حفاظتِ مرکز پر قربان ہونے والے محترم میاں علم الدین صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطبہ جمعہ کے حوالے سے تین ایسے شہدائے احمدیت کا تذکرہ کیا ہے جو 1947ء کے فسادات کے دوران مرکز احمدیت قادیان اور اس کے قرب و جوار میں شہید کردیے گئے۔
محترم میاں علم الدین صاحب کی پیدائش غالباً 1898ء کی ہے۔ ننگل باغبان نزد قادیان میں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے۔ پھر 1932ء میں قادیان منتقل ہوگئے۔ آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ ہر سال موسمِ گرما میں دریائے بیاس کے پاس اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کے لیے ضرور جایاکرتے۔ آپ کی تبلیغ کی بدولت ان میں سے بعض کو قبول احمدیت کی توفیق بھی ملی۔ آپ مولانا جلال الدین صاحب قمر کے والد تھے۔
جب قادیان پر پولیس اور فوج کی مدد سے جتھوں نے حملے شروع کیے تو فوج قادیان پر کرفیو لگاکر اہل قادیان کو قانونی زنجیروں میں جکڑ دیتی اور غیرمسلم جتھوں کو کھلا چھوڑ دیتی تھی کہ وہ من مانی کریں لیکن اس کے باوجود غیرمسلم جتھوں کو احمدیوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ کچھ تو ویسے ہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ رُعب کے ذریعے سے مدد دی جائے گی۔ لیکن اس میں غیروںکا جھوٹ بھی شامل ہو جایا کرتا تھا۔ کثر ت سے انہوں نے قادیان کے اسلحہ سے متعلق مشہور کر رکھا تھا کہ سکھ باوجود جتھوں کے اور باوجود فوج اور پولیس کی اعانت حاصل ہونے کے جب بھی لڑتے تھے اور ذرا ان کو خطرہ ہو کہ قادیان سے اسلحہ نکل کے ان پرجوابی حملہ ہونے والا ہے تو ڈرکربھاگ جایا کرتے تھے۔ مگر اس دوران جبکہ لڑائی ہو رہی ہوتی تھی اس وقت اُن کویقینا مسلمانوں کو شہید کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ چنانچہ 6؍ستمبر 1947ء کو قادیان پر ایک بہت بڑاحملہ ہوا جس کا زور زیادہ تر حلقہ مسجد فضل پر پڑا تھا۔جب احمدی رضاکاروں نے ہر قسم کا خطرہ مول لے کر مستورات اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا تو محترم میاں علم الدین صاحب اپنے گھر کے بالاخانے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک سکھ پولیس مَین سامنے والے مکان کی چھت پر چڑھ آیا اور بالاخانے کی کھڑکی میں بیٹھے ہوئے میاں علم الدین صاحب کو اچانک گولی مار دی اور انہوں نے وہیں تڑپ تڑپ کرجان دے دی۔ پھر وہاں موجود احمدیوں نے نماز جنازہ پڑھ کر تن کے کپڑوں میں ان کو دفنادیا۔
یہ جو لوگ سخت خطرے کے باوجود اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے حکم کی بنا پربیٹھے ہوئے تھے۔ اس لیے خواہ انہوں نے مقابلے میں حصہ لیا ہو یا نہ لیاہو بڑی دلیری کے ساتھ اس خیال سے کہ قادیان کا یہ تأثر نہ پڑے کہ قادیان کے باشندے اپنے مکان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں بہت بڑا ریلا قادیان پر آ سکتا تھا۔ اس خطرے کو دُور کرنے کی خاطر حضرت مصلح موعودؓ نے حکم دیا تھا کہ ہر احمدی اپنے مکان پر پہرہ دے اور صرف و ہ اپنے مکان سے باہر جائیں جن کو باقاعدہ نظام جماعت کے تحت کسی مصلحت کے پیش نظر نکالا جائے۔ اس لیے ان اکیلے اکیلے لوگوں کا اپنے گھروں میں بیٹھے رہنا یقینا ًایک بہت عظیم شہادت ہے کیونکہ سلسلے کے وقار کی خاطر انہوں نے اپنی جان کا خطرہ مول لیا ہوا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں