خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 31؍اکتوبر2003ء

روزہ تقویٰ، قبولیت دعا اور قرب الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے
قرآن کو رمضان سے خاص نسبت ہے اس لئے قرآن پڑھیں اور درس القرآن میں شامل ہوں
رمضان المبارک کے فضائل و برکات اور قبولیت دعا کے ایمان افروز مضمون کا بیان
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۳۱؍ اکتوبر۲۰۰۳ء بمطابق ۳۱؍اخاء ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرہ :۱۸۶۔۱۸۷)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا مہینہ شروع ہو چکاہے اور پانچ روزے گزر بھی گئے اور پتہ بھی نہیں چلا۔ حدیث میں آتاہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ بہت عظیم اور برکتوں والا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے فضلوں سے نوازنے کے طریقے تلاش کرتاہے کہ کس طرح مَیں اپنے بندوں کو شیطان کے پنجے سے نکالوں اور اپنا بندہ بناؤں- جب بھی بندہ اس کی طرف بڑھے اس کے ایمان اور احسان کے دروازے کھلے ہوئے پاتا ہے لیکن رمضان میں تو پہلے سے بڑھ کر اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہوتاہے۔اور یہ بھی اس کے احسانات ہیں کہ جو لوگ عبادت میں سست ہوتے ہیں، نوافل میں سست ہوتے ہیں، قرآن کریم کو پڑھنے میں، اس کے احکامات پر عمل کرنے میں سست ہوتے ہیں ان کے لئے ایک نظام کے تحت ایک مہینہ مقرر کر دیا ہے تاکہ جو عبادت کرنے والے اور نوافل پڑھنے والے، قرآنی احکامات پر عمل کرنے والے لوگ ہیں جب اس مہینہ میں پہلے سے زیادہ، پہلے سے بڑھ کر توجہ کے ساتھ ان عبادات کو بجا لانے کی کوشش کریں گے تو جو لوگ سست ہیں وہ بھی ان کی دیکھا دیکھی کچھ نہ کچھ عبادات بجا لائیں گے۔ماحول کا ان پر بھی اثر ہوگا وہ بھی کچھ نہ کچھ ان نیک کاموں میں حصہ لیں گے۔تو اس طرح ان کوبھی عاد ت پڑ جائے گی۔ایسے لوگوں میں سے کچھ لوگ پھر مستقل ان نیکیوں پر قائم بھی رہ جائیں گے۔اور شیطان کو دور رکھنے والے ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے ایسے لوگوں پر مَیں اپنی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے کھولوں گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف آنے سے اس قدر خوش ہوتاہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ جو خوشی ایک ماں کو ایک گمشدہ بچے کے ملنے سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ خوشی اپنے گمشدہ بندے کے ملنے سے ہوتی ہے۔ واپس آنے سے ہوتی ہے، عبادات بجا لانے سے ہوتی ہے۔اور رمضان میں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ہر دروازہ کھول دیتاہے۔قرآ ن جو خدا کی کتاب ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہے جس کے پڑھنے سے ہمیں خداتعالیٰ کی معرفت عطا ہوتی ہے اس کو بھی رمضان سے ایک خاص نسبت ہے۔ اس لئے رمضان میں اور عبادات کے ساتھ اس کو پڑھنے اور جہاں بھی درسوں کا انتظام ہو وہاں اس کے درس سننے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔
یہ آیات جومَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں- پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں- میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں-
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’رمضان سورج کی تپش کوکہتے ہیں- رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتاہے۔دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتاہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لئے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ عرب کے لئے خصوصیت نہیں ہوسکتی۔ روحانی رمضان سے مراد روحانی ذوق شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔ رمضان اس حرارت کوبھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہوتے ہیں-
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۹۰۲)
تو اس اقتباس میں آپ نے فرمایا کہ رمضان سورج کی تپش کو کہتے ہیں اورسورج کی تپش سے جو گرم ممالک ہیں ان کو علم ہے کہ کیاحال ہوتاہے اور پھر اگر حبس بھی شامل ہو جائے اس میں تواور بھی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔گرمی دانے وغیرہ نکل آتے ہیں اور جن بیچاروں کے پاس اس گرمی کے توڑ کے لئے ذرائع نہیں ہوتے، سامان میسر نہیں ہوتے وہ اس حالت میں جسم میں جلن اور دانوں میں خلش وغیرہ محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ناقابل برداشت ہو جاتاہے۔اب توخیر یہاں یورپی ممالک میں بھی گرمی اچھی خاصی ہونے لگی ہے اور ذرا سائے سے باہر نکلیں تو دھوپ کی چبھن حال خراب کردیتی ہے تو یہ جو تکلیف ہورہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے کھانے پینے کو چھوڑکرـ،جسمانی لذتوں کو چھوڑ کر، میری خاطر کچھ وقت تکلیف برداشت کرو یہ بھی اسی طرح کی تکلیف بعض اوقات ہو رہی ہوتی ہے۔اور فرمایاکہ جب خدا تعالیٰ کی خاطر تکلیف برداشت کرتے ہو تو پھر تمہارے اندرسے بھی ایک جوش پیدا ہونا چاہئے۔اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی پیدا ہونی چاہئے۔اور اس سے پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو۔ تو فرمایاکہ بیرونی تکلیف بھوک پیاس کی اور اندرونی جوش اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی اکٹھی ہو جائیں تو اسی کانام رمضان ہے۔
پھر آپ نے فرمایا:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن

سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھاہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں-صلوٰۃ تزکیہ ٔ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی ٔ قلب کرتاہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس اماّرہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے، دوری حاصل ہو جائے اور تجلی ٔ قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔ فرمایا پس

اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن

میں یہی اشارہ ہے۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ روزہ کااجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں- فرمایا مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ا یام میں مَیں نے ایک دفعہ خواب میں د یکھا کہ روزہ رکھنا سنّت اہل بیت ہے۔میرے حق میں پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا

سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ۔

سلمان یعنی الصُّلْحَان کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی۔ ایک اندرونی، دوسری بیرونی۔ اور یہ اپنا کام رِفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور مَیں جب مشربِ حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشربِ حسن پر ہوں جس نے جنگ نہ کی تو مَیں نے سمجھاکہ روزہ کی طرف اشارہ ہے۔چنانچہ مَیں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔اس اثنا میں مَیں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں-یہ امرمشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پرجاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتاتھا۔ اور اگر اس وقت مَیں چاہتا تو چارسال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔
تویہاں خاص طورپر یہ جوانی کی مثال دے کر آپ جوانوں کو سمجھا رہے ہیں کہ بعض دفعہ بیماری کی وجہ سے ایک عمر کے بعد روزے چھوڑنے پڑتے ہیں- لیکن نوجوانی کی عمر ایسی ہے کہ اس میں روزے صحیح طورپر رکھے جا سکتے ہیں-اور اس عمر کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔لیکن ایک اور مرتبہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھاکہ ہر کسی کو اتنا لمبا عرصہ روزے نہیں رکھنے چاہئیں ، نہ وہ رکھ سکتاہے۔ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے کہا تھااور ساتھ تائید تھی اللہ تعالیٰ کی اوراللہ تعالیٰ نے قوت عطا کی تھی اس لئے مَیں رکھ سکا۔ لیکن بہرحال رمضان کے روزے ایسے ہیں جن کو ضرور رکھناچاہئے۔کیونکہ یہ ہربالغ مسلمان پرفرض ہیں اگر بیماری وغیرہ کی کوئی وجہ نہ ہو۔روزے کی اہمیت اور اس کے نتیجہ میں انسان جو خداتعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتاہے اس بارہ میں چند احادیث پیش کرتاہوں-
روایت ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا: ہر چیزکا ایک دروازہ ہے اور عبادت کا دروازہ روزے ہیں- (جامع الصغیر)
پھر ابوہریر ہ ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال ہے اور آگ سے بچانے والا ایک حصن حصین ہے۔(مسند احمد)۔یعنی ایک مضبوط قلعہ ہے جو آگ کے عذاب سے بچاتاہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے۔آپؓ نے فرمایا تم میں سے کسی کو فتنہ کے بارہ میں رسول اللہ ﷺکا کوئی ارشاد یاد ہے؟ تو کہتے ہیں مَیں نے کہا جیسا آنحضرت ﷺنے فرمایا من وعن یاد ہے۔ آ پ ؓنے(یعنی حضرت عمرؓ نے) فرمایاکہ تم تو بات کرنے میں بڑے دلیر ہو۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں نے عرض کی کہ آدمی کو جو فتنہ اس کے گھر بار، مال، اولاد یا ہمسایوں سے پہنچتاہے، نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کا حکم اور برائی سے روکنا اس فتنہ کا کفارہ بن جاتاہے۔(صحیح بخاری)
پھرحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا :یقینا جنت میں بالا خانے ہوں گے جن کے اندرونے باہر سے اور خارجی حصے اندرسے نظرآتے ہوں گے۔ اس پر ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ حضور ؐ یہ کن کے لئے ہوں گے۔ فرمایا :یہ ان کے لئے ہوں گے جو خوش گفتار ہوں گے، ضرورتمندوں کو کھانا کھلانے والے ہوں گے، روزے کے پابند اور راتوں کو جب لوگ سوتے ہوں تو وہ نمازیں ادا کریں‘‘۔ (سنن ترمذی)
توان احادیث سے روزے کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔لیکن شرط یہ ہے کہ صر ف بھوکا پیاسا نہیں رہنا بلکہ اس کے ساتھ تمام برائیوں کو بھی چھوڑنا ہے، نیکیوں کو اختیار کرناہے، غریبوں کا خیال رکھناہے، ان کی ضروریات کو پورا کرناہے، نمازوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے، فرض سے بڑھ کر نوافل پڑھنے کی طرف بھی توجہ کرنی ہے اور ان تمام چیزوں کے ساتھ روزے دار بھی ہو، تمام جائز چیزوں ، خوراک وغیرہ کو ایک معینہ مدت کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑنے والے ہو،تمام شرائع پورے کرنے والے ہو تو یہ تمہارے جو فتنے ہیں جن فتنوں میں تم پڑے ہوئے ہو اولاد کی طرف سے، کاروباری ہیں ، ہمسایوں کے ہیں ، لڑائی جھگڑے ہیں تو ان نیکیوں کی وجہ سے جو تم انجام دے رہے ہوگے ان سے تم بچ سکتے ہو اوریہ نیکیاں ہیں جو ان فتنوں کا کفارہ ہو جائیں گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ و ہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ روزہ تو میرے لئے ہیں مَیں ہی ان کی جزا بن جاتاہوں یعنی اللہ تعالیٰ کا وصال ہو جاتاہے روزوں کے ذریعہ اگر تمام شرائط کے ساتھ وہ رکھے ہوں- یہ اس لئے ہے کہ میرا بندہ میرے لئے روزے میں اپنی جائزخواہشات اور اپنے کھانے پینے کو بھی ترک کردیتاہے۔ فرمایا روزہ گناہوں کے خلاف ایک ڈھال ہے۔روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں- ایک وہ خوشی جو اسے اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ خدا کے فضل سے اپنے روزوں کو مکمل کرلیتاہے۔ یہ خوشی اسے دنیا میں ملتی ہے اور ایک وہ خوشی جو اسے آخرت میں ملے گی جب وہ اپنے رب سـے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اس سے راضی ہوگا۔ نیز آنحضرت ﷺنے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بوُ خدا کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پیاری ہے۔
(بخاری کتا ب التوحید با ب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ )
پھر حضرت ابومسعود غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رمضان کے شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضرت ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کاعلم ہوتا تو میری امت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں-چنانچہ آ پؐ نے فرمایا یقینا جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزیّن کیاجاتاہے اورجب رمضان کاپہلا دن ہوتاہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں-
تو اللہ تعالیٰ کو روزے دار کے منہ کی بُو جو ہے، نہ کھانے کی وجہ سے منہ میں پیدا ہوجاتی ہے،صرف اس لئے پسند ہے کہ میرے بندے نے میری خاطر اپنے اوپر یہ پابندی لگائی ہوئی ہے اور میری عبادت میں مشغول ہے تو خداتعالیٰ ایسے روزہ داروں کی بہت قدر کرتاہے۔اور ایسے لوگوں پر اپنی رحمتوں اور فضلوں کی ہوائیں چلاتاہے۔اس دنیا میں بھی انہیں اپنی پناہ میں رکھتاہے اور اگلے جہان میں بھی اپنی جنتوں کا وارث بناتاہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اس کو سمجھتے ہوئے جو روزے رکھنے کا حق ہے اس کے مطابق رمضان گزارنے کی کوشش کریں-
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو روزے میں سستی کر جاتے ہیں کہ صلوٰۃ کا مَیں پہلے ذکرکر چکاہوں- اس کے بعد روزے کی عبادت ہے۔افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بعض مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو کہ ان عبادات میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں- وہ اندھے ہیں اور خداتعالیٰ کی حکمت کاملہ سے آگاہ نہیں ہیں-تزکیہ ٔنفس کے واسطے یہ عبادات لازمی پڑی ہوئی ہیں-یہ لوگ جس عالم میں داخل نہیں ہوئے اس کے معاملات میں بیہودہ دخل دیتے ہیں اور جس ملک کی انہوں نے سیر نہیں کی اس کی اصلاح کے واسطے جھوٹی تجویزیں پیش کرتے ہیں-ان کی عمریں دنیوی دھندے میں گزرتی ہیں- دینی معاملات کی ان کو کچھ خبر نہیں-کم کھانا اوربھوک برداشت کرنا بھی تزکیہ ٔنفس کے واسطے ضروری ہے۔اس سے کشفی طاقت بڑھتی ہے۔انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا۔ بالکل ابدی زندگی کا خیال چھوڑد ینا اپنے اوپرقہرالٰہی کا نازل کرناہے۔ مگر روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا رہے بلکہ خدا کے ذکرمیں بہت مشغول رہناچاہئے۔بدنصیب ہے وہ شخص جس کو جسمانی روٹی ملی مگر اُس نے روحانی روٹی کی پرواہ نہیں کی۔ جسمانی روٹی سے جسم کو قوت ملتی ہے ایسا ہی روحانی روٹی روح کوقائم ر کھتی ہے۔ اور اس سے روحانی قویٰ تیز ہوتے ہیں-خداسے فیضیاب ہونا چاہو کہ تمام دروازے اس کی توفیق سے کھلتے ہیں-(تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۰۔۲۱)
پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ قرآن انسانوں کے لئے ہدایت کے طورپر اتاراگیاہے جس میں ہدایت کی تفصیل دی گئی ہے اور سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والے امور بیان کئے گئے ہیں-جیساکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔
ایک تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان غور سے اس کو پڑھے، اس کو سمجھنے کی کوشش کرے،اس کے احکامات کو اپنے اوپرلاگو کرنے کی کوشش کرے تو خداتعالیٰ کی معرفت بھی اس کو حاصل ہو جاتی ہے اور خداتعالیٰ ایسے بندوں کو اپنے پیاروں میں شامل کر لیتاہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ :

ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔

یعنی قرآ ن میں تین صفتیں ہیں-اول یہ کہ جوعلوم دین لوگوں کومعلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتاہے۔ دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا ان کی تفصیل بیا ن کرتاہے۔ تیسرے جن امورمیں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہوگیاتھا ان میں قول فیصل بیا ن کرکے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتاہے۔
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ ۶۴۸)
تو اس سے یہ ظاہر ہو گیاکہ یہ تین باتیں جو بیان کی گئی ہیں کیونکہ شریعت اب کامل ہوئی ہے آنحضرت ﷺپر،پہلے لوگوں پر صرف اس علاقے یاوقت کے لحاظ سے احکامات دئے گئے تھے، تمام علوم دین نہیں بتائے گئے تھے اس لئے آنحضرت ﷺپر یہ کامل کتاب اتاری گئی ہے اور تمام قسم کی ہدایت جس کی انسان کو ضرورت پڑ سکتی ہے اس میں بیان کر دی گئی ہے۔پھر ایسے تمام احکامات جو پہلے واضح نہ تھے،پہلے انبیاء کی تعلیم میں معین نہ ہوئے تھے یاایسے علوم جن کا معین طورپر انسان کوعلم نہ تھا اس کو بھی تفصیل سے بیان کردیا۔ پھر ساتھ ہی یہ ہے کہ دلیل کے ساتھ حق اورباطل،سچ اورجھوٹ، غلط اور صحیح میں فرق بتایا گیاہے۔تو جس قدر استطاعت ہے اس پر غورکرتا رہے اس لئے قرآن شریف زیادہ پڑھنا چاہئے اوراس کی حسین تعلیم پر عمل کرنا چاہئے،اس سے حصہ لیناچاہئے۔ بہرحال رمضان اور قرآن کی ایک خاص نسبت ہے جیساکہ حدیث میں آتاہے کہ جبریل ہررمضان میں جتناقرآن نازل ہوچکاہوتا آنحضرتﷺکے ساتھ مل کر اسے دہراتے تھے۔اس لئے بھی ان دنوں میں قرآن پڑھنے، سمجھنے اوردرسوں میں شامل ہونے کی طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ اس کا ادراک پیدا ہو، اس کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو، معرفت حاصل ہو۔ پھر آگے اس میں بیان ہواہے روزے کے بارہ میں کہ کیا کیارخصتیں ہیں اور کتنا رکھناچاہئے اس بارہ میں گزشتہ خطبے میں سب بیان ہو چکاہے۔
پھر اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ میرے بندوں سے کہہ دو کہ مَیں تو تمہارے قریب ہوں-دعا کے مضمون کے بارہ میں- دعا کرنے والے کی دعاکاجواب دیتاہوں- لیکن تمہیں اگر دعا کے طریقے اور سلیقے آتے ہوں تو مجھے قریب پاؤگے۔ اس آیت کو روزوں کی فرضیت کی آیت کے ساتھ رکھا گیاہے اور پھر اس سے اگلی آیت میں بھی رمضان کے بارہ میں احکام ہیں-تو جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مَیں تو اپنے سے مانگنے والوں کی باتیں سنتاہوں- لیکن تمہارابھی توفرض بنتاہے کہ جو میرے احکامات ہیں ان کو مانو۔نیک باتوں پرعمل کرو، بری باتوں کو چھوڑو۔یہ تو نہیں کہ صرف دنیاداری کی باتیں ہی کرتے رہو۔کبھی مجھ سے میری محبت کا ا ظہار نہ ہو۔جب کسی مصیبت میں گرفتارہو تو آجاؤ۔ گو ایسے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کسی مصیبت میں گرفتار دیکھ کر جب وہ پکارتے ہیں تو ان کی مدد کرتاہے۔لیکن جب وہ مصیبت سے نکلتے ہیں تو پھروہی باغیانہ رویہ اپنا لیتے ہیں-تو یہ طریق تو دنیاوی تعلقات میں بھی نہیں چلتے۔توبہرحال خداتعالیٰ فرماتاہے کہ مَیں اپنے ان بندوں کے قریب ہوں-ان کی دعائیں سنتاہوں جو میرے قریب ہیں ،جن کو میری ذات سے تعلق ہے۔صر ف اپنے دنیاوی مقصد حاصل کروانے کے لئے ہی میرے پاس دوڑے نہیں چلے آتے۔اب جبکہ تم میرے کہنے کے مطابق روزے رکھ رہے ہو، بہت سی برائیوں کوچھوڑ رہے ہو،نیکی کی تلقین کررہے ہو ،نمازوں میں باقاعدگی اختیار کر رہے ہو، نوافل کی ا دائیگی کی طرف توجہ دے رہے ہو تو مَیں بھی تمہاری د عاؤں کو سنتاہوں ، جواب دیتاہوں-مَیں تو اس انتظار میں بیٹھاہوں کہ میراکوئی بندہ خالص ہوکر مجھے پکارے تو مَیں اس کی پکار کا جواب دوں- اب جبکہ تم خالص ہو کر مجھے پکاررہے ہو،مجھ پرکامل ایمان رکھتے ہو ،میرے بندوں کے حقوق بھی ادا کررہے ہو، ان کاخیال رکھ رہے ہو،رمضان میں غریبوں کے روزے رکھوانے اور کھلوانے کا بھی اہتمام کررہے ہو، توجہ دے رہے ہو، لڑائی جھگڑوں سے دُور ہو،معاف کرنے میں پہل کرنے والے ہو، انتقام سے دور ہٹنے والے ہو،کیونکہ کامل ایمان کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر بھی کامل ایمان اور یقین ہو، اس لئے میری صفات کو ہر وقت ہمیشہ مدنظرر کھنے والے بھی ہواور اپنی استعدادوں کے مطابق ان کو اپنانے والے ہو،تو اے میرے بندو! مَیں تمہارے قریب ہوں ،تمہارے پاس ہوں ، تمہاری دعاؤں کو سن رہاہوں تمہیں اب کوئی غم اور فکر نہیں ہونا چاہئے۔ اور رمضان کے مہینے میں تو مَیں اپنی رحمت کے دروازے وسیع کردیتاہوں-
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ فرماتاہے

فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ

اگر مَیں نے کہا ہے کہ مَیں پکارنے والے کی پکار کو سنتاہوں تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں ہر ایک پکار کو سن لیتاہوں- جس پکار کو مَیں سنتاہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں- اوّل مَیں اس کی پکار سنتاہوں جو میری بھی سنے۔ دوسرے مَیں اس کی پکار سنتاہوں جسے مجھ پر یقین ہو، مجھ پر بدظنی نہ ہو۔ اگر دعاکرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں کا یقین ہی نہیں تو مَیں اس کی پکار کو کیوں سنوں گا۔ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں-جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جائیں گی وہی قبول ہوگی اسی لئے یہاں اللہ تعالیٰ نے الدّاع فرمایاہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا۔ اور اس کے آگے شرائط بتادیں جو الدّاع میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سنے اور مجھ پر یقین رکھے۔یعنی وہ دعا میرے مقرر کردہ ا صولوں کے مطابق ہو، جائز ہو، ناجائز نہ ہو، اخلاق کے مطابق ہو، سنت کے مطابق ہو،اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو مَیں بھی اس کی دعاؤں کو سنوں گا۔لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اے اللہ !میرا فلاں عزیز مر گیا ہے توُ اسے زندہ کر دے تویہ دعا قرآن کے خلاف ہے، محمد رسول اللہ ﷺکی تعلیم کے خلاف ہے۔جب اُس نے قرآن کی ہی نہیں مانی، محمد رسول اللہ ﷺ کی نہیں مانی توخدا اُس کی بات کیوں مان لے۔ پس

فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ

میں اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ تمہیں چاہئے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو۔اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو مَیں بھی تمہاری دعاکیسے سن سکتاہوں؟پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں اول فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِی تم میری باتیں مانو۔(۲) وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ اور مجھ پر یقین رکھو۔ جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دیندار نہیں- وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے مَیں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ مَیں ان کی دعائیں سنوں گا۔ بے شک مَیں ان کی دعاؤں کو بھی سنتاہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا۔ لیکن جو شخص اس قانون پر چلتاہے۔ اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے مَیں اس کی ہر دعا کو سنتاہوں-(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۴۰۵۔۴۰۶)
پھر آ پ نے فرمایا :
پس رمضان کے مہینہ کا دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں دعا کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے قَرِیْبٌ کے الفاظ بیان فرمائے۔اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکے گا۔ جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتاہے اور اپنے عمل سے ثابت کردیتاہے کہ اب و ہ خدا تعالیٰ کادردچھوڑ کرکہیں نہیں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اِنِّیْ قَرِیْبٌ کی آواز اس کے کانوں میں بھی آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اس کے اورکیا ہو سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ ہروقت اس کے ساتھ رہتاہے اور جب کوئی بندہ اس مقام پر پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے خدا کو پا لیا۔
حدیث میں آتاہے۔ حضرت عمر روایت کرتے ہیں-آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتاہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔
پھر ایک حدیث ہے کہ روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ایسی ہے جو ر دّ نہیں کی جاتی۔( ابن ماجہ )
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’ اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قریب حاصل ہوسکتاہے تو کہہ

فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ

یعنی مَیں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتاہوں- چاہئے کہ پہلے وہ ان احکاموں پر عمل کریں جن کا مَیں نے حکم دیاہے اور ایمان حاصل کریں تا کہ وہ مراد کوپہنچ سکیں اور اس طرح سے بہت ترقی ہوگی‘‘۔( الحکم ۱۷؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اس بارہ میں مزید فرماتے ہیں :
’’روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے ویسے ہی قرب الٰہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیاہے

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ

یہ ماہ رمضان کی ہی شان میں فرمایا گیاہے اور اس سے اس ماہ کی عظمت اور سرّ الٰہی کا پتہ لگتاہے کہ اگر وہ اس ماہ میں دعائیں مانگیں تو مَیں قبول کروں گا لیکن ان کو چاہئے کہ میری باتوں کو قبول کریں اور مجھے مانیں- انسان جس قدر خدا کی باتیں ماننے میں قوی ہوتاہے خدا بھی ویسے ہی اس کی باتیں مانتاہے۔

لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ

سے معلوم ہوتاہے کہ اس ماہ کو رُشد سے بھی خاص تعلق ہے اور اس کاذریعہ خدا پر ایمان، اس کے احکام کی اتباع اور دعا کو قرار دیا ہے۔ اور بھی باتیں ہیں جن سے قرب الٰہی حاصل ہوتاہے ‘‘۔
(الحکم ۴۲؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے، دعاؤں کا مہینہ ہے ‘‘۔ (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۱ء)
پھر اسی آیت کی تشریح کرتے ہوئے آ پؑ نے فرمایا یعنی

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ

فرمایا : یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پردلیل کیاہے تو اس کا یہ جوا ب ہے کہ مَیں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں- میراوجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آ سکتاہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پردلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اس کی سنتاہوں اور ا پنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتاہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتاہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپایہ ٔ یقین پہنچتاہے۔لیکن چاہئے کہ ایسی حالت تقویٰ اور خداترسی کی پیدا کریں کہ مَیں ان کی آواز سنوں ! اور نیز چاہئے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے کہ جو ان کو معرفت تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے۔ کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اسی کو عرفان دیا جاتا ہے۔ (ایام الصلح ٗ روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ۲۶۰۔۲۶۱)
حدیث میں آتاہے آنحضرت ﷺنے فرمایا حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کو خوب یاد کیا کرو یہاں تک کہ لوگ کہیں کہ یہ مجنون شخص ہے۔ یہ ہے اللہ کو یاد کرنے کا طریق۔
حدیث میں آتاہے کہ رمضان کی ہر رات اللہ تعالیٰ ایک منادی کرنے والے فرشتہ کو بھیج دیتاہے جو یہ اعلان کرتاہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور آگے بڑھ۔ کیا کوئی ہے جو دعا کرے تا کہ اس کی دعا قبول کی جائے کیا کوئی ہے جو استغفار کرے کہ اسے بخش دیاجائے کیاکوئی ہے جو توبہ کرے تاکہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔(کنزل العمال)
پھر حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جب رات کا نصف یا 2/3 حصہ گزر جاتاہے تو اللہ تعالیٰ قریب کے آسمان کی طرف اتر آتاہے، پھر فرماتاہے کیا کوئی سوالی ہے جسے دیا جائے؟، کیا کوئی دعا کرنے والا ہے جس کی دعا قبول کی جائے؟، کیا کوئی بخشش کا طالب ہے کہ اسے بخش دیا جائے؟ یہ صورت حال اسی طرح جاری رہتی ہے یہاں تک کہ فجرنمودار ہو جاتی ہے۔ اس لئے نوافل کے لئے اٹھنا بہت ضروری ہے۔یہ نہیں کہ صرف سحری کھانے کے لئے اٹھے، وقت مقرر کرنا چاہئے نوافل کے لئے بھی۔
پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتاہے مَیں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتاہوں-جس وقت بندہ مجھے یاد کرتاہے مَیں اس کے ساتھ ہوتاہوں- اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو مَیں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو مَیں اس بندے کا ذ کر اس سے بہتر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ میری جانب ایک بالشت بھر آئے گا تو مَیں اس کی طر ف ایک ہاتھ آؤں گا۔اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو مَیں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میر ی طرف چل کر آئے گا تومَیں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا۔(ترمذی ابواب الدعوات)
حضر ت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ بڑاحیاوالاہے، بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضوراپنے دونوں ہاتھ بلند کرتاہے تو وہ ان کوخالی ہاتھ اورناکام واپس کرنے سے شرماتاہے یعنی صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو وہ ردّ نہیں کرتا بلکہ قبول فرماتاہے۔(ترمذی کتاب الدعوات)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتاہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتاہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں-پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں- یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تویہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھناہو اُسے چاہئے کہ دعا کرے ‘‘۔(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳۔ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ۶۔ تفسیرحضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ ۶۵۵)
پھر آپ ؑنے فرمایا:
’’دعا کی مثال ایک چشمہ ٔ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھاہواہے وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے کو سیراب کر سکتاہے۔ جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نمازہے یعنی صحیح جو دعا مانگنے کی جگہ ہے وہ نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتاہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے ہیچ ہے۔ بڑی با ت جودعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الٰہی ہے۔ دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے اور اسے اپنی طرف کھینچتاہے۔ جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتاہے تو خدا کو بھی اس پر رحم آ جاتا ہے اور خدا اس کا متولی ہو جاتاہے۔ ( یعنی سب کام اس کے کرنے لگ جاتاہے )۔ اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولّی کے بغیرانسانی زندگی قطعاً تلخ ہو جاتی ہے۔
(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹۔ مورخہ ۱۰۔۱۷؍جون ۱۹۰۴ء صفحہ۶۔ تفسیرحضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ ۶۵۶)
پھر آپ ؑنے فرمایا:
’’اگر میرے بندے میرے وجود سے سوال کریں کہ کیونکر اس کی ہستی ثابت ہے اور کیونکہ سمجھا جائے کہ خدا ہے۔(خدا تعالیٰ کے بارہ میں آ پ فرماتے ہیں ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ مَیں بہت ہی نزدیک ہوں-مَیں اپنے پکارنے والے کو جواب دیتاہوں اور جب وہ مجھے پکارتاہے تو مَیں اس کی آواز سنتاہوں- اور اس سے ہمکلام ہوتاہوں- پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسا بناویں کہ مَیں ان سے ہمکلام ہو سکوں اورمجھ پرکامل ایمان لاویں تاکہ ان کو میر ی راہ ملے ‘‘۔(لیکچرلاہو ر صفحہ ۱۳ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ ۶۴۹)
اب ایک دعا پیش کرتاہوں جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کو لکھی تھی کہ یہ کریں- فرمایا، دعا یہ ہے :
اے رب العالمین ! مَیں تیرے احسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں-میرے گناہ بخش تامَیں ہلاک نہ ہو جاؤں- میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔مَیں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات کی پناہ مانگتاہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وار د ہو۔ رحم فرما، رحم فرما،رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کیونکہ ہرایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ (آمین)
پھرایک اور دعا ہے جو آنحضرت ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں کی کہ :
’’اے اللہ! توُمیری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے۔ میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے۔ میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی مخفی نہیں ہے۔ مَیں ایک بدحال، فقیر اور محتاج ہوں ،تیری مدد اور پناہ کا طالب، سہما ہوا، اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہوں-مَیں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتاہوں ، تیرے حضور میں ایک گناہگارذلیل کی طرح زاری کرتا ہوں-ایک اندھے نابینا کی طرح خوفزدہ تجھ سے دعا کرتاہوں جس کی گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور جس کے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں-جس کا جسم تیرے حضور گرا پڑاہے اور تیرے لئے اس کا ناک خاک آلودہ ہے۔ اے اللہ!توُمجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اوررحم کا سلوک فرمانا۔ اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول فرماتاہے اورسب سے بہتر عطا فرمانے والاہے۔(میری دعا قبول فرما)۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ؒ۔ جز اول صفحہ ۵۶ مبطوعہ المکتبۃ ا لاسلامیۃ لائلپور۔ المعجم الکبیرللطبرانی جلد ۱۱ صفحہ ۱۷۴۔ مطبوعہ بیروت)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان میں اپنے پیاروں کی طرح دعائیں کرنے کی توفیق عطافرمائے۔اور آنحضرت ﷺکی اپنی امت کے لئے اپنے پیارے مہدی کے ماننے والوں کے لئے جوآ پ نے دعائیں کی تھیں ان دعاؤں کا وارث بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی عبادت گزار بندہ بنائے۔اس کی طرف جھکنے والے ہوں ، اس سے مدد طلب کرنے والے ہوں ،اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں- اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، فضل فرمائے اور ہمیں ہماری زندگیوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتوحات کی اور دنیا پر غالب آنے کے نظارے دکھائے۔ اے اللہ! اس رمضان کی برکات سے ہمیں بے انتہاء حصہ دے۔ ہر شر سے ہمیں محفوظ رکھ اور اپنے رحمت اور فضل کی چادرمیں ہمیں ہمیشہ لپیٹے رکھ۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں