے لئے دعا کہ خدا ان کواپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پسماندوں کو صبر جمیل اور ان کے ہم خیال لوگوں کوصداقت کی راہوں کی پیروی کی توفیق دے۔آمین‘‘
(الحکم قادیان27مارچ و 6؍اپریل1898ء ص11تا13)
سرسید احمد خان صاحب کے ساتھ حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ بھیروی اور حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی آخر عمر تک رابطے میں رہے۔ چنانچہ سرسید احمد خان نے علی گڑھ سے8مارچ1897ء کو حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں لکھا:
’’ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ جاہل پڑھ کر جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتا ہے مگر اور ترقی کرتا ہے تو فلسفی بننے لگتا ہے۔پھر ترقی کرے تو اسے صوفی بننا پڑتا ہے۔جب یہ ترقی کرے تو کیا بنتا ہے؟ سر دست میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔افسوس کہ سوال آخر کو آپ نے لاجواب چھوڑ ا۔ مگر مَیںان بزرگوں کا دیکھنے والا ہوں جو وحدت شہود کے مقر اور وحدت وجود میں ساکت تھے۔اس لئے اس کا جواب اپنے مذاق کے موافق عرض کرتا ہوں۔ جب صوفی ترقی کرتا ہے تو مولانا نورالدین ہوجاتا ہے۔‘‘
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے سر سید احمد خان صاحب کے عقائد کی بابت لکھا ہے:
’’سید احمد خان صاحب نے (خدا تعالیٰ اُن کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے)جو کچھ دعا اور وحی اور الہام و رؤیا اور حقیقت کتاب اللہ کے متعلق لکھا ہے بالکل سطحی اور یورپ کے خشک فلسفیوں کے نقش ِ قدم کی پیروی یا اُنہی کی تالیفات کے با للفظ ترجمے ہیں۔ اُنہوں نے مُنہ زور Materialists اور فلسفیوں کے تیر باراں سے ڈر کر اپنی اُن پھونس کی ٹٹیوںمیں پناہ تو لے لی مگر ان کی تحقیقات کا نتیجہ سخت قابل افسوس ہوا۔ ان انکاروں یا تحریفوں یا تسو یلوں کی وجہ سے اُن کے اور اُن کے انفاس کی قدر کرنے والوںکے پاک تعلقات خدا تعالیٰ سے نہ رہے اور اتباع کی توفیق اس گروہ سے چھن گئی ۔ میرا خیال ہے کہ نیک نیتی نے ناواقفیت علم نبوت کی تاریکی میں اُن سے یہ حرکات سرزد کروائیں ۔وہ اپنے زعم میں سچے مذہب کی طرف دفاع کرتے تھے۔… مَیں اس بارہ میں یہ دکھاناچاہتا ہوں اور محض خداتعالیٰ کے دین کے اعلاء اور مرسل اللہ کے اِبراء کے لئے معارف و حقائق قرآنیہ خدا تعالیٰ نے مخصوصاً ہمارے مسیح موعود اور آپ کے اتباع کو عطا کئے ہیں اور اغیار ان میں قطعاً شریک نہیں۔ اور سید صاحب مرحوم کی تفسیر نے ایک خشک عقلی کتاب یا ایک سطحی دینی کتاب کے سِوا اللہ تعالیٰ کی بے نظیر کتاب قرآن کریم کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔…
میرے دل میں ہر وقت یہ تڑپ رہتی ہے کہ وہ ذوق اور بصیرت امور دین میں جو اس برگزیدہ خدا (حضرت مسیح موعودؑ) کے فیضان صحبت سے مجھے حاصل ہوئی ہے۔ خشک فلسفہ یا نیچریت کے دلدادہ اور زہد رسمی اور تقشف عادی کے خوکردہ بھی اس طرف توجہ کریں اور محظوظ ہوں ۔ میں نے تئیس برس تک سیّد صاحب کی تصانیف کو پڑھا اور خدا تعالیٰ خو ب جانتا ہے کہ سیّد صاحب کے ہم آواز ہونے کے ایام میں مَیں منافق یا مقلد نہ تھا۔ میرے احباب خوب جانتے ہیں کہ اخلاص اور سرگرمی سے ان خیالات کی تائید کرتا۔ اور عالم السر والعلن گواہ ہے کہ اُس وقت نیّت نیک اور رضائے حق مطلوب تھی۔ مارچ 1889ء میں حضرت مسیح موعودؑ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ 1891ء میں آپ کی پاک صحبت میں علوم و حقائق مجھ پر منکشف ہوئے کہ میرے سینہ کو لوث اغیار سے دھو ڈالا۔ اپنے ذاتی تجربہ اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ سیدصاحب مرحوم کے مذہبی خیالات خدائے ذوالعجائب کے پانے کی راہ میں خطرناک روک ہیں۔ کاش وہ جو اس زہر سے ناواقف ہیں اور شیر شیریں کی طرح اسے مزے لے لے کر پی رہے ہیں ،ایک تجربہ کار کی سنیں ۔میں نے دونوں راہیں خوب دیکھی ہیں اس لئے مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں ایک ناصح شفیق ہادی کی صورت میں ناواقفوں کو آگاہ کروں کہ ضلالت سے بچ جائیں ۔…‘‘ (لیکچر: حضرت مسیح موعودنے کیا اصلاح اور تجدید کی۔ بار اول ۔قادیان:انوار احمدیہ، 1900ء)
ایک ایسا شخص جو سرسیّد احمدخان صاحب مرحوم کا سولہ سترہ سال عین جوانی کی عمر سے مرید رہا ہواور ان کی تحریر و تقریر کاایک شوشہ و نقطہ اس کی نظر سے اوجھل نہ ہؤا ہو۔ توناگہاں چند ماہ میں آخر وہ کیا چیز اس نے حاصل کرلی کہ تئیس سالہ رفاقت و عقیدت ِقدیمی و دائمی کو یکلخت خیر باد کہہ دیا۔ اس بارہ میں اکتوبر 1899ء میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی نے حضرت مسیح موعودؑ کی موجودگی میں ایک خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ مجھے ہوش کے زمانہ سے یہی شوق دامنگیررہا کہ خدا کی رضا کی راہیں حاصل کروں اور میری بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو یہی رہی ہے کہ کسی طرح اپنے مولیٰ کریم کو راضی کروں۔ حضرت مولانا نورالدین صاحب سے مجھے اللہ تعالیٰ نے ملادیا۔اور اس طرح مجھے دین کی طرف اور قرآن کریم سے معارف اور حقائق کی طرف توجہ ہوئی مگر باایںہمہ بعض اخلاق ردّیہ کی اصلاح نہ ہوئی اور طبیعت معاصی کی طرف اس طرح جاتی جیسے ایک سرکش جانور بے اختیار دوڑتا ہے اور قابو سے نکل جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف مَیں نے حضرت مولانا صاحب کے منہ سے سنے اور بہت فیض اٹھایا لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کیا بات تھی جس سے روح میں ایک بیقراری اور اضطراب محسوس ہوتا تھا اور سکون اور جمعیت خاطر جس کے لئے صوفی تڑپتے ہیں میسر نہ آتی تھی۔
ابھی میں سترہ یااٹھارہ برس کی عمر کا سادہ لڑکا تھا کہ سیّد صاحب کے خیالات کے پڑھنے کا مجھے موقع ملا یعنی ’تہذیب اخلاق‘ جو سیّد کے خیالات اور معتقدات کا آئینہ تھا۔ میں اسے شروع اشاعت سے پڑھنے لگا اور تیس برس کی عمر تک اس میں متوغل رہا۔ سیّد صاحب کے قلم سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا اِلّا ماشاء اللہ جو میں نے نہ پڑھا ہو۔ ان کی تفسیر کو بڑے عشق سے پڑھتا۔ برابر بیس بائیس برس کا زمانہ تھوڑا نہیں ایک بڑی مدت ہے اس عرصہ میں بھی میری روح کو طمانیت اور سکینت حاصل نہ ہوئی اور وہی اضطراب اور بیقراری دامنگیر رہتی بلکہ بعض بعض اوقات میں اپنی تنہائی کی گھڑیوں میں ہلاک کرنے والی بے چینی محسوس کرتا اور میں آخر اس نتیجہ پر پہنچتا کہ ہنوز اگر خدا تعالیٰ کو خوش کیا ہوتا اور واقعی خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہوگیا ہوتا تو ضرور تھا کہ سکینت اور طمانیت کا سرد پانی میرے ابلتے ہوئے کلیجہ کو ٹھنڈا کرتا۔ اس خیال سے تردّد، تذبذب اور پریشانی اَور بھی بڑھتی گئی۔
میرے مخدوم مولوی (نورالدین بھیروی) صاحب بھی سیّد صاحب کی تصانیف منگواتے لیکن صفات الٰہی کے مسئلہ میں ہمیشہ سیّد صاحب سے الگ رہے اور میں ان کے ساتھ ہوکر بھی سیّد صاحب کی ہربات کی پچ کرتا اور کبھی مولوی صاحب مجھ سے الجھ بھی پڑتے مگر میرے اس جنّ کے نکالنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ’’فتوحات ابن عربی‘‘ اور امام غزالی کی ’’احیاء العلوم‘‘ کو میں نے کئی بار پڑھا اور خوب غور اور تدبر سے پڑھا مگر میں سچ کہتا ہوں کہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کاہی معاملہ رہا۔
یہاں تک کہ حضرت مولوی نورالدین کے طفیل سے امام الزمان، نورمرسل اور خلیفۃ اللہ کی صحبت نصیب ہوئی۔ چونکہ مولوی صاحب کے ساتھ ایک خاص محبت اور ان پر اعلیٰ درجہ کا حسن ظن تھا سو میں نے مان لیا مگر وہ بصیرت اور معرفت نصیب نہ ہوئی۔ مارچ 1889ء کا ذکر ہے کہ حضرت امام نے بیعت کا اشتہار شائع کیا اور مولوی صاحب لدھیانہ تشریف لے گئے اور مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ مَیں صاف کہوں گا کہ میں اپنی خوشی سے نہیں گیا بلکہ زور سے ساتھ لے گئے۔ ان دنوں میں بیعت کرنے کا اوّل فخر مولوی صاحب کو ہوا۔ مگر میں اس وقت بھی اَڑ گیا اور روح میں بیّن کشائش اور سینہ میں انشراح نہ دیکھ کر رُکا رہا۔ مولوی صاحب کے اصرار اور الحاح سے بیعت کرلی۔
یہ سچا اظہار ہے شاید کسی کو فائدہ پہنچے۔ اس کے بعد مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دل و روح میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ 1890ء میں مسیح موعود کے دعویٰ کا اعلان ہوا اور اُس سال کے آخر میں حضور نے مجھے خط لکھا کہ میں ’ازالۂ اوہام‘ تصنیف کررہا ہوں اور بیمار ہوں، کاپیاں پڑھنی، پروف دیکھنے، خطوط لکھنے کی تکلیف کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جس طرح بن پڑے آجائیں۔ ادھر سے مولوی نورالدین صاحب کا خط آیاکہ حضرت کو تکلیف بہت ہے لدھیانہ جلدی جاؤ۔ اس وقت میں مدرسہ میں مدرس تھا۔ وہاں سے رخصت لے کر لدھیانہ پہنچا۔
مَیں اقرار کرتا ہوں کہ ہنوز دنیا اور ہوائے دنیا سے میرا دل سیر اور نوکری سے قطعاً بیزار نہ ہوا تھا۔ اور جو دس پندرہ روپے ملتے تھے انہیں غنیمت سمجھتا تھا اور عزم تھا کہ اختتام پر پھر اس سلسلہ کو اختیار کرون گا۔ مگر جب میں تین ماہ تک حضرت اقدس کی صحبت میں رہا تو مَیں نہیں جانتا کہ وہ خیال اور وہ آرزو کدھر گئی۔ اس قسم کے خیالات سے میری روح کو صاف کردیا گیا اور میرا سینہ دھو دیا گیا اور اندر سے آواز آئی کہ تُو دنیا کے کام کا نہیں۔ اور پھر نہ واپس نہ استعفیٰ ۔ خدا تعالیٰ نے دنیا کی دلدل سے مجھے بالکل نکال دیا۔ اور اب تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی میری روح جدائی گوارا نہیں کرتی۔ اور اگر میں اب یہاں سے چند روز کے لئے کہیں جاتا ہوں تو دل کی آرزو کے خلاف مجبوراً پکڑا جاتا ہوں۔
غرض پھر مجھے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑا ایمان جس کو سیّد احمد خان کے خیالات سے اقتباس کیا تھا وہ روح کو تقویٰ وطہارت بخشنے والی اور سچی سکینت دینے والی شے نہ تھی۔وہ ایک فلسفیانہ اور خواب ہائے پریشان کا سرجوش ایمان یا جذبہ تھا۔ ان خیالات پر غور کرنے سے میری روح تڑپ گئی ہے اور جسم پر لرزہ پڑگیا ہے کہ میں کبھی جس کو صراط مستقیم سمجھتا تھا وہ خدا سے دُور ڈالنے والی خطرناک راہ تھی۔ خدا گواہ ہے کہ ان خیالات کے متعلق حضرت اقدس سے کبھی کوئی مباحثہ نہیں ہوا بلکہ صرف اس کے منہ سے پاک باتیں سنتا رہا اور صفات الٰہی اور قرآن کریم کی عظمت اور خوبیوں کے تذکرے سنتا رہا۔ پھر آپ کی زندگی اور تعلیم وعمل نے بتایا کہ خدا کا متصرف اور زندہ ہونا اور متکلّم خدا ہونا نہ کسی پہلے زمانہ میں تھا بلکہ اب بھی اسی طرح پر وہ حیی، قیوم، متکلّم اور متصرف خدا ہے۔
میرے دوستو! ایک ہی انسان ہے جس کی صحبت میں آج گناہ سے نفرت، خدا سے الفت، رسول سے الفت پیدا ہوسکتی ہے۔ اور اس کو اس لئے بیان کیا ہے تاکہ میرے دوستوں اور بھائیوں کو فائدہ اور دوسروں کو سبق ملے۔ (الحکم قادیان 31؍اکتوبر 1899ء )
ایک مامور من اللہ اور ایک نیچری و ظاہری عالم میں کیا فرق ہوتا ہے اور انجام کار کون کامیاب ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کی درج ذیل قلبی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’مَیں دہلی، پٹیالہ لدھیانہ، امرتسر ،سیالکوٹ، کپورتھلہ اور جالندھر کے سفروں میں ساتھ رہا ہوں۔ کیا کیا ناگوار امور ان موقعوں پر پیش آئے اور اس اسداللہ غالب نے کس بے التفاتی سے انہیں دیکھا۔ میں حلفاً کہتا ہوںمجھے انہی اداؤں نے اور کہیں کا نہیں رکھا۔ ہر روز قوم ناسپاس کی طرف سے ایک دل دکھانے والی بات تحریراً تقریراً واقع ہوجاتی ہے مگر مامور الٰہی کے قدم میں ذرا لغزش پیدا نہیں ہوتی۔ برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں عام حالت انسانوں کی یہی ہے کہ ذرا سے تکدّر اور خفیف نامرادی کے پیش آنے پر حواس میں خلل آگیاہے، کام چھوٹ گیا ہے ،کھانے پینے میں فرق آگیا، ہاضمہ بگڑ گئی ہے۔ گھر میں بولتے ہیں تو سڑی کی طرح۔ اِسے گھور اُسے مار۔ غرض سب تانابانا ہی اُدھڑ جاتا ہے۔
مرحوم سرسید کالج کے ایک مالی نقصان کے بعد کیسے گرے کہ کمر ہی ٹوٹ گئی اور ایک کوتاہ نظر Materialist کی طرح ثابت کر دیا کہ بتِ تدبیر ہی کی ساری پرستاری تھی جو کچھ تھی۔ جب تقدیر کے حضرت محمود نے سومنات کو توڑا تو ساتھ ہی آپ بھی ٹوٹ گئے اور ایک لحظہ کے لئے بھی اس پاک استقامت نے ان کا ساتھ نہ دیا جو انبیاء و صلحاء و مامورین کا خاصہ غیر منفکہ ہے۔ … مَیں بھی اُس ایجوکیشنل کانفرنس میں جو علیگڑھ کالج میں منعقد ہوئی تھی موجود تھا جب سید صاحب نے کمال یاس سے قوم کا جنازہ پڑھ دیا تھا۔ ممکن ہے کہ ایمان باللہ اور صفات الٰہیہ سے بے خبر شخص ان امور کو نہ سمجھے اور مجھے سید صاحب پر بیجا اعتراض کرنے کا ملزم بنائے مگر حقائق الٰہیہ ایمانیہ سے واقف سمجھ سکتا ہے کہ ساری نبوتوں اور امانتوں اور ولایتوں کی جان اور کامیابیوں کی کلید استقامت ہے۔اور اس کی جڑھ حقیقت میں وہ ایمان و یقین ہے جو ایک راستباز کوخدا کے کلمات اور اس کے وعدوں پر ہوتا ہے… مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہی وہ استقامت ہے جو مسیح موعود کے دعویٰ کو دن بدن زور و قوت اور شوکت میں بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ کیا یہ کوئی پوشیدہ بات ہے کہ 1890ء میں دعویٰ اور بینات کی کیا صورت تھی اور آج کیا صورت ہے۔‘‘ (الحکم قادیان 10جولائی1899ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں