حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ

حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ سے پہلے کے ساتھی اور معتقد تھے۔ بااصول شخص تھے۔ بے خوف اور نڈر احمدی تھے۔ ہر شخص کو تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ سچے عاشق رسولﷺ اور پاک فطرت انسان تھے جو اپنے علاقہ میں ایک خاص اثر رکھتے تھے۔آپؓ کے پڑنواسے مکرم لطیف احمد طاہر صاحب نے روزنامہ الفضل ربوہ 19 جنوری 2012ء میں حضرت مولوی صاحبؓ کی سیرت بیان کی ہے۔
حضرت مولوی فتح الدین صاحب اندازاً 1860ء میں دھرم کوٹ بگہ تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی لیکن علم کے شوق میں دیگر طلباء سے پڑھنے لگے۔ جب کتاب فتوح الغیب پڑھی تو کسی ولی کی صحبت اختیار کرنے کا شوق دامنگیر ہوا۔ تلاش شروع کی تو ایک دن یہ خبر ملی کہ ایک بزرگ قادیان میں خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں اور ایک کتاب براہین احمدیہ تیار کررہے ہیں۔ چنانچہ چند دوستوں کے ہمراہ آپ قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضورؑ نے آپ کو ایک ذکر کرنا بتلایا کہ فجر کی نماز کے بعد یہ ذکر چلتے پانی کے کنارے پر پڑھا کرو:

یَا مُقَلِّبُ الۡقُلُوۡبِ ثَبِّتۡ قَلۡبِیۡ عَلیٰ دِیۡنِکَ۔

پھر قادیان آنے کا سلسلہ چل پڑا تو آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور کبھی دھرم کوٹ بگہ بھی تشریف لائیں۔ حضور اقدسؑ نے فرمایا کہ اگر خدا نے چاہا تو ہم تمہارے پاس آویں گے۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد حضرت مسیح موعودؑ مع حضرت منشی حامد علی صاحبؓ و محمد اسماعیل صاحبؓ پیدل چلتے ہوئے دھرم کوٹ بگہ عصر کے وقت تشریف لائے۔ مولوی صاحبؓ نے بادام کی گریاں اور مصری حضورؑ کی خدمت میں پیش کی اور نماز حضرت مسیح موعودؑ کے پیچھے پڑھی گئی۔ رات کے وقت ایک سکھ سردار کے ساتھ حضورؑ نے قرآن شریف اور باوانانک صاحب کے متعلق چند باتیں کیں۔ پھر فرمایا کہ سردار تو مسلمان ہو گیا ہے اور دوسرا نہایت معتقد حضرت صاحب کا ہوا۔ صبح کھانا کھاکر حضرت اقدسؑ کتاب براہین احمدیہ کا دوسرا حصہ چھپوانے کے واسطے یکّہ پر امرتسر تشریف لے گئے۔ حضرت مولوی فتح الدینؓ فرط اُلفت سے بھوکے پیاسے یکّہ کے ساتھ دوڑتے ہوئے بٹالہ تک پہنچ گئے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ تم نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ آپؓ نے عرض کی: حضور نہیں کھایا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ روپیہ مولوی صاحب کو دے دو۔ چنانچہ حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نے چار آنے آپ کو دیئے جس سے آپ نے کھانا کھایا۔
حضرت اقدسؑ کے دھرم کوٹ بگہ تشریف لے جانے کے متعلق حضرت سردار فضل حق صاحبؓ نے بیان فرمایا کہ جب وہ جوان تھے اور مشن سکول بٹالہ میں تعلیم پاتے تھے تو اُن دنوں مولوی فتح الدین صاحب حضرت مرزا صاحب سے ملا کرتے تھے۔ مذہب کے متعلق دہریت کے خیالات سردار صاحب موصوف نے مولوی صاحب سے ذکر کئے تو مولوی صاحب نے یہ باتیں حضرت اقدسؑ سے قادیان جاکر بیان کیں۔ حضرت اقدسؑ نے کچھ فرمایا تو مولوی صاحب نے سردار صاحب کو وہ باتیں فرمائیں۔ اس طرح کچھ عرصہ تبلیغ پیغاموں کے ذریعہ ہوتی رہی۔ مگر چونکہ سردار صاحب رئیس زادہ تھے اور مولوی صاحب ادنیٰ زمیندار تھے اس لئے مولوی صاحبؓ کا یا تو اثر نہ پڑتا تھا یا حضرت اقدسؑ کے زبانی دلائل کو پہنچا نہ سکتے تھے۔ آخرحضرت مسیح موعودؑ نے یہ مناسب سمجھا کہ خود ان سکھ رئیس زادوں کو تبلیغ کرنے کے لئے دھرم کوٹ تشریف لے جائیں۔ چنانچہ ایک دن حضورؑ دھرم کوٹ پہنچ گئے اور سردار صاحب اور ان کے بڑے بھائی سردار جیون سنگھ اور ان کے والد صاحب سے مولوی فتح الدین صاحب کے مکان پر ملاقات کی جس میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ان سکھ نوجوانوں کی اُس وقت کی قابلیت کے مطابق یہ دلائل بیان کئے کہ جو مکانات انسان بناتے ہیں جب تک اُن کا کوئی نگران اور مرمت کرنے والا نہ ہو قائم نہیں رہ سکتے مگر زمین، چاند سورج ستارے اپنا اپنا مفوضہ کام برابر باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ ان کی نگرانی کون کرتا ہے اور کون ان کو قائم رکھے ہوئے ہے؟ پس وہی جو اِن کا خالق ہے وہی ان کا نگران ہے ۔ اگر کوئی نگران نہ ہو تو یہ دنیا درہم برہم ہوجائے۔
اُس وقت حضرت اقدسؑ کا کوئی دعویٰ نہ تھا۔ حضرت کی اس ملاقات کے بعد سردار صاحب کو دیگر مذاہب کی تحقیق کا شوق ہو گیا اور حضرت اقدس بذریعہ ترسیل کتب اور خط و کتابت ان کی مدد کرتے رہے۔ آخر سردار صاحب ایک طویل عرصہ بعد قریباً چالیس برس کی عمر میں 1898ء میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
حضرت مسیح موعودؑ کو احیاء دین کے لئے جو مضطربانہ تڑپ تھی اس کے اظہار کا مشاہدہ حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ نے بھی اپنی آنکھوں سے کیا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں کئی مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بیقراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ جیسے کے ماہی بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکرمند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود کی وہ حالت جاتی رہی۔ صبح میں نے پریشانی میں ہی اس واقعہ کا حضور سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی؟ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: میاں فتح الدین! کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہوجاتی ہے اور یہ درد ہے جو ہمیں اس طرح بیقرار کردیتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی ہدایت پر حضرت مولوی صاحبؓ نے تفسیر قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا اور معانی یاد کرنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ہی حدیث کی کتب کا بھی مطالعہ شروع کر دیا اور ہر ایک ہفتہ میں حضور کی قدم بوسی کرتے رہے۔ اس عشق میں حضرت اقدسؑ کی روشنی سے آپ کو علم لدُنّی حاصل ہو گیا۔ اسی اثنا میں حضورؑ نے دعویٰ مسیح موعود کا کیا تو آپؓ نے بھی بیعت کرلی۔
قبول احمدیت کے بعد آپؓ کا علم تبلیغ میں وقف ہونے لگا۔ دعویٰ کے ثبوت میں قرآن و حدیث سے لوگوں کو تلقین کرتے رہتے۔ اور اپنی مساعی کا تذکرہ حضورؑ کی خدمت میں عرض کرکے راہنمائی لیتے رہتے۔ چنانچہ یکم نومبر 1902ء کی ڈائری میں لکھا ہے: حضرت اقدس حسب دستور سیر کے لئے نکلے۔ تمام راہ مولوی فتح الدین صاحب حضرت اقدس کے مخاطب رہے۔ حضرت اقدس بار بار ان کے ذہن نشین یہ امر کراتے رہے کہ مباحثات میں ہمیشہ دیگر طریق استدلال کو چھوڑ کر اس طریق کو اختیار کرنا چاہئے کہ قرآن شریف مقدّم ہے اور احادیث ظن کے مرتبہ پر ہیں۔ قرآن شریف سے جو امر ثابت ہو اس کو کوئی حدیث خواہ پچاس کروڑ ہوں ہرگز ردّ نہیں کرسکتیں۔ چونکہ اس گفتگو میں میاں فتح الدین صاحب بھی بعض اوقات احادیث سے اپنے استنباط جوکہ انہوں نے اپنی منظوم کتاب میں درج کئے ہیں حضرت اقدس کو سناتے رہے۔ پھر مولوی صاحب نے کہا کہ ہم لوگ بڑے خطاکار ہیں کئی فاسد خیال آتے رہتے ہیں اور طاعون کا زور ہورہا ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ میں یہ یقیناً جانتا ہوں کہ جس کو دل سے خداتعالیٰ سے تعلق ہے اُسے وہ رسوائی کی موت نہیں دیتا۔
اخبار البدر میں ایک اشتہار یوں شائع ہوا: میاں فتح الدین صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ حضرت اقدس کے ایک مخلص خادم کی تصنیف جو کہ غالباً 200 صفحہ کی کتاب ہوگی زیر طبع ہے۔ حیات و وفات مسیح اور احمدی سلسلہ کے متعلق بحث مناظرہ کے لئے پنجابی زبان میں عمدہ تصنیف ہوگی۔ ہر ایک حدیث اور آیت اور اقوال سلف کے حوالہ سے اس میں شرح دیئے ہیں۔ پنجاب کے دیہات وغیرہ میں وعظ کے لئے ہر احمدی ممبر کو اپنے پاس رکھنی چاہئے۔
حضرت مولوی صاحب کو بسااوقات مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا مگر آپ استقلال کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھتے۔ بیوی بچوں کے نان نفقہ اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ خانگی امور کی طرف توجہ رکھنے پر بھی مجبور تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک مرتبہ اپنے ایک دورہ کی رپورٹ میں لکھا: 2 مارچ 1909ء کی صبح کو عاجز دھرم کوٹ بگہ میں پہنچا جہاں ایک معقول تعداد احمدی برادران کی ہے اور ایک بڑی عمدہ مسجد بھی ان کے قبضہ میں ہے۔ اس مقام کے احمدیوں کا لیڈر مولوی فتح الدین صاحب کو سمجھنا چاہئے جو کہ بہت ہی ہوشیار اور پُرجوش احمدی ہیں۔ باوجود کثرتِ اشغال کے ہر وقت تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں اور بہت مدلّل گفتگو کرتے ہیں۔ اُنہیں کی کوشش سے خداتعالیٰ نے اس قدر آدمیوں کو اس جگہ حق کی طرف رجوع دیا ہے۔ کوئی تیس سال کا عرصہ گزرا ہوگا جبکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ بھی اس جگہ ایک دفعہ مولوی فتح الدین صاحب کی درخواست پر تشریف فرما ہوئے تھے۔ اس جگہ کے احمدی اگر ہمت کریں اور اردگرد کے احمدیوں کو بھی ساتھ ملا کر مولوی فتح الدین صاحب کے واسطے کچھ گزارے کی صورت مقرر کرکے ان کو خدماتِ دینی کے واسطے بالخصوص فارغ کردیں اور ایک مدرسہ دینی بنا دیویں تو مجھے امید ہے کہ اکثر لوگ حق کی طرف رجوع کریں۔
حضرت شیر محمد خان صاحبؓ (بیعت 1897ء یکے از درویشان قادیان) بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی خدابخش جٹ ساکن مندراں والہ اس غرض سے ایک مجمع کے ساتھ قادیان آیا کہ وہ حضرت صاحب سے یا مولوی نورالدین صاحب سے مناظرہ کرے گا۔ ہم نے حضورؑ کے پاس جا کر عرض کیا کہ حضور! وہ مولوی کہتا ہے کہ میں آپ سے یا مولوی نورالدین صاحب سے مناظرہ کروں گا۔ تو حضور نے فرمایا کہ مولوی فتح الدین ہی اس کے لئے کافی ہیں۔ اُن کو جا کر کہہ دو کہ مولوی فتح الدین صاحب سے مناظرہ کرلو۔ لیکن وہ مولوی نہ مانا۔
حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ بہت ہی مخلص، ہمدرد، نرم مزاج، دعا گو، صوم و صلوٰۃ کے پابند اور صابر و شاکر وجود تھے۔ آپ بے حد محبت کرنے والے اور ہر کسی کی فکر دل و جان سے کرتے تھے۔ آپؓ کے دل میں حضرت مسیح موعودؑ کے لئے غیرمعمولی محبت اور غیرت تھی۔ چونکہ آپ کا زیادہ وقت تبلیغ میں گزرتا تھا اس لئے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ حضرت شیر محمد خانؓ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ ایک شخص منشا نمبردار نے حضرت صاحب کی شان میں بے ادبی کی تو ہم چند دوستوں نے اُس کو روکا۔ مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر فساد کی صورت پیدا ہوگئی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم مولوی فتح الدین کو قتل کر دیں گے مگر اس وقت مولوی صاحب قادیان گئے ہوئے تھے۔ جب آپؓ واپس دھرم کوٹ پہنچے تو یہ تجویز ہوئی کہ حفظ امن کی نالش کی جاوے۔ فریقِ مخالف نے بھی دعویٰ دائر کردیا۔ آخر گورداسپور جا کر منشا نے مولوی صاحب سے صلح کرلی۔ پھر ہم حضرت صاحب کے پاس آئے تو آپؑ نے دریافت کیا کہ مقدمہ کا کیا ہوا تو مولوی صاحب نے کہا کہ راضی نامہ کرلیا ہے۔ حضورؑ یہ سن کر خوش ہوئے کہ بہت اچھا۔ فساد مٹ گیا۔
حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ راہوں ضلع جالندھر (بیعت 1902ء ) نے ایسے شعراء کی فہرست شائع کروائی تھی جو وقتاً فوقتاً حضورؑ کی مجلس میں حضورؑ کی اجازت سے اپنی نظمیں سناتے تھے۔ اس فہرست میں حضرت مولوی صاحبؓ کا نام پانچویں نمبر پر درج تھا۔
10 مارچ 1908ء کو بوقت سیر حضورؑ نے دینی ضروریات کے لئے چندوں کے متعلق فرمایا: کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ دس بیس آدمی بیعت نہ کرتے ہوں۔ اب اس طرح سے بیعت کے رجسٹروں کی تعداد میں تو روزافزوں ترقی ہے مگر یہ رجسٹر (یعنی باقاعدہ چندہ دہندگان کا) اپنی اسی حالت پر ہے۔ اس میں کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوتی۔ اصل وجہ یہی ہے کہ لوگ بذریعہ خطوط بیعت کرتے ہیں یا اس جگہ بیعت کرتے اور چلے جاتے ہیں۔ مگر ان کو ضروریاتِ سلسلہ سے مطلع کرنے کا کوئی کافی ذریعہ نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں مولوی فتح الدین صاحب بھی اس کام کے واسطے موزوں ہیں۔ آدمی مخلص دیانتدار ہیں اور یوں ان کی کلام بھی موثر ہے۔ ان کی پنجابی نظم جو اس ملک کی مادری زبان ہے اور جسے لوگ خوب سمجھتے ہیں وہ بھی اچھی موثر ہے۔ ہمارے خیال میں ان کے ذریعہ سے دعوت و اشاعت کا کام بھی ہوتا رہے گا اور چندہ کی وصولی کا بھی باقاعدہ انتظام ہوجاوے گا۔
حضرت مولوی صاحبؓ موصی تھے۔ ابتدائی تین سو موصیان کی فہرست میں آپ کا اور آپ کی اہلیہ کا وصیت نمبر 22 درج ہے۔ آپؓ نے 27 جولائی 1920ء کو بعمر60 سال وفات پائی۔ اس موقع پر اخبار الحکم نے یہ بھی لکھا کہ مولوی فتح الدین صاحب جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خادم اور رفیق ایک قابل عالم اور مناظر احمدیت تھے۔ جماعت احمدیہ میں ان کا وجود بہت ہی نافع سمجھا جاتا تھا بہت سی پنجابی کتابوں کے مصنف تھے۔ شعراء میں اعلیٰ پایہ کے شاعر تھے۔ مرحوم کا جنازہ قادیان لایا گیا۔ نماز جنازہ حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ آپؓ کی ایک بیٹی مختاراں بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ مربی ماریشس کے ساتھ پڑھایا تھا۔ حضرت حافظ صاحبؓ اپنے بچوں سمیت ماریشس بھجوا دیئے گئے۔ اُن کی وفات ماریشس میں ہوئی اور وہیں دفن ہوئے۔ حضرت مختاراں بیگم صاحبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں