حضرت ڈاکٹر عمرالدین صاحبؓ افریقی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اکتوبر 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے ایک مضمون حضرت ڈاکٹر عمرالدین صاحب ؓ افریقی آف گولیکی گجرات کے بارہ میں شامل اشاعت ہے۔ آپ بسلسلہ ملازمت افریقہ میں متعین تھے جہاں آپ کو احمدیت کا پیغام پہنچا اور احمدیوں کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر آپ نے احمدیت قبول کرلی۔
حضرت ڈاکٹر عمرالدین صاحب ولد مکرم محمد بخش صاحب قوم پسوال 28جولائی 1879ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد تقریباً 1900ء میں ملازمت کے لیے افریقہ پہنچے۔ دعا کے نتیجہ میں دو خوابوں کے ذریعے راہنمائی حاصل ہوئی تو 30؍ جون 1905ء کو بذریعہ خط بیعت کرلی اور 1907ء میں قادیان حاضر ہوکر دستی بیعت و زیارت کا شرف پایا۔ آپ کو نیروبی (کینیا) میں بطور محاسب، سیکرٹری وصایا، سیکرٹری ضیافت، ممبر انتظامیہ کمیٹی اور پریذیڈنٹ مختلف شعبوں میں خدمت دین کی توفیق ملی۔
جب آپؓ دل میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا شوق لئے افریقہ سے روانہ ہوئے تو نذرانہ کے طور پر چار شتر مرغ کے انڈے بھی لے لئے۔ جب اپنے وطن گجرات پہنچے تو اپنے والد اور بھائی کو سلسلہ کا شدید مخالف پایا۔ پھر ان کی ہدایت کے لئے ہر نماز میں رو رو کر دعائیں شروع کیں تو والد اپنے چند دوستوں کے ہمراہ جلسہ سالانہ پر جانے کے لئے راضی ہوگئے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہم 1907ء کے جلسہ سالانہ پرپہنچے۔ جہاں کئی لوگ ملاقات کے انتہائی منتظر تھے۔ دو سال سے میری دلی آرزو تھی کہ حضرت اقدس کی ملاقات کا موقعہ تنہائی میں میسر آئے جو بات بنتی نظر نہ آتی تھی۔ میں نے مسجد مبارک کے نیچے گلی میں کسی بھائی سے کہا کہ میں دُور دراز ملک سے آیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس سے تنہائی میں ملاقات ہو جاوے آپ مجھے کوئی طریقہ بتادیں۔ انہوں نے فرمایا اس دروازہ میں ایک مائی بوڑھی حضرت اقدس کی خادمہ اکثر آتی جاتی ہے اس سے کہیں، ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ وہ خادمہ نظر آگئی۔ میں نے بھاگ کر اُن سے درخواست کی تو مائی صاحبہ نے نہایت شفقت اور خوشی سے کہا کہ ذرا ٹھہرو میں آتی ہوں۔ وہ جاتے ہی واپس آگئی اور خوشخبری سنائی کہ حضرت اقدس نے بلایا ہے۔ میں بھاگ کر اپنے والد صاحب اور دوسرے چند غیر احمدی دوستوں کو بلا کر لے آیا۔ جب حضرت اقدسؑ نے باہر آکر سلام کہا تو میرے والد حضورؑ کے قدموں پر گر پڑے۔ حضورؑ نے از راہ کرم اپنے دست مبارک سے ان کو سر اٹھا کر کہا کہ سجدہ کے لائق ذات باری ہی ہے۔ پھر اس عاجز نے شتر مرغ کے چار انڈے بطور نذرانہ پیش کیے جو حضورؑ نے از راہ کرم منظور فرمائے اور نہایت شفقت اور محبت سے میرے افریقہ رہنے اور سفر وغیرہ کے حالات دریافت کیے اور میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ اس دنیا میں دل نہیں لگانا چاہئے اور یہ کہ اپنے آپ کو اس مسافر کی حیثیت میں سمجھنا چاہئے جیسے کوئی مسافر خانہ میں ٹکٹ لے کر گاڑی کا انتظار کر رہا ہو اور مجھے کثرت سے استغفار پڑھنے کی حضور نے تاکید فرمائی اور فرمایا کہ باقاعدگی سے خطوں میں دعا کے لیے لکھتا رہا کروں۔ پھر حضور نے میرے والد اور دو تین دوستوں کی بیعت لی اور ہمارے لیے دعا فرمائی۔ پھر مصافحہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت دیدی۔ اسی دن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریر سکول کے صحن میں سنی۔ ان کی عمر شاید 16 یا 17 سال کی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح اولؓ کی زیر صدارت یہ تقریر تھی اور پُرلطف اور پُرتاثیر تقریر حقائق اور معارف کا خزانہ تھی۔ سامعین پر اس سحر بیانی کا گہرا اثر تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ نے اپنی خوشنودی کا اظہار بہت سے تعریفی الفاظ میں کیا۔
حضرت ڈاکٹر عمرالدین صاحبؓ نے اپنی ساری زندگی افریقہ ہی میں گزاری وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد واپس اپنے وطن آئے۔ آپ نے تین شادیاں کیں، ایک بیوی نے 1918ء میں وفات پائی۔ ایک بیوی محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ 7جون 1928ء کی شام بیٹی کی پیدائش کے بعد وفات پاگئیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے 24؍جولائی 1950ء کو بعمر 74 سال گجرات میں وفات پائی جہاں آپ ریٹائرمنٹ کے بعد مقیم تھے۔ آپ موصی تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں