حضرت چودھری محمد خان صاحبؓ وڑائچ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2011ء میں حضرت چودھری محمد خانصاحبؓ وڑائچ نمبردار (آف شیخ پور وڑائچاں ) کے بارہ میں اُن کے بیٹے مکرم نصیر احمد وڑائچ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت چودھری محمد خان صاحبؓ وڑائچ نے فروری 1942ء میں 65 سال کی عمر میں وفات پائی تھی۔ گویا قریباً 1877ء میں آپؓ پیدا ہوئے۔ آپ کے دوستوں میں ایک حضرت میاں میراں بخش صاحب تھے جن کے بیٹے حضرت ڈاکٹر محمد علی صاحبؓ نے افریقہ سے (جہاں وہ بسلسلہ کاروبار مقیم تھے) اُن کو خط لکھا کہ قادیان میں کسی نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے آپ خود جاکر مجھے وہاں کے حالات لکھیں ۔ لیکن اُنہوں نے بیٹے کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی بلکہ خط کا جواب بھی نہ دیا۔ اڑہائی تین ماہ بعد محترم ڈاکٹر صاحب نے ایک اور خط میں اپنے قبول ِ احمدیت کی اطلاع دی اور لکھا کہ آپ قادیان جاکر ضرور حضورؑ سے ملاقات کریں ۔ چنانچہ میاں صاحب قادیان تشریف لے گئے اور بیعت کرکے واپس لَوٹے۔ آپؓ نے بتایا کہ جب مَیں قادیان پہنچا تو حضورؑ کے دربار میں مجلس لگی ہوئی تھی۔ حضورؑ لوگوں کے مختلف سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ یہ جواب سُن کر تسکین ہوتی گئی۔ تاہم سارا وقت حضورؑ کی نگاہ نیچے ہی رہی۔ اس پر میرے دل میں خیال گزرا کہ خدا کا رسول نابینا نہیں ہوسکتا۔ اس خیال کا آنا تھا کہ حضورؑ نے اپنا چہرہ اُس طرف کیا جدھر مَیں بیٹھا تھا اور پوری آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا۔ حضورؑ کی آنکھیں اتنی موٹی اور خوبصورت تھیں کہ مَیں اپنی سوچ پر اپنے اندر ہی اندر سخت شرمندہ ہوا۔ پھر شرح صدر سے بیعت کرلی اور تین دن قادیان میں گزار کر واپس آیا اور بیٹے کو شکریہ کا خط لکھ کر اپنے احمدی ہونے کی اطلاع بھی دی۔
حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ نے جب اپنے دوستوں کو تبلیغ شروع کی تو اپنے دوست محمد خان صاحب نمبردار کو قادیان جانے کے لئے تیار کرنے لگے۔ لمبا وقت گزر گیا جس کی وجہ یہ تھی محمد خان صاحب کو دنیاداری غالب تھی۔ نمبرداری بھی تھی اور نہایت بارسوخ اور مصروف آدمی تھے۔ اپنے پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کی وجہ سے برادری اور علاقہ کے کاموں سے فرصت نہ تھی۔
قریباً 1905ء میں محمد خان صاحب نے اپنے گاؤں موضع شیخ پور میں حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ اور آپؓ کے فرزند حضرت ڈاکٹر محمدعلی صاحبؓ سے حیات و وفات مسیح کے موضوع پر مناظرہ کے لئے ایک عالم کو فتح پور سے بلایا۔ تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
مناظرہ کے کچھ روز بعد احمدی باپ بیٹے نے محمد خان صاحب کو اپنے پاس بٹھاکر بہت محبت اور درد سے احمدیت کے بارہ میں سمجھایا تو اس کا آپ پر بہت اثر ہوا اور اس کے بعد آپ نے تحقیق شروع کردی۔ جب تسلّی ہوگئی تو گاؤں کے دو دیگر افراد کے ساتھ قادیان کے لئے روانہ ہوئے۔ تاہم یہ بتادیا کہ مَیں بیعت کرنے نہیں جارہا صرف دیکھنے جا رہا ہوں ۔ یہ قافلہ جب امرتسر پہنچا تو وہاں چند مخالفین نے بتایا کہ صبح فنانشل کمشنر قادیان گیا ہے تاکہ مرزا صاحب کو گرفتار کرکے لے آئے۔ اس پر یہ لوگ وہاں انتظار کرنے لگے۔ آخر ایک یکّہ بان سے (جو احمدی نہیں تھا) اس بارہ میں پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ تو درست ہے کہ فنانشل کمشنر قادیان گیا ہے لیکن یہ صریح غلط ہے کہ وہ مرزا صاحب جیسی ہستی کو گرفتار کرسکے اور ان کو اس طرح پر لائے کیونکہ ان کی غلامی تو بڑے بڑے عقلمند اپنے لئے باعثِ فخر خیال کرتے ہیں ۔ یہ سُن کر تینوں قادیان کی طرف چل پڑے۔
قادیان پہنچ کر یہ تینوں مسجد مبارک میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی مجلس میں شامل ہوئے۔ پھر کسی نے محمد خان صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے حضورؑ کی زیارت کی ہے؟ جواب نفی میں تھا تو وہ مجبور کرکے آپ کو اپنے ہمراہ لے گئے اور اجازت لے کر حضور علیہ السلام کے حضور حاضر ہوگئے۔ اگرچہ آپ کا ارادہ تھا کہ اس بار صرف زیارت کرنی ہے اور ابھی بیعت نہیں کرنی۔ لیکن جب آپ کو خدمتِ اقدسؑ میں حاضر ہونے کی اجازت ملی تو آپ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ حضرت صاحب پلنگ پر بیٹھے ہیں اور نیچے ایک چھوٹی سی چارپائی پر مفتی محمد صادق صاحب بیٹھے کوئی کام کررہے ہیں ۔ مَیں نیچے بیٹھنے لگا تو حضرت صاحب نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ یہاں (میرے پاس) بیٹھ جاؤ۔ پھر بھی حجاب تھا اس لئے مفتی صاحب کے پاس بیٹھنے لگا تو انہوں نے کہا کہ حضور اپنے پاس بیٹھنے کو کہتے ہیں ۔ مَیں حیران تھا کہ پیر تو اپنے پاس کسی کو بٹھاتے نہیں ، یہ کیوں مجھے اپنے پاس بٹھاتے ہیں ۔ آخر بیٹھ گیا۔ حضرت صاحب کو دیکھنے کا ارادہ کیا لیکن چمک روحانی اور رعب کی وجہ سے اوپر نہ دیکھ سکا۔ دوبارہ کوشش کی تو دیکھا کہ اونچا ناک، کشادہ پیشانی۔ علاماتِ مہدی ٹھیک نظر آئیں ۔ عرض کی کہ بیعت کرنی ہے۔ فرمایا : کچھ دن ٹھہر جائیں ۔ مَیں نے اصرار کیا تو بیعت لے لی۔
حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ اور حضرت چودھری محمد خان صاحبؓ وڑائچ دونوں ہی بہت بااثر تھے چنانچہ ان کے قبول احمدیت کے بعد شیخ پور وڑائچاں میں ایک بھاری جماعت قائم ہوگئی۔محترم چودھری صاحبؓ کے بھائیوں نے بھی احمدیت قبول کرلی۔
محترم چودھری صاحب بہت قربانی کرنے والے وجود تھے اور گنتی کے بغیر مٹھیاں بھر کر چندہ دیا کرتے تھے۔ آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ سردار بی بی صاحبہ دونوں تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں