خانہ کعبہ اور حرم کی تعمیر و توسیع

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز کی طرف سے شائع کردہ ٹیکنیکل میگزین 1999ء کا ایک مضمون خانہ کعبہ اور حرم شریف میں تعمیر و توسیع سے متعلق ہے جو مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کی کاوش ہے۔


حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ’’سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ شریف کی بنیادیں رکھیں اور اس میں نماز ادا فرمائی‘‘۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا ’’جب آدم کی پیدائش اور بعثت ہوئی … اس وقت دنیا ایک مختصر سے خطہ میں آباد تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے سب انسانوں کے لئے اپنی حکمت کاملہ سے آدم پر وحی فرماکر بیت اللہ کی تعمیر کروائی۔ ایک گھر بنوایا اور اُس گھر کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ متعلق کردیا جو اُس آدم کی اولاد میں تھے‘‘۔
بیت اللہ کو بیت العتیق یعنی پرانا گھر اور اوّل بیت یعنی پہلا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ آسمان سے پتھر نازل ہوئے جن سے اس کی تعمیر ہوئی اور ان پتھروں میں سے اب بھی ایک پتھر کالے رنگ کے اعتبار سے ’’حجر اسود‘‘ کہلاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے ایک بار فرمایا تھا کہ یہ بات نہ عقل کے خلاف ہے نہ سائنسی مشاہدہ کے خلاف ہے کہ اگر آسمان سے سفید پتھر بھی چلے تو جب وہ زمین کی کثیف فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کو آگ لگ جاتی ہے اور پتھر کا جو حصہ نیچے پہنچتا ہے وہ جھلس کر سلیٹی یا کالی رنگت میں بدل جاتا ہے۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ خانہ کعبہ پر کئی دور آئے ہیں۔ ابتداء زمانہ سے یہ گھر مٹتا بھی رہا پھر بنتا بھی رہا۔ رفتہ رفتہ پرانے پتھر ضائع ہوگئے، صرف یہی ایک پتھر بچا ہوا ہے۔اس سے محبت اور عشق ایک قدرتی بات ہے۔ حضرت عمرؓ اس کو بوسہ دیتے ہوئے یہ فرمایا کرتے تھے کہ تُو ایک پتھر ہی تو ہے۔ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو چومتے نہ دیکھا ہوتا تو ہرگز تجھے بوسہ نہ دیتا۔ اس سے شرک کا جو احتمال تھا اس کی نفی ہو جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کشفی طور پر دو پہاڑیوں صفا اور مروہ کے درمیان وادی غیرذی زرع میں بیت اللہ دکھایا گیا تھا چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے کی مدد سے دعاؤں کے ساتھ اس جگہ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں۔اس تعمیر کے بعد خانہ کعبہ پر کئی ادوار آئے۔ اس وقت کعبہ سرخ ٹیلہ پر تعمیر ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف زمین نشیب میں تھی۔ اس طرح اس مقدس گھر کو سیلاب کی دسترس سے محفوظ رکھا گیا۔ پھر وادی ابراہیم میں بار بار سیلاب آنے کی وجہ سے مسلسل مٹی اور پتھر جمع ہوا جس سے ارد گرد کی زمین اونچی اور حرم شریف نیچے ہوگیا۔ خانہ کعبہ کو مرور زمانہ کے ساتھ بعض اوقات نقصان بھی پہنچتا رہا تاہم اس کی مرمت کی جاتی رہی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے بعد بنوجرھم، خزاعہ اور قریش نے اپنے اپنے وقت میں اس کی تعمیر اور مرمت کا کام کیا۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم کی تعمیر کردہ عمارت کعبہ جب منہدم ہوگئی تو عمالقہ نے اسے بنایا۔ آنحضرتﷺ کے جد امجد قصی نے بھی ایک بار اس کی تعمیر کا شرف حاصل کیا۔
ابتداء میں کعبہ پرکوئی غلاف وغیرہ نہ ہوتا تھا لیکن بعد میں یمن کے ایک بادشاہ تبع اسد نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ کو غلاف چڑھا رہا ہے چنانچہ اس نے کعبہ پر غلاف چڑھوادیا جس کے بعد سے یہ رسم جاری ہے۔
بیت اللہ کے چار کونے چار ارکان کہلاتے ہیں اور ہر ایک الگ نام سے موسوم ہے۔ مشرقی کونہ حجر اسودکے نام سے اور شمال مشرقی کونہ رکن عراقی کے نام سے موسوم ہے۔ شمالی کونہ رکن شامی یا غربی اور جنوب مغربی کونہ رکن یمانی کہلاتا ہے۔ دیوار کا وہ حصہ جو حجر اسود اور دروازے کے درمیان ہے اَلْمُلْتَزم یعنی جہاں چمٹا جائے، کہلاتا ہے۔ کیونکہ طواف کرنے والے دعا کرتے وقت اس دیوار سے چمٹ جاتے ہیں۔ کعبہ کے باہر ایک سنہری پرنالہ شمال مغربی دیوار کے بالائی کنارے سے نیچے لٹکا ہوا ہے جو یزاب الرحمۃ کے نام سے مشہور ہے۔
آنحضرتﷺ کے دعویٰ نبوت سے قبل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور سیلاب آنے سے کعبہ کی دیواریں بوسیدہ ہوگئی تھیں چنانچہ قریش نے اس کی تعمیر جدید کا منصوبہ بنایا۔ قریش نے پتھروں کی تراش خراش کرکے ذخیرہ کر رکھا تھا۔ انہی دنوں ایک رومی تاجر کا مال بردار جہاز طوفان کے باعث حجاز کی بندرگاہ شعیبیہ سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔ اس جہاز میں لوہا، عمارتی لکڑی اور سنگ مرمر لدا ہوا تھا۔ قریش کی خواہش پر رئیس مکہ ولید بن مغیرہ ایک وفد کے ساتھ جدّہ جاکر عمدہ لکڑی لے آئے۔ لیکن قریش ڈرتے تھے کہ خدا کا گھر گرانے سے کوئی آفت نہ آ جائے۔ آخر ولید نے ہی اس کام کو شروع کیا۔ جب قوم نے ایک رات انتظار کرکے دیکھ لیا کہ ولید پر کوئی آفت نہیں آئی تو پھر سب شامل ہوگئے اور قریش کے مختلف قبائل میں حصے تقسیم کردیئے گئے۔ قریش کو مجبوراً خانہ کعبہ میں کچھ ترمیم کرنا پڑی۔ جہاز کی خریدی ہوئی لکڑی ساری چھت کے لئے کافی نہ ہوئی چنانچہ ایک طرف سے سات آٹھ ہاتھ جگہ چھوڑنی پڑی۔ اس حصہ کو حطیم یا حجر کہتے ہیں اور آنحضورﷺ نے اسے کعبہ کا حصہ ہی قرار دیا ہے۔چنانچہ طواف کرتے وقت اس حصہ کے باہر سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ بہرحال کئی سال بعد جب یہ منصوبہ حجر اسود تک پہنچا تو قریش کے درمیان سخت جھگڑا کھڑا ہوگیا کہ کونسا قبیلہ اس مقدس پتھر کو اپنے مقام پر رکھے گا۔ بالآخر ایک رئیس ابو امیہ بن مغیرہ نے مشورہ دیا کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے حرم کے اندر آئے اُسے حکم تسلیم کرلیا جائے۔ یہ مشورہ تسلیم کرلیا گیا اور حسن اتفاق سے آنحضورﷺ سب سے پہلے حرم تشریف لائے۔ آپؐ کی عمر 35 سال کے قریب تھی۔ آپؐ کو دیکھ کر قریش نے پکارا، امین، امین۔ چنانچہ آپؐ نے اپنی چادر بچھائی اور حجر اسود اٹھاکر اس پر رکھ دیا۔ پھر قریش کے تمام قبائل کو چادر کے کونے پکڑ کر مقام مقصود تک لے جانے کا ارشاد فرمایا جہاں پھر آپؐ نے حجر اسود اٹھاکر اسے اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔
اس تعمیر کے دوران جو ترمیمات کی گئیں اُن میں کعبہ کی بلندی کو زیادہ کرکے اس پر چھت ڈالی گئی۔ پہلے چھت نہیں تھی۔ نیز اس کے اندر چھ ستون بنائے اور چھت میں ایک روشن دان بھی بنایا۔ کعبہ کے دروازہ کو اونچا کردیا چنانچہ کعبہ کی بلندی ساڑھے تیرہ فٹ سے سینتیس فٹ ہوگئی۔ پہلے عمارت مستطیل شکل میں تھی۔ قریش نے حطیم کا حصہ چھوڑ کر قریباً مربع شکل بنادی اور چھت پر پرنالہ بنایا اور چھت پر جانے کے لئے لکڑی کا زینہ بھی بنایا۔


ایک بار حضرت عائشہؓ کے دریافت کرنے پر آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ بیت اللہ کا دروازہ تیری قوم نے اتنا بلند اس لئے رکھا کہ جس کو چاہیں اس میں داخل ہونے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ اور حطیم خانہ کعبہ کا ہی حصہ ہے اور یہ اس لئے باہر چھوڑ دیا گیا کہ قریش کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔ نیز فرمایا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی اور مجھے ان کے تزلزل کا خطرہ نہ ہوتا تو مَیں اُن کی تعمیر کردہ عمارت کو گراکر پھر اصل ابراہیمی بنیادوں پر ساری عمارت کو تعمیر کرتا۔
آنحضورﷺ کی وفات کے بعد 64ہجری میں جب کسی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے جو اس وقت مکہ کے حاکم تھے، حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کرکے اس کی پھر تعمیر کی نیز کعبہ کے اندر چھ کی بجائے صرف تین ستون بنوائے۔ نیز دیواروں کی چنائی چونا سے کروائی اور انہیں ساڑھے چالیس فٹ بلند کردیا۔ دیواروں اور چھت پر کستوری اور عنبر سے خوشبودار پلستر کروایا اور سفید ریشم سے تیار شدہ باریک نفیس کپڑے کا غلاف چڑھایا۔
عبدالمالک بن مروان نے جب مکہ پر غلبہ حاصل کیا تو اس خیال سے کہ جب آنحضورﷺ نے اپنی زندگی میں بیت اللہ میں تبدیلی نہیں کی تو کسی اَور کا کیا حق ہے، اپنے گورنر حجاج بن یوسف کو حکم کیا کہ نئی تعمیر کو گرا کر سابقہ رنگ میں عمارت بنوادی جائے۔ چنانچہ حجاج نے 693ء میں ایسا ہی کیا مگر تین ستونوں والی تبدیلی کو بحال رکھا۔
حجاج کی تعمیر کے 966 سال بعد مکہ میں سخت بارش ہوئی اور شدید سیلاب آنے سے کعبہ منہدم ہوگیا۔ چنانچہ 1040ھ میں سلطان مراد خان عثمانی نے اس کو پھر تعمیر کروایا۔
1377ء میں شاہ سعود بن عبدالعزیز کے حکم سے کعبہ کی چھت تبدیل کی گئی اور دیواروںکی حسب ضرورت ترمیم کرکے کعبہ کے اندر دیواروں کا سنگ مرمر بھی تبدیل کیا گیا۔
ابتداء میں خانہ کعبہ کے اردگرد کوئی چاردیواری یا مکانات نہیں تھے۔ آنحضورﷺ کے جد امجد قصّی بن کلاب نے اپنی حکومت کے دور میں دارالندوہ کی بنیاد رکھی جو حطیم کے سامنے واقع تھا۔ پھر کعبہ کے چاروں طرف گھر بننے لگے جن کے دروازے کعبہ کی طرف رکھے گئے۔ اس طرح کعبہ اور مکانات کے درمیان مطاف (صحن) اور مکانات بطور چاردیواری بن گئے۔ حضرت عمرؓ کے دور میں جب زائرین کثرت سے آنے لگے تو 638ء میں پہلی بار حرم میں توسیع کی گئی اور قریش کے ملحقہ مکانات خرید کر منہدم کردیئے گئے اور صحن کشادہ کرکے دیوار بنادی گئی جس پر چراغ رکھ کر روشنی کی جاتی تھی۔ 646ء میں حضرت عثمانؓ کے دور میں مزید مکانات خرید کر حرم کو وسیع کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے حرم کو بہت وسعت دی اور حرم کے برآمدے بھی بنوائے۔ بنو امیہ کے عہد میں خلیفہ عبدالملک بن مروان اور بعد میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے برآمدوں کی چھت بنوائی اور تمام ستون سنگ مرمر کے بنوائے جن کی سونے سے سکرٹنگ کروائی۔ پھر خلیفہ ابو جعفر منصور نے 745ء میں حرم کو مزید وسیع کیا اور چاروں طرف محرابوں والے برآمدے تعمیر کروائے اور نقش و نگار بنوائے۔ پھر خلیفہ مہدی عباسی نے حرم کے چاروں طرف بہت وسعت کروائی اور حرم اور سعی کے درمیان دارالقواریر کے نام سے ایک سرائے بھی بنوائی۔ خلیفہ کے فرمان پر شام اور ایران سے سنگ مرمر کے ستون سمندر کے راستے بندرگاہ شعیبیہ تک پہنچے جہاں سے بیل گاڑیوں کے ذریعہ مکہ مکرمہ لائے گئے۔ یہ توسیع ان کے بیٹے ابی موسیٰ ہادی کے دور میں بھی جاری رہی۔ پھر ابو جعفر احمد نے حرم کی تعمیر و مرمت کا کام کروایا اور خلیفہ ابوالعباس نے مسجد حرام کی چھت تبدیل کروائی اور باب کعبہ پر سونا چڑھایا۔ دارالندوہ کو منہدم کرکے مسجد میں شامل کیا اور مسجد کے چاروں طرف برآمدہ اور ایک بلند مینار بھی بنوایا۔ خلیفہ ابوالفضل جعفر المقتدر باللہ نے بھی توسیع میں حصہ لیا۔
28؍شوال 802ھ کی شب حرم میں آتشزدگی کا حادثہ پیش آیا جس سے حرم کو تین اطراف سے نقصان پہنچا اور 130؍ستون جل کر خاکستر ہوگئے۔ چنانچہ اگلے سال ملک الناصر خرج بن برقوق کی طرف سے بیسق الظاہری مصری نے مکہ آکر حرم کی صفائی کروائی اور کئی سال تک قیمتی لکڑی اور پتھروں سے مرمتوں اور تزئین کا کام جاری رکھا۔ 980ھ میں حرم کی چھت کی لکڑی دیمک لگ جانے سے کمزور ہوگئی تو سلطان سلیم خان عثمانی نے حسین الحسینی کی زیرنگرانی پختہ چھت بنوانے کا کام شروع کروایا۔ ابھی کام جاری تھا کہ سلطان کا 982ھ میں انتقال ہوگیا۔ چنانچہ اُن کے بیٹے سلطان مراد نے کام کو نہایت شاندار طریق پر مکمل کروایا جس سے حرم کی زینت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ 983ھ میں سیلاب آنے سے حرم میں سات نمازیں ادا نہ ہوسکیں۔ چنانچہ سیلاب ختم ہونے پر حرم کی صفائی کے علاوہ برساتی نالہ کی صفائی اور گہری کھدائی کروائی گئی۔ بعد ازاں 1375ھ میں سعودی حکومت نے ایک جامع منصوبہ کے تحت اس نالہ کو زیرزمین تعمیر کروایا۔
خلیفہ المقتدر باللہ کی توسیع کے 1070 سال گزر جانے کے بعد سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے حرم کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور 1375ھ (1938ء)میں سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 1949ء میں کام مکمل ہوا اور اس طرح موجودہ دو منزلہ پُرشکوہ عمارت تعمیر ہوئی اور دو منزلہ برآمدے بنائے گئے۔ اس میں تین لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ قدیم تعمیر اور صحنِ حرم اس کے علاوہ ہے۔ اس کام میں بہترین سنگ مرمر اور دیگر پتھر تراش کر لگائے گئے۔ اب حرم کی پیمائش ایک لاکھ نوے ہزار مربع میٹر ہوگئی ہے اور کُل اخراجات آٹھ سو ملین ریال آئے۔ بعد ازاں شاہ خالد اور شاہ فہد کے دور میں مزید توسیع بھی کی گئی۔ چنانچہ اب کُل پیمائش تین لاکھ نو ہزار مربع میٹر ہوگئی ہے اور اب بیک وقت چھ لاکھ پانچ ہزار نمازی بسہولت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ توسیع کے دوران ایک اضافی صدر دروازہ اور چودہ ثانوی دروازے بنائے گئے ہیں جبکہ پہلے تین صدر دروازے اور ستائیس ثانوی دروازے موجود تھے۔ اسی طرح سات موجود مناروں کے ساتھ دو مزید منار بھی بنائے گئے۔ ہر مینار نواسی میٹر بلند ہے۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں