خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 12؍مارچ 2004ء

نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شورٰی کا ادارہ ہی ہے
مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ ،خلیفہ کا مقام بہرحال دونوں کی سرداری ہے
آپ کا ہر عمل اور مشورہ تقویٰ پرمبنی اور خدا کی خاطرہو
مجالس شوریٰ کی اہمیت اور طریق کار کے بارہ میں ا حباب جماعت کو پرمعارف ہدایات
حضورانور کی افریقہ کے پہلے دورے پر روانگی کے موقع پر احباب جماعت کو دعا خاص کی تحریک
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
12؍مارچ2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوْاالصَّلٰوۃَ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (سورۃ شوری آیت ۳۹)

اور جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا امر باہمی مشورے سے طے ہوتا ہے اور اس میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا خرچ کرتے ہیں-
آئندہ چند دنوں میں بعض ممالک کی جماعتوں میں مجالس شوریٰ منعقد ہونے والی ہیں اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتے رہنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ جماعتوں کی طرف سے مجالس شوریٰ کے پیغام بھجوانے کا اظہار ہوتا ہے، اب یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ براہ راست ایم ٹی اے پر ہر ملک کی مجلس شورٰی کے لئے پیغام بھیجا جائے یا کچھ کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہرملک میں جماعتیں پھیل رہی ہیں ، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا اب یہ سلسلہ کافی لمبے عرصے تک چلتا ہے۔ بہرحال آج کا خطبہ میں نے شورٰی کے مضمون پر دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ جماعتیں اپنی اپنی مجالس شورٰی کے موقع پر اس سے فائدہ اٹھا سکیں-
شوریٰ کے متعلق چند بنیادی باتیں ہیں جو میں عرض کروں گا۔ علاوہ ممبران شوریٰ کے عمومی طور پر جماعت کے افراد کے لئے بھی ان کے علم میں لانا مناسب ہے کیونکہ اگر وقتاً فوقتاً اس کی اہمیت اور طریق کار کے بارے میں نہ بتایا جائے تو بعض پرانے تجربہ کار بھی بعض پہلو مجلس شورٰی کی اہمیت کے بارے میں اور اس کے طریق کار کے بارے میں نظر انداز کر دیتے ہیں اور نئے آنے والے اور نوجوان پوری طرح اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتے جس سے مجلس شورٰی کا وقار اور تقدس بعض دفعہ متاثر ہوتا ہے۔
حضرت مصلح موعود نے جہاں اپنی گہری فراست سے جماعت کے مختلف اداروں کو منظم کیا وہاں شوریٰ کے نظام کو بھی انتہائی مضبوط بنیادوں پر جماعت میں قائم فرمایا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر اس ملک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے یہ شوریٰ کا نظام قائم ہے اور بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اس کے بعض پہلو بعض دفعہ نمائندگان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اس لئے چند بنیادی باتیں میں پیش کروں گا۔
پہلے تو یہ وضاحت کر دوں کہ شَاوَرَ کا لفظ شارَ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے شہد کے چھتے میں سے شہد اکٹھا کیا یا نکالا اور اس سے موم کو علیحدہ کیا اور شَاوَرَہٗ کا مطلب ہے کسی نے کسی سے مشورہ لیا، اس کی رائے لی وغیرہ۔ مشاورت کا اس لحاظ سے یہ مطلب بھی ہوا کہ جس طرح محنت اور احتیاط سے وقت لگا کر چھتے میں سے شہد نکالتے ہو اور اسے بعض ملونیوں سے صاف کرتے ہو، موم سے علیحدہ کرتے ہو تا کہ کھانے کے لئے خالص چیز حاصل ہو اسی طرح مشورے بھی سوچ سمجھ کر غور کرکے اس کا اچھا اور برا دیکھ کر پھر دئیے جائیں تو تب ہی یہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں- اس لئے جہاں بھی مشورے ہوں اس سوچ کے ساتھ ہوں کہ ہر پہلو کو انتہائی گہری نظر سے اور بغور دیکھ کر پھر رائے دی جائے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نیکیوں کو قائم کرنے والوں کی، اپنے رب کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی یہ نشانی بتائی ہے، ایک تویہ لوگ نماز قائم کرنے والے ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ، اس کے عبادت گزار ہیں اور پھر یہ کہ تمام قومی معاملات میں آپس میں مشورہ کرتے ہیں ، بات کو غور سے دیکھتے ہیں ،اس کے برے بھلے کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر مشورہ دیتے ہیں اور جب پھر ایک فیصلہ پر پہنچ جاتے ہیں تو جو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی ہے، جو بھی استعدادیں دی ہیں ان کے مطابق وہ خرچ کرتے ہیں- مشورہ دینے کے بعد دوڑ نہیں جاتے بلکہ مشورے کے بعد اپنے قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک رائے پر پہنچ جاتے ہیں پھر عملدر آمد کروانے کے لئے اپنی پوری طاقتوں کو خرچ کرتے ہیں- جب یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے اپنے اور اپنی بیوی بچوں کی تربیت کے لئے اور نیکیوں کو قائم کرنے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لئے عمل کرنا ہے تو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پھر پوری طرح اس کام میں جُت جاتے ہیں اور جب یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فرستادے کا پیغام پہنچانا ہے تو پھر اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ دعوت الی اللہ بھی کرتے ہیں- لوگوں کی ہمدردی کی خاطر خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں- پہلے سے ہمت نہیں ہار دیتے کہ لوگوں نے سننا نہیں ہے دنیا دار لوگ ہیں اور فضول وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں- اور پھر جب یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ قربانیاں کرنی ہیں کیونکہ یہ ہمارے عہدوں میں شامل ہے تو پھر جماعت کے مقاصد کے حصول کے لئے مالی قربانیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اپنی جسمانی طاقتوں کو بھی اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، اپنے علم کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بھی جماعتی مقاصد کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں- غرض کہ ایسے لوگوں کے مشورے بھی نیکیاں قائم کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور مشورے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے پر تمام صلاحیتیں اور استعدادیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں- اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ مومن کا یہ فرض ہے، ایک تو خوب غور کرکے مشورہ دیں جب بھی مشورہ مانگا جائے، جب بھی مشورے کے لئے بلایا جائے اور پھر مشورے کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے جن کے بارے میں مشورہ دیا گیا تھا مکمل تعاون کریں بلکہ ممبران شورٰی کا یہ بھی فرض ہے کہ اس کے ذمہ وار بنیں-
حدیث میں آتا ہے حضرت ابو مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ

جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے یا اسے امین ہونا چاہئے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المستشار موتمن)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جو شورٰی سے متعلق حصہ ہے وہ میں پڑھتا ہوں ) کہ جس سے اس کے مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا اور اس نے بغیر رُشد کے مشورہ دیا یعنی بغیر غور و خوض اور عقل استعمال کئے تواس نے اس سے خیانت کی ہے۔( الادب المفرد از حضرت امام بخاری صفحہ ۷۵)
تو دیکھیں مشورہ دینے والوں پر کتنی بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ اگر بغیر غور کے جس مسئلہ کے بارے میں مشورہ مانگا جا رہا ہے اس کی جزئیات میں جائے بغیر اگر مجلس میں بیٹھے ہوئے، یونہی سطحی سا مشورہ دے دیتے ہو کہ جان چھڑاؤ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے خواہ مخواہ وقت کا ضیاع ہے، کوئی ضرورت نہیں اس کی۔ اگر اس سوچ کے ساتھ بیٹھے ہو کہ معاملے کو جلدی ختم کرنا چاہئے کیونکہ آخر کار یہ معاملہ خلیفہ وقت کے سامنے پیش ہونا ہے خود ہی وہ غور کرکے فیصلہ کر لے گا تو یہ خیانت ہے۔ اور خائن کے بارے میں فرمایاکہ اس میں نفاق پایا جاتا ہے۔ تو یہ جو حدیث ہے اس میں تو یہ فرمایا گیا کہ ایک مسلمان بھائی بھی اگر تمہارے سے مشورہ مانگے تو تب بھی غور کرکے پوری تفصیلات میں جا کر اس کو مشورہ دو۔
جب جماعتی معاملے میں خلیفہ وقت کی طرف سے نظام کی طرف سے بلایا جائے کہ مشورہ دو تو اس میں دیکھیں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے۔ مجلس شورٰی میں جب بھی مشورے کے لئے بلایا جاتا ہے تو ایک بہت بڑی ذمہ داری مجلس شوریٰ پر ڈالی جاتی ہے، ممبران شورٰی پر ڈالی جاتی ہے اور ایک مقدس ادارے کا اسے ممبر بنایا جاتا ہے کیونکہ نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شورٰی کا ادارہ ہی ہے۔ اور جب خلیفہ وقت اس لئے بلارہا ہو اور احباب جماعت بھی لوگوں کو اپنے میں سے منتخب کرکے اس لئے بھیج رہے ہوں کہ جاؤ اللہ تعالیٰ کی تعلیم دنیا میں پھیلانے، احباب جماعت کی تربیت اور دوسرے مسائل حل کرنے اور خدمت انسانیت کرنے کے لئے خلیفہ وقت نے مشوروں کے لئے بلایا ہے اس کو مشورے دو تو کس قدر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ تصور لے کر مجلس شورٰی میں بیٹھیں تو پوری طرح مجلس کی کارروائی سننے اور استغفار کرنے اور درود بھیجنے کے علاوہ کوئی دوسرا خیال ذہن میں آ ہی نہیں سکتا تاکہ جب بھی اس مجلس میں رائے دینے کے لئے کھڑا کیا جائے تو صحیح اور مکمل ذمہ داری کے ساتھ رائے دے سکیں کیونکہ یہ آراء خلیفہ وقت کے پاس پہنچنی ہیں اور خلیفہ وقت یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ ممبران نے بڑے غور سے سوچ سمجھ کر کسی معاملے میں رائے قائم کی ہو گی اور عموماً مجلس شورٰی کی رائے کو اس وجہ سے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے، اسی صورت میں قبول کر لیا جاتا ہے۔ سوائے بعض ایسے معاملات کے جہاں خلیفہ وقت کو معین علم ہو کہ شوریٰ کایہ فیصلہ ماننے پر جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے اور یہ بات ایسی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے یا اس سے ہٹ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہوئی ہے۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (سورۃ ال عمران آیت۱۶۰)

یعنی اور ہر اہم معاملے میں ان سے مشورہ کر (نبی کو یہ حکم ہے) پس جب کوئی تو فیصلہ کر لے تو پھر اللہ پر توکل کر۔یعنی یہاں یہ تو ہے کہ اہم معاملات میں مشورہ ضروری ہے، ضرور کرنا چاہئے اور اس حکم کے تابع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اس حد تک مشورہ کیا کرتے تھے کہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا۔
تو یہ حکم الٰہی بھی ہے اور سنت بھی ہے اور اس حکم کی وجہ سے جماعت میں بھی شورٰی کا نظام جاری ہے۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ مشورہ تو لے لو لیکن اس مشورے کے بعد تمام آراء آنے کے بعد جو فیصلہ کر لو تو ہو سکتا ہے کہ بعض دفعہ یہ فیصلہ ان مشوروں سے الٹ بھی ہو۔ تو فرمایا جو فیصلہ کر لوپھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرو کیونکہ جب تمام چھان پھٹک کے بعدایک فیصلہ کر لیا ہے پھر معاملہ خداتعالیٰ پر ہی چھوڑنا بہتر ہے۔ اور جب اے نبی! تو نے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی کی بات کی لاج رکھے گا۔ اور انشاء اللہ اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔
جس طرح تاریخ میں ہے کہ جنگ بدر کے موقعے پر قیدیوں سے سلوک کے بارے میں اکثریت کی رائے رد کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت ابو بکرؓ کی رائے مانی تھی، پھر بعض دفعہ دوسری جنگوں کے معاملات میں صحابہ کے مشورہ کو بہت اہمیت دی جنگ احد میں ہی صحابہ کے مشورے سے آپؐ وہاں گئے تھے ورنہ آپؐ پسند نہ کرتے تھے۔ آپ کا تو یہ خیال تھا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے اور جب اس مشورہ کے بعد آپؐ ہتھیار بند ہو کر نکلے تو صحابہ کو خیال آیا کہ آپؐ کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوا ہے، عرض کی یہیں رہ کر مقابلہ کرتے ہیں- تب آپؐ نے فرمایا کہ نہیں نبی جب ایک فیصلہ کرلے تو اس سے پھر پیچھے نہیں ہٹتا، اب اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور چلو۔ پھر یہ بھی صورت حال ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہؓ کی متفقہ رائے تھی کہ معاہدہ پر دستخط نہ کئے جائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی رائے کے خلاف اس پر دستخط فرما دئیے۔ اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے اس کے کیسے شاندار نتائج پیدا فرمائے۔ تو مشورہ لینے کا حکم تو ہے تاکہ معاملہ پوری طرح نتھر کر سامنے آ جائے لیکن ضروری نہیں ہے کہ مشورہ مانا بھی جائے تو آپؐ کی سنت کی پیروی میں ہی ہمارا نظام شورٰی بھی قائم ہے، خلفاء مشورہ لیتے ہیں تاکہ گہرائی میں جا کر معاملات کو دیکھا جا سکے لیکن ضروری نہیں ہے کہ شور یٰ کے تمام فیصلوں کو قبول بھی کیا جائے اس لئے ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ شورٰی کی کارروائی کے آخر پر معاملات زیر غور کے بارے میں جب رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو اس پر یہ لکھاہوتا ہے کہ شورٰی یہ سفارش کرتی ہے، یہ لکھنے کا حق نہیں ہے کہ شورٰی یہ فیصلہ کرتی ہے۔ شوریٰ کو صرف سفارش کا حق ہے۔ فیصلہ کرنے کا حق صرف خلیفہ وقت کو ہے۔ اس پر کسی کے ذہن میں یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر شوریٰ بلانے کا یا مشورہ لینے کا فائدہ کیا ہے، آج کل کے پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ بھی آ جاتا ہے تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ مجلس مشاورت ایک مشورہ دینے والا ادارہ ہے۔ اس کا کردار پارلیمنٹ کا نہیں ہے جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں- آخری فیصلے کے لئے بہرحال معاملہ خلیفہ وقت کے پاس آتا ہے اور خلیفہ وقت کو ہی اختیار ہے کہ فیصلہ کرے، اور یہ اختیار اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ لیکن بہرحال عموماً مشورے مانے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا سوائے خاص حالات کے،جن کا علم خلیفہ وقت کو ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں بعض وجوہات جن کی وجہ سے وہ مشورہ رد کیا گیا ہو ان کو خلیفہ وقت بتانا نہ چاہتا ہو ایسی بعض مجبوریاں ہوتی ہیں- تو بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشورہ لینے کا فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مختلف ماحول کے،مختلف قوموں کے، مختلف معاشرتی حالات کے لوگ، زیادہ اور کم پڑھے لکھے لوگ مشورہ دے رہے ہوتے ہیں پھر آج کل جب جماعت پھیل گئی ہے، مختلف ملکوں کے لحاظ سے ان کے حالات کے مطابق مشورے پہنچ رہے ہوتے ہیں تو خلیفہ وقت کو ان ملکوں میں عمومی حالات اور جماعت کے معیار زندگی اور جماعت کے دینی روحانی معیار اور ان کی سوچوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے ان مشوروں کی وجہ سے۔ اور پھر جو بھی سکیم یا لائحہ عمل بنانا ہو اس کو بنانے میں مدد ملتی ہے۔ غرض کہ اگر ملکوں کی شورٰی کے بعض مشورے ان کی اصلی حالت میں نہ بھی مانے جائیں تب بھی خلیفہ وقت کو دیکھنے اور سننے سے بہرحال ان کو فائدہ ہوتا ہے۔مشورہ دینے والے کا بہرحال یہ فرض بنتا ہے کہ نیک نیتی سے مشورہ دے اور خلیفہ وقت کا یہ حق بھی ہے اور فرض بھی ہے کہ وہ جماعت سے مشورہ لے۔ حضرت عمرؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ

’’لَاخِلَافَۃَ اِلَّا عَنَ مَشْوَرَۃٍ‘‘

کہ خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے لینے کے بغیر درست نہیں- اور یہ بھی کہ خلافت کے نظام کا ایک اہم ستون مشاورت ہی ہے۔(کنزالعمال کتاب الخلافۃ جلد ۳ صفحہ ۱۳۹)
تو جماعتی ترقی کے لئے اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے ایک انتہائی اہم چیز ہے، جیسا کہ حضرت عمرؓ کا قول ہے کیونکہ قوم کی مشترکہ کوششیں ہوں تو پھرکامیابی کی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں-
پھر ایک اور روایت ہے جس سے مشورے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت علی بن ابو طالبؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا امر درپیش ہوا جس کے بارے میں وحی قرآن نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے آپ سے کچھ سنا تو ہم کیا کریں گے۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے معاملے کو حل کرنے کے لئے مومنوں میں سے علماء کو یا عبادت گزار لوگوں کو جمع کرنا اور اس معاملے کے بارے میں ان سے مشورہ کرنا اور ایسے معاملے کے بارے میں فرد واحد کی رائے پر فیصلہ نہ کرنا۔ (کنزالعمال جلد ۲ صفحہ ۳۴۰)
اس حدیث کی طرف بھی جماعت کو توجہ کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جماعت میں ہمیشہ دینی علوم کے بھی اور دوسرے علوم کے بھی ماہرین پیدا فرماتا رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عبادالرحمن پیدا فرمائے اور ہمیں عبادالرحمن بنائے تاکہ خلیفہ وقت کو مشورہ دینے میں بھی کبھی دقت پیش نہ آئے اور ہمیشہ مشورے سن کر یہ احساس ہو کہ ہاں یہ نیک نیتی سے دیا گیا مشورہ ہے۔ یہ نیک نیتی پر مبنی مشورہ ہے۔ اور اس میں اپنی ذات کی کسی قسم کی کوئی ملونی نہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احباب جماعت سے مشورہ طلب کرنے کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بعض امور جب پیش آتے تو آپؑ سال میں دو تین چار بار بھی اپنے خدام کو بلا لیتے کہ مشورہ کرنا ہے۔ کسی جلسے کی تجویز ہوتی تو یاد فرما لیتے، کوئی اشتہار شائع کرنا ہوتا تو مشورہ کے لئے طلب کر لیتے۔(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۴۴)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجلس شورٰی میں خلیفہ وقت کی حیثیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ خلیفہ کا مقام بہرحال دونوں کی سرداری ہے انتظامی لحاظ سے وہ صدر انجمن احمدیہ کا رہنما ہے اور آئین سازی اور بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کے لئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔(الفضل ۲۷؍اپریل ۱۹۳۸ء)
تو اس اصول کے تحت تمام ممالک کی مجالس شوریٰ کی رپورٹس خلیفہ وقت کے پاس پیش ہوتی ہیں اور خلیفہ وقت جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہے لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کیونکہ ہر ملک کی مجلس شورٰی کی صدارت کرنا تو خلیفہ وقت کے لئے اب ممکن نہیں رہا کہ ہر ملک میں مجلس شوریٰ ہو رہی ہو،وہاں جائے اور صدارت کرے، خلیفہ وقت کسی کو اپنا نمائندہ مقرر ہ کرتا ہے جو صدارت کر رہا ہوتا ہے۔ تو یہ بات بھی نمائندگان شوریٰ کو یاد رکھنی چاہئے کہ جو بھی شوریٰ کی کارروائی کی صدارت کر رہا ہو وہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے۔
پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:
’’ خلیفہ نے اپنے کام کے دو حصے کئے ہوئے ہیں ، ایک حصہ انتظامی ہے، اس کے عہدیدار مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے۔…… دوسرا حصہ خلیفہ کا کام اصولی ہے اس کے لئے وہ مجلس شوریٰ کا مشورہ لیتا ہے‘‘، تو فرمایا کہ’’ پس مجلس شوریٰ اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے‘‘۔(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ۳۶)
اس لئے نمائندگان شوریٰ کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان کی ذمہ داری شوریٰ کے اجلاس کے بعدختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک دفعہ کا منتخب کردہ نمائندہ مجلس شوریٰ پورے سال تک کے لئے نمائندہ ہی رہتا ہے تاکہ اصولی باتوں میں مدد کر سکے اور شوریٰ کی کارروائی میں جو فیصلے ہوئے ہیں ، جو اصولی باتیں ہوئی ہیں ان پر عمل درآمد کرانے میں تعاون بھی کرے اور پوری ذمہ داری سے مقامی انتظامیہ کی مدد بھی کرے۔ گو فیصلہ سے ہٹی ہوئی بات دیکھ کر جو بھی شوریٰ میں ہوئی ہو۔ ممبران شوریٰ براہ راست تو مقامی انتظامیہ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے ورنہ اس طرح تو ایک ٹکر کی صورت پیدا ہو جائے گی لیکن ان کو توجہ ضرور دلا سکتے ہیں کہ یہ یہ فیصلے ہوئے تھے، اس طرح کارروائی ہونی چاہئے تھی، یہ ہماری جماعت میں نہیں ہو رہی۔ اور جیسا کہ میں نے کہا توجہ کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کرانے کے لئے ان سے تعاون بھی کریں اور اگر دیکھیں کہ مقامی انتظامیہ پوری طرح جو شورٰی کے فیصلے ہوئے ان پر عمل نہیں کر رہی تو پھر نظام جماعت قائم ہے وہ مرکز کو توجہ دلا سکتے ہیں ، خلیفہ وقت کو اس بارے میں لکھ سکتے ہیں- تو یہ اطلاع دینا بھی ممبران شورٰی کا فرض ہوتا ہے کہ سارا سال جب تک وہ ممبر ہیں ان معاملات پر عملدرآمد کرانے میں مدد کریں-
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اس کے یعنی خلافت کے اغراض و مقاصد بتائے ہیں ، قرآن مجید میں اس کے کام کرنے کا طریق بھی بتا دیا ہے۔ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ- مجلس شورٰی کو قائم کرو، ان سے مشورہ لے کر غور کرو، پھر دعا کرو، جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں قائم کر دے اس پر قائم ہو جاؤ۔ ……تو خلیفہ وقت کا یہ کام ہے کہ شوریٰ کے مشوروں کے بعد دعا کرکے فیصلہ کرے۔ اور جب کوئی فیصلہ کر لے پھر اس پر قائم ہو جائے جیسا کہ قرآن کریم میں حکم ہے۔ فرمایا کہ…… وہ خواہ اس مجلس کے مشورہ کے خلاف بھی ہو تو خداتعالیٰ مدد کرے گا۔ خداتعالیٰ تو کہتا ہے جب عزم کر لو تو اللہ پر توکل کرو گو یا ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ خود تمہاری تائید و نصرت کرے گا۔ اور یہ لوگ چاہتے ہیں (یعنی جو لوگ چاہتے ہیں خلیفہ ان کی باتوں کے پیچھے چلے کہ خواہ خلیفہ کا منشاء کچھ ہو اور خداتعالیٰ اسے کسی بات پر قائم کرے) مگر وہ چند آدمیوں کی رائے کے خلاف نہ کرے۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی رائے پر ہی چلا جائے۔…… خلیفے خدا مقرر کرتا ہے اور آپ ان کے خوفوں کو دور کرتا ہے جو شخص دوسروں کی مرضی کے موافق ہر وقت ایک نوکر کی طرح کام کرتا ہے اس کو خوف کیا اور اس میں مؤحد ہونے کی کونسی بات ہے۔ حالانکہ خلفاء کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ خدا انہیں بناتا ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دیتا ہے اور وہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیں اورشرک نہیں کرتے۔ فرمایا کہ اگر نبی کو بھی ایک شخص نہ مانے تو اس کی نبوت میں فرق نہیں آتا وہ نبی ہی رہتا ہے۔ یہی حال خلیفہ کا ہے اگر اس کو سب چھوڑ دیں پھر بھی وہ خلیفہ ہی ہوتا ہے کیونکہ جو حکم اصل کا ہے وہ فرع کا بھی ہے۔خوب یاد رکھو کہ جو شخص محض حکومت کے لئے خلیفہ بنا ہے تو جھوٹاہے اور اگر اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کام کرتا ہے تو خدا کا محبوب ہے خواہ ساری دنیا اس کی دشمن ہو۔ (منصب خلافت انوارالعلوم جلد ۲ صفحہ ۵۳۔۵۴)
اب میں نمائندگان شورٰی کے لئے جن اہم باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے ان کو خلاصتہً پیش کرتا ہوں اور یہ باتیں عمومی طور پر احباب جماعت کے بھی علم میں ہونی چاہئیں- ہوسکتا ہے کل کو یہ بھی ممبر مجلس شورٰی بن جائیں- تو یہ باتیں حضرت مصلح موعودؓ نے نمائندگان شورٰی کو بیان فرمائی تھیں-(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۸ تا ۱۳)
لیکن یہ آج بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی آج سے ۸۰سال پہلے اہم تھیں اور ضروری تھیں اس لئے ان کو ہمیشہ اس لحاظ سے پیش نظر رکھنا چاہئے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ شورٰی میں جب شامل ہوں تو محض للہ شامل ہوں- یعنی جب رائے دیں تو یہ سوچ کر دیں کہ ہم نے اپنی آراء اللہ تعالیٰ کی خاطر دینی ہیں- پھر یہ ہے کہ خالی الذھن ہو کر دعا سے شامل ہوں- ذاتی باتوں کو دل سے نکال دیں، اور اس مقصد کو حاصل کر نے کے لئے شورٰی کے اجلاس کے دوران بھی دعاؤں میں مصروف رہیں اور دعاؤں میں لگے رہیں- پھر یہ ہے کہ اپنی رائے منوانے کی نیت نہ ہو۔ کسی کی رائے بھی مفید ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ جس طرح دنیا کی پارلیمنٹیں، اسمبلیاں ہوتی ہیں وہاں بحث و تمحیص شروع ہو جاتی ہے۔ بحث کرنے کا کوئی حق نہیں- رائے دیں اور بیٹھ جائیں- اگر آپ کی رائے میں وزن ہو گا،لوگوں کو پسند آئے گی خود اس کے حق میں عمومی رائے بن جائے گی۔ اگر نہیں توآپ کا کام صرف نیک نیتی سے جو بھی ذہن میں بات آئی اس کا اظہار کرنا تھا وہ کر دیا۔ اور اس کے لئے یہ بھی ہے کہ دوسروں کی رائے کو غور سے سنیں- آپ نے ایک رائے اپنے ذہن میں بنائی ہے ہو سکتا ہے کہ جب دوسرا اس سے پہلے آ کے اپنی رائے دے دے تو آپ اپنی رائے چھوڑ دیں- پھر یہ ہے کہ کسی کی خاطر رائے نہ دیں- کسی رائے سے صرف اس لئے اتفاق نہ کریں کہ یہ میرے دوست یا عزیز نے رائے دی ہے یا میری جماعت کے فلاں فرد نے یہ رائے دی ہے۔ آزادانہ رائے ہونی چاہئے، خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے اور پھر یہ ہے کہ کسی حکمت کے تحت کبھی کوئی رائے نہ دیں بلکہ یہ مدنظر ہو کہ جو سوال درپیش ہے اس کے لئے کون سی بات مفید ہے، یہ نہیں کہ فلاں حکمت حاصل کرنی ہے۔ پھر یہ ہے کہ سچی بات تسلیم کرنے سے پرہیز نہ کریں ، پہلے بھی میں نے بتایا ہے خواہ اسے کوئی بھی پیش کر رہا ہو، بعض لوگ صرف اس لئے مخالفت کر دیتے ہیں بعض باتوں کی کہ پیش کرنے والا کم پڑھا لکھا یا دیہاتی مجلس کا آیا ہوا ہے۔ پھر یہ ہے کہ رائے قائم کرنے کے بارے میں جلد بازی سے کام نہ لیں- اپنی رائے کو کبھی اس طرح نہ سمجھیں کہ یہ بہت مضبوط ہے اور کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ اس وجہ سے اس پر اصرار کرتے رہیں-
پھر یہ ہے کہ رائے دیتے وقت احساسات کی پیروی نہیں ہونی چاہئے۔ مجھے یہ احساس ہے، یہ احساس ہے، یہ احساس ہے، بلکہ واقعات کو مدنظر رکھنا چاہئے، تائیدی طور پر یہ احساسات تو پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر جب رائے دے رہے ہوں تو واقعات پیش ہونے چاہئیں ، معین اعداد و شمار پیش ہونے چاہئیں ، جس کی روشنی میں دوسرا بھی رائے قائم کر سکے۔ اور وہ بات کریں جس میں دینی فائدہ ہو۔ اصل مقصد تو دین کی ترقی ہے نہ کہ اپنی بڑائی یا علم کا اظہار کرنا ہے۔ اس لئے ہر مشورہ اسی سوچ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ پھر یہ ہے کہ ایسی رائے کو سوچ سمجھ کے آنا چاہئے، شورٰی میں ایسے ایجنڈے آنے چاہئیں جو مخالفین کے مقابلہ میں اعلیٰ اور مؤثر ہوں صرف چھوٹی چھوٹی باتوں پہ شورٰی میں ایجنڈے پیش نہ ہوں ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے۔ اور اسلام کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی اس لحاظ سے ہونی چاہئے۔ فروعات پر بحث نہ ہو بلکہ واقعہ کو دیکھیں کہ مفید ہے یا مضر ہے کیونکہ اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلاوجہ بحثیں چلتی رہتی ہیں اور طول پکڑ جاتی ہیں-
پھر یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر آپ کی رائے دینے سے پہلے کوئی اور رائے دے چکا ہے اس معاملے میں اور وہ آپ کی رائے سے مطابقت رکھتی ہے تو ضروری نہیں ہے کہ پھر سیٹج پہ آیا جائے اور میں آخر پہ سب سے اہم بات یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ کا ہرعمل اور ہر مشورہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہو، مختصر اً میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے، تقویٰ کے پیش نظر ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے مشورہ دیں کہ اے اللہ! ہم تو ہر علم کا مکمل احاطہ کئے ہوئے نہیں ہیں تو ہی ہماری مدد فرما اور ہماری صحیح رہنمائی فرما۔ تیرے نام پر، تیرے دین کی سر بلندی کی خاطر، تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی خاطر، ان کی لائی ہوئی شریعت کو دنیا میں قائم کرنے کی خاطر، تیرے مسیح و مہدی نے ہمیں ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا ہے اور اس کام کو سر انجام دینے کے لئے مشورے کی خاطر خلیفہ وقت نے ہمیں بلایا ہے، تو ہمیں توفیق دے کہ صحیح مشورہ دے سکیں- ہماری ذات کی کوئی ملونی بیچ میں نہ ہو اور خالصتاً ہم تیری خاطر مشورہ دینے والے ہوں- صحیح راستے سمجھانے والا بھی تو ہے اور ذہنوں کو کھولنے والا بھی تو ہے، تو ہماری مدد فرما اور ہمیں اس مرحلے سے تقویٰ پہ چلتے ہوئے گزار۔ اگر اس سوچ کے ساتھ مجالس میں بیٹھیں گے اور مشورے دیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ بہت مدد فرمائے گا اور صحیح راستے بھی سمجھائے گا اور ایسی مجالس کی برکات سے بھی آپ فیضیاب ہوں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات نفس سے پاک ہوتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے۔ اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے جہاں لوگ ابتلاء میں پڑتے ہیں وہاں یہ امر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادہ سے مطابق نہیں ہوتا۔ خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے چلتا ہے۔ مثلاً غصے میں آ کر کوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہو جاتا ہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں- فوجداریاں ہو جاتی ہیں- مگر اگر کسی کا ارادہ ہو تو بلا استصواب کتاب اللہ (یعنی اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم کے اس حکم کے بغیر) اس کا حرکت و سکون نہ ہو گا۔ اور اپنی ہر ایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا۔ یقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی جیسے کہ فرمایا

وَلَارَطْبٍ وَّلَایَا بِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (سورۃ الانعام:۶۰)۔

سو اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا۔ بسا اوقات وہ اس جگہ مواخذے میں پڑے گا سو اس کے مقابل اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں وہ گویا اس میں محو ہیں- سو جس قدر محویت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے۔ لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہے جیسا کہ خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں- ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

’من عادلی ولیا فقد ٰاذنتہ بالحرب‘ (الحدیث)

جو شخص میرے ولی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے اب دیکھ لو متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے۔ تو خدا اس کا کس قدر معاون و مدد گار ہو گا۔ لوگ بہت سے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے۔ مصائب کی کوئی حد نہیں انسان کا اپنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے، اس کا کوئی اندازہ نہیں- امراض کو ہی دیکھ لیا جائے کہ ہزار ہا مصائب کے پیدا کرنے کو کافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے۔ اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔(ملفوظات جلد اول صفحہ۹۔۱۰۔ طبع جدید)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے تمام کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب میں احباب جماعت کو دعا کی غرض سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں- کل انشاء اللہ تعالیٰ میں افریقہ کے بعض ممالک کے دورے پہ جا رہا ہوں اور بعض ممالک ایسے ہیں جن میں خلیفہ وقت کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اور ان ممالک میں جماعتیں بھی خلافت رابعہ میں قائم ہوئی تھیں- دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اپنی رحمتوں اور فضلوں کے نشان دکھاتا رہے۔ اور دورے کو غیر معمولی کامیابی سے نوازے۔ اس کے فضل کے بغیر تو ہم ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں اسلام اور احمدیت کی فتوحات کے نظارے دکھائے اور دشمن کے ہر شر سے ہر احمدی کو ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہر احمدی کے ایمان و اخلاص کو بڑھاتا رہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کو شش ہو گی کہ وہاں سے بھی ایم ٹی اے کے ذریعے سے جماعت سے رابطہ رہے لیکن جس حد تک یہ ممکن ہوسکا۔ بعض ممالک میں سے شاید نہ ہو سکے لیکن بہرحال انشاء اللہ رابطہ رہے گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں